یو پی میں اقتدار کی رسہ کشی عروج پر

کانوڑ یاترا کے دوران دکان داروں کو نام کی تختی لگانے کا تغلقی فرمان، نفرت کی انتہا

محمد ارشد ادیب 

بین مذاہب شادیاں، گھر واپسی یا مذہب کی تبدیلی، پولیس انتظامیہ اور میڈیا کا کھیل 
شمالی ہند میں مانسون کے زوردار آغاز کے بعد برسات میں ٹھیراؤ آگیا ہے لیکن شمال کی اکثر ریاستوں میں سیاسی اتھل پتھل کا سلسلہ ہنوز جاری ہے ۔پارلیمانی انتخابات کے بعد سات ریاستوں کے ضمنی انتخابات میں انڈیا بلاک کی حلیف جماعتوں کی جیت کا سلسلہ جاری ہے۔ اپوزیشن اتحاد نے 13 میں سے 10 سیٹیں حاصل کی ہیں، اور سب سے چونکانے والے نتیجے اتر پردیش کی پڑوسی ریاست اتراکھنڈ سے برآمد ہوئے ہیں جہاں بی جے پی حکومت ہندتو کے ایجنڈے پر سب سے آگے رہنے کے فراق میں ریاست میں یکساں سیول کوڈ نافذ کرنے کا اعلان کر چکی ہے، لیکن اس کے باوجود ہندوؤں کے مقدس مقام بدری ناتھ کے ضمنی انتخابات میں کانگریس امیدوار نے بی جی پی کو شکست سے دو چار کر دیا۔ ریاست کی ایک اور سیٹ منگلور میں کانگریس پارٹی کے امیدوار قاضی نظام الدین نے بی جے پی امیدوار کو شکست دے دی جبکہ اس حلقے میں پولنگ والے دن مسلم ووٹروں کو پولنگ بوتوں سے بھگانے کے مناظر سوشل میڈیا کے ذریعے پورے ملک میں دیکھے گئے۔سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق ایودھیا کے بعد بدری ناتھ کی شکست حکم راں جماعت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ دونوں جگہوں پر شکست کے اسباب ایک جیسے ہیں۔ ایودھیا میں ترقی کے نام پر جس طریقے سے لوٹ مچائی گئی، مقامی لوگوں کے مفادات کو نظر انداز کیا گیا، ان کے مکانات اور دکانات توڑ دیے گئے، ریاست کے باہر سے آنے والے گجراتی ٹھیکیداروں کو بڑے بڑے پروجیکٹ دیے گئے جن کے غیر معیاری کام کی قلعی پہلی بارش میں ہی کھل گئی۔ اسی طرح بدری ناتھ دھام میں بھی ماسٹر پلان کے نام پر مقامی باشندوں کو اجاڑا جا رہا ہے۔ کچھ مقامی باشندے وہاں پر احتجاج بھی کر رہے ہیں۔ ہمالین ہندو نام کے ایک صارف نے ایکس پر لکھا ہے بدری پوری میں مقامی باشندوں کو اجاڑنے کی سازش رچی جا رہی ہے۔ معاوضہ اور باز آباد کاری پالیسی کے بغیر ہی پجاریوں اور اصل باشندوں کو ہٹایا جا رہا ہے تاکہ بدری ناتھ کو باہری طاقتوں کے حوالے کیا جا سکے”۔
شنکر آچاریہ سوامی ابھیمکتیشور آنند نے کیدار ناتھ مندر کی طرز پر دلی میں دوسرا مندر بنائے جانے کی پرزور مخالفت کی ہے۔ انہوں نے مندر کے خزانے سے دو کنٹل 28 کلو سونا غائب ہونے اور دیگر بد عنوانیوں کی جانچ کرانے کی مطالبہ کیا ہے‌۔ ایودھیا کے بعد بدری ناتھ کی ہار مودی کے مذہبی ماڈل کی ہوا نکالنے کے لیے کافی ہے۔ اس کے باوجود بی جے پی سبق سیکھنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ایک عرصے سے مدھیہ پردیش کے دھار علاقے کی مسجد کمال مولا کو بھی متنازعہ بنانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ اطلاعات کے مطابق آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے ایک حالیہ سروے میں مسجد کے نیچے مندر کے باقیات ملنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ ہندو تنظیمیں اسے بھوج شالہ مندر بتا کر  پوجا کی اجازت مانگ رہی ہیں۔ فی الحال مدھیہ پردیش ہائی کورٹ میں یہ معاملہ زیر سماعت ہے۔
