یو پی اور دیگر ریاستوں میں ضمنی انتخابات

ذات برادری کی صف بندی سے بازی جیتنے کی کوشش

شہاب فضل، لکھنؤ

سماجوادی پارٹی کے ساتھ ساتھ این ڈی اے پر بھی امیدواروں کے انتخاب میں ذات برادری کا خیال غالب
بیرسٹر اسدالدین اویسی کی پارٹی سے بھی تین اسمبلی حلقوں میں امیدوار
یو پی کے نو اسمبلی حلقوں میں آئندہ 13نومبر کو ہونے والے ضمنی اسمبلی انتخابات میں فرقہ پرستی اور ذات برادری کا اثر تو رہے گا مگر چونکہ کانگریس نے سماجوادی پارٹی کے ساتھ اپنی مفاہمت کو برقرار رکھتے ہوئے الیکشن نہ لڑنے کا فیصلہ کیا ہے اس لیے اب ایس پی اور بی جے پی کے درمیان براہ راست دو رخی مقابلہ ہونے جا رہا ہے۔ یہ ضمنی انتخابات لوک سبھا انتخابات کے چند ماہ بعد ہی منعقد ہو رہے ہیں جس میں انڈیا اتحاد نے یو پی کی 80 لوک سبھا سیٹوں میں سے 43 سیٹیں جیت لی تھیں اور بی جے پی کی قیادت والے اتحاد این ڈی اے کو 2019 کے انتخابات میں حاصل ہونے والے 66 سیٹوں میں سے تیس سیٹوں کا نقصان ہوا تھا، اس لیے اہم سوال یہ ہے کہ نو اسمبلی سیٹوں میں جو پانچ سیٹیں این ڈی اے اتحاد کے پاس اور چار سیٹیں سماجوادی پارٹی کے قبضہ میں تھیں ان پر کیا پچھلے لوک سبھا الیکشن جیسا ہی کوئی رجحان دیکھنے کو ملے گا؟ یہ ضمنی انتخاب اس معنیٰ میں بھی اہم ہے کہ یہ بی جے پی میں یو پی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی ساکھ اور رسوخ پر بھی اثر انداز ہوگا۔
انتخابی میدان میں بہوجن سماج پارٹی بھی ہے اور تین سیٹوں پر بیرسٹر اسدالدین اویسی کی مجلس اتحاد المسلمین اور چندر شیکھر کی آزاد سماج پارٹی بھی انتخاب لڑ رہی ہے ۔
یو پی کے جن نو اسمبلی حلقوں میں آئندہ 13 نومبر کو ووٹ ڈالے جائیں گے ان میں کٹہری (ضلع امبیڈکر نگر) کرہل (مین پوری) میراپور (مظفر نگر) غازی آباد، مجھواں (مرزا پور) سیسامؤ (کانپور شہر) کھَیر- محفوظ حلقہ (علی گڑھ) پھول پور (پریاگ راج) اور کندرکی (مرادآباد) اسمبلی حلقے شامل ہیں۔ ان میں سے ایک سیسامؤ سیٹ ایک معاملہ میں حاجی عرفان سولنکی کو سزا ہونے کے باعث ان کی معطلی سے خالی ہوئی ہے جب کہ بقیہ آٹھ سیٹیں اراکین اسمبلی کے 2024 کے عام انتخابات میں رکن پارلیمان منتخب ہونے کی وجہ سے خالی ہیں۔
نامزدگی پرچوں کی جانچ کے بعد 30 اکتوبر نام کی واپسی کی آخری تاریخ ہے۔ پولنگ 13 نومبر کو اور ووٹوں کی گنتی 23 نومبر کو ہوگی۔
اس ضمنی انتخاب میں مسلم سیاست کہاں کھڑی ہے اور مسلمانوں کا کیا کردار ہوگا اس کا تجزیہ کرنے سے قبل یہ جاننا دلچسپ ہوگا کہ ذات برادری کا دھیان رکھتے ہوئے انتخابی حلقوں میں کیسی بساط بچھائی گئی ہے اور کون سے عوامل رائے دہندگی کو متاثر کریں گے۔
ایودھیا کی ملکی پور سیٹ کا معاملہ
