یو پی میں کابا؟ یوگی کہاں با؟

اتر پردیش میں نام نہاد رام راج‘ یا ’اندھی نگری، چوپٹ راج‘؟

ڈاکٹر سلیم خان

ووٹ کی چوٹ لگنے کو ہے ۔ ’پاپ کا گھڑا‘ چھلکنے کو ہے۔۔۔!
نیہا سنگھ راٹھور کا سیاسی نغمہ ’یو پی میں کابا؟‘ سبھی نے سنا ہوگا۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے ’یوگی کہاں با؟‘ اتر پردیش میں جنگل راج ختم کرنے کا دعویٰ کر کے بی جے پی برسرِ اقتدار آئی۔ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے پیشہ ور مجرمین کو زمین کے نیچے یا آسمان کے اوپر بھیجنے کے لیے فیک پولیس انکاونٹر تک شروع کر دیا مگر جرائم ختم ہوئے یا بڑھ گئے؟ این سی آر بی کی سرکاری رپورٹ کے اعدادو شمار اور میڈیا میں شائع ہونے والی خبریں چیخ چیخ کر کہہ رہی ہیں کہ جرائم کے خاتمے کا دعویٰ ایک فریب سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ یو پی میں جرائم کا ٹھیکرا مسلمانوں پر پھوڑ کر رکن پارلیمنٹ عتیق احمد کا قتل کروانے کے بعد عوام کو یہ دھوکہ دیا گیا کہ اب ’سب چنگا سی‘ ہے۔ مختار انصاری کی موت پر خوشی منائی گئی لیکن جرائم کی تعداد کے ساتھ اس میں ہونے والی سفاکی میں بھی بہت اضافہ ہوتا چلا گیا۔ حد تو یہ ہے کہ بی جے پی سے ہمدردی رکھنے والی بہوجن سماج پارٹی کی صدر مایاوتی کو بھی اس پر اظہار خیال کرنے کے لیے مجبور ہونا پڑا۔
بی ایس پی سپریمو نے فتح پور میں کسان خاندان کے تین افراد کے قتل کو امن و امان کی کمزوری قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ مجرموں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کر کے مقتولوں کے خاندان کو انصاف فراہم کرے۔ مایاوتی نے ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا "یو پی میں ہر روز چھوٹے چھوٹے مسئلے پر لوگوں کا استحصال ہوتا ہے اور انہیں ہراساں کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فتح پور میں ایک ہی کسان خاندان کے 3 ٹھاکروں اور ایک دلت کا قتل کر دیا گیا۔ اس سے وہاں کے عوام میں کافی خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔ اس معاملے میں تینوں مقتول چونکہ راجپوت ہیں اس لیے اس پر میڈیا میں خوب لکھا گیا مگر دلت مقتول کو پوری طرح نظر انداز کر دیا گیا کیونکہ یوگی راج میں ٹھاکر کا خون خون ہے اور سانبھا کا پانی! فتح پور میں حسین گنج تھانے کے تحت جس 28 سالہ دلت کسان رام بابو کی لاش پیڑ سے لٹکی ہوئی ملی وہ ٹریکٹر ٹرالی لے کر رات میں گیہوں کی کٹائی کے لیے گیا تھا۔ متوفی کے والد رگھوراج پال اسے خودکشی کی واردات نہیں مانتے بلکہ گاؤں کے ہی راج کرن پر قتل کا الزام لگاتے ہیں۔ ان کے مطابق راج کرن اور اس کی بیوی کے ساتھ ان کے بیٹے کا دو دن قبل تنازعہ ہوگیا تو اس نے رام بابو کو جان سے مارنے کی دھمکی دی تھی۔
