امتِ مسلمہ کا بحران : اسباب ،انحرافات اور اصلاح کی راہیں

مسلمانوں میں ایک ہمہ جہتی علمی، فکری، سیاسی اور معاشرتی بیداری کی ضرورت

ڈاکٹر ساجد عباسی، حیدرآباد

امتِ مسلمہ وہ عظیم امت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ’خیر اُمت‘ کا لقب دیا، جو انسانیت کی رہنمائی کے لیے برپا کی گئی، جوایمان ، عدل وانصاف ، علم ،فکروتحقیق اور اخوت کا پیغام لے کر اٹھی تھی ۔ مگر آج یہ امت زوال و پستی، تفرقہ و غلامی، جمود و پسماندگی کا شکار ہے۔ اس کے زوال کی داستان محض خارجی حملوں یا سازشوں کا نتیجہ نہیں، بلکہ اندرونی انحرافات اور خلافتِ راشدہ کے اصولوں سے دوری اس بحران کی اصل بنیاد ہے۔
انحراف کا آغاز کہاں سے ہوا؟
۱۔خلافتِ راشدہ سے انحراف اور ملوکیت کا قیام : امتِ مسلمہ کا زوال اچانک نہیں آیا بلکہ اس کا آغاز سیاسی میدان میں خلافت کے ملوکیت میں تبدیل ہونے سے ہوا۔ خلافتِ راشدہ کے بعد جب شورائی نظام کی جگہ وراثتی بادشاہت نے لی تو امت کی قیادت ایک شخص یا خاندان کے ہاتھ میں چلی گئی اور امت کے اجتماعی مفاد پر انفرادی مفادات غالب آنے لگے۔ یہ انحراف وہ نکتۂ آغاز تھا جس نے باقی میدانوں میں بھی گراوٹ اور انحراف کی راہیں ہموار کیں۔امیر معاویہؓ نے جب یزید کو خلافت کے لیے نامزدکیا تو وہ اسلامی تاریخ کا پہلاانحراف تھا جس نے خلافت کی تمام خوبیوں کو ملوکیت کی خرابیوں سے بدل دیا ۔اس انحراف کا سب سے پہلامنفی نتیجہ تاریخِ اسلام کے سب سے بڑے سانحہ کی شکل میں رونما ہواجس کو حضرت حسینؓ کی شہادت کے واقعہ کے طورپر جانا جاتا ہے ۔حضرت حسینؓ نے صرف اپنی جان ہی نہیں بلکہ اپنے سارے کنبہ کو قربان کیا اس بات پر کہ اسلام کی گاڑی خلافت کی پٹری پر سے اتررہی تھی اوراس کے ہولناک نتائج کو وہ اپنی نگاہِ بصیرت سے دیکھ رہے تھے ۔امت کے جس دور رس اور گہرے نقصان کا انہوں نے اندازہ لگایا تھا اس کو روکنے کے لیے آپ نے ضروری سمجھا کہ اپنی اور اپنے خاندان کی جان خطرے میں ڈال کر اس سیاسی انحراف کو روکیں ۔آج تک امتِ مسلمہ ملوکیت کے بھیانک نتائج کو بھگت رہی ہے ۔۱۴۰۰سے آج تک مسلم عوام بادشاہوں کے ظلم وستم کاتختۂ مشق بنی ہوئی ہے ۔ سانحۂ کربلا، ظلم کے خلاف مزاحمت اور حق کی خاطر جان قربان کرنے کی عظیم مثال بن گیا۔
بعض لوگ ملوکیت کا جوازتلاش کرنے کی کوشش میں یزید بن معاویہ کو شہادتِ ِ حسین کا ذمہ دار نہیں مانتےجب کہ یزید نے ہی ابن زیاد کو کوفے کا گورنر بناکر حضرت حسین کو کوفہ جانے سے روکنے اور آپ کے خلاف کاروائی کرنے کا حکم دیا تھا ۔ اگر وہ واقعی اس واقعہ کا ذمہ دار نہ ہوتا تو اس نے کیوں ابنِ زیاد کوشہادتِ حسین کے بعد سزانہیں دی؟ یزید کے مختصر تین سالہ(۶۰ھ تا ۶۳ھ) کے دورِ ملوکیت کایہی ایک سانحہ نہیں ہے بلکہ دواور شرمناک سانحات پیش آئے ہیں جنہوں نے امتِ مسلمہ کے دل پر گہرے زخم چھوڑے ہیں ۔ دوسراسانحہ واقعۂ حرّہ کہلاتا ہے ۔سانحۂ کربلا کے بعد مدینہ منورہ میں اہلِ شہر نے یزید کی حکومت کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا اور یزید کی بیعت توڑ دی۔انہوں نے یزید کے گورنر کو شہر سے نکال دیا۔یزید نے مسلم بن عقبہ کو ایک بڑا لشکر دے کر مدینہ پر حملے کے لیے بھیجا۔۶۳ھ میں مدینہ کے قریب "حرّہ” کے مقام پر شدید لڑائی ہوئی۔یزیدی فوج نےمدینہ منورہ پر تین دن تک قتل و غارت، لوٹ مار، اور عورتوں کی بے حرمتی کی۔مسجدِ نبوی کی حرمت پامال کی گئی۔ہزاروں صحابہ، تابعین اور اہلِ مدینہ کو شہید کیا گیا۔تیسرا سانحہ خانہ کعبہ پر حملہ سے متعلق ہے ۔واقعۂ حرّہ کے بعد اہلِ مکہ نے بھی یزید کے خلاف بغاوت کی اور حضرت عبداللہ بن زبیرؓ نے خلافت کا اعلان کر دیا۔یزید نے ان کے خلاف ایک اور لشکر بھیجا جس کی قیادت حصین بن نمیر کر رہا تھا۔یزیدی لشکر نے مکہ کا محاصرہ کر لیا اور خانہ کعبہ پر منجنیقوں سے حملے کیے۔اس دوران خانہ کعبہ کے غلاف میں آگ لگ گئی۔دیوارِ کعبہ کو نقصان پہنچا۔اس طرح مکہ مکرمہ، جو کہ دارالامن تھا اس کی حرمت کو پامال کیا گیا ۔اسی دوران یزید کی اچانک موت ہو گئی اور مکہ پر حملہ روکا گیا ۔اس طرح اس کی مختصر مگر ظالمانہ حکومت کا خاتمہ ہوگیا ۔اموی دورِ مملکت میں ولید بن یزید بن عبدالملک (۱۲۵ھ – ۱۲۶ھ)کا دوربھی بدترین دورسمجھاجاتا ہے ۔اس سے شراب نوشی، فحاشی، بے دینی اور قرآن کی بے حرمتی جیسے الحاد آمیز افعال منسوب ہیں۔اس کی بدکرداری کی وجہ سے بنو امیہ کے خاندان نے ہی اس کے خلاف بغاوت کر دی۔صرف چند مہینوں کی حکومت کے بعد اسے قتل کر دیا گیا۔ حجاج بن یوسف اگرچہ خلیفہ نہ تھا لیکن عبدالملک بن مروان کے دور حکومت میں عراق کا گورنر مقررکیا گیا تھا۔یہ نہایت ظالم، سخت گیر اور بے رحم حکم راں کے طور پر جانا جاتا ہے۔اس نے ہزاروں علماء، تابعین اور عام مسلمانوں کو قتل کیا، جن میں سعید بن جبیرؓ جیسے جلیل القدر عالم بھی شامل ہیں۔اسی نے حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کو خلیفہ عبد الملک بن مروان کے حکم پر مکہ میں شہید کیا ۔مروان بن محمدجو آخری اموی خلیفہ (۱۲۷ھ – ۱۳۲ھ)بھی ظالمانہ پالیسیوں اور سیاسی قتل و غارت کی وجہ سے بدنام ہوا۔بنو امیہ کے زوال کا سبب بھی اسی کی جارحانہ پالیسیاں بنیں۔اس طرح بنوامیہ کا ۹۱سالہ (۴۱ھ تا ۱۳۲ھ) دورِ ملوکیت اختتام کو پہنچا۔ خلافتِ راشدہ میں قیادت، تقویٰ، علم، مشاورت اور عوامی رضامندی کے ذریعے قائم ہوتی تھی جبکہ دورِملوکیت میں اقتدار، وراثت اور طاقت کے ذریعے منتقل ہونےلگی ۔اہل تقویٰ کی جگہ اہل طاقت اور سازش کرنے والے منصب پر فائز ہونے لگے۔عوام کی سیاسی شرکت کا دروازہ بند ہونے لگا۔ظلم، جبر اور مطلق العنانیت نے مسلمانوں کے اجتماعی شعور کو مفلوج کر دیاتھا ۔
