یوپی میں ریزرویشن پالیسی کو نظر انداز کرنے کا الزام درست ۔تین ماہ میں تبدیلی ممکن؟

ایودھیا میں تعمیراتی امور کی بدعنوانیوں کےبعد اسٹریٹ لائیٹ کے گھپلوں کی حقیقت منظر عام پر

محمد ارشد ادیب

جموں و کشمیر اور ہریانہ میں اسمبلی انتخابات مگر جھارکھنڈ اور مہاراشٹر کے سلسلے میں خاموشی کیوں؟
پڑھائی والوں کو لڑائی پر مجبور کرنے والی سرکار صحیح معنوں میں نوجوانوں کی دشمن ؛راہل گاندھی
شمالی ہند کی اخلاقی قدروں کا جائزہ لینا ہو تو اتر پردیش کی سیاسی اور سماجی صورتحال کا محاسبہ ناگزیر ہو جاتا ہے۔ حکومتیں سماجی انصاف کا نعرہ بلند کر کے اقتدار میں آتی ہیں، سب کا ساتھ سب کا وکاس یعنی ترقی اور سب کا وشواس کے خوشنما وعدے کرتی ہیں لیکن جب ان نعروں اور دعوؤں کو حقیقت کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے تو عوام خود کو ٹھگا ہوا محسوس کرنے لگتے ہیں۔
یو پی میں 69 ہزار اساتذہ کی بحالی میں یہی ہوا۔ الٰہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے نے حکومت کو قانون کا آئینہ دکھایا تو حکم راں طبقہ بغلیں جھانکنے لگا۔ دراصل عدالت عالیہ نے اساتذہ بحالی کے دوران ریزرویشن پالیسی کو نظر انداز کرنے کا الزام درست مانتے ہوئے میرٹ لسٹ کو منسوخ کر دیا ہے۔عدالت نے ریاستی حکومت کو تین ماہ کے اندر ریزرویشن پالیسی 1981 اور 1994 کے مطابق نئی میرٹ لسٹ جاری کرنے کا فیصلہ صادر کیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق یوگی حکومت نے پچھلے ٹرم میں محکمہ بنیادی تعلیم میں 69 ہزار اساتذہ کو بحال کیا تھا لیکن اس بحالی میں ریزرویشن پالیسی کے اصول و ضوابط میں رد و بدل کرتے ہوئے عام زمرے کے امیدواروں کو غلط طریقے سے فائدہ پہنچایا گیا۔ پسماندہ اور دلت طبقات کے امیدواروں نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے سڑک سے لے کر ایوان تک احتجاجی مہم چلائی، سڑکوں پر لاٹھیاں کھائیں، گھسیٹے گئے لیکن سرکار نے ڈنڈے کے زور پر احتجاجی آوازوں کو دبانے کی کوشش کی نتیجتاً نوکری سے محروم امیدواروں نے عدالت عالیہ سے رجوع کیا۔ الٰہ آباد ہائی کورٹ کی دو رکنی بنچ نے امیدواروں کے دلائل کو تسلیم کرتے ہوئے ریاستی حکومت کو 69 ہزار اساتذہ کی مکمل میرٹ لسٹ تین ماہ کے اندر دوبارہ تیار کرنے کا حکم سنا دیا۔ اب سرکار اس شش و پنج میں مبتلا ہے کہ اگر عدالت کے فیصلے پر فوری عمل کیا گیا تو عام زمرے کے تحت تقرری پانے والے بہت سے اساتذہ نوکری سے محروم ہو جائیں گے اور اگر اس معاملے میں زیادہ ٹال مٹول سے کام لیا گیا تو ضمنی انتخابات میں پسماندہ طبقات کے ساتھ دلتوں کی بھی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اب سرکار کے سامنے آگے کنواں پیچھے کھائی والی صورتحال ہے۔
معاملے کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے سب سے پہلے ریاست کے نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرساد موریہ نے مورچہ سنبھالا، انہوں نے X ہینڈل پر لکھا ’اساتذہ کی بھرتی میں الٰہ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ سماجی انصاف کی سمت میں قابل احترام قدم ہے، یہ ان پچھڑے و دلت سماج کے امیدواروں کی جیت ہے جنہوں نے اپنے حقوق کے لیے طویل جدوجہد کی ہے۔‘اس پر ایک امیدوار نے رد عمل ظاہر کرتے ہوئے لکھا "اپنے منہ میاں مٹھو کیوں بن رہے ہیں نائب وزیراعلیٰ؟ آپ کی رہائش کے سامنے آپ ہی کے اشارے پر پولیس نے ان امیدواروں پر لاٹھیاں چلائیں اور فرضی مقدمے لگا کر جیل بھی بھیج دیا تھا”
