
انیسویں صدی کے امریکہ کی جھلک۔ بہار میں شہریت کا نیا بحران
دستاویزی کفایت کے نام پر سیاسی چال؟ محروم طبقات کو خاموش کرنے کی منظم کوشش
اشوتوش ورشنے، امریکہ
ووٹر لسٹ سے اخراج کا نیا فارمولا؛ "شہریت ثابت کرو، حق رائے دہی پاؤ” غریب، دلت، مسلمان اور پسماندہ طبقات نشانے پر
بہار میں جمہوری اقدار پر کاری ضرب لگی ہے کیونکہ بھارت کے الیکشن کمیشن (ECI) نے اعلان کیا ہے کہ آئندہ اسمبلی انتخابات میں صرف وہی لوگ ووٹ ڈال سکیں گے جو اپنی شہریت ثابت کر پائیں گے۔
یہ بات درست ہے کہ آئینی اصول کے تحت صرف شہریوں کو ہی ووٹ دینے کا حق حاصل ہے لیکن جس طریقے سے شہریت کو ثابت کرنا ہوگا اور جن دستاویزات کی فہرست طلب کی گئی ہے اس کا نتیجہ تمام شہریوں کو ووٹ دینے کی اجازت کے بجائے خاص طور پر محروم طبقے کے افراد کی رائے دہی سے محرومی کی صورت میں نکلے گا۔ شہریت جو اصولی طور پر ایک جامع (inclusionary) تصور ہے، عملی طور پر ایک اخراجی (exclusionary) ہتھیار بن جائے گی۔
بہار میں پیش آنے والے اس اچانک معاملے کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے تاریخی تقابل کی طرف رجوع کرنا سود مند ثابت ہوگا۔
شہریت اور رعیت
جدید سیاسی اسالیب اور طریقہ کار میں رعایا اور شہری کے درمیان ایک نمایاں فرق بیان کیا گیا ہے۔ رعایا کا تصور قبل از جدید دور کی سیاست میں پایا جاتا تھا، اگرچہ وہ جدید عہد میں بھی کسی حد تک در آیا۔ بادشاہوں کی رعایا ہوتی تھی جن کے حقوق و مراعات شاہی رحم و کرم پر منحصر ہوتے تھے۔
اس کے برعکس شہریت کا تصور اٹھارہویں صدی کے اختتام پر امریکی اور فرانسیسی انقلابات کے ساتھ پیدا ہوا۔ اصولی طور پر شہریت ایک سیاسی برادری میں شمولیت اور اس سے جڑے حقوق کا نام ہے۔ شہریت کے حقوق کسی بادشاہ کی مرضی پر نہیں بلکہ مساوی بنیادوں پر منحصر ہوتے ہیں۔ شہریت جامع اور مساوات پر مبنی تصور ہے، جب کہ رعیت طبقاتی امتیاز اور مراعات پر مبنی ایک اخراجی نظام تھا۔
بیسویں صدی میں جب زیادہ تر جدید ریاستیں جمہوری بننے لگیں (اگرچہ سب نہیں) تو ووٹ دینا شہریت کا بنیادی حق بن گیا جس میں طبقہ، نسل یا جنس کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد عمومی ووٹ دہی (universal franchise) جمہوری شہریت کی روح بن گئی۔
تاہم تاریخ میں ایسے مواقع بھی آئے جب شہریت کے جامع تصور کو بڑی شدت سے محدود کر دیا گیا۔ ہمیں ایسے واقعات کو ذہن میں رکھنا ہوگا جب ہم بہار میں ECI کی نئی پالیسی کے نتائج پر غور کرتے ہیں۔
شہریت کی شدید کٹوتی کی تاریخی مثال
