علماء کا کارواں:ریاستِ کرناٹک میں دینی شعور کی بازگشت
فروعی مسائل کو نظرانداز کرکے امت کی صحیح رہنمائی اور فریضۂ دعوت، علماء کی اہم ذمہ داریاں:مولانا رضی الاسلام ندوی
بنگلور (دعوت نیوز ڈیسک)
’’دور حاضر میں تمام مسلمان اپنے اپنے مسلک پر عمل کرتے ہوئے دین کی دعوت و تبلیغ کے عظیم فریضے میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے رہیں۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ہمیشہ اس نقطہ نظر کو اپنایا اور اسی کی تلقین کی ہے۔ چنانچہ جماعت اسلامی ہند بھی اسی اعتدال کی روش پر گامزن ہے، جہاں فقہی اختلافات کو دین کی دعوت کے راستے میں رکاوٹ نہیں بننے دیا جاتا۔ لہٰذا علمائے کرام کے لیے یہ ایک روشن پیغام ہے کہ اتفاق و اتحاد کے بغیر دین کی خدمت ممکن نہیں ہے اور مسلک کے اختلافات کو دین کے مشترکہ مقصد کی راہ میں حائل نہیں ہونے دینا چاہیے‘‘ ان خیالات کا اظہار مولانا رضی الاسلام ندوی نے بنگلورو میں آل کرناٹک مجلس العلماء کی دو روزہ ریاستی کانفرنس میں کیا۔ اس کانفرنس کا انعقاد پچھلے دنوں ہوا جس میں ریاست بھر سے پانچ سو علماء اور سو عالمات شریک ہوئے۔ یہ محفل صرف ایک اجلاس نہیں تھا بلکہ دینی شعور کی ایک زندہ تصویر تھی، جہاں علم کے چراغ جلائے گئے اور فکر و تدبر کی شمعیں روشن ہوئیں۔
یہ مجلس دو دہائیوں سے دینی مدارس کے فارغین کے لیے ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو نہ صرف علماء کو جوڑتا ہے بلکہ دین کی خدمت کو منظم اور مستحکم کرتا ہے۔ اس مجلس کے تحت ساڑھے تین سو علماء باقاعدہ رکن ہیں اور اس کا سہ ماہی ترجمان مجلۃ العلماء گزشتہ چودہ برسوں سے دین کے پیغام کو عام کر رہا ہے۔ مجلس کے زیر سایہ ریاستی سطح پر کئی کانفرنسیں منعقد ہوچکی ہیں، جنہوں نے علماء کی بصیرت کو نئی جہت دی ہے۔
جماعت اسلامی ہند کی سرپرستی میں قائم یہ مجلس نہ صرف کرناٹک بلکہ ملک بھر کی مؤثر تنظیموں میں سے ایک ہے۔ اس کانفرنس میں جماعت کے مرکزی رہنماؤں، جناب سید سعادت اللہ حسینی، جناب ایس امین الحسن اور دیگر اہم شخصیات نے شرکت کی۔ ان کے خطابات نے علماء کی فکر کو وسعت دی اور ان کے مشن کو نئی توانائی بخشی۔ امیر جماعت اسلامی ہند جناب سید سعادت اللہ حسینی نے اپنے بصیرت افروز خطابات میں تین اہم موضوعات کو بنیاد بنایا۔ انہوں نے "بھارت میں اقامتِ دین کی اجتماعی جدوجہد اور علمائے کرام” کے عنوان پر گفتگو کرتے ہوئے علماء کے کردار کو امت کی رہ نمائی میں کلیدی قرار دیا۔ انہوں نے "ملک و ملت کو درپیش چیلنجز اور ہمارا لائحہ عمل” کے تحت امت کی موجودہ صورتحال پر روشنی ڈالی اور علماء کو اپنے فریضے کی اہمیت یاد دلائی۔ "تمکینِ امت: کیوں اور کیسے؟” کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے علمائے کرام کو دعوت دی کہ وہ اپنے کردار کو مزید مؤثر بنائیں۔
