یو پی کے دو لڑکوں’ راہل اور اکھلیش کی جوڑی مودی اور یوگی پر بھاری

رام مندر اور کاشی متھرا کا مدعا فلاپ۔ہندوؤں نے بھاجپا کو رد کر دیا۔ رام نگری ’ایودھیا‘ میں بی جے پی کو شکست فاش

عرفان الٰہی ندوی

بے روزگاروں کی ناراضگی ؛عوام نے جذباتی موضوعات کے بجائے حقیقی مسائل پر ووٹ دیا
دلت اور اقلیت پی ڈی اے کے پلیٹ فارم پر متحد۔لالو کے لال تیجسوی سے انڈیا گٹھ بندھن کو مایوسی!
شمالی ہند کے اس کالم میں قارئین کو یاد ہوگا کہ یو پی کو بار بار سب سے بڑی اور اہم ریاست لکھا گیا ہے۔ 2024 کے عام انتخابات نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ یو پی کے بغیر دلی کے تخت پر راج کرنا بہت مشکل ہے۔ اس دعوے کے پیچھے کئی اہم حقائق ہیں۔ اتر پردیش آبادی کے اعتبار سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ یہ اتنا بڑا ہے کہ اگر یو پی کو آزاد مملکت فرض کر لیا جائے تو یہ دنیا کا پانچواں سب سے بڑا ملک ہوگا۔ چین امریکہ اور انڈونیشیا کو چھوڑ دیں تو پاکستان اور برازیل جیسے ممالک بھی اس سے پیچھے ہوں گے۔
بھارت کے 543 رکنی پارلیمان میں 80 سیٹیں یو پی کے حصے میں آتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پارلیمانی تاریخ میں اب تک آٹھ وزرائے اعظم اس صوبے کی نمائندگی کر چکے ہیں۔ نریندر مودی بھی اپنی پیدائشی ریاست گجرات کو چھوڑ کر وارانسی کو اپنا سیاسی میدان عمل بنا چکے ہیں۔ انہوں نے سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت اس شہر کا انتخاب کیا ہے۔ بنارس کو قدیم زمانے سے ہی بھارت کی ثقافتی راجدھانی کا درجہ حاصل ہے۔ وزیر اعظم مودی نے ثقافت کی چاشنی سے مذہبی سیاست کا نیا مشروب تیار کیا جس کا نشہ کاشی سے کنیا کماری تک چڑھانے کی کوشش ہو رہی ہے، لیکن یو پی کے عوام نے اس نشے کو اتارنے کا آغاز کر دیا ہے۔
اتر پردیش کے انتخابات میں اس مرتبہ کئی موضوعات حاوی رہے۔ مغربی اور وسطی یوپی کے انتخابی عمل پر گہری نظر رکھنے والے سیاسی مبصر خان ایف رحمان نے ہفت روزہ دعوت سے خصوصی بات چیت میں کہا کہ یو پی میں مرحلے وار انتخابی موضوعات بدلتے رہے لیکن چار موضوعات ایسے ہیں جن کا راست تعلق عوام سے ہے اور ساتوں مرحلوں میں ان کا اثر دیکھا گیا، ان میں دستور کی حفاظت کا سوال سر فہرست ہے۔ بابا صاحب امبیڈ کر کے بنائے ہوئے آئین کو بچانے کے لیے پہلی بار دلت اور پچھڑے ہوئے طبقات ایک پلیٹ فارم پر دکھائی دے رہے ہیں۔
دوسرا اہم موضوع ریزرویشن کا رہا ہے۔ ریزرویشن کو لاگو کرنے میں حکم راں جماعت کی نا انصافی سے ناراض او بی سی کو ڈرانے کے لیے بی جے پی نے مسلم ریزرویشن کا موضوع اچھالا۔ تاہم، پچھڑے ہوئے طبقات اس پر انڈیا گٹھ بندھن کے ساتھ کھڑے رہے۔ اسی طرح نوجوانوں کے لیے بے روزگاری، مقابلہ جاتی امتحانات کے پرچے لیک ہونا اور مڈل کلاس کے لیے مہنگائی ایک اہم موضوع رہا۔