69 ہزار اساتذہ بھرتی یونین کے صدر وجے یادو نے بھی ہائی کورٹ کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ وہ پچھلے چھ سالوں سے ریزروڈ (محفوظ) زمرے کے امیدواروں کے ساتھ ہونے والی اس نا انصافی کے خلاف جدوجہد کر رہے تھے۔ اس بحالی میں تقریباً 19 ہزار امیدواروں کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے۔ ان کی جگہ عام زمرے کے غیر ریزرو امیدواروں کو ضابطے کے خلاف نوکریاں دی گئی ہیں آواز اٹھانے پر ہمیں سڑکوں پر مارا پیٹا اور جیل بھیجا گیا۔ ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد ہمیں اپنا حق ملنے کی پوری امید ہے۔” بہت سے امیدوار سرکار سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ اس پورے معاملے میں گھپلے پر خاموش رہنے والے وزیر تعلیم کے ساتھ ان افسروں کی جواب دہی طے کی جائے جنہوں نے ریزرویشن کے ضابطوں کو بالائے طاق رکھ کر اعلیٰ ذات کے امیدواروں کو فائدہ پہنچایا ہے۔ سرکار کے قریبی ذرائع کے مطابق ان اساتذہ کی نوکری بچانے کی کوششیں شروع ہو گئی ہیں۔ سرکار اس کوشش میں ہے کہ ہائی کورٹ کے حکم پر عمل بھی ہو جائے اور جو لوگ چار سال سے نوکری کر رہے ہیں ان کی نوکری بھی بچ جائے۔محکمہ بنیادی تعلیم نے اپنے رد عمل میں کسی بھی نوجوان کے مستقبل سے ناانصافی نہ ہونے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ ذرائع کے مطابق ان اساتذہ کو اگلے تعلیمی سال ایڈجسٹ کیا جا سکتا ہے۔ اس فیصلے کے بعد نوکری سے محروم ہونے والے امیدوار سپریم کورٹ کا دروازہ بھی یقیناً کھٹکھٹائیں گے اور وہاں بھی ریاستی حکومت کو اپنا موقف پیش کرنے میں دھرم سنکٹ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اگر ریزرویشن پالیسی کی مخالفت کریں گے تو پسماندہ اور دلت طبقات ناراض ہوں گے بصورت دیگر ان کے ووٹرز پارٹی سے منہ پھیر سکتے ہیں۔ ویسے بھی اپوزیشن کی تمام جماعتیں ہائی کورٹ کے اس فیصلے سے خوش ہیں اور سرکار کو نشانہ بنا رہی ہیں۔ لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی نے X ہینڈل پر ٹویٹ کیا الٰہ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ ریزرویشن کے ساتھ کھلواڑ کرنے والی بی جے پی سرکار کی سازشوں کا کرارا جواب ہے۔انہوں نے لکھا کہ پڑھائی کرنے والوں کو لڑائی کرنے پر مجبور کرنے والی بی جے پی سرکار صحیح معنوں میں نوجوانوں کی دشمن ہے۔راہل گاندھی کے علاوہ اکھلیش یادو اور مایاوتی نے بھی یوگی سرکار کو زبردست تنقید کا نشانہ بنایا۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ پی ڈی اے کو اتر پردیش میں عام انتخابات سے پہلے ایک بڑا موضوع ہاتھ لگ گیا ہے۔
ایودھیا میں ایک اور گھپلا سامنے آیا ہے جب وہاں کی شاہراہوں کو جگمگانے کے لیے جس کمپنی کو لائٹس لگانے کا ٹھیکہ دیا گیا اسی نے گھپلا کر دیا۔بدعنوانی کی پول کھلنے کے ڈر سے اس کمپنی نے لائٹیں چوری ہونے کی فرضی رپورٹ رام جنم بھومی تھانے میں درج کرا دی۔ ایودھیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے مطابق اس نے ٹینڈر کے مطابق پورے شہر میں لگائی گئی لائٹس کی موقع پر تصدیق کرائی تو پتہ چلا کہ صرف چھبیس سو لائٹیں ہی لگائی گئیں جس کے لیے 23 لاکھ 35 ہزار روپے کی ادائیگی کی گئی، اس کے علاوہ 96 گوبو پروجیکٹ لائٹس کے لیے 38 لاکھ 76 ہزار روپے کا پیمنٹ کیا گیا ہے۔ کمپنی سے جب لائٹس کے بل طلب کیے گئے تو اس نے نہیں دیے۔ یہ ایف آئی آر پوری طریقے سے جھوٹی ہے، کمپنی کے خلاف ہم نے بھی شکایت درج کرائی ہے، کمیٹی نے صرف 2600 لائٹیں ہی لگوائی ہیں جبکہ 3800 لائٹیں دکھا کر تقریبا 14 لاکھ روپے کا غبن کیا گیا ہے۔ ایودھیا کے کمشنر بھی کہہ رہے ہیں کہ کمپنی نے فراڈ کیا ہے، اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ مقامی باشندوں کے مطابق جو لائٹیں لگائی گئی ہیں وہ بھی چند روز جل کر بجھ گئیں جبکہ کمپنی ایک بمبو لائٹ لگانے کے عوض 365 روپے وصول کر چکی ہے۔ ایودھیا میں رام پتھ سمیت دیگر شاہراہوں پر ترقیاتی کاموں کی قلعی پہلی بارش میں ہی کھل چکی ہے۔ اب مقامی باشندے بھی کہنے لگے ہیں کہ ایودھیا کے ترقیاتی کاموں میں دال میں کالا نہیں ہے بلکہ پوری دال ہی کالی ہے۔
