یو پی میں دلت سیاست کا زوال

کیا چندر شیکھر آزاد مایاوتی کا متبادل بن سکیں گے؟

مشتاق عامر

یو پی میں دلت سیاست کے زوال کی شروعات تو اسی وقت ہو گئی تھی جب 1997 میں مایاوتی نے بی جے پی کی حمایت سے ریاست میں اپنی حکومت بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ کہتے ہیں کہ یہ تاریخ ساز فیصلہ مایاوتی نے اپنے طور پر لیا تھا۔ اس سے پہلے یو پی میں سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کی مشترکہ حکومت تھی لیکن سماج وادی پارٹی کی طرف سے مایاوتی حکومت کی حمایت واپس لینے کے اعلان کے بعد ان کی حکومت گر گئی تھی۔ بی ایس پی نے بی جے پی کی حمایت سے اپنی حکومت دوبارہ قائم کی۔ مایاوتی کو یو پی کی پہلی دلت وزیرِ اعلیٰ ہونے کا امتیاز حاصل ہے۔ بی ایس پی کو دلت ووٹوں کے علاوہ پسماندہ طبقات اور مسلمانوں کے ووٹ بھی ملتے رہے ہیں۔ انہیں ووٹوں کے دم پر مایاوتی چار بار وزیرِ اعلیٰ بنیں۔ 2007 کے اسمبلی چناؤ میں بہوجن سماج پارٹی واضح اکثریت کے ساتھ اقتدار میں آئی۔ یہ پہلی بار ہوا تھا کہ بی ایس پی کو اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل ہوئی تھی۔ اس غیر متوقع جیت میں دلت ووٹوں کے علاوہ انہیں مسلمانوں کے یکمشت ووٹ حاصل ہوئے تھے۔ لیکن اپنے پانچ سالہ مدتِ کار میں مسلمانوں کے تعلق سے مایاوتی حکومت پچھلی حکومتوں سے زیادہ مختلف نہیں تھی۔
مایاوتی کے اقتدار میں آنے کے چند ماہ بعد ہی، نومبر 2007 کو یو پی اے ٹی ایس نے خالد مجاہد اور ڈاکٹر طارق قاسمی کو دہشت گردی کے الزام میں بارہ بنکی سے گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا۔ 19 مئی 2013 کو خالد مجاہد کی عدالت میں پیشی سے پہلے پولیس حراست میں پراسرار حالت میں موت واقع ہو گئی۔ خالد مجاہد کی پولیس حراست میں ہونے والی موت کی آزادانہ جانچ آج تک نہیں کرائی گئی۔ بی ایس پی حکومت کی جانب سے مسلمانوں کو دیا جانے والا یہ پہلا ’انعام‘ تھا۔ خالد مجاہد کی موت کے خلاف ریاست بھر میں مسلمانوں کو جمہوری طریقے سے احتجاج تک کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ الٰہ آباد اور اعظم گڑھ میں خالد مجاہد کی یاد میں ہونے والے تعزیتی جلسے کو پولیس نے ہونے نہیں دیا۔ ان دنوں مایاوتی حکومت ہندوتوادی طاقتوں کے سامنے بالکل بے بس نظر آئی۔
اگر دلت سیاست کے موجودہ زوال پر بات کی جائے تو یو پی میں دلت سیاست کا زوال دو دہائیوں کے ارتقائی عمل کا نتیجہ ہے۔ ان دو دہائیوں کے دوران بہوجن سماج پارٹی کے سیاسی اثر و رسوخ میں لگاتار کمی ہوتی گئی۔ کسی زمانے میں "تلک، ترازو اور تلوار کو چار جوتے مار” کا نعرہ دینے والی بہوجن سماج پارٹی بتدریج ہندتوادی سیاست کا شکار ہوتی چلی گئی۔ بی جے پی کی مدد سے حکومت بنانے کے بعد سے ہی مایاوتی نے برہمن وادی آر ایس ایس کے ایجنڈے کو غیر اعلانیہ طور سے تسلیم کر لیا تھا۔ اس کے بعد وہ اس ایجنڈے سے کبھی پیچھے نہیں ہٹیں۔ بہوجن سماج پارٹی میں ستیش مشرا کی شمولیت اور کلیدی عہدے پر ان کی تقرری نے کانشی رام کی بی ایس پی کو دلت موومنٹ سے کافی دور کر دیا۔ بی ایس پی میں اعلیٰ ذاتوں کے عمل دخل نے پارٹی کے پرانے کیڈر کو بے حد ناراض کر دیا۔ جن دلت لیڈروں نے مایاوتی سے اختلاف کیا ان کو باہر کا راستہ دکھا دیا گیا۔