لکھنو کے سینئر صحافی اور تجزیہ نگار عبیداللہ ناصر نے ہفت روزہ دعوت سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یو پی میں پچھلے کئی انتخابات میں سہ رخی مقابلے ہوتے رہے لیکن اس بار این ڈی اے اور انڈیا گٹھ بندھن کے امیدواروں میں راست مقابلہ ہوا ہے۔ بی ایس پی نے سب سے زیادہ مسلم امیدواروں کو میدان میں اتارا اس کے باوجود ان کے امیدوار مسلمانوں کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام ثابت ہوئے۔ اس کے برعکس دلت طبقہ آئین بچانے کی لڑائی میں راہل گاندھی اور اکھلیش کے ساتھ کھڑا ہوا نظر آیا۔ سماج وادی پارٹی نے انتخابات میں پچھڑے ہوئے دلت اور اقلیتوں کو ایک ساتھ جوڑنے کے لیے پی ڈی اے کا فارمولا دیا جس نے انتخابات میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کے مطابق پوروانچل یعنی مشرقی یوپی میں دلت طبقات بڑی تعداد میں آئین کو بچانے کے نام پر پی ڈی اے کے ساتھ آئے ہیں۔ مشرقی یوپی میں مختار انصاری کی جیل میں مشتبہ موت نے کئی اضلاع میں اپنا اثر دکھایا ہے۔ یو پی کے لڑکوں یعنی راہل گاندھی اور اکھلیش یادو کی جوڑی مودی-یوگی پر بھاری پڑتی نظر آرہی ہے۔
یو پی کے تقریباً 38 حلقوں کا انتخابی کوریج کرنے والے نوجوان صحافی آس محمد کیف اپنے ایکس ہینڈل پر لکھتے ہیں ’یو پی کا دلت سماج اکھلیش یادو کے پی ڈی اے فارمولے سے مطمئن دکھائی دے رہا ہے۔ انڈیا گٹھ بندھن کو دلتوں کی بھاری بھرکم ووٹ ملے ہیں۔‘
یو پی میں سب سے طویل اور تھکا دینے والا انتخابی عمل 44 دنوں تک جاری رہا۔این ڈی اے نے ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے ساتھ کاشی اور متھرا میں مندروں کو پورے زور و شور کے ساتھ انتخابی موضوع بنانے کی کوشش کی لیکن انہیں ایودھیا میں ہی کانٹے کی ٹکر کا سامنا کرنا پڑا ۔
انڈس نیوز 7*24 کے ایڈیٹر ان چیف آشیش آنند نے ہفت روزہ دعوت سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ان انتخابات کا سب سے مثبت پہلو یہ رہا ہے کہ عوام حکم راں محاذ کے فرضی اور نقلی موضوعات کے بجائے اپنے اصلی موضوعات پر ڈٹے رہے۔ اس میں کانگریس پارٹی کے لیڈر راہل گاندھی نے خاص طور پر اور انڈیا گٹھ بندھن کی حلیف جماعتوں نے اہم رول ادا کیا ہے۔ عوام کے ساتھ دانشور طبقہ اور سوشل میڈیا نے بھی ہندو مسلم پولرائزیشن روکنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
یو پی کے انتخابی نتائج اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ آئین کی حفاظت کے لیے دلت اور پچھڑے ہوؤں کے ساتھ سماج کی تمام طبقات نے انڈیا گٹھ بندھن کا ساتھ دیا ہے۔ انہوں نے اپنا ذاتی تجربہ بیان کرتے ہوئے بتایا کہ اپنی صحافتی مصروفیات کے باوجود اپنی اہلیہ کے ساتھ بریلی میں اپنے آبائی گاؤں جا کر ووٹ ڈال کر آئے۔ ان کے مطابق گاؤں میں بی جے پی کے حامیوں کی اکثریت کے باوجود عوام نے خاموشی سے انڈیا گٹھ بندھن کے امیدوار کو ووٹ دیا۔ اسی طرح شاہ جہاں پور محفوظ پارلیمانی حلقے میں دلت طبقات اپنی برادری کے بجائے انڈیا گٹھ بندھن کے حق میں نظر آئے۔
