یو پی میں روزانہ اوسطاً تین انکاؤنٹر،دوسرے صوبوں میں بھی انکاؤنٹر کلچر کا فروغ

یو پی میں ہوٹلوں اور ریڑھیوں پر نام کی تختی کا فرمان ہماچل پردیش میں کانگریس اعلیٰ کمان کے مداخلت کے بعد فیصلہ ٹلا

محمد ارشد ادیب

دلی میں شاہی عید گاہ کے میدان میں مورتی لگانے پر تنازعہ راجستھان میں بی جے پی کے ذریعے کانگریسی کارپوریٹروں کا شدھی کرن؟
اتراکھنڈ میں 50 کروڑ کی چوری کا معمہ کتنی حقیقت کتنا فسانہ؟
یو پی کا انکاؤنٹر کلچر دوسرے صوبوں میں بھی پھیل رہا ہے۔ مہاراشٹر کے بدلا پور میں ہونے والا پولیس انکاؤنٹر اس کی تازہ مثال ہے۔ لیکن یو پی اور دیگر ریاستوں میں کچھ فرق بھی ہے مثال کے طور پر بامبے ہائی کورٹ نے بدلا پور انکاؤنٹر پر پولیس سے تیکھے سوال پوچھے ہیں۔فاضل بنچ نے پہلا سوال تو یہی پوچھا کہ چار پولیس والوں کی نگرانی میں ہونے کے باوجود ملزم نے بھاگنے کی ہمت کیسے دکھائی؟ دوسرا سوال ملزم کو دوبارہ پکڑنے کے بجائے سیدھے سر میں گولی کیوں ماری گئی ؟ ان سوالوں پر صحافی ونود کاپڑی نے سوشل میڈیا ایکس پرلکھا کہ کاش یوپی میں ہونے والے انکاؤنٹروں پر بھی کوئی کورٹ اسی طرح کے سوال پوچھتی!
اتر پردیش میں انکاؤنٹروں کا انوکھا ریکارڈ
یو پی کی موجودہ حکومت میں پولیس انکاؤنٹروں کا طویل ریکارڈ ہے جس پر ایمنسٹی انٹرنیشنل سے لے کر حقوق انسانی کی کئی تنظیمیں سوال اٹھا چکی ہیں۔ سیاسی مبصرین کے مطابق اب تو ذات برادری دیکھ کر بھی انکاؤنٹر ہونے لگے ہیں، مثال کے طور پر سلطان پور ڈکیتی معاملے میں پہلے منگیش یادو کا انکاؤنٹر ہوا۔ جب سماجوادی پارٹی نے یادو بنام ٹھاکر کا مسئلہ اٹھایا تو انوج پرتاپ سنگھ کا انکاؤنٹر کر دیا گیا جو سلطان پور ڈکیتی کا ملزم تھا۔ اب لوگ اندازہ لگا رہے ہیں کہ اس کیس کے ایک اور ملزم کی باری ہے جو امیٹھی کا رہنے والا مسلمان ہے۔
اسی درمیان غازی پور سے خبر آئی کہ ایس ٹی ایف نے غازی پور پولیس کے ساتھ مشترکہ آپریشن میں محمد زاہد نام کے ملزم کو گولی مار دی۔ زاہد آر پی ایف کے دو جوانوں کے قتل میں مطلوب تھا۔ اس طرح مارچ 2017 سے اب تک یوگی حکومت میں 209 انکاؤنٹر ہو چکے ہیں جبکہ 7282 ملزم انکاؤنٹروں میں زخمی ہو چکے ہیں۔ یعنی ایک محتاط اندازے کے مطابق ہر روز تین سے چار انکاؤنٹر ہو رہے ہیں۔ پورے صوبے میں سات برسوں میں تقریبا 13 ہزار انکاؤنٹر ہوئے ہیں۔
ہوٹلوں اور ریڑھی پٹری پر نام کی تختی لازمی
یو پی میں کانوڑ یاترا کے دوران کھانے پینے کی اشیاء فروخت کرنے والوں کے لیے نام کی تختی لازمی طور پر لگانے کا فرمان ایک بار پھر موضوع گفتگو بنا ہوا ہے۔ دراصل یوگی حکومت نے کھانے پینے کی چیزوں میں ناپاک اور غلیظ اشیاء کی ملاوٹ کو بہانہ بنا کر ایک بار پھر ہوٹلوں دھابوں اور ریڑھی پٹری والوں کے لیے نام کی تختی لگانے کی گائیڈ لائن جاری کی ہے۔ اس پر صوبے کی اپوزیشن جماعتوں نے مخالفت شروع کر دی ہے۔ اس بار بی ایس پی کی سربراہ مایاوتی نے بھی سرکاری فرمان پر سوال اٹھایا ہے۔ انہوں نے ایکس پر بیان جاری کرتے ہوئے لکھا کہ "خوردنی اشیاء میں ملاوٹ کو روکنے کے لیے پہلے سے ہی کافی سخت قوانین موجود ہیں پھر بھی سرکاری لاپروائی اور ملی بھگت سے ملاوٹ کا بازار ہر طرف گرم ہے لیکن اب دکانوں پر لوگوں کے نام زبردستی لکھوا دینے سے کیا ملاوٹ کا کالا دھندا ختم ہو جائے گا؟ دوسری طرف تروپتی کے بالاجی مندر میں پرساد کے لڈو میں چربی ملاوٹ کی خبروں نے ملک میں لوگوں کو برہم کر رکھا ہے”