یوگی راج میں ٹھاکروں کے خلاف ایک دلت کو تحفظ دینا پولیس کے لیے ناممکن ہے۔ یو پی میں دلتوں پر ہونے والے مظالم کو کس طرح دبایا جاتا ہے اس کا سب سے بڑا ثبوت تو بے قصور معروف صحافی صدیق کپن ہے۔ اس کو ملک سے غداری کا بے بنیاد الزام لگا کر ڈھائی سال تک جیل میں رکھا گیا۔ کپن کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ ہاتھرس میں دلت لڑکی پر ٹھاکروں کی جانب سے عصمت دری اور قتل کو بے نقاب کرنے کے لیے جائے واردات پر جا رہا تھا۔ اسی زمانے میں ضلع فتح پور کے اندر بھی دو دلت لڑکیوں کی موت کے بعد پولیس نے دو صحافیوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرلی تھا۔ پولیس کا الزام تھا کہ دونوں صحافیوں نے متوفی سے متعلق خبروں کو توڑ مروڑ کر پیش کیا ہے۔ اس وقت پرینکا گاندھی نے فیس بک پر یوگی سرکار کی تنقید میں لکھا تھا کہ ’فتح پور میں دو بہنوں کی موت کے بعد مقتولین کے خاندان کے حق میں خبر دکھانے والے دو صحافیوں کے خلاف یو پی سرکار نے مقدمہ درج کیا ہے۔ اب تک سرکار سچائی دکھانے کے لیے ایک درجن سے زیادہ صحافیوں پر مقدمہ دائر کر چکی ہے‘۔
کانگریس کے سابق ریاستی صدر اجے کمار للو نے اس واقعہ کے بعد یوگی سرکار پر الزام لگایا تھا کہ "وہ ملک کو دوہرے نظریے سے دیکھتے ہیں‘۔ انہوں نے وزیر اعلی یوگی کو خبردار کیا تھا کہ ’آپ جمہوریت کا قتل کرنے اور دستور کے بنیادی ڈھانچہ ختم کرنے پر آمادہ ہیں۔ اتر پردیش اور ملک کبھی آپ کو معاف نہیں کرے گا‘۔ یو پی میں صحافیوں کے خلاف نہ صرف ایف آئی آر درج کی گئی بلکہ کئی صحافیوں کا قتل بھی کیا گیا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال سیتا پور میں صحافی راگھویندر باجپئی کے قتل ہے۔اس کی سپاری کوری دیو مندر کے پجاری بابا شیوانند عرف وکاس مشرا نے دی تھی۔ یوگی کے جنگل راج میں امسال 8 مارچ کو ریلوے اوور برج پر دن دہاڑے گولی مار کر رگھویندر کو قتل کر دیا گیا۔ تحقیقات کے بعد پولیس نے انکشاف کیا کہ بابا کا ایک نابالغ لڑکے سے ناجائز تعلق تھا۔ واجپائی کو پجاری کی بد فعلی کو سب کے سامنے لانے کی دھمکی دی تو ڈھونگی بابا نے 4 لاکھ روپے دے کر کرایہ کے شوٹر سے صحافی کا قتل کروا دیا۔ اس طرح آسا رام باپو کی فہرست طویل ہوگئی۔ کیا یہی رام راجیہ ہے؟
آگرہ میں رانا سانگا کی یوم پیدائش تقریب منانے کے دوران فتح پور میں دن دہاڑے تہرے قتل کا ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس سے پورے علاقے میں سنسنی پھیل گئی۔ ہتھگام تھانہ حلقہ کے تہیرا پور چوراہے کے پاس ایک بائیک سوار کسان رہنما پپو سنگھ (50) اس کے بیٹے ابھئے سنگھ (22) اور چھوٹے بھائی رنکو سنگھ (40) کو ٹریکٹر سوار حملہ آوروں نے گولیوں سے بھون ڈالا۔ اس خون خرابے میں مرنے اور مارنے والے دونوں یوگی کے ذات بھائی راجپوت تھے۔ کہاں تو یوگی کا 20 فیصد مسلمانوں کے خلاف 80 فیصد ہندووں کو متحد کرنے کا دعویٰ اور کہاں راجپوتوں کی یہ آپسی خانہ جنگی؟ یہ کوئی دھرم یا ادھرم کی مہا بھارت نہیں تھی کہ وہاں ایک ہی خاندان کے کورو اور پانڈو ایک دوسرے کا گلا کاٹ رہے تھے بلکہ دراصل یہ سیاسی دشمنی تھی۔