اترپردیش میں ایودھیا کی ملکی پور اسمبلی سیٹ بھی اس وقت خالی ہے کیوں کہ یہاں سے سماجوادی پارٹی کے ٹکٹ پر اسمبلی الیکشن جیتنے والے اودھیش پرساد 2024 کے عام انتخابات میں رکن پارلیمان منتخب ہوگئے، لیکن ان کے انتخاب کے سلسلہ میں الٰہ آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت ایک انتخابی پٹیشن کو بنیاد بناکر الیکشن کمیشن نے یہاں ضمنی انتخاب کا اعلان نہیں کیا۔ حالانکہ اودھیش پرساد اب رکن اسمبلی نہیں ہیں پھر بھی ان کے انتخاب کو چیلنج کرنے والی عرضی پر سماعت عقل و منطق سے پرے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ الیکشن کی تاریخوں کا اعلان ہوتے ہی اس پر قیاس آرائیوں کا بازار گرم ہوگیا کہ آخر ملکی پور کو کمیشن نے کیوں چھوڑ دیا اور کہیں یہ بی جے پی کی ساکھ کو بچانے کی کوشش تو نہیں یے؟ یاد رہے کہ 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں فیض آباد لوک سبھا سیٹ پر نو بار کے ایم ایل اے اودھیش پرساد نے بی جے پی کے امیدوار للّو سنگھ کو شکست دی تھی جس سے بھگوا پارٹی کی بڑی فضیحت ہوئی تھی۔ ملکی پور چونکہ ضلع ایودھیا میں ہے اس لیے بی جے پی خیمہ یہاں کسی بھی قیمت پر جیتنا چاہتا ہے۔
اسمبلی حلقے اور امیدوار
یو پی کے جن حلقوں میں ضمنی الیکشن ہو رہا ہے اس میں ای پی کے سربراہ اکھلیش یادو نے چار مسلم، تین پسماندہ طبقہ اور دو دلت امیدوار میدان میں اتارے ہیں۔ اسی طرح پی ڈی اے (پسماندہ، دلت اور اقلیت) کے اپنے نعرے کی انہوں نے لاج رکھی ہے۔ دوسری طرف بی جے پی نے بھی ہر حلقہ میں ووٹروں کے ذات برادری کے تناسب کا بطور خاص دھیان رکھا ہے۔ بی جے پی کے چار امیدوار پسماندہ طبقات میں سے نشاد، کُرمی، موریہ اور یادو برادری سے ہیں جب کہ دو دلت، ایک ٹھاکر اور ایک برہمن طبقہ سے ہے۔ حلقہ وار تفصیل کچھ یوں ہے:
میراپور: میراپور اسمبلی حلقہ مظفر نگر میں واقع ہے، جہاں سے ایس پی نے قد آور رہنما اور مظفر نگر کے سابق رکن پارلیمنٹ قادر رانا کی بہو سنبل رانا کو اپنا امیدوار بنایا ہے۔ وہ بی ایس پی کے سینئر رہنما اور پارٹی کوآرڈنیٹر منقاد علی کی بیٹی ہیں۔ بی جے پی کی ایک اتحادی راشٹریہ لوک دل نے یہاں متھلیش پال کو اپنا امیدوار بنایا ہے۔
آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے ریاستی صدر شوکت علی نے بتایا کہ ان کی پارٹی کے ٹکٹ پر ارشد رانا یہاں سے میدان میں ہیں۔ وہ کانگریس سے وابستہ رہے ہیں اور 2022 میں ان کی اہلیہ نے کانگریس کے ٹکٹ پر کھتولی سے الیکشن لڑا تھا۔ میراپور میں مسلم ووٹروں کی تعداد تقریباً سوا لاکھ بتائی جاتی ہے جن پر ایم آئی ایم اور ایس پی کی نظر ہے۔
گزشتہ اسمبلی الیکشن میں ایس پی کی اس وقت کی اتحادی راشٹریہ لوک دل کے ٹکٹ پر میرا پور سے چندن سنگھ چوہان نے کامیابی حاصل کی تھی جو اب نگینہ لوک سبھا سیٹ سے رکن پارلیمنٹ ہیں۔