اسی درمیان ایودھیا سے اطلاع ملی ہے کہ دھرم سینا نام کی تنظیم سریو ندی کنارے پنچگوے کا اسٹال لگا کر ملاوٹی پرساد کھانے والوں کا شدھی کرن کر رہی ہے۔ اس تنظیم نے گائے کے گوبر اور پیشاب سے بنا ہوا یہ مشروب گھر گھر تقسیم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ واضح رہے کہ تروپتی مندر انتظامیہ نے رام مندر کے افتتاح کے موقع پر ایک لاکھ لڈو بھیجے تھے۔
ہماچل پردیش میں کانگریس کی اعلیٰ قیادت کی مداخلت سے فیصلہ ٹلا
کانوڑ یاترا کے دوران یوگی حکومت کے فرمان کی اتراکھنڈ اور مدھیہ پردیش کی حکومتوں نے پیروی کی تھی جس پر سپریم کورٹ نے روک لگا دی تھی۔ کانگریس نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا خیر مقدم بھی کیا تھا لیکن اب اسی کانگریس کی ہماچل پردیش کی صوبائی حکومت پر یوگی ماڈل کی نقل کرنے کا الزام لگ رہا ہے جس سے سیکولر طبقہ خاص طور پر مسلمانوں میں شدید ناراضگی پائی جاتی ہے۔ دراصل ہماجل پردیش کے کانگریس وزیر و کرم آدتیہ سنگھ نے تمام ریڑھی پٹری والوں کے لیے شناختی کارڈ کے ساتھ نام کی تختی کو لازمی کرنے کا اعلان کیا جس پر شدید رد عمل سامنے آیا۔ کانگریس کے اقلیتی شعبہ کےصدر عمران پرتاپ گڑھی نے کانگریس لیڈر راہل گاندھی کو عوام کی ناراضگی سے واقف کرایا۔ اطلاعات کے مطابق کانگریس کی اعلیٰ قیادت نے اس معاملے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے وکرم آدتیہ سنگھ کی سرزنش کی ہے۔ اس کے بعد ہماچل پردیش میں پارٹی کے نگران سکریٹری راجیو شکلا نے وضاحتی بیان جاری کر کے صفائی دی کہ صوبے میں نام کی تختی لگانا لازمی نہیں البتہ ریڑھی والوں کو ریگولیٹ کرنے کے لیے گائیڈ لائنز بنائی جا رہی ہیں۔ شکلا نے کہا کہ اسے اتر پردیش سے جوڑ کر دیکھنا درست نہیں ہے۔ ہماچل پردیش اسمبلی کے اسپیکر نے وینڈرز کو ضابطے کے دائرے میں لانے اور لائسنس دینے کے لیے ایک کل جماعتی کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔ بہرحال کانگریس پارٹی کی جانب سے صفائی آنے کے باوجود سوشل میڈیا پر ہماچل پردیش کی ریاستی حکومت کے رویہ پر چہ می گوئیاں جاری ہیں۔ صوبے میں منڈی اور سنجولی کی مسجدوں کا معاملہ ہو یا باہر سے آکر بسنے والے باشندوں کی شناخت کا معاملہ، صورتحال یہ ہے کہ روزی روٹی کے لیے بسنے والے مسلم باشندوں اور مقامی باشندوں کے درمیان نفرت کی کھائی کھودی جا رہی ہے جو کسی بھی سیکولر اسٹیٹ کے لیے ناقابل قبول ہے۔ کانگریس کے اندرونی ذرائع کے مطابق اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی نے اس معاملے کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے وکرم آدتیہ سنگھ کو دلی طلب کیا اور دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ کانگریس میں نفرتی ایجنڈے کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے جس کے بعد ریڑھی پٹری پر نیم پلیٹ لگانے کے فیصلے کو فی الحال ٹال دیا گیا ہے۔ بہار کے رکن پارلیمنٹ پپو یادو نے اس معاملے پر طنز کرتے ہوے لکھا "جو لوگ کھانے پینے کی دکانوں پر مالک کا نیم پلیٹ لگانے کا فرمان جاری کر رہے ہیں ان کی حیثیت کسی فائیو سٹار تھری سٹار یا ریسٹورنٹ کے مالک کا نیم پلیٹ لگوانے کی نہیں ہے صرف غریب فٹ پاتھی دکانداروں پر ظلم کر کے نفرت کی سیاسی دکان چلانا چاہتے ہیں۔”