بنوامیہ کے دورِ ملوکیت کے بعد بنو عباس کا دورِ خلافت (۱۳۲ھ تا ۶۵۶ھ) ایک طویل دور پر محیط ہے، جس میں کچھ عادل، علم دوست اور فلاحی حکم راں گزرے، تو کچھ انتہائی ظالم، جابر اور خونریزی کرنے والے خلیفہ بھی ہوئے، جن کے اقدامات نے عوام، علماء، اہلِ بیت اور ریاستی استحکام کو شدید نقصان پہنچایا۔بنوامیہ اور بنوعباس کے دورِ ملوکیت میں بیت المال شاہی اخرجات کےلیے استعمال کیا جانے لگا۔تمام بادشاہ قانون سے بالاتر ہونے لگے یہاں تک کہ قاضی اور عدالتیں بھی بادشاہت کے تابع ہوگئے تھے ۔
عباسی ملوکیت کے بعد مملوکوں نے مصر سے حجاز کی خدمتِ حرمین شریفین سنبھالی۔ان کے بعد ۱۵۱۷ء میں سلطنتِ عثمانیہ قائم ہوئی جو ۱۹۲۴ء تک چلتی رہی لیکن خلافتِ عثمانیہ میں بھی انتقالِ اقتدار وراثتی بنیادپر ہوتا رہا ۔۱۹۲۵ء میں عبدالعزیز آلِ سعود نے حجاز فتح کیا۔۱۹۳۲ء میں سعودی عرب کی جدید ریاست قائم کی گئی، جس میں مکہ، مدینہ، ریاض اور دیگر علاقوں کو شامل کر کے ایک متحدہ مملکت بنائی گئی جو آج تک جاری ہے۔خلافتِ عثمانیہ کے بکھرجانے کے بعد مشرقِ وسطیٰ میں سعودی عرب کے علاوہ کئی بادشاہتیں وجود میں آئیں جہاں پر آج بھی نظام ِ ملوکیت ہی نافذہے۔اس طرح خلافتِ راشدہ کے بعد سے آج تک عرب ممالک میں ملوکیت کا نظام رائج ہے ۔یہ ہیں سیاسی نظام میں تبدیلی کےبدترین اثرات ۔
۲۔ امتِ مسلمہ میں اعتقادی انحراف: سیاسی نظام میں انحراف کے بعد تصوف کے نام پر توحید کی تعلیمات سے انحراف کیا گیا ۔امتِ مسلمہ کے بالخصوص غیر عربی داں ممالک میں شرک بالاستمداد یا شرک بالاستعانت عام ہوتا گیا ۔ قبروں پر جاکر مردوں سے مددمانگنا اور اولیاء اللہ کو حاضروناظر اورسامع سمجھنا اوران کو اللہ کا سفارشی سمجھ کر ان کے وسیلے سے دعائیں مانگنا رائج ہوتا گیا ۔رسول اللہ ﷺکے اسوہ کو کامل اسوہ سمجھنے کے باوجود علماءپرستی اورقرآن وسنت کو دین کی بنیادبنانے کے بجائے کشف وکراماتِ اولیاء کو دین کی بنیاد بنانے کی وجہ سے مختلف فرقے وجودمیں آتے چلے گئے اور بدعات کے رواج سے اصل دین سے امت بیگانہ ہوتی چلی گئی ۔عوام الناس نے قرآن و سنت کی بجائے پیری مریدی، خوابوں، توہمات اور ثقافتی رسومات کو دین سمجھ لیا۔دین کی اصل روح یعنی اخلاص، تقویٰ، جہاد، اصلاحِ معاشرہ اور عدل کو فراموش کر دیا گیا ۔
