یونیفارم سول کوڈ مسلمانوں کے لیے نا قابل قبول

ہم عقیدے اور احکام شریعت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرسکتے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کے وفد کی لا کمیشن سے ملاقات

نئی دلی: ( دعوت نیوزڈیسک)

شمال مشرقی ریاستوں کے عیسائی اور قبائلی طبقوں کو استثناء دیا جاسکتا ہے تو مسلمانوں کو کیوں نہیں دیا جاسکتا؟
صنفی مساوات، کم عمری کی شادی، متعہ اور متبنیٰ کے مسئلے پر صدر نشین لا کمیشن کی وضاحت طلبی پر بورڈ کے جوابات
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے لا کمیشن کے چیئرمین، دیگر ممبران اور افسران سے ان کے دفتر میں ملاقات کی اور یونیفارم سول کوڈ پر بورڈ کے موقف پر مبنی ایک یاد داشت پیش کی۔ بورڈ کے ترجمان ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے پریس کو بتایا کہ وفد کی قیادت بورڈ کے صدر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کی اور وفد میں پروفیسر ڈاکٹر سید علی محمد نقوی (شیعہ طبقہ) اور انجینئر سید سعادت اللہ حسینی ( امیر جماعت اسلامی ہند) نائب صدور، بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا محمد فضل الرحیم مجددی، سینئر ایڈووکیٹ جناب یوسف حاتم مچھالا، مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی( امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند) ڈاکٹر مفتی محمد مکرم احمد (شاہی امام مسجد فتح پوری) ایڈووکیٹ ایم آر شمشاد (چیف ایڈیٹر لا جرنل) ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس (ترجمان بورڈ) پروفیسر مونسہ بشری عابدی (ممبر ورکنگ کمیٹی) اور ایڈووکیٹ نبیلہ جمیل (ممبر بورڈ) شامل تھے۔ یہ ملاقات لا کمیشن کے چیئرمین کی دعوت پر ہوئی تھی۔
سب سے پہلے لا کمیشن کے چیئرمین نے اپنا اور لا کمیشن کے دیگر ذمہ داران کا تعارف پیش کیا۔ بورڈ کی جانب سے ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے سب سے پہلے مسلم پرسنل لا بورڈ کا اجمالی تعارف پیش کیا بعد ازاں صدر، دیگر ذمہ داران اور ارکان بورڈ کا تعارف پیش کیا۔ جب لا کمیشن کے چیئرمین نے یونیفارم سول کوڈ پر بورڈ کا موقف جاننا چاہا تو صدر بورڈ نے تفصیل سے اس پر اظہار خیال کرتے ہو ئے بتایا کہ ایک ایسے ملک میں جس میں مختلف مذاہب اور تہذیبوں کے لوگ رہتے ہوں، سب کے لیے یونیفارم سول کوڈ بنانا کسی بھی طرح مناسب نہیں ہے۔ اس لیے بھی کہ ہر طبقہ اور مذہبی گروہ کو اپنے رواج اور کسٹم سے لگاو ہوتا ہے۔ جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے ان کا پرسنل لا قرآن و سنت پر مبنی ہونے کی بناء پر ان کے لیے کوئی بھی ایسا قانون جو قرآن و سنت سے متصادم ہو ہرگز بھی قابل قبول نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے بتایا کہ قانون شریعت کے دو بنیادی ماخذ ہیں۔ ایک قرآن و سنت اور دوسرا قرآن وسنت کی روشنی میں کیا گیا اجتہاد۔ جہاں تک پہلی بات کا تعلق ہے وہ مسلمانوں کے لیے حکم کا درجہ رکھتا ہے، البتہ وقت اور حالات کی مناسبت سے علماء کے اجتہادات میں تبدیلی ہو سکتی ہے۔
مولانا نے آگے کہا کہ 21ویں لا کمیشن نے ہمارے سامنے متعین سوالات رکھے تھے اور دوبار لا کمیشن کے ساتھ ملاقات میں ہم نے ہر سوال کا قرآن وسنت کی روشنی میں جواب دیا تھا، جسے بعد میں تحریری شکل میں بھی داخل کر دیا گیا۔ توقع تھی کہ 22واں لا کمیشن بھی اسی طرح مسلم پرسنل لا کے تعلق سے ان کے جو سوالات ہیں، اسے پیش کرے گا اور اس پر ہم سے جواب طلب کر ے گا۔ تاہم اس بار لا کمیشن نے اہل ملک سے یو سی سی پر ان کا موقف جاننا چاہا ہے، جو کہ ہم نے تفصیل سے اور ہماری درخواست پر لاکھوں مسلمانوں نے لا کمیشن کو فراہم کر دیا ہے۔