غازی آباد:یہاں سے 2022 میں بی جے پی کے اتل گرگ جیتے تھے جو 2024 میں غازی آباد لوک سبھا سیٹ سے رکن پارلیمان منتخب ہوگئے۔ اب پارٹی نے اپنے غازی آباد کے صدر سنجیو شرما کو ٹکٹ دیا ہے، جب کہ ایس پی نے سنگھ راج جاٹو کو اپنا امیدوار بنایا ہے جو دلت ہیں۔ اس سیٹ پر بی جے پی کی پوزیشن مضبوط سمجھی جا رہی ہے، تاہم ایک جاٹو امیدوار کو ٹکٹ دے کر اکھلیش یادو نے بی جے پی اور بی ایس پی دونوں کے خیمہ میں ہلچل پیدا کردی ہے۔ بی ایس پی کے امیدوار پرمانند گرگ، بنیا برادری سے تعلق رکھتے ہیں ۔
غازی آباد سے ایم آئی ایم نے بھی ڈاکٹر روی کمار گوتم کی شکل میں اپنا ایک امیدوار اتارا ہے جو جاٹو دلت برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہاں گزشتہ چار دفعہ کے اسمبلی انتخاب میں تین دفعہ بی جے پی امیدوار کامیاب رہا ہے۔
ایس پی کے قومی ترجمان راجیندر چودھری کے بقول غازی آباد اسمبلی حلقہ میں تقریباً ایک لاکھ جاٹو ووٹر ہیں۔ دو جاٹو امیدوار اپنی برادری کے کتنے ووٹ حاصل کر پائیں گے یہ دیکھنے والی بات ہوگی۔
کندرکی (مرادآباد): مسلم اکثریت والے اس حلقہ سے ایس پی نے سابق رکن اسمبلی حاجی محمد رضوان کو امیدوار بنایا ہے جب کہ بی جے پی نے راجپوت برادری سے تعلق رکھنے والے رام ویر ٹھاکر کو ٹکٹ دیا ہے جو اس سے قبل دو بار یہاں اسمبلی الیکشن ہار چکے ہیں ۔ رفعت اللہ بی ایس پی کے ٹکٹ پر میدان میں ہیں جب کہ اسد الدین اویسی کی پارٹی بھی یہاں قسمت آزما رہی ہے ۔ ایم آئی ایم کے ریاستی صدر شوکت علی نے بتایا کہ حافظ وارث کو پارٹی نے کندرکی سے اپنا امیدوار بنایا ہے جنہوں نے 2022 کے اسمبلی الیکشن میں 14 ہزار ووٹ حاصل کیے تھے۔ رکن پارلیمنٹ چندر شیکھر آزاد کی آزاد سماج پارٹی کے ٹکٹ پر چاند بابو بھی اپنی قسمت آزما رہے ہیں۔
گزشتہ اسمبلی الیکشن میں کندرکی سے ایس پی کے ٹکٹ پر ضیاءالرحمٰن برق کامیاب ہوئے تھے، جو فی الوقت سنبھل سے رکن پارلیمنٹ ہیں۔
کھَیر:علی گڑھ ضلع کا کھَیر درج فہرست ذاتوں کے لیے محفوظ اسمبلی حلقہ ہے جہاں سے ایس پی نے ڈاکٹر چارو کین کو اپنا امیدوار بنایا ہے۔ وہ 2022میں بی ایس پی کے امیدوار کے طور پر الیکشن ہار گئی تھیں۔ بی جے پی نے سابق رکن پارلیمان آنجہانی راج ویر دلیر کے بیٹے سریندر دلیر کو ٹکٹ دیا ہے جنہیں ان کے والد کے دیہانت کے بعد ہمدردی کے ناطے ووٹ مل سکتے ہیں۔
گزشتہ اسمبلی الیکشن میں کھَیر حلقہ سے بی جے پی کے ٹکٹ پر انوپ پردھان کامیاب ہوئے تھے جو فی الوقت رکن پارلیمنٹ ہیں ۔
سیسامو: اس اسمبلی حلقہ سے ایس پی نے اپنے معطل شدہ رکن اسمبلی عرفان سولنکی کی اہلیہ نسیم سولنکی کو ٹکٹ دیا ہے جب کہ بی جے پی نے سریس اوستھی کو اپنا امیدوار بنایا ہے جو 2017 میں عرفان سولنکی سے ہار گئے تھے اور پھر 2022 میں آریہ نگرحلقہ سے بھی شکست سے دوچار ہوئے۔