اس قتل و غارتگری کا الزام سابق مکھیا منو سنگھ اور اس کے ساتھیوں پر ہے۔ مہلوک کسان رہنما پپو سنگھ کی والدہ رام دلاری سنگھ اب بھی گرام پردھان ہیں اس کے باوجود ان کے بیٹوں اور پوتے کے قتل سے پورے گھر میں ماتم برپا ہے۔ سابق پردھان منو سنگھ اور پپو سنگھ کے درمیان پرانی خاندانی دشمنی تھی۔ ان دونوں کے بڑے بھی آپس میں لڑتے تھے۔ تھوڑی بہت کہا سنی بلکہ ہاتھا پائی بھی ہو جاتی تھی لیکن پھر دونوں مل جاتے تھے۔ اب زمانہ بدل گیا ہے۔ قوت برداشت کم ہوگئی ہے اور نفرت کے شعلے اس قدر تیز ہوگئے ہیں کہ وہ اپنے پرائے کا فرق بھی نہیں کرتے۔ اورنگ زیب پر سفاکی کا الزام رکھنے والوں کو دیکھنا چاہیے کہ کس بے دردی سے یہ قتل کیا گیا تھا۔ پپو سنگھ کے سینے، پیٹ اور کمر کے نیچے 5 گولیاں پائی گئیں۔ اس کے بدن سے 30 چھرے نکلے۔ اسی طرح ان کے بیٹے ابھئے سنگھ کو دو گولیاں ماری گئیں اور جسم سے 20 چھرے برآمد ہوئے۔ بھائی پل سے جان بچا کر بھاگا تو اس کی کنپٹی پر گولی ماری گئی۔ بھیجہ اڑ گیا اور اندر سے دس چھرے نکلے۔
سابق پردھان سریش سنگھ عرف منو، ونود سنگھ عرف پپو سے بار ہار ناراض ہوتا تھا۔ اگلے انتخاب میں شکست کے اندیشے نے منو سنگھ کو درندہ بنا دیا نتیجے میں اس نے پپو سنگھ کا قتل کر دیا۔ یہ قتل کسی کرائے کے قاتل سے نہیں کرایا گیا بلکہ منو سنگھ نے خود اپنے بیٹے کے ساتھ مل کر کیا۔ اپنے دشمن کی جان لینے کے بعد بھی نفرت کی پیاس نہیں بجھی تو پپو سنگھ کی لاش کو ڈنڈوں سے اس قدر پیٹا گیا کہ لاٹھی خون سے لت پت ہو گئی۔ گاؤں والے جانتے تھے کہ کسی بھی وقت اس قسم کی واردات ہو سکتی ہے۔ پپو اور منو سنگھ کے بیچ مار پیٹ اور گالی گلوچ کی کئی ویڈیوز ذرائع ابلاغ میں گردش کر رہی ہیں۔ ایک ویڈیو سے ظاہر ہوتا ہے کہ پولیس تھانے پر منو سنگھ کا رسوخ زیادہ اور داروغہ اس کا حامی تھا۔ اس کے علاوہ پپو نے منو کے دوست رام پرشاد کے راشن کی دوکان، قانون کی خلاف ورزی کے الزام میں بند کروادی تھی نیز، منو سنگھ کے قبضے سے سرکاری زمین بھی پیمائش کروا کر چھین لی تھی۔
سوال یہ ہے کہ اس دوران یوگی کی پولیس کیا بھنگ پی کر سو رہی تھی؟اس نے حفظ ما تقدم کے طور پر کوئی اقدام کیوں نہیں کیا؟ اب گرفتاری کر کے کسی راجپوت کے گھر پر بلڈوزر چلانے سے کیا حاصل؟ اس قتل و غارتگری میں اگر کوئی مسلمان مجرم پیشہ قاتل ملوث ہوتا تو اس کے تار پاکستان اور آئی ایس آئی ایس سے جوڑ دیے جاتے یا مقتول مسلمان ہوتا تو قاتل کو ہندو ویر پوروش کے خطاب سے نواز دیا جاتا جیسا کہ عتیق احمد کے قاتلوں کا بینر کمبھ میلے میں لگایا گیا۔ اس واقعہ میں چونکہ دونوں جانب ٹھاکر ہیں اس لیے بھگوا بردار راجپوت وزیر اعلیٰ کی ساری ہیکڑی نکل گئی اور یوگی کے آس پاس گہرا سناٹا چھا گیا۔ آج کل یوگی کے ستارے ویسے ہی گردش میں ہیں اور ان کی پولیس نیک نامی کے بجائے بدنامی کا سبب بن رہی ہے۔