یو پی میں دلت اور مسلم دونوں طبقات تاریخی طور پر محرومی اور استحصال کا شکار رہے ہیں، لیکن ان کے درمیان مستقل سیاسی اتحاد بہت دنوں تک نہیں چل پایا ہے۔ ان سب کے باوجود یو پی کے مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ روایتی طور سے بہوجن سماج پارٹی سے وابستہ رہا ہے۔ اس کا اظہار 2007 اسمبلی چناؤ میں پارٹی کی واضح اکثریت کی شکل میں دیکھنے کو ملا۔ اس چناؤ میں مسلمانوں نے بہوجن سماج پارٹی کو غیر مشروط طریقے سے یکمشت ووٹ دیے تھے۔ چناؤ کے بعد مایاوتی نے پہلی بار بطور وزیرِ اعلیٰ پانچ سال کی مدت پوری کی۔ پانچ برسوں تک انہیں کام کرنے کا پورا موقع ملا لیکن دلتوں اور مسلمانوں کے ووٹ سے اقتدار میں آنے والی مایاوتی نے ان کے مسائل کو حل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔ ان کی پوری کوشش اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کی خوشنودی حاصل کرنے اور خود کو ان کا خیر خواہ ثابت کرنے میں لگی رہی۔
2012 کے اسمبلی چناؤ میں مسلمانوں اور دلتوں کی ناراضگی اس وقت کھل کر سامنے آئی جب انہوں نے سماج وادی پارٹی کو ووٹ دے کر اسے ایک بار پھر اقتدار کی کرسی تک پہنچا دیا۔ 2012 کی شکست کے بعد بہوجن سماج پارٹی خود کو سنبھال نہیں پائی اور لگاتار زوال کا شکار ہوتی گئی۔ پچھلے چناؤ میں یو پی اسمبلی سے بہوجن سماج پارٹی کا تقریباً خاتمہ ہو گیا ہے۔ کسی زمانے میں اپنے دم پر حکومت بنانے والی بہوجن سماج پارٹی کی یو پی اسمبلی کی 403 سیٹوں میں سے صرف ایک سیٹ رہ گئی ہے۔
کانشی رام کی قیادت میں بی ایس پی نے ایک وقت میں دلتوں اور مسلمانوں کو سیاسی مرکز میں لا کر ان کے حقوق کی مؤثر وکالت کرنے کا کام کیا تھا، لیکن اب وہی سیاست بتدریج کمزور ہو رہی ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں، اس میں سب سے بڑی وجہ خود مایاوتی کی قیادت ہے۔ مایاوتی کی قیادت پر سوال اٹھتے رہے ہیں، خاص طور سے برہمن وادی طبقے کے لیے ان کا نرم گوشہ موضوعِ بحث رہا ہے۔ جو پارٹی منو واد اور برہمن وادی نظام کی مخالفت کرتے ہوئے وجود میں آئی تھی، اس نے بظاہر منو وادیوں کے سامنے گٹھنے ٹیک دیے اور ان سے سیاسی سانٹھ گانٹھ کر لی۔ دلت مسلم اتحاد پارٹی کا کور ووٹ ہوا کرتا تھا، مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ بہوجن سماج پارٹی کو ووٹ دیا کرتا تھا۔
2007 کے اسمبلی چناؤ میں مسلمانوں نے یکمشت ووٹ دیے تھے جس کی بدولت پہلی بار کوئی دلت پارٹی واضح اکثریت کے ساتھ اقتدار میں آئی تھی۔ مایاوتی کے اقتدار میں آنے کے بعد مسلمانوں کو کافی امیدیں تھیں کہ ان کے ساتھ انصاف کیا جائے گا لیکن مایاوتی کے اقتدار میں رہتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف ہونے والی استبدادی کارروائیوں میں کسی طرح کی کوئی کمی نہیں آئی بلکہ خالد مجاہد اور ڈاکٹر طارق قاسمی کو یو پی ایس ٹی ایف نے جس طرح گرفتار کیا اور بارہ بنکی کی عدالت میں ایڈووکیٹ محمد شعیب کو وکلا نے جس طرح زد و کوب کیا اس سے بی ایس پی حکومت پر سے مسلمانوں کا اعتماد اٹھ گیا۔
گزشتہ دو دہائیوں سے مایاوتی کا ’بی جے پی پریم‘ جگ ظاہر ہے۔ انہیں بی جے پی کی حمایت سے دو بار وزیرِ اعلیٰ بننے کا موقع بھی ملا۔ اس کی قیمت انہیں پارٹی کو بے اثر کرکے چکانی پڑی۔ اس کے علاوہ آمدنی سے زیادہ جائیداد اور کئی دیگر مالی بے ضابطگیوں کے معاملات میں ای ڈی کا خوف بھی ان کا پیچھا نہیں چھوڑ رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ ان سب سے بچنے کے لیے دلت کاز کی قربانی دینے کے علاوہ ان کے پاس اور کوئی راستہ نہیں بچا ہے۔