کرہل:مین پوری کی کرہل سیٹ ایس پی کی روایتی سیٹ سمجھی جاتی ہے، جہاں سے سابق رکن پارلیمنٹ تیج پرتاپ یادو ایس پی کے امیدوار ہیں جو ملائم سنگھ یادو کے رشتہ کے پوتے اور آر جے ڈی کے رہنما لالو پرساد یادو کے داماد ہیں، جب کہ بی جے پی نے انوجیش یادو کو ٹکٹ دیا ہے جو ملائم سنگھ یادو کے ایک بھائی ابھے رام یادو کی بیٹی سندھیا یادو کے شوہر ہیں۔ 2022 میں اکھلیش یادو کرہل سے رکن اسمبلی منتخب ہوئے تھے اور 2024 میں قنوج سے ان کے رکن پارلیمان منتخب ہونے کے باعث یہاں ضمنی الیکشن ہورہا ہے۔ بی ایس پی نے یہاں سے ڈاکٹر اویناش کمار شاکیہ کو ٹکٹ دیا ہے۔ کرہل میں یادو ووٹروں کے بعد شاکیہ ووٹروں کی تعداد سب سے زیادہ ہے، اس اعتبار سے بی ایس پی کے ٹکٹ پر اویناش کمار شاکیہ کی امیدواری معنیٰ خیز ہے ۔
کٹہری: اس حلقہ سے شوبھاوتی ورما ایس پی کی امیدوار ہیں جو امبیڈکر نگر سے پارٹی کے لوک سبھا رکن لال جی ورما کی اہلیہ ہیں۔لال جی ورما 2022 میں یہاں سے اسمبلی انتخاب جیتے تھے۔ بی جے پی نے یہاں سے لگاتار تین دفعہ کے رکن اسمبلی دھرم راج نشاد کو ٹکٹ دیا ہے۔ وہ یو پی میں بی ایس پی کی حکومت میں وزیر رہ چکے ہیں اور دو سال قبل ہی بی جے پی میں شامل ہوئے۔
پھولپور 69: سالہ محمد مجتبیٰ صدیقی یہاں سے ایس پی کے ٹکٹ پر میدان میں ہیں۔ 2022 کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کے پروین پٹیل نے یہاں جیت حاصل کی تھی جو فی الحال پھول پور لوک سبھا حلقہ سے رکن پارلیمنٹ ہیں۔ بی جے پی نے یہاں کرچھنا حلقہ کے سابق رکن اسمبلی دیپک پٹیل کو امیدوار بنایا ہے جو کُرمی برادری سے ہیں۔ وہ پھولپور کے سابق رکن پارلیمنٹ کیشری دیوی پٹیل کے بیٹے ہیں۔
مجھواں:ضلع مرزا پور کے اس اسمبلی حلقہ سے جیوتی بِند ایس پی کے ٹکٹ پر میدان میں ہیں جو یہیں سے تین بار کے سابق ایم ایل اے اور بھدوہی کے رکن پارلیمنٹ رمیش بِند کی بیٹی ہیں۔بی جے پی نے سوچسمتا موریہ کو اپنا امیدوار بنایا ہے جنہوں نے اس سے قبل 2017 کے اسمبلی الیکشن میں جیوتی بِند کے والد اور لگاتار تین بار ایم ایل اے رہنے والے رمیش چند بِند کو ہرایا تھا۔ دوسری طرف بی ایس پی نے دیپک تیواری کو انتخابی میدان میں اتارا ہے۔ اس حلقہ میں نشاد اور برہمن ووٹروں کی اچھی خاصی تعداد ہے ۔
پولرائزیشن کی کوشش اور ذات برادری کی صف بندی
گزشتہ تین ہفتوں میں یو پی کے بہرائچ سمیت بارہ بنکی، بڈھانہ (مظفر نگر) غازی آباد، بلند شہر، مجھولی راج (دیوریا) منجھن پور (کوشامبی) پڈرونہ (کشی نگر) اور گونڈہ میں درگا پوجا تیوہار میں مورتی وِسرجن جلوس کے بہانے ماحول میں ہندو مسلم نفرت گھولنے کی کوشش کی جاچکی ہے۔ اس کو انتخابات سے جوڑ کر بھی دیکھا جا رہا ہے ۔