۳۔معاشرتی انحراف:اسلامی معاشرہ جو اخوت، حیا، اخلاق اور عفت پر قائم تھا، وہ رفتہ رفتہ مغربی تہذیب، فیشن، بے حیائی، مادہ پرستی اور نسوانی تحریکوں سے متاثر ہونے لگا۔افسوس کی بات یہ ہے کہ پڑوسی ملک میں مسلم خواتین ’میراجسم میری مرضی‘ کا نعرہ بلند کرنے لگیں۔بے پردگی اور بے حیائی کی وجہ سے خاندانی نظام کمزور ہوا، طلاق و خلع کی شرح بڑھ گئی، اولاد کے دلوں سے والدین کا ادب واحترام جاتا رہا ۔اسلامی معاشرت جو حق پرستی اورحدود اللہ پر قائم تھی اس کی جگہ قوم پرستی، فرقہ پرستی، رنگ و نسل کا تعصب غالب آ گیا۔
۴۔معاشی انحراف:اسلامی نظامِ معیشت زکوة، صدقات، عدل اور دولت کی گردش پر مبنی تھا، مگر مسلم ملکوں میں مطلق العنانیت، رشوت ،بدعنوانی اور سودپر مبنی معیشت نے ان ملکوں کو معاشی طور پر کھوکھلا کر دیا۔مسلم ممالک نے اپنے وسائل و ذخائر کے باوجودعسکری طورپر کمزورہونے کی وجہ سے مغربی طاقتوں پر انحصار شروع کر دیا۔بیرونی قرضے، عالمی مالیاتی اداروں کی شرائط نے مسلم دنیا کو غلام بنا دیا۔غربت، بیروزگاری اور طبقاتی تفریق نے مسلم معاشروں کوبہت کمزورکردیا ہے ۔
۵۔علمی و فکری انحراف:مسلم دنیا نے قرآن و سنت، اجتہاد، تحقیق، سائنس و فلسفہ کے میدانوں کو چھوڑ کر اندھی تقلید اور ماضی پر فخر کرنے کو شعار بنا لیا۔درسگاہیں زوال پذیر ہو گئیں،دین کو سیاست سے الگ کر دیا گیا اور جدید علوم کو دینی علوم سے الگ تصور کر کے دین ودنیا کی تفریق کی گئی جس کے نتیجے میں ایسے علماءپیداہوئے جو جدید علوم سے ناواقف ہیں اور دنیوی علوم کے ایسے ماہرین تیارہوئے جو دین سے نابلدہیں ۔چنانچہ اجتہاد کے میدان میں امت قدیم اجتہاد پر قانع ہوکر جدید مسائل کا حل قرآن کی روشنی میں پیش نہیں کرسکی ۔ مسلمان دینی علوم کے میدانوں میں جمود کا شکارہوئے اور جدید علوم میں مغرب کے محتاج بن گئے۔
۶۔عسکری انحراف:جب مسلم ممالک فکری ، علمی اور تحقیقی میدان میں پیچھے رہ گئے تو سائنس وٹکنالوجی میں بھی ترقی نہ کرسکے ۔چنانچہ ایجادات میں مسلمانوں کا حصہ صفر کے برابر ہوگیا جس کی وجہ سے جنگی ہتھیاروں اور عسکری میدان میں مسلم ممالک مغرب کے اسلحہ پر منحصر ہوگئے ۔مالدارمسلم ممالک اپنی دولت کو ہتھیارخریدنے پر لٹانے لگے اور اپنی سرزمین میں دشمنوں کو فوجی اڈے دینے پر مجبورہوئے جس کی بدولت ان کی خودمختاری ختم ہوگئی ۔مغربی طاقتوں کو موقع ملا کہ عراق ،فلسطین، افغانستان، شام، یمن، لیبیا جیسے علاقوں میں مسلمانوں کا قتلِ عام کرتے رہیں اور مسلمان بے بسی سے اس کا نظارہ کرتے رہیں ۔
آج امت کہاں کھڑی ہے؟ وہ سیاسی طور پر منتشر ہو چکی بے۔ حیثیت اور مغرب کی کٹھ پتلی بنی ہوئی ہے۔اعتقادی طور پر مشرکانہ افکار، فرقہ واریت اور بدعات میں مبتلاہوچکی ہے۔معاشرتی طور پر مغرب زدہ، بے حیا، غیر منظم اور ٹوٹتے خاندانوں کا شکارہے ۔معاشی طور پر قرضوں، مہنگائی، بیروزگاری اور سودی نظام میں جکڑی ہوئی ہے۔علمی طور پر مفلوج، اجتہاد سے خالی اور تحقیق سے دورہوچکی ہے۔عسکری طور پر بے دست و پا، دفاع کے لیے دوسروں پر انحصار کرنے والی امت ہوچکی ہے۔آج صرف ایک ملکِ ایران کی خودمختارانہ سوچ اور عسکری قوت کی فراہمی نے امت کو اس انتہائی پسپائی کے دورمیں نویدِ صبح کی امید دلائی ہے۔ایسی ہمت وجرأت کچھ اور ملکو ں میں ہوتی تو مسلم دشمن ممالک کو یہ موقع نہ ملتا کہ وہ مسلم مملکتوں کو اپنا غلام بناتے اورفلسطین بہت پہلے آزاد ہوچکا ہوتا۔