لیگل کمیٹی کے کنوینر ایڈووکیٹ یوسف حاتم مچھالا نے کہا کہ حکومت نے یونیفارم سول کوڈ پر جو تین رکنی کمیٹی بنائی ہے اس کے کنوینر جناب سشیل مودی نے پریس میں کہا ہے کہ یو سی سی سے قبائلی طبقات اور شمال مشرقی ریاستوں کے عیسائی مستثنیٰ ہوں گے۔ ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ پھر مسلمانوں کو اس سے کیوں استثناء نہیں دیا جا رہا ہے۔ ہمیں لگتا ہے کہ صرف مسلمانوں کو ہی یو سی سی کا ہدف بنایا جائے گا۔ حکومت کے پاس کون سے اعداد و شمار ہیں جن کو سامنے رکھ کر وہ پرسنل لاز میں تبدیلی کرنا چاہتی ہے۔ اس موقع پر مداخلت کرتے ہوئے لا کمشن کے چیئرمین نے کہا کہ متعین طور پر بتائیے کہ بچیوں کی کم عمری میں شادی پر آپ حضرات کی کیا رائے ہے۔ اس پر صدر بورڈ نے اظہار خیال کر تے ہوئے کہا کہ اسلام نے شادی کی کوئی عمر متعین نہیں کی ہے۔ یہ بتایا گیا ہے کہ جب عورت اور مرد شادی کے تقاضے پورے کرنے کے قابل ہوجائیں تو وہ شادی کرسکتے ہیں۔ اس موقع پر قاسم رسول الیاس نے کہا کہ شادی کے لیے بلوغت کو معیار بنایا گیا ہے تاہم اگر آپ مسلم معاشرہ کا جائزہ لیں گے تو پائیں گے کہ عام طور پر جب لڑکیاں تعلیم سے فارغ ہوتی ہیں تو ان کی شادی بالعموم 18 سال کے بعد ہی ہوتی ہے۔ سینئر ایڈووکیٹ یوسف حاتم مچھالا نے کہا کہ جہاں تک کم عمری کی شادی کی بات ہے اس کا انحصار سماجی و اقتصادی صورت حال پر ہے۔ جن لوگوں کی سماجی و اقتصادی حالت بہتر ہے وہاں اس کا رواج نہیں ہے۔ لہذا اصل سوال یہ ہے کہ کیا حکومت لوگوں کی سماجی و اقتصادی حالت بدلنے کی طرف توجہ دے گی۔ ہمارے نزدیک یو سی سی دراصل مسلمانوں کی دینی شناخت کو متأثر کرنے کا ایک بہانہ ہے۔ مچھالا صاحب نے کہا کہ ہندو کوڈ بل میں ہندوؤں کو HUF (Hindu Undivided Family) کے تحت جو رعایت دی جاتی ہے اس سے ملک کا ٹیکس (Revenue) بہت متأثر ہوتا ہے۔ اس پر چیئرمین لا کمیشن نے پوچھا کہ آپ کے پاس کوئی ڈیٹا ہے؟ اس پر جناب یوسف حاتم مچھالا نے جسٹس وانچو کمیٹی کی رپورٹ کا حوالہ دیا۔ پھر یہ دریافت کیا کہ اگر حکومت یونیفارم سول کوڈ لا نے پر مصر ہے تو کیا وہ HUF کو ختم کرے گی یا اس کا فائدہ سب کو پہنچائے گی۔ اس پر چیئرمین نے کہا کہ یہ ہمارا کام نہیں ہے اس کا تعلق انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ سے ہے۔ کمیشن نے جب متعہ کی شادی پر سوال اٹھایا تو اس کا جواب دیتے ہوئے پروفیسر سید علی محمد نقوی نے کہا کہ یہ اجازت استثنائی صورت کے لیے ہے اور اب یہ تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ نہ ہندوستان میں اور نہ ہی ایران میں اس کا چلن ہے۔ ایڈووکیٹ ایم آر شمشاد نے کہا کہ متعہ کی شادی کا اب کوئی چلن نہیں ہے تاہم میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ جب سپریم کورٹ لیو ان ریلیشن شپ (Live in Relationship) کو جائز مانتا ہے اور بغیر شادی کے چند ماہ، چند مہینہ، چند سال یا تمام عمر ساتھ رہنے کی اجازت دیتا ہے تو اس صورت میں متعہ کی شادیوں پر اعتراض کیوں؟
ایڈووکیٹ ایم آر شمشاد نے کہاکہ خود ہمارا دستور بھی یونیفارم نہیں ہے اور تنوع کو پسند کرتا اور اس کو تحفظ دیتا ہے۔