شہریت کے خاتمے یا اس میں زبردست کٹوتی کی سب سے نمایاں مثال انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے وسط کے درمیان کا جنوبی امریکہ ہے۔ جب 1865 میں امریکی خانہ جنگی ختم ہوئی جو شمالی (زیادہ تر ریپبلکن) اور جنوبی (ڈیموکریٹ) ریاستوں کے درمیان لڑی گئی اور شمال کو فتح حاصل ہوئی تو امریکی آئین میں 13ویں ترمیم کے ذریعے غلامی کا خاتمہ ہوا، 14ویں ترمیم کے تحت سیاہ فام امریکیوں کو پہلی بار شہریت ملی اور 15ویں ترمیم کے ذریعے بالغ سیاہ فام مردوں کو ووٹ دینے کا حق حاصل ہوا۔
1873-74 تک جنوبی ریاستوں میں 80-85 فیصد سیاہ فام افراد نے ووٹ کے لیے اندراج کروا لیا تھا۔ لیکن 1876 کے بعد ڈیموکریٹک پارٹی دوبارہ اقتدار میں آ گئی اور ان کا ایک اہم سیاسی مقصد سیاہ فام افراد کو ووٹ کے حق سے محروم کرنا تھا۔
انہوں نے یہ اس طرح کیا کہ خواندگی کے ٹیسٹ، ووٹ دینے کے لیے ٹیکس اور مختلف دیگر دستاویزات کی شرط لاگو کر دیے۔ سیاہ فام افراد کی شرح خواندگی بہت کم تھی اور ان کی آمدنی اتنی کم تھی کہ وہ ووٹ ٹیکس ادا کرنے کے قابل نہیں تھے۔ اس کے نتیجے میں، 1870 کی دہائی کے وسط میں ووٹ ڈالنے والے سیاہ فام افراد کی شرح 84-85 فیصد سے گر کر 1904-05 میں صرف 4-5 فیصد رہ گئی۔ یہ حق رائے دہی 1965 میں بحال ہوا، یعنی تقریباً سات سے آٹھ دہائیوں تک سیاہ فاموں کو ووٹ سے محروم رکھا گیا۔
بہار میں مماثلتیں
الیکشن کمیشن آف انڈیا کا بہار کے لیے منصوبہ کئی اعتبار سے امریکہ کے اس تجربے سے مماثلت رکھتا ہے۔ سب سے بنیادی اور حیران کن بات یہ ہے کہ امریکہ کی طرح اب ووٹر کے اندراج کی ذمہ داری حکومت کے بجائے خود شہری پر ڈال دی گئی ہے، حالانکہ یہ کام ہمیشہ حکومت کا تھا۔ اب لوگوں کو خود اپنی شہریت ثابت کرنے کے لیے دستاویزات جمع کرانی ہوں گی تاکہ وہ ووٹ ڈال سکیں۔
بھارت کے بانیوں کا یہ مفروضہ تھا کہ غریب عوام اتنی خواندہ یا بااختیار نہیں ہوں گے کہ خود آگے بڑھ کر ووٹر کے طور پر اندراج کروائیں، اس لیے حکومت کو چاہیے کہ اپنی وسیع وسائل کے ذریعے ان تک پہنچے اور انہیں ووٹر فہرست میں شامل کرے۔ دوسری مماثلت خواندگی سے جڑی ہوئی ہے۔ آخری مردم شماری (2011) کے مطابق بہار کی شرح خواندگی صرف 61.8 فیصد تھی، جبکہ قومی اوسط 73 فیصد ہے۔ ایسے غیر خواندہ شہری جو بہار میں بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں، ان کے پاس ممکنہ طور پر وہ دستاویزات نہیں ہوں گی جو ECI مانگ رہا ہے مثلاً پیدائش کا سرٹیفکیٹ، پاسپورٹ، میٹرک کا سرٹیفکیٹ وغیرہ تاکہ وہ اپنی شہریت ثابت کر سکیں۔
ان لوگوں کے لیے جو عارضی طور پر بہار سے باہر مقیم ہیں چاہے ان کے پاس بہار میں اندراج شدہ دستاویزات ہوں یا نہ ہوں ECI نے لازمی قرار دیا ہے کہ وہ جزوی طور پر پہلے سے بھرے ہوئے فارم کمپیوٹر سے ڈاؤنلوڈ کریں، خود مکمل کریں اور پھر انہیں کمیشن کی ویب سائٹ یا ایپ پر اپ لوڈ کریں۔ دہلی، ممبئی، بنگلورو اور چنئی جیسے شہروں میں دربان، چوکیدار اور مزدور کے طور پر کام کرنے والے بہار کے لاکھوں مہاجرین کے لیے یہ ایک ناقابل عبور رکاوٹ ہے۔