انگریزی نیوز پورٹل دی وائر سے وابستہ سینئر صحافی عمر راشد نے ایک خاص بات چیت میں کہاکہ انتخابات کے حوالہ سے آج یو پی میں فرقہ وارانہ بیان بازی سے زیادہ ذات برادری کی صف بندی اہم نظر آتی ہے۔ پانچ سے زیادہ سیٹیں اگر این ڈی اے جیتتی ہے تو وزیر اعلیٰ یوگی کو اپنی پشت تھپتھپانے کا موقع ملے گا۔ انہوں نے کہاکہ 2027 کا اسمبلی الیکشن ابھی کافی دور ہے، ہاں اکھلیش یادو کی کارکردگی اگر اچھی رہی تو اسے گزشتہ لوک سبھا انتخابات کا ایک تسلسل مانا جائے گا اور 2027 میں انہیں یو پی کی دیگر چھوٹی پارٹیوں سے تال میل یا اتحاد قائم کرنے کا موقع ملے گا ۔
ضمنی انتخاب نہ لڑنے کے کانگریس کے فیصلے کو انہوں نے یہ کہتے ہوئے ایک اچھا فیصلہ بتایا کہ کانگریس کی زمین یو پی میں ابھی کمزور ہے۔ یو پی کے امیدواروں کی مدد کرکے کانگریس اپنے اتحاد کو مزید مستحکم کرسکتی ہے۔ عمر راشد نے بتایا کہ پھولپور میں کانگریس کے ایک عہدیدار نے آزاد امیدوار کے طور پر اپنا پرچہ نامزدگی داخل کر دیا تھا جس پر پارٹی نے ڈسپلن شکنی کی کارروائی کی اور اسے عہدے سے ہٹا دیا۔ ایسا پہلی بار ہوا ہے جب راہل گاندھی اور ان کی ٹیم ڈسپلن پر توجہ دے رہی ہے اور پنجے کے نشان پر کوئی امیدوار نہ ہونے کے باوجود کانگریسی کارکن انتخابی حلقوں میں محنت کر رہے ہیں۔
کانگریس میں بوتھ سطح تک سرگرم رہنے پر زور
ایس پی کے سربراہ اکھلیش یادو مہاراشٹر کے انتخاب میں اپنے انڈیا اتحادیوں سے 12 سیٹیں مانگ رہے تھے مگر انہیں چار سیٹوں پر ہی مطمئن ہونا پڑا۔ ہریانہ اور جموں و کشمیر کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس کے خراب مظاہرے نے یو پی میں اسے پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا ۔گزشتہ نو اکتوبر کو اکھلیش یادو نے جب یو پی میں چھ سیٹوں پر اپنے امیدواروں کا اعلان کردیا تو کانگریس کے پاس گفت و شنید کے لیے کچھ خاص نہیں بچا اور راہل گاندھی نے ایس پی کے امیدواروں کو اپنی بھرپور حمایت کا اعلان کردیا۔ کانگریس نے یو پی کی سبھی نو سیٹوں پر اپنے سینئر رہنماؤں کو انچارج اور آبزرور مقرر کیا ہے اور انہیں انتخابی حلقوں میں سرگرم رہنے کی تاکید کی ہے۔ یہی نہیں، سبھی سیٹوں پر بوتھ سطح کے ایجنٹ بھی مقرر کیے ہیں تاکہ کارکنوں میں جوش برقرار رہے اور تنظیم کو مضبوطی ملے ۔
مسلم سیاست کے پیچیدہ چیلنجز
انتخابی میدان میں مسلم پارٹیوں کے اترنے کے کیا امکانات ہوسکتے ہیں؟ یہ ایک نہایت ہی اہم سوال ہے. کیونکہ یو پی میں گزشتہ تقریباً بیس برسوں میں نشاد پارٹی، اپنا دل اور سہیل دیو بھارتیہ سماج پارٹی جیسی سیاسی جماعتیں ابھر کر آئی ہیں جو مخصوص برادریوں کی پارٹیاں ہیں اور جن کے رہنماؤں نے اپنے حقوق کے لیے سڑکوں پر اترکر مظاہرے کیے۔ پھر ایس پی یا بی جے پی کے ساتھ انتخابی اتحاد و مفاہمت کے بعد موجودہ وقت میں ان کے کئی لیڈر ایوان اقتدار میں ہیں۔ یو پی میں مسلم شناخت کے ساتھ ڈاکٹر ایوب کی پیس پارٹی ابھری اور راشٹریہ علماء کونسل بھی سرگرم ہوئی مگر دونوں پارٹیاں اب منظرنامہ سے تقریباً غائب ہیں ۔اب صرف بیرسٹر اسد الدین اویسی کی ایم آئی ایم ہی یہاں وہاں انتخابات میں دستک دیتی ہوئی نظر آتی ہے ۔ مخالفین انہیں بی جے پی کی بی ٹیم کہتے ہیں مگر بیرسٹر اویسی اتنی ہی سختی کے ساتھ اس کی تردید کرتے ہیں اور مخالفین کے دلائل کا معقول جواب بھی دیتے ہیں۔
ملٹی پارٹی یا کثیر جماعتی انتخابی نظام میں کسی بھی پارٹی سے کوئی بھی شخص ٹکٹ کا طلبگار ہوسکتا ہے یا کوئی بھی پارٹی کسی بھی شخص کو اس کی برادری یا مذہب کا خیال رکھتے ہوئے اپنا امیدوار بناسکتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی آزاد امیدوار کے طور پر بھی لوگ الیکشن لڑسکتے ہیں ۔ایسی صورت میں مثال کے طور پر ایس پی یا بی ایس پی سے کوئی یہ کیسے مطالبہ کر سکتا ہے کہ کسی مخصوص حلقہ میں کوئی ایک ہی پارٹی مسلم امیدوار اتارے اور دوسرے لوگ مسلم امیدوار نہ اتاریں تاکہ ووٹ تقسیم نہ ہوں؟ کثیر جماعتی انتخابی نظام میں یہ مطالبہ کرنا اور رہنماؤں کے ذاتی عزائم یا اقتدار و عہدوں کی آرزو کو نظر انداز کرنا سادہ لوحی سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔
ایک طرف مسلم سیاست کے یہ پیچیدہ چیلنجز ہیں تو دوسری طرف ‘بٹوگے تو کٹوگے ’’ کا نعرہ ہے جو وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ جیسے لوگ عوامی اسٹیج سے بلند کرتے ہیں اور آر ایس ایس کے سینئر رہنما ان کی توثیق کرتے ہیں۔
اس سلسلہ میں ایس پی کے ایک سینئر رہنما نے کہاکہ ‘بٹوگے تو کٹوگے ’’ کا نعرہ آر ایس ایس کے لیب سے ہی تیار ہوا ہے جو اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کی ایک کوشش ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلم رہنماؤں کے پاس اس کے توڑ کے لیے کیا حکمت عملی ہے یہ انہیں ہی صبر و تحمل کے ساتھ طے کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ جہاں تک مسلم عوام اور عام ووٹروں کا تعلق ہے تو انہیں ہمارے رہنما نہ جانے کیوں احمق سمجھتے ہیں، جب کہ مسلم ووٹروں کی اکثریت سیاسی اعتبار سے باشعور ہے، اور جب سے نفرتی سیاست کا عروج ہوا ہے وہ ایسے ہی امیدواروں کو اپنا ووٹ دیتے ہیں جو بھگوا پارٹی کے بالمقابل جیتتا ہوا نظر آتا ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ ایس پی نے نو میں سے چار سیٹوں پر مسلم امیدوار اتارے ہیں۔ اس کے علاوہ اسٹار پرچارکوں یعنی انتخابی مہم میں حصہ لینے والے جن سینئر رہنماوؤں کی فہرست الیکشن کمیشن کو بھیجی ہے ان میں سینئر رہنما اعظم خاں کا نام بھی شامل ہے۔ ایس پی کے رہنما نے کہاکہ مسلم رہنماؤں کو ملک میں ذات برادری کی سیاست اور سماجی ڈھانچہ کی سمجھ پیدا کرنی ہوگی اور لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے انداز و اطوار بدلنے ہوں گے۔