راجستھان میں بی جے پی نے کانگریس کارپوریٹروں کا کیا شدھی کرن
راجستھان میں بی جی پی نے کانگریس کے ساتھ کھیل کر دیا۔ جے پور ہیریٹیج نگر نگم میں کانگریس کے کچھ کارپوریٹروں نے پالا بدل کر بی جے پی کی حمایت کر دی لیکن جب بی جے پی کی کارگزار میئر کسم یادو کی حلف برداری کی تقریب منعقد ہو رہی تھی تو بی جے پی رکن اسمبلی مہنت بال مکند آچاریہ نے نہ صرف کارپوریشن کے دفتر اور کرسی کو شدھ کیا بلکہ کانگریسی پارشدوں کا بھی شدھی کرن کر دیا۔
دہلی کے شاہی عیدگاہ میں رانی لکشمی بائی کی مورتی لگانے پر تنازعہ
دلی کے قصاب پورا میں شاہی عید گاہ وقف بورڈ کی ملکیت ہے لیکن عیدگاہ کے ایک حصے پر ڈی ڈی اے نے دعوی کر دیا ہے۔ ڈی ڈی اے اس حصے میں رانی لکشمی بائی کی مورتی نصب کرنا چاہتی ہے۔ مورخین کے مطابق صدر بازار میں واقع اس عیدگاہ کو اورنگ زیب نے عید کی نماز ادا کرنے کے لیے بنوایا تھا، اس کے پاس میں ہی ڈی ڈی اے پارک ہے۔ ڈی ڈی اے رانی لکشمی بائی کی مورتی کو ٹریفک جام کے سبب چوراہے سے منتقل کرکےعید گاہ کے ایک حصے پر لگانا چاہتی ہے۔ وقف بورڈ نے اس کے خلاف ہائی کورٹ سے رجوع کیا، ہائی کورٹ کی سنگل بنچ نے 19 ستمبر تک روک لگا دی لیکن ہائی کورٹ کی ڈبل بنچ نے مورتی لگانے کی اجازت دے دی جس پر مقامی مسلمانوں میں کافی ناراضگی پائی جاتی ہے۔ دلی وقف بورڈ کے سابق چیئرمین ہارون یوسف کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں دلی حکومت نے کوتاہی کی ہے۔ وقف بورڈ نے اپنی زمین کے صحیح کاغذات کورٹ کے سامنے پیش کیے جبکہ عام آدمی پارٹی کے لیڈر کہہ رہے ہیں کہ وقف بورڈ لیفٹنٹ گورنر کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔ فی الحال یہ معاملہ ہائی کورٹ میں زیر غور ہے۔
اتراکھنڈ میں 50 کروڑ کی چوری کا معمہ!
یو پی کے ایک سابق نوکر شاہ کی اتراکھنڈ کے بھیم تال میں ایک کوٹھی ہے۔ گزشتہ دنوں یہ خبر وائرل ہوئی کہ اس کوٹھی میں 50 کروڑ روپے کی چوری ہوگئی لیکن کوٹھی سابق نوکر شاہ کی ہے اس لیے جانچ سے بچنے کے لیے انہوں نے اس واردات کی رپورٹ درج نہیں کرائی۔ یوپی کے سابق آئی پی ایس افسر اور آر ٹی آئی کارکن امیتابھ ٹھاکر نے اس معاملے سے پردہ ہٹاتے ہوئے وزیراعلیٰ اترپردیش یوگی آدتیہ ناتھ کے صلاح کار اونیش اوستھی کا نام ظاہر کر دیا۔ انہوں نے وزیراعلیٰ کو خط لکھتے ہوئے اس معاملے کی جانچ ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج سے کرانے کا مطالبہ کیا۔ نام ظاہر ہونے سے پریشان اونیش اوستھی نے سوشل میڈیا پر کوٹھی میں چوری سے متعلق خبروں کو افواہ قرار دیتے ہوئے اس کی تردید کر دی۔ انہوں نے بے بنیاد خبریں پھیلانے والوں کو قانونی نوٹس کی دھمکی بھی دے ڈالی۔ واضح رہے کہ اونیش اوستھی یوگی آدتیہ ناتھ کے کافی قریبی افسر ہیں۔ چیف سکریٹری کے عہدے سے سبکدوش ہونے کے بعد انہیں مشیر بنایا گیا ہے۔ ان کی بیوی مالنی اوستھی ایک مشہور فنکارہ ہیں۔ چوری کا مال چپکے چپکے پتہ لگانے کے چکر میں صاحب چکرا گئے!
تو صاحبو! یہ تھا شمال کا حال، آئندہ ہفتے پھر ملیں گے کچھ تازہ اور دلچسپ احوال کے ساتھ۔ تب تک کے لیے اللہ اللہ خیر سلا۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 06 اکتوبر تا 12 اکتوبر 2024