یو پی کے سیاسی گلیاروں میں ایک بار پھر اقتدار کی رسہ کشی عروج پر ہے۔ آر ایس ایس نے اس رسہ کشی کو کم کرنے کے لیے بی جے پی کے اعلی عہدے داروں کے ساتھ لکھنؤ میں میٹنگ طلب کر لی ہے۔ ریاست کے نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرساد موریہ کی دلی میں بی جے پی کے قومی صدر جے پی نڈا سے ملاقات کے بعد یہ رسہ کشی شروع ہوئی تھی، جس نے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی دل کی دھڑکنیں بڑھا دی ہیں۔ انہوں نے کابینہ کی میٹنگ کے بعد ریاستی گورنر آنندی بین پٹیل سے ملاقات کی تو سیاسی پنڈت قیاس لگانے لگے کہ ریاست میں بڑی تبدیلی ہو سکتی ہے۔ وزیر اعلیٰ یوگی ادتیہ ناتھ صوبے کے دس اسمبلی حلقوں میں ہونے والے ضمنی انتخابات کو لے کر بے چین ہیں، انہوں نے ان حلقوں میں پارٹی کی جیت کو یقینی بنانے کے لیے تیس وزراء کی فوج میدان میں اتار دی ہے جو ضمنی انتخابات میں پارٹی امیدواروں کو کامیاب بنانے کے ذمہ دار ہوں گے۔ دوسری جانب نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرساد موریہ نے حکومت پر پارٹی تنظیم کی بالادستی کا بیان دے کر اقتدار اعلیٰ کی جنگ چھیڑ دی ہے۔ جانکاروں کے مطابق فی الحال حکومت یا پارٹی تنظیم میں کوئی تبدیلی بھلے ہی نہ ہو ضمنی انتخابات کے بعد بڑے پیمانے پر تبدیلی یقینی ہے۔ اسی درمیان سماجوادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو نے ایک بار پھر مانسون آفر کا دھماکہ کر دیا ہے۔ انہوں نے ایکس پر ٹویٹ کیا "مانسون آفر سو لاؤ سرکار بناؤ” یاد رہے وہ اس سے پہلے بھی کیشو پرساد موریہ کو میڈیا کے کھلے منچ سے اسی طریقے کا آفر دے چکے ہیں۔
اتر پردیش کی یوگی حکومت سخت فیصلے لینے کے لیے مشہور ہے لیکن اس بار اسے دو اہم فیصلے بدلنے پڑے ہیں۔ ریاست کے سرکاری اسکولوں میں آن لائن حاضری کا فیصلہ اساتذہ کی شدید مخالفت کے بعد ملتوی کر دیا گیا ہے۔ اساتذہ کے مطالبات پر غور کرنے کے لیے کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے جو دو ماہ کے اندر ان مطالبات پر فیصلہ کرے گی۔ ریاستی دارالحکومت لکھنو میں ککریل نالے کے کنارے آباد بستیوں کو ہٹانے کا فیصلہ بھی ملتوی ہو گیا ہے۔ ایل ڈی اے اور لکھنو بلدیہ نے ککریل نالے کے کنارے پنت نگر اندر پرستھ نگر، رحیم نگر اور ابرار نگر کے مکانوں پر غیر قانونی تجاوزات ہٹانے کے لیے سرخ نشان لگائے تھے لیکن مقامی باشندوں کی پرزور مخالفت اور احتجاج کے بعد وزیر اعلیٰ نے انہدامی کارروائی پر روک لگا دی ہے جس کے بعد علاقے کے باشندوں نے راحت کی سانس لی ہے۔ اس سے پہلے اسی علاقے میں اکبر نگر کی پوری بستی کو اجاڑ دیا گیا تھا۔ اس وقت وہ لوگ جو مسلمانوں کے مکان ٹوٹنے پر خوش ہو رہے تھے لیکن جب ان کی باری آئی تو سینہ کوبی کرنے لگے۔ اب حکومت اور انتظامیہ کے دوہرے معیار پر سوالات اٹھنے لازمی ہیں۔
یو پی اور اتراکھنڈ حکومتوں نے کانوڑ یاترا کے دوران تمام راستوں پر دکان داروں سے اپنے نام کی تختی لگانے کا حکم نامہ جاری کیا ہے جس کی چو طرفہ مذمت ہو رہی ہے۔ اس سے پہلے یہ حکم نامہ ضلع مظفر نگر میں مقامی انتظامیہ نے کانوڑ روٹ پر دکان داروں اور ہوٹلوں کے مالکین کو ہدایت دی تھی کہ وہ اپنی دکانوں اور ریڑھیوں پر اپنے نام کی تختی لگائیں۔ ذاکر علی تیاگی نے ایکس پر ٹویٹ کیا "انتظامیہ نے پھل فروشوں سے ریڑھی پر نام لکھنے کے لیے کہا ہے تاکہ مسلمانوں کی پہچان آسانی سے کی جا سکے۔ کئی برسوں سے مسلمانوں سے سامان نہ خریدنے کی اپیلیں کی جا رہی ہیں۔ یہی مہم ریڑھی والوں پر چپکا دی گئی ہے” ۔ اپوزیشن کے کئی اہم لیڈروں نے اس اعلان پر شدید نکتہ چینی کی ہے۔ ان میں حکومت کی حلیف جماعتیں بھی شامل ہیں لیکن اس کے باوجود یو پی حکومت نے اس فیصلے کو پورے صوبے میں نافذ کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ جانکاروں کے مطابق اقتدار کی رسہ کشی میں پھنسی ہوئی یوگی حکومت عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے اس فیصلے کو سیاسی موضوع بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔اس پر ایک بار پھر یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ آخر حکم راں ٹولہ مسلمانوں سے اتنی نفرت کیوں کرتا ہے؟  این ڈی اے کی حلیف جماعتوں آر ایل ڈی اور جے ڈی یو نے بھی سرکاری فرمان پر تنقید کی ہے۔ واضح رہے کہ ساون کے مہینے میں کانوڑی یاتری ہریانہ سے دلی کے راستے بڑی تعداد میں مغربی یو پی ہوتے ہوئے ہریدوار تک جاتے ہیں۔ اس روٹ پر مسلمانوں کی اچھی خاصی آبادی ہے۔ کچھ مسلم سماجی تنظیمیں کانوڑ یاتریوں کی آؤ بھگت بھی کرتی ہیں۔ ہوٹلوں کے مالکین اور ریڑھی والے ایک عرصے سے ان عقیدت مندوں کو کھانے پینے کی اشیاء فروخت کرتے ہیں۔ لیکن کچھ متعصب عناصر کو یہ سماجی آہنگی پسند نہیں آرہی ہے۔
یو پی کے ضلع بریلی میں اتحاد ملت کونسل کے صدر مولانا توقیر رضا خان نے اجتماعی شادی کا اعلان کر کے انتظامیہ کو آزمائش میں ڈال دیا ہے۔ انہوں نے ضلع انتظامیہ کو ایک درخواست دی ہے جس میں 21 جولائی کو اجتماعی شادیوں  کی اجازت مانگی گئی ہے۔ مولانا کے مطابق اس میں ہندو اور مسلمان لڑکے لڑکیوں کے نکاح کرائے جائیں گے۔ مولانا کے اس بیان پر ہندو تنظیمیں چراغ پا ہیں اور انہوں نے مولانا پر مذہب تبدیل کرانے کا الزام لگایا ہے۔ فی الحال ضلع انتظامیہ نے اس پروگرام کی اجازت نہیں دی ہے۔ جبکہ اسی طرح کے ایک اور معاملے میں مدھیہ پردیش کے شہر اندور میں کئی مسلمانوں کی گھر واپسی (ارتداد) کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق  کھجرانہ گنیش مندر میں پولیس فورس کی موجودگی میں چودہ افراد کی سناتن دھرم میں گھر واپسی کرائی گئی ہے ان میں دس لڑکیاں شامل ہیں۔ اندور کے صحافی جاوید عالم نے ہفت روزہ دعوت سے فون پر بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ مقامی میڈیا نے ان خبروں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے۔ ہندی میڈیا کا رویہ ہمیشہ سے پولیس کے ساتھ رہا ہے۔ پولیس اور میڈیا مل کر ان خبروں کو ہائی لائٹ کرتے ہیں جبکہ اصلیت یہ ہے کہ ان میں سے کئی لڑکے لڑکیاں پہلے ہی شادی کے چکر میں اپنا مذہب بدل چکے ہیں۔ کھجرانہ کے مقامی باشندوں کا بھی کہنا ہے کہ ان خبروں میں پوری سچائی نہیں ہے۔ بریلی میں ایک مندر کا پجاری سیکڑوں مسلم لڑکیوں کی ہندو رسم و رواج کے ساتھ شادیاں کرانے کا دعوی کر چکا ہے۔ مقامی ہندی میڈیا ان خبروں کو مرچ مصالحے کے ساتھ شائع کرتا ہے لیکن یہی حرکت کوئی مسلم لڑکا کرے تو پولیس اور میڈیا دونوں اسے مجرم بنا کر پیش کرتے ہیں۔ اب پولیس اور میڈیا کے دوہرے معیار پر سوال اٹھنے لگے ہیں۔
تو صاحبو! یہ تھا شمال کا حال، آئندہ ہفتہ پھر ملیں گے تازہ اور دلچسپ احوال کے ساتھ۔ تب تک کے لیے اللہ اللہ خیر سلا۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 28 جولائی تا 03 اگست 2024