شہریت کو ہتھیار بنانا
مسئلہ اس بات سے اور بھی بڑھ جاتا ہے کہ حکومت ہند کی طرف سے شہریت کا کوئی ایک واحد سرکاری دستاویز موجود ہی نہیں ہے۔ بہت کم بھارتیوں حتیٰ کہ پڑھے لکھوں کے پاس پیدائش کے سرٹیفکیٹ یا پاسپورٹ ہوتے ہیں۔ شہریت کا تعین مختلف دستاویزات کی مدد سے ہوتا ہے۔
طویل عرصے سے رائج عمل یہ ہے کہ اگر کوئی شہری خود کو شہری قرار دے اور ووٹ دینا چاہے تو اسے شہری تصور کیا جاتا ہے، جب تک کہ کوئی دوسرا اسے چیلنج نہ کرے یا کوئی نوٹس جاری نہ ہو۔
اب نا اہل ووٹروں کے مسئلے کو ایسے دستاویزی طریقۂ کار سے حل کرنے کی کوشش، جس کی مکمل ذمہ داری شہری پر ہو، دراصل محرومی مسلط کرنے کے مترادف ہے۔ سماجی سائنس کی تحقیق میں یہ بات اچھی طرح تسلیم کی گئی ہے کہ "دستاویزی کفایت” (documentary adequacy) کا تصور غریبوں اور کم خواندہ افراد کے خلاف کام کرتا ہے اور یہ وہ حالات ہیں جو ان پر تھوپے گئے، انہوں نے خود نہیں چنے۔
تو آخر کن طبقات کو اس عمل کے نتیجے میں رائے دہی سے محروم کر دیا جائے گا؟ بہار کے بیشتر غریب دلت، مسلمان اور نچلی ذات کے پسماندہ طبقات (OBCs) سے تعلق رکھتے ہیں (آدیواسیوں کی تعداد بہار میں بہت کم ہے) نتیجتاً ووٹر لسٹ میں بالا دست ذاتوں اور اعلیٰ پسماندہ ذاتوں کا غلبہ ہو جائے گا۔
ووٹنگ کے اعداد و شمار یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ یہی وہ طبقات ہیں جو بی جے پی کو زیادہ ووٹ دیتے ہیں۔
چاہے ہم یہ ثابت نہ بھی کر سکیں کہ ECI نے دانستہ یہ منصوبہ بنایا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس نئے دستاویزی عمل کا نتیجہ BJP کے حق میں جھکاؤ پیدا کرے گا۔
منصفانہ اور جامع انتخابات بھارتی جمہوریت کی ایک ممتاز علامت رہے ہیں۔ ملک کو اس کی طرف لوٹنے کی ضرورت ہے۔ ادارہ جاتی فیصلوں کے ذریعے رائے دہی کی محرومی گہرے طور پر غیر جمہوری عمل ہے۔ شہریت جو اصولاً ایک جامع سیاسی نظریہ ہے، اس کو عملی طور پر شہریوں کو خارج کرنے کا ہتھیار بنایا جا رہا ہے۔
(اشوتوش ورشنے، براؤن یونیورسٹی میں بین الاقوامی مطالعہ اور سیاسیات کے پروفیسر ہیں۔ مندرجہ بالا آرٹیکل میں پیش کردہ خیالات ان کے ذاتی ہیں۔)
(ترتیب و تدوین اور اردو پیشکش : زویا بھٹی، ابو حرم معاذ عمری)
بشکریہ : دی پرنٹ
***
الیکشن کمیشن آف انڈیا کا بہار کے لیے منصوبہ کئی اعتبار سے امریکہ کے اس تجربے سے مماثلت رکھتا ہے۔ سب سے بنیادی اور حیران کن بات یہ ہے کہ امریکہ کی طرح اب ووٹر کے اندراج کی ذمہ داری حکومت کے بجائے خود شہری پر ڈال دی گئی ہے، حالانکہ یہ کام ہمیشہ حکومت کا تھا۔ اب لوگوں کو خود اپنی شہریت ثابت کرنے کے لیے دستاویزات جمع کرانی ہوں گی تاکہ وہ ووٹ ڈال سکیں۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 03 جولائی تا 09 اگست 2025