اصلاح کی راہیں :
سیاسی اصلاح:آمریت کے بجائے شورائی نظام کی طرف رجوع، جمہور کے مشورے سے قیادت کا انتخاب۔عدل، شفافیت، احتساب اور عوامی خدمت پر مبنی حکومتیں قائم کرنا۔امت واحدہ کے تصور کو عملی شکل دینا۔
اعتقادی اصلاح:قرآن و سنت سے امت کو جوڑا جائے ۔توحید خالص کی طرف دعوت دی جائے اور بدعات و خرافات کا خاتمہ کیا جائے ۔عقیدۂ آخرت، رسالت اور وحی کی بنیاد پر دین کی تشریح و ترویج۔
معاشرتی اصلاح:خاندانی نظام کو مضبوط بنانے کے لیے حیا اور عفت کی تعلیم دی جائے ۔ حقوقِ والدین اور بندوں کے حقوق اداکرنے پر ابھاراجائے۔نکاح کو آسان اور بے حیائی کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے ۔
معاشی اصلاح:اسلامی بینکاری، زکٰوة اور وقف کو فعال بنایا جائے۔قدرتی وسائل کو اپنی معیشت کی ترقی میں استعمال کیا جائے ۔ملک کو بدعنوانی سے پاک کرکے ملک کی معیشت کو مضبوط بناکر سودی قرضوں سے نجات حاصل کی جائے اور خود انحصاری حاصل کرنے کی کوشش کی جائے ۔
علمی و فکری اصلاح:قرآن و سنت کی بنیاد پر اجتہاد کو فروغ دینا۔سائنس، ٹیکنالوجی، طب، سماجیات جیسے جدید علوم کو اسلامی سانچے میں ترقی دینا۔دینی و عصری تعلیم کا امتزاج قائم کرنا۔
عسکری اصلاح:اپنی دفاعی صنعت کو مضبوط کیا جائے ۔مسلم ممالک کے درمیان عسکری اتحاد بنایا جائے ۔جہاد کی اصل روح کو سمجھ کر دشمن ممالک کے خلاف اتحاد قائم کیا جائے تاکہ دنیا سے ظلم کا خاتمہ ہو۔
امتِ مسلمہ کا بحران وقتی نہیں بلکہ گہرے داخلی انحرافات کا نتیجہ ہے۔ اس بحران سے نکلنے کے لیے ایک ہمہ جہتی علمی، فکری، اعتقادی، سیاسی اور معاشرتی بیداری کی ضرورت ہے۔ خلافتِ راشدہ کے سنہری اصولوں کی طرف واپسی، مقاصدِ شریعت کی بازیافت اور امت کے اجتماعی مفاد کو انفرادی مفاد پر ترجیح دینا ہی ہمیں ایک نئی صبح کی امید دلا سکتا ہے۔

 

***

 امتِ مسلمہ کا بحران وقتی نہیں بلکہ گہرے داخلی انحرافات کا نتیجہ ہے۔ اس بحران سے نکلنے کے لیے ایک ہمہ جہتی علمی، فکری، اعتقادی، سیاسی اور معاشرتی بیداری کی ضرورت ہے۔ خلافتِ راشدہ کے سنہری اصولوں کی طرف واپسی، مقاصدِ شریعت کی بازیافت اور امت کے اجتماعی مفاد کو انفرادی مفاد پر ترجیح دینا ہی ہمیں ایک نئی صبح کی امید دلا سکتا ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 13 جولائی تا 19 جولائی 2025