چیئرمین اوستھی نے کہا کہ ہم شریعت کے کسی مسلم قانون کو متأثر کرنا نہیں چاہیں گے لیکن جو غلط باتیں درآئی ہیں ان سے نمٹنا چاہتے ہیں مثلاً جنسی تفریق یا صنفی مساوات، قانون کی نگاہ میں مرد و عورت کی برابری کا مسئلہ، بچے کو گود لینے کا مسئلہ وغیرہ، اسلام گود لینے کے تصور کا مخالف ہے اور اگر کوئی گود لینا چاہے تو اس کو منع بھی کرتا ہے۔ اس پر اگر کوئی چیز لائی جاتی ہے تو آپ کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ صدر بورڈ نے کہا کہ یتیم و نادار بچوں کی پرورش و کفالت پر اسلام نے بہت زور دیا ہے تاہم وہ گود لینے کے ایسے تصور کا مخالف ہے جس میں گود لیے ہوئے بچے کی حیثیت حقیقی اولاد کی ہوجائے۔ اس سے شریعت کے بہت سے احکام متأثر ہو جاتے ہیں بالخصوص جائیداد کی تقسیم کا معاملہ یا محرم و نامحرم کے مسائل وغیرہ۔
پروفیسر مونسہ بشری عابدی نے کہا کہ اسلام صنفی مساوات کے بجائے انصاف کی بات کرتا ہے۔ اسلام میں عورت پر کوئی خانگی ذمہ داری نہیں ہے۔ بیوی بچوں کی کفالت، اپنے ماں باپ کی کفالت اور گھر چلانے کی پوری ذمہ داری مرد پر ہے۔ عورت اگر کوئی ملازمت کرتی ہو یا اس کی کوئی جائیداد ہو تب بھی مرد اسے مجبور نہیں کر سکتا کہ وہ گھر چلانے میں اس کا ہاتھ بٹائے۔ عورت پوری طرح اپنے مال میں تصرف کا بھی اختیار رکھتی ہے۔ دوسری طرف نہ صرف باپ کی جائیداد میں سے اس کو حصہ ملتا ہے بلکہ اپنے شوہر، اولاد اور بھائی کی جائیداد میں بھی اس کا حصہ متعین ہے۔ اس طرح اسلام میں جہیز کا کوئی تصور نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس شادی کے وقت مرد اپنی منکوحہ کو مہر دیتا ہے۔
گفتگو میں مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی، محترمہ نبیلہ جمیل نے بھی حصہ لیا۔
آخر میں ایک بار پھر صدر بورڈ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے یہ واضح کر دیا ہے کہ قرآن و سنت کے جو احکام ہیں وہ ہمارے ایمان کا حصہ ہیں ہم اس میں کسی بھی طرح کے رد و بدل کے نہ خود مجاز ہیں اور نہ ہم کسی اور کو اس کی اجازت دے سکتے ہیں، نکاح و طلاق، وراثت وغیرہ کے احکام (Shariat Application Act 1937 ) کے تحت ملک میں تسلیم شدہ ہیں۔ قانون شریعت، رواجی قانون نہیں ہے بلکہ اللہ اور رسول کی طرف سے ودیعت کردہ ہے، ملک کے دستور کے بنیادی حقوق کے باب میں بھی اسے تسلیم کیا گیا ہے۔
آخر میں بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا محمد فضل الرحیم مجددی نے بورڈ کی طرف سے تیار کردہ جواب تحریری طور پر چیئرمین لا کمیشن کو پیش کیا۔ چیئرمین لا کمیشن نے صدر بورڈ و دیگر ارکان وفد کا شکریہ ادا کیا۔ صدر بورڈ نے بھی چیئرمین لا کمیشن کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے ملاقات کی درخواست کو قبول کر کے ملنے کا موقع دیا۔
***

 

***

 ’’ قرآن و سنت کے جو احکام ہیں وہ ہمارے ایمان کا حصہ ہیں ہم اس میں کسی بھی طرح کے رد و بدل کے نہ خود مجاز ہیں اور نہ ہم کسی اور کو اس کی اجازت دے سکتے ہیں، نکاح و طلاق، وراثت وغیرہ کے احکام (Shariat Application Act 1937 ) کے تحت ملک میں تسلیم شدہ ہیں۔ قانون شریعت، رواجی قانون نہیں ہے بلکہ اللہ اور رسول کی طرف سے ودیعت کردہ ہے، ملک کے دستور کے بنیادی حقوق کے باب میں بھی اسے تسلیم کیا گیا ہے۔‘‘
(مولانا خالد سیف اللہ رحمانی )


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 03 ستمبر تا 09 ستمبر 2023