امیر جماعت نے علماء کو چار اہم ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کیا: رہ نمائی کا فریضہ: علماء کی حیثیت قبلہ نما کی ہے، وہ امت اور انسانیت کے لیے رہ نمائی کا ذریعہ ہیں۔ علمی و فکری خدمات: علماء کو جہالت، غلو اور انحراف کے خلاف علمی و فکری محاذ پر کام کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ اصلاح و تربیت: علماء کو چاہیے کہ وہ افراد اور معاشرے کی اصلاح و تربیت کا بیڑا اٹھائیں۔ دعوتِ دین کا فروغ: تمام انسانوں تک دین کی دعوت پہنچانے کی اہمیت پر زور دیا گیا۔
جناب ایس امین الحسن نے شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے نظریہ اتفاقات کی روشنی میں جماعت کے نصب العین پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے "فرد کا ارتقاء، معاشرہ کی تعمیر اور ریاست کی تشکیل” کے نصب العین کو ایک جامع اور عملی خاکہ قرار دیا اور اس کے مختلف پہلوؤں پر تفصیل سے گفتگو کی۔
مولانا وحید الدین خاں عمری نے مجلس العلماء کا تعارف پیش کرتے ہوئے اس کے قیام اور اس کے مقاصد پر روشنی ڈالی۔ ان کی گفتگو نے شرکاء کو مجلس کے مشن اور اس کی خدمات سے قریب تر کیا۔ کانفرنس کے دوران ایک دستاویزی فلم بھی دکھائی گئی جس میں مجلس العلماء کی بیس سالہ خدمات اور کارکردگی کو اجاگر کیا گیا تھا۔
پروگرام کا آغاز درسِ قرآن سے ہوا جس میں سورۂ حج کی آخری آیت "ھو اجتباکم” کی تلاوت اور تشریح کی گئی۔ اس آیت میں امت کا نصب العین بیان کیا گیا اور یہ واضح کیا گیا کہ سخت ترین حالات میں بھی اس نصب العین کی ادائیگی ہر مسلمان پر لازم ہے۔ درس نے حاضرین کو یہ یاد دلایا کہ امت کے وجود کا مقصد صرف اپنی اصلاح نہیں بلکہ دنیا کے لیے روشنی اور ہدایت کا ذریعہ بننا ہے۔
بعد ازاں، مولانا رضی الاسلام ندوی نے "اختلافی مسائل میں تحریکِ اسلامی کا مسلکِ اعتدال” کے عنوان پر خطاب کیا۔ اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ دین کے منصوص احکام پر پوری امت کا کوئی اختلاف نہیں ہے، فقہی اور فروعی اختلاف کو اسلام نے ہمیشہ برداشت کرنے اور گوارا کرنے کی تعلیم دی ہے۔ انہوں نے حاضرین کو دین اور مسلک کے فرق سے روشناس کراتے ہوئے کہا کہ دین ایک ایسی حقیقت ہے جو دعوت دینے کی متقاضی ہے، جب کہ مسلک عمل کرنے کا ایک راستہ ہے۔ مولانا نے اس بات پر زور دیاکہ درسِ قرآن اور خطاب کی روشنی میں یہ پیغام مزید واضح ہو گیا کہ امت مسلمہ کی بقاء اور ترقی کے لیے اتحاد، اعتدال اور دعوت دین کے اصولوں کو اپنانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
مجلس العلماء کرناٹک کی ریاستی کانفرنس کے دوسرے دن بھی بصیرت افروز اور علم سے بھرپور خطابات کا سلسلہ جاری رہا۔ علماء نے ان خطابات کو سکون اور دل چسپی سے سنا اور ہر تقریر کے بعد سوالات کے لیے وقت دیا گیا۔ شرکاء کے سوالات ان کی گہری توجہ اور تقریروں کے مفہوم کو سمجھنے کی کوشش کا مظہر تھے۔
مولانا وحید الدین خاں عمری نے "جماعت اسلامی ہند: مقصدِ قیام، خصوصیات اور خدمات” کے عنوان سے خطاب کیا۔ انہوں نے پاورپوائنٹ کی مدد سے جماعت اسلامی کے کاموں کا جامع اور مؤثر تعارف پیش کیا۔ ان کا اندازِ بیان سامعین کو نہ صرف معلومات فراہم کر رہا تھا بلکہ انہیں تحریک بھی دے رہا تھا۔