پچھلے دنوں نوئیڈا میں ایک انکاونٹر کو عدالت نے جعلی قرار دے کر تھانہ انچارج سمیت 12 پولیس اہلکاروں پر ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دے دیا۔ متھرا کے ترون گوتم کا الزام ہے کہ 4 ستمبر 2022 کو بغیر نمبر کی دو گاڑیوں میں ان کو اپنے گھر سے بیٹے سومیش کے نوئیڈا میں واقع کمرے میں لے جایا گیا اور وہاں دونوں کو مارا پیٹا گیا۔ اتفاق سے یہ واردات سی سی ٹی وی میں قید ہوگئی۔ اس کے بعد انہیں جیور تھانے لے جایا گیا۔ اس دوران سومیش کے پیر میں گولی مار کر اسے انکاونٹر دکھایا گیا اور اس کے پاس سے جھوٹی موٹر سائیکل اور پستول برآمد کرنے کا دعویٰ کیا گیا۔ اس کے بعد سومیش کی رہائی کے لیے ایک لاکھ روپے رشوت طلب کی گئی۔ یوگی آدتیہ ناتھ صوبے کے وزیر اعلیٰ ہیں۔ پولیس کا محکمہ ان کے تحت انکاونٹر کے نام پر وصولی کا کاروبار کرتا ہے اور وزیر اعلیٰ اس کی پیٹھ تھپتھپاتے ہیں لیکن اس کاروبار کی حقیقت اب کھل کر سامنے آگئی ہے۔
یو پی میں اسی طرح کا واقعہ سال 2020 میں پیش آیا تھا۔ کانپور پولیس کے ایک مبینہ ’انکاؤنٹر’ میں دو افراد کو پیروں میں گولی مارنے کے تقریباً پانچ سال بعد ابھی حال ہی میں مقامی عدالت نے پایا کہ جو غیر قانونی ہتھیار پولیس نے ان سے برآمد کرنے کا دعویٰ کیا تھا وہ دراصل پولیس مال خانے (شواہد کو رکھنے کی جگہ) سے نکالا گیا تھا۔ یہ ہتھیار 2007 کے ایک معاملے کا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک ہی ہتھیار کو 13 سال کے وقفے سے دو الگ الگ معاملوں میں ثبوت کے طور پر پیش کیا گیا۔ امسال یکم اپریل کو عدالت نے کانپور کے کندن سنگھ اور امت سنگھ کو تمام الزامات سے بری کر دیا ہے۔ عدالت نے تسلیم کیا کہ پولیس نے ان سے اسلحہ برآمد کرنے کا جھوٹا دعویٰ کیا تھا۔ امت کو پہلے ہی ضمانت مل چکی تھی، لیکن کندن 2020 سے جیل میں تھا۔ مذکورہ بالا معاملے میں پولیس کی ساری کہانی جھوٹی نکلی۔ ایڈیشنل سیشن جج ونئے سنگھ نے اپنے حکم نامہ میں لکھا کہ جس طریقے سے 2007 کے ایک کیس سے منسلک ایک غیر قانونی پستول کو کندن اور امت کے پاس دکھایا گیا تھا اس نے پورے معاملے کو مشکوک بنا دیا۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پولیس نے انہیں جھوٹے کیس میں پھنسایا تھا۔