یو پی ڈیموکریٹک فورم مشاورتی کمیٹی کے بانی رکن احمد عزیز خان نے ہفت روزہ دعوت کو بتایا کہ یو پی ڈی ایف پچھلے اسمبلی انتخابات سے ہی صوبے کی سیول سوسائٹیوں اور ملی تنظیموں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی کوشش کر رہا ہے۔ انہی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ یو پی میں فورم کے حمایت یافتہ امیدوار بڑی تعداد میں کامیاب ہوئے ہیں۔ فورم کی کوشش سے سیول سوسائٹی مضبوط ہوئی ہے۔ عوام نے امن اور عدل و انصاف کے نام پر ووٹ دیا ہے۔ انہوں نے آئندہ انتخابات میں فورم کو دیگر ریاستوں میں اپنے کام کو وسیع کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
سیاسی مبصر آشیش آنند کے مطابق ان انتخابات کی سب سے اچھی بات یہ رہی کہ عوامی موضوعات جیسے مہنگائی بے روزگاری آئین کا تحفظ اور تعلیم و صحت پھر سے زندہ ہو گئے ہیں۔ حکومت کسی کی بھی بنے اب کوئی حکومت عوام کے حقیقی مسائل کے بجائے مذہبی اور جذباتی موضوعات اچھالنے سے گریز کرے گی اور اسی میں جمہوریت کی کامیابی ہے۔
ان انتخابات کے شروعات میں ایسا لگ رہا تھا کہ حکم راں جماعت کو انتخابی مقابلے میں ہر طرح کی برتری حاصل ہے لیکن جیسے جیسے انتخابی عمل آگے بڑھا عوام کو محسوس ہونے لگا کہ ان کے حقیقی مسائل کو پس پشت ڈالا جا رہا ہے، وہ اس کے خلاف خاموش لیکن مضبوطی کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ گرمی کی شدت کے باوجود وہ پولنگ مراکز تک گئے اور رائے دہی کے حق کا بہتر استعمال کیا۔ انتخابی نتائج کی تفصیلی جائزے سے اس کے پیچھے کے کار فرما حقائق منظر عام پر آتے رہیں گے تاہم انتخابات نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ بھارت میں جمہوری نظام کافی مضبوط ہے، اسے اتنی آسانی سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ دلی کے تخت پر کون براجمان ہوگا یہ طے ہونے میں تھوڑا وقت لگ سکتا ہے دلی کے نتائج نے انڈیا گٹھ بندھن کو مایوس کیا ہے۔ راجستھان، ہریانہ، پنجاب اور جموں وکشمیر کے نتائج ملے جلے رہے ہیں۔ بہار میں الیکشن سے عین قبل این ڈی اے میں واپس جانے والے نتیش کمار نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ ان کا سیاسی تجربہ لالو کے لال سے زیادہ ہے۔ تیجسوی یادو نے انڈیا گٹھ بندھن کو مایوس کیا ہے۔ایک انتخابی مبصر نے یو پی کے نتائج پر دل چسپ تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس بار مودی کی شیروانی کا سائز کم ہو جائے گا؟
یو پی کے ووٹروں نے اب کی بار چار سو کے پار کے این ڈی اے کے نعرے کی ہوا بھی نکال دی ہے۔
تو صاحبو! یہ تھا شمال کا حال۔ آئندہ ہفتہ پھر ملیں گے تازہ اور دلچسپ احوال کے ساتھ۔ تب تک کے لیے اللہ اللہ خیر سلا
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 09 جون تا 15 جون 2024