یو پی مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ کو برقرار رکھنے کا تاریخی فیصلہ خوش آئند
سکریٹری مرکزی تعلیمی بورڈ،جماعت اسلامی ہند سید تنویر احمد کا بیان
نئی دلی (دعوت نیوز ڈیسک)
’’سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں الٰہ آباد ہائی کورٹ کے سابق فیصلے کو پلٹ دیا ہے جس نے مدرسہ ایکٹ کو غیر آئینی قرار دیا تھا۔ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ریاست کے اقلیتوں کے لیے حوصلہ افزا ہے۔ اس سے ان کے تعلیمی حقوق کو برقرار رکھنے اور آگے بڑھانے میں مدد ملے گی۔ اس فیصلے سے طلبائے مدارس کے تعلیمی حق اور مذہبی اقلیتوں اور ان کے تعلیمی اداروں کو تحفظ حاصل ہوگا نیز، اس فیصلے سے مذہبی اقلیتوں کے تعلیمی اداروں کو تحفظ فراہم کرنے والے آئینی اصولوں کی بھی توثیق ہوتی ہے۔ ‘‘ان خیالات کا اظہار مرکزی تعلیمی بورڈ، جماعت اسلامی ہند کے سکریٹری سید تنویر احمد نے میڈیا کو جاری کردہ اپنے ایک بیان میں کیا۔
انہوں نے کہا کہ پچھلے دنوں چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کی سربراہی میں جسٹس جے بی پارڈی والا اور منوج مشرا کی بینچ نے جو فیصلہ دیا ہے ہم اس سے اتفاق کرتے ہیں۔ بچوں کو دینی تعلیم و تربیت دینا کوئی غیر قانونی عمل نہیں ہے۔ اس موقع پر سپریم کورٹ نے بڑی وضاحت کے ساتھ کہا کہ سیکولرزم کا مطلب ’’جیو اور جینے دو‘‘ ہے۔ اس سے ہندوستان کے تکثیری معاشرے میں متنوع تعلیمی نقطہ نظر کے ساتھ بقائے باہم کے اصولوں اور ہم آہنگی کو فروغ ملتا ہے۔ اس فیصلے سے کئی اہم نکات سامنے آتے ہیں۔ مثال کے طور پر (الف) عدالت نے اس بات کی تصدیق کر دی کہ مدرسہ ایکٹ، ریاست کی ذمہ داریوں کا ایک حصہ ہے، لہٰذا اس میں تعلیم کو معیاری بنانا اور طلبا کو اس قابل بنانا کہ ان میں سماجی اور معاشی سطح پر شراکت داری کی اہلیت پیدا ہو، حکومت کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ (ب) سپریم کورٹ نے آرٹیکل 21 اے اور رائٹ ٹو ایجوکیشن کو مذہبی و لسانی اقلیتوں کے حقوق سے جوڑتے ہوئے کہا کہ مدارس اپنے مذہبی کردار کو برقرار رکھتے ہوئے سیکولر تعلیم دے سکتے ہیں‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’یو پی مدرسہ ایکٹ کو برقرار رکھتے ہوئے سپریم کورٹ نے توثیق کردی ہے کہ ایسے ادارے ہمارے معاشرے میں با معنی اور مثبت کردار اداکرتے ہیں۔ یہ فیصلہ ان تمام تعلیمی اداروں کے لیے انتہائی خوش آئند ہے جو اپنی روایت اور مذہبی شناخت کو محفوظ رکھتے ہوئے کام کرنا چاہتے ہیں۔ یہ فیصلہ اتر پردیش میں تقریبا سترہ لاکھ مدارس سے وابستہ طلبا کے تعلیمی سفر کو بہتر کرنے میں مدد کرے گا اور ثقافتی اقدار اور آئینی حقوق کے دائرے میں رہتے ہوئے ان کے تعلیمی حق کو تقویت دے گا۔ یہ فیصلہ این سی پی سی آر جیسی ایجنسیوں کے لیے واضح پیغام ہے جو مدارس کی صاف ستھری شبیہ کو خراب کرنے کی کوششیں کرتی ہیں۔
مذہبی اقلیتوں اور تعلیمی اداروں کو
تحفظ حاصل ہوگا:ڈاکٹر ملک فیصل
جماعت اسلامی ہند یو پی مشرق کے امیر حلقہ ڈاکٹر ملک فیصل نے بھی یو پی مدرسہ ایکٹ کو برقرار رکھنے والے سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ ’’سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں الٰہ آباد ہائی کورٹ کے سابق فیصلے کو کالعدم قرار دیا ہے، جس نے اپنے فیصلے میں مدرسہ ایکٹ کو غیر آئینی قرار دیا تھا۔ یہ فیصلہ ریاست میں اقلیتی برادریوں کے لیے حوصلہ افزا ہے۔ اس سے ان کے تعلیمی حقوق کو برقرار رکھنے اور آگے بڑھنے میں مدد ملے گی۔ اس فیصلے سے طلبائے مدارس کے تعلیمی حق اور مذہبی اقلیتوں اور ان کے تعلیمی اداروں کو تحفظ حاصل ہوگا، نیز اس فیصلے سے مذہبی اقلیتوں کے تعلیمی اداروں کو تحفظ فراہم کرنے والے آئینی اصولوں کی بھی توثیق ہوتی ہے۔ یہ فیصلہ ریاستی حکومت کو بھی یہ پیغام دیتا ہے کہ وہ مذہبی تعلیمی اداروں کو اپنی شناخت کے ساتھ دینی و عصری دونوں طرح کی تعلیم دینے کے حق کا احترام کرے، حکومت اس معاملہ میں مدارس کا مناسب تعاون تو کرسکتی ہے لیکن بے جا مداخلت نہیں کر سکتی۔ انہوں نے کہا کہ ایسے ماحول میں جہاں مدارس اسلامیہ کو اکثر سیاسی رنگ دیا جاتا ہے، یہ فیصلہ بہت اہم ہے۔ ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ مدارس کو نشانہ بنانے کے بجائے ایک بہتر نظام تعلیم کو فروغ دے جہاں سماج کے ہر طبقہ کو تعلیم کے حصول کے یکساں مواقع میسر ہوں۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 17 نومبر تا 23 نومبر 2024