عدالت نے کہا کہ اس معاملے میں ملوث پولیس انسپکٹر اور پوری پولیس ٹیم کے خلاف تفصیلی اور اعلیٰ سطحی تفتیش ضروری ہے۔ جسٹس سنگھ نے کانپور پولیس کمشنر کو حکم دیا کہ وہ خود یا کسی اہل افسر کے ذریعے پورے معاملے کی تفصیلی تحقیقات کرائیں اور تین ماہ کے اندر رپورٹ عدالت میں پیش کریں۔ اگر تحقیقات سے ثابت ہوتا ہے کہ پولیس نے انکاؤنٹر کا جھوٹا مقدمہ درج کرنے کے لیے مال خانے سے غیر قانونی طور پر اسلحہ نکالا تھا تو متعلقہ افسر اور ان کی ٹیم کے خلاف ایف آئی آر درج کی جائے گی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ تفتیش کے دوران پولیس انسپکٹر گیان سنگھ کی قیادت میں اس پولیس ٹیم کا کیا حشر ہوتا ہے جس نے ایف آئی آر میں قومی انسانی حقوق کمیشن اور ہائی کورٹ کے احکامات کی تعمیل کا حوالہ دیتے ہوئے امیت اور کندن کے خلاف سونے کی چین کی چوری اور چھیننے کی واردات، اقدام قتل اور غیر قانونی اسلحہ رکھنے کے تین مقدمات درج کیے تھے۔
عدالت میں اس واقعہ پر بحث کے دوران جو چونکا دینے والے حقائق سامنے آئے ان سے معلوم ہوتا ہے کہ یوگی کی قیادت میں یو پی پولیس نہ صرف جرائم پیشہ گروہ بن چکی ہے بلکہ سیاست دانوں کی مانند بے دھڑک جھوٹ بھی بولنے لگی ہے۔ وہ پولیس تھانے سے اپنے آنے جانے کا ریکارڈ نہیں رکھتی۔ عوامی گواہ جمع کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتی۔ وہ اپنے اوپر گولی چلنے کا الزام تو لگاتی ہے مگر نہ کوئی پولیس والا زخمی ہوتا ہے نہ گاڑی کو نقصان پہنچتا ہے۔ وہ کہتی ہے کہ ملزم نے انسپکٹر ورما کے پیٹھ میں گولی چلائی جبکہ وہ اگر گھیرا بندی میں تھا تو اسے سامنے ہونا چاہیے تھا۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ پیٹھ کیے ہوئے انسپکٹر ملزمین کو پستول استعمال کرتے ہوئے دیکھنے کا دعویٰ بھی کر دیتے ہیں۔ پولیس وہاں لگے ہوئے سی سی ٹی وی فوٹیج کو پیش نہیں کرتی۔ برآمد شدہ پستول 2014 کو ضبط ہوا تھا اور اس کا ملزم رشبھ سریواستو 25 ستمبر 2018 کو مقامی عدالت سے بری ہوگیا تھا تو اس اسلحہ کو تلف ہوجانا چاہیے تھا۔ یہ سارا کھیل بتاتا ہے کہ اتر پردیش میں فی الحال اندھی نگری چوپٹ راج ہے اور اس کی براہِ راست ذمہ داری وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ پر آتی ہے۔ اسی لیے پچھلی بار قومی انتخابات میں رام مندر کے باوجود بی جے پی کو جھٹکا لگا اور اب صوبائی انتخابات میں اس سے زیادہ چونکانے والے نتائج آسکتے ہیں کیونکہ ان کے پاپ کا گھڑا بھر کر چھلکنے لگا ہے۔ آخر عوام کے برداشت کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)

 

***

 اتر پردیش میں فی الحال اندھی نگری چوپٹ راج ہے اور اس کی براہِ راست ذمہ داری وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ پر آتی ہے۔ اسی لیے پچھلی بار قومی انتخابات میں رام مندر کے باوجود بی جے پی کو جھٹکا لگا اور اب صوبائی انتخابات میں اس سے زیادہ چونکانے والے نتائج آسکتے ہیں کیونکہ ان کے پاپ کا گھڑا بھر کر چھلکنے لگا ہے۔ آخر عوام کے برداشت کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 20 اپریل تا 26 اپریل 2025