معروف کالم نویس اور بھارت جوڑو ابھیان کے قومی کنوینر یوگیندر یادو نے 22 اکتوبر کو انڈین ایکسپریس میں شائع ہونے والے اپنے ایک کالم میں لکھا کہ بھارت میں مسلمانوں کی حالت اس وقت یہ ہے کہ وہ اپنے جان و مال کے تحفظ کے لیے ووٹ دیتے ہیں۔ ان کے بقول بی جے پی کا عروج مسلم مخالف نفرتی سیاست کے ہی مرہون منت ہے جب کہ نام نہاد ‘سیکولر’ پارٹیوں نے انہیں تنہا چھوڑ دیا ہے جس سے حالات مزید ابتر ہوئے ہیں۔ چنانچہ مسلمان اس وقت اپنے وجود کی بقا کے لیے ہی ووٹ دے رہے ہیں۔
یوگیندر یادو نے اس سلسلہ میں سنٹر فار دی اسٹڈی آف ڈیولپنگ سوسائٹیز (سی ایس ڈی ایس) کے ڈاکٹر ہلال احمد اور ان کی تحقیق کا بطور خاص حوالہ دیا اور مسلم سماج کے تنوع کو سمجھنے پر زور دیا جو مسلمانوں کی نئی سیاسی شیرازہ بندی میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ یوگیندر یادو نے علی انور اور اصغر علی انجینئر کی کاوشوں کے حوالے سے اس بات پر بھی زور دیا کہ کچھ مخصوص غیر مسلم کمیونٹیوں کے ساتھ مسلمانوں کی مختلف کمیونٹیوں کے اشتراک و مفاہمت کی راہیں تلاشی جا سکتی ہیں اور اس طرح سنگھ پریوار کی نفرت انگیز مہم کو مزید پنپنے سے روکا جاسکتا ہے۔
دیگر ریاستوں میں ضمنی انتخابات
خیال رہے کہ یو پی کے علاوہ ملک کی دیگر ریاستوں کے 39 اسمبلی اور دو پارلیمانی حلقوں میں بھی ضمنی انتخابات ہو رہے ہیں۔ ان میں مغربی بنگال کے چھ اسمبلی حلقے (سیتائی، مداری ہاٹ، نیہاٹی، ہرووا، میدنی پور اور تال ڈانگرا) راجستھان کے سات (جھن جھنو، رام گڑھ، دوسا، دیولی اُنیارا، کھنوسار، سالمبر اور چوراسی) آسام کے پانچ (دھولئی، سڈلی، بونگائی گاؤں، بیہالی اور سماگری) بہار کے چار (تاراری، رام گڑھ، امام گنج اور بیلا گنج) پنجاب کے چار (ڈیرہ بابا نانک، چبّے وال، گدّیرباہا اور برنالا) کرناٹک کے تین (شِگّاؤں، سندور اور چن پٹن) کیرالا میں دو (پلکّڈ اور چیلکّارا) مدھیہ پردیش کے دو (بدھنی اور وجے پور) سکم کے دو (سورینگ چاکنگ اور نامچی سنگھی تھانگ) اور چھتیس گڑھ، گجرات، میگھالیہ اور اتراکھنڈ کا ایک ایک اسمبلی حلقہ (رائے پور سٹی ساؤتھ، واؤ، گامبیگرے اور کیدار ناتھ) شامل ہے۔ کیرالا اور مہاراشٹر میں ایک ایک پارلیمانی حلقہ میں بھی ضمنی الیکشن ہو رہا ہے۔ ان سبھی حلقوں میں 13 نومبر کو ووٹ ڈالے جائیں گے، سوائے مہاراشٹر کی ناندیٹر پارلیمانی سیٹ اور اتراکھنڈ کی کیدار ناتھ اسمبلی سیٹ کے، جہاں 20 نومبر کو ووٹنگ ہوگی اور ووٹ شماری 23 نومبر کو ہوگی۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 3 نومبر تا 9 نومبر 2024