یو پی میں دلت سیاست کے زوال کی ایک وجہ یہ بھی رہی ہے کہ بہوجن سماج پارٹی نے نوجوان دلت قیادت کو آگے بڑھنے کا موقع نہیں دیا۔ یو پی کی دلت سیاست شروع میں کانشی رام اور اس کے بعد مایاوتی کے گرد ہی گھومتی رہی۔ دلت تحریک سے جڑے پرانے لیڈر یا تو پارٹی چھوڑ چکے یا ان کو پارٹی سے نکال دیا گیا۔ بی جے پی کی حمایت سے جب مایاوتی وزیرِ اعلیٰ بنیں تو ان پر آر ایس ایس کا شکنجہ کستا چلا گیا۔ بی ایس پی کی انتخابی سیاست تو چلتی رہی لیکن دلت مسائل اور دلت نظریات کافی پیچھے چھوٹ گئے۔ بی ایس پی نے ’سوشل انجینئرنگ‘ کے نام پر منو وادی طاقتوں کے سامنے خود سپردگی اختیار کی۔ آر ایس ایس نے اس موقع کا خوب فائدہ اٹھایا، دلتوں کا ہندو کَرن کیا اور ان کو مسلمانوں کے خلاف حربے کے طور پر استعمال کیا۔ دلتوں کے ہندو کرن نے مسلم دلت اتحاد کو پارہ پارہ کر دیا۔ خاص طور سے مشرقی یو پی میں آر ایس ایس کا یہ منصوبہ بڑی حد تک کامیاب رہا ہے۔ منو وادیوں کی شروع سے ہی یہ کوشش رہی کہ یو پی میں دلتوں کی کوئی تحریک سر نہ اٹھا سکے۔
لیکن گزشتہ چند برسوں کے دوران مغربی یو پی میں بھیم آرمی اور آزاد سماج پارٹی کے نام سے دلت سیاست میں ایک نیا اُبھار آیا ہے۔ اس پارٹی کے بانی چندر شیکھر آزاد راون بہت کم وقت میں مغربی یو پی میں دلت سیاست کی ایک نئی پہچان بن کر اُبھرے ہیں۔ شروع سے ہی ان کو مقامی سطح پر دلتوں اور مسلمانوں کا ساتھ ملا ہے۔ چندر شیکھر آزاد نے پچھلے عام چناؤ میں نگینہ لوک سبھا حلقے سے شاندار جیت حاصل کی۔ آزاد سماج پارٹی کو بہوجن سماج پارٹی کے متبادل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ چندر شیکھر آزاد نے اپنی پارٹی کو کانشی رام کے مشن پر چلانے کا اعلان کیا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ بہوجن سماج پارٹی کانشی رام کے اصولوں سے بھٹک گئی ہے لیکن چندر شیکھر آزاد کے لیے دلت سیاست کرنا آسان نہیں ہے۔ ان کو یو پی حکومت اور مایاوتی دونوں سے بڑا چیلنج مل رہا ہے۔ آر ایس ایس یو پی میں اب اور کوئی دلت لیڈر یا سیاسی تحریک برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چندر شیکھر کی راہ میں طرح طرح کی رکاوٹیں پیدا کی جا رہی ہیں۔ چنانچہ پچھلے دنوں الٰہ آباد کے کرچھنا علاقے میں آزاد سماج پارٹی کے ایک بڑے احتجاجی جلسے کو پولیس نے طاقت کے زور پر منتشر کر دیا۔ سینکڑوں دلتوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی۔ درجنوں دلت لیڈروں پر گینگسٹر اور این ایس اے کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ اس احتجاجی جلسے کو چندر شیکھر آزاد کو خطاب کرنا تھا، لیکن ان کو الٰہ آباد کے سرکٹ ہاؤس میں ایک طرح سے نظر بند رکھا گیا اور اگلے دن ان کو بنارس جانے پر مجبور کیا گیا۔ جن دلتوں کو پولیس نے گرفتار کیا، ان کو تھانے کے سامنے کان پکڑ کر اٹھک بیٹھک کرائی گئی اور انہیں اجتماعی طور پر ذلیل کیا گیا۔ الٰہ آباد میں دلتوں پر ہونے والا کریک ڈاؤن کئی معنوں میں مختلف تھا۔ اس سے پہلے اس طرح کی تادیبی کارروائیاں صرف مسلمانوں کے خلاف ہوا کرتی تھیں۔ یہ پہلی بار ہوا ہے کہ یو پی پولیس نے احتجاج کرنے والے دلتوں کے خلاف گینگسٹر اور این ایس اے جیسی کارروائیاں کی ہیں۔ دلتوں کے خلاف ہونے والی ان کارروائیوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یو پی میں دلتوں کی سیاست کرنا اب آسان نہیں رہ گیا ہے۔ مایاوتی کی خاموشی اور بہوجن سماج پارٹی کا کمزور پڑ جانا دلت سیاست کو حاشیے پر لے آیا ہے۔ ایسے میں اب سب کی نگاہیں چندر شیکھر آزاد کی پارٹی اور ان کی سیاسی حکمتِ عملی پر ہیں۔ کانشی رام کی طرح چندر شیکھر آزاد نے بھی دلت مسلم اتحاد کا نعرہ دیا ہے۔ اس کا فائدہ لوک سبھا کی نگینہ سیٹ پر غیر معمولی جیت کی شکل میں ظاہر ہوا۔ مغربی یو پی میں مسلمانوں کا ایک طبقہ چندر شیکھر آزاد کے ساتھ ہے۔ یو پی میں منو وادی سیاست کے سامنے فی الحال دلت سیاست کا بظاہر کوئی خطرہ نظر نہیں آ رہا ہے۔ امید افزا بات یہ ہے کہ یو پی میں دلت سیاست زوال کا شکار ضرور ہے لیکن مکمل طور پر ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ اگر نئی نسل مؤثر حکمتِ عملی اور اتحاد کے ساتھ سامنے آئے تو دلت سیاست ایک نئے روپ میں اُبھر سکتی ہے۔ اس کے لیے سب سے پہلے دلتوں کو مسلم دشمنی سے باہر نکلنے کی ضرورت ہے۔ انہیں آر ایس ایس کے اثر سے باہر نکلنا ہوگا۔ آئینی اقدار، جمہوریت، سماجی مساوات اور انصاف پر مبنی سیاست کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ یو پی میں دلت، مسلم اور او بی سی اگر متحد ہوتے ہیں تو یہ اکثریت میں ہوں گے، کیونکہ اگر یو پی میں دلت، مسلم اور او بی سی سیاسی طور پر متحد ہو گئے تو منو وادی سیاست کا جنازہ نکل جائے گا۔ اس طرح کا سیاسی اتحاد عمل میں نہ آسکے، اس کے لیے مسلم مخالف کارڈ کھیلا جا رہا ہے۔ اگر دلت اور مسلم تعلیم، روزگار، سماجی تحفظ اور سیاسی شراکت داری کو اپنا مقصد بنا کر ایک متحدہ سیاسی قیادت ایک مشترکہ پلیٹ فارم تشکیل دیتے ہیں تو یو پی کے سیاسی منظرنامے میں ڈرامائی تبدیلی دیکھنے میں آ سکتی ہے۔ نئی نسل کو مسلم مخالف منافرت سے موڑ کر ان کو تعلیم اور ترقی کی طرف راغب کیا جائے۔ بیداری کا کام سیاسی قیادت ہی کر سکتی ہے۔ اس ضمن میں سب سے بڑا خلا مسلمانوں کی طرف سے ہے۔ دلتوں کے پاس مایاوتی اور چندر شیکھر آزاد جیسی سیاسی قیادت موجود ہے لیکن مسلمانوں میں ایسا کوئی قابلِ قبول چہرہ یا قیادت اب تک اُبھر کر نہیں آ سکی جو دونوں طبقات کو آپس میں جوڑ سکے۔

 

***

 مایاوتی کی خاموشی اور بی ایس پی کی کمزوری نے دلت سیاست کو حاشیے پر پہنچا دیا ہے، مگر چندر شیکھر آزاد کے دلت۔مسلم اتحاد کے نعرے نے نئی امیدیں جگائی ہیں۔ اگر دلت، مسلم اور او بی سی طبقات متحد ہو جائیں تو یو پی میں منو وادی سیاست کو چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے نئی نسل کو مسلم مخالف منافرت سے موڑ کر تعلیم اور ترقی کی طرف راغب کرنا ہوگا۔ فی الحال دلت قیادت تو موجود ہے مگر مسلمانوں میں ایسا کوئی متفقہ سیاسی چہرہ سامنے نہیں آ سکا جو اس اتحاد کو مضبوط کر سکے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 10 جولائی تا 16 اگست 2025

HacklinkHair Transplant istanbul
hacklink
istanbul evden eve nakliyat
hair transplant
istanbul anl?k haberler
extrabet
cratosroyalbet
casibom
romabet
romabet
romabet
casibom
marsbahis
holiganbet
casibom
casibom
deneme bonusu veren siteler
Betpas
adana escort
jojobet giri?