یو پی کے پڑوسی صوبے مدھیہ پردیش میں بھی موہن سرکار مدرسوں کے خلاف سرگرم ہو گئی ہے۔ ریاستی حکومت نے مدرسوں میں غیر مسلم طلباء کو مذہبی تعلیم دینے کو غیر قانونی قرار دے دیا ہے۔ محکمہ اسکولی تعلیم نے دستور کی دفعہ 328 کا حوالہ دیتے ہوئے حکم نامہ جاری کر دیا ہے۔ اس حکم نامے کے بعد مدرسے میں پڑھنے والے غیر مسلم طلباء کو اسکولوں میں منتقل کیا جا سکتا ہے۔
اور اس حکم نامے کے خلاف ورزی کرنے والے مدرسوں کی خلاف کارروائی بھی کی جا سکتی ہے۔ اس کے باوجود اگر کوئی بچہ مدرسوں میں پڑھنا چاہے تو مدرسوں کو اس کے والدین سے باقاعدہ اجازت نامہ حاصل کرنا ہوگا ورنہ ان کے خلاف کارروائی کی جا سکتی ہے۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے یو پی کا محکمہ بنیادی تعلیم بھی مدرسوں کے سلسلے میں اسی طرح کا حکم نامہ جاری کر چکا ہے مدارس کی تنظیمیں اس فیصلے کی مخالفت کر رہی ہیں۔
الیکشن کمیشن نے شمالی ہند کی دو ریاستوں جموں و کشمیر اور ہریانہ میں اسمبلی انتخابات کے لیے تاریخوں کا اعلان کر دیا ہے۔ جموں و کشمیر میں 18 ستمبر سے تین مرحلوں میں جبکہ ہریانہ میں یکم اکتوبر کو ووٹ ڈالے جائیں گے۔ اپوزیشن جماعتوں نے ان دو ریاستوں کے علاوہ جھارکھنڈ اور مہاراشٹر میں الیکشن کا اعلان نہ کرنے پر تنقید کی ہے۔ کانگریس ترجمان پون کھیڑا نے ون نیشن ون الیکشن کا نعرہ یاد دلاتے ہوئے کہا کہ اگر یہ لوگ چار ریاستوں میں ایک ساتھ الیکشن نہیں کرا سکتے تو ون نیشن ون الیکشن جیسے کھوکلے نعرے کیوں لگاتے ہیں؟ واضح رہے کہ چیف الیکشن کمشنر نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ جموں و کشمیر کے لیے سیکیورٹی کی ضرورت کے پیش نظر مہاراشٹر کے انتخابات کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔ الیکشن کمیشن کے اعلان کے بعد دونوں ریاستوں میں انتخابی سرگرمیاں تیز ہو گئی ہیں۔ تاہم، جموں و کشمیر کا مکمل ریاست کا درجہ بحال نہ کرنے پر کانگریس نے مرکزی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ یاد رہے جموں و کشمیر سے دفعہ 370 ہٹنے کے بعد پہلی مرتبہ الیکشن ہونے جا رہا ہے۔ اس دفعہ کو ہٹانے کے ساتھ ہی ریاست کا مکمل ریاست کا درجہ ختم کر دیا گیا تھا جسے ابھی تک بحال نہیں کیا گیا ہے۔ جبکہ مرکزی وزیر داخلہ سمیت وزیر اعظم بھی درجہ بحال کرنے کا وعدہ کر چکے ہیں۔ ریاست میں انتخابات سے ٹھیک ایک دن پہلے ایک ساتھ 300 افسروں کے تبادلوں پر بھی عوامی تذکرے گرم ہیں۔ کانگریس لیڈر ڈولی شرما نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ خوشی ہے کہ کم سے کم وہاں انتخابات تو ہوں گے لیکن جموں و کشمیر میں ایک دن میں 300 تبادلے وہ بھی 15 اگست کو قومی تعطیل پر آفس کھلوا کر؟ کہیں الیکشن کو متاثر کرنے کی کوشش تو نہیں ہے؟
بہرحال ان واقعات سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مرکزی حکومت سے لے کر صوبائی حکومتوں تک ہر طرف جمہوری اقدار کی پامالی ہو رہی ہے جبکہ جمہوری نظام میں دستور کو بالادستی حاصل ہے۔ دستور کے اصول و ضوابط کو نظر انداز کر کے کوئی پالیسی بنانا یا اسے غلط مقصد سے نافذ کرنا دونوں ہی عمل غیر اخلاقی اور غیر جمہوری ہیں، جن سے آزادی کی اصلی روح متاثر ہوتی ہے۔
تو صاحبو! یہ تھا شمال کا حال، آئندہ ہفتے پھر ملیں گے کچھ دلچسپ اور تازہ احوال کے ساتھ، تب تک کے لیے اللہ اللہ خیر سلا۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 25 اگست تا 31 اگست 2024