امیرِ حلقہ ڈاکٹر محمد سعد بلگامی نے "دین کا جامع تصور اور اسلامی اجتماعیت” پر اظہارِ خیال کیا۔ انہوں نے قرآن و حدیث کی روشنی میں اجتماعیت کی اہمیت کو نہایت خوبصورتی سے واضح کیا اور سامعین کو اس بات کی طرف متوجہ کیا کہ دین کا جامع تصور افراد کو اجتماعیت سے جوڑ کر ہی مکمل ہوتا ہے۔
جناب محمد اقبال مُلّا، رکن مرکزی مجلس شوریٰ نے "فریضۂ دعوت اور علماء کرام” کے موضوع پر گفتگو کی۔ علماء کی ذمہ داریوں کو اجاگر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اللہ کے بندوں تک اس کا پیغام پہنچانا ہر مسلمان، خاص طور پر علماء کا اولین فریضہ ہے۔ انہوں نے سامعین کو نصیحت کی کہ دعوت کے اس عمل میں جھجک یا خوف کو دل سے نکال دیں اور پورے اعتماد کے ساتھ یہ فریضہ انجام دیں۔ ساتھ ہی انہوں نے اپنے ذاتی تجربات سے شرکاء کو متاثر کیا اور ان کی رہنمائی بھی کی۔
جناب ایس امین الحسن، نائب امیر جماعت نے "ملکی اور عالمی حالات اور امت کا روشن مستقبل” کے عنوان پر اپنے مشہور مؤثر اسلوب میں خطاب کیا۔ انہوں نے موجودہ عالمی حالات کا نہایت بصیرت کے ساتھ تجزیہ کیا اور کہا کہ اگرچہ حالات پیچیدہ اور نازک ہیں لیکن مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔ انہوں نے سامعین کو یقین دلایا کہ اللہ کے فضل سے امتِ مسلمہ کے لیے صبحِ درخشاں جلد نمودار ہوگی۔
دوسرے دن کے یہ خطابات علماء کے لیے نہ صرف ایک فکری رہنمائی کا ذریعہ تھے بلکہ ان کے جذبۂ عمل کو مہمیز دینے والے بھی ثابت ہوئے۔ یہ کانفرنس اتحاد، اعتدال، اور امت کے روشن مستقبل کی نوید سنانے والا ایک غیر معمولی اجتماع ثابت ہوئی۔
کانفرنس کے دوسرے دن مولانا رضی الاسلام ندوی کے ذمے دو اہم موضوعات رکھے گئے، جنہوں نے علماء کے علم اور بصیرت کو مزید جِلا بخشی۔پہلا موضوع "تحریکی لٹریچر کا تعارف” تھا، جس کے تحت مولانا نے مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ، جماعت اسلامی ہند و پاک کے دیگر مصنفین اور مختلف ممالک کی اسلامی تحریکوں کے رہنماؤں کے تیار کردہ لٹریچر کی خصوصیات پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے اس لٹریچر کی فکری گہرائی، دعوتی اسلوب اور عملی رہنمائی کو اجاگر کیا جو تحریک اسلامی کے نظریاتی خدوخال کو واضح کرتی ہیں۔ علماء کی طرف سے پوچھے گئے سوالات کے جواب میں مولانا نے مولانا تقی عثمانی کی اسلامی اقتصادیات اور غیر سودی بینکاری پر کی گئی خدمات کا تفصیل سے تذکرہ کیا۔ ساتھ ہی جناب عمر چھاپرا کی اس میدان میں نمایاں خدمات کو بھی سراہا اور ان کے کاموں کی افادیت کو بیان کیا۔
دوسرا موضوع "علماء و عالمات کا علمی و فکری ارتقاء اور صلاحیتوں کا نشوونما” تھا۔ اس خطاب میں مولانا نے علماء کو تین اہم نکات پر توجہ دینے کی تلقین کی:
1- علم کو تازہ رکھنا: علماء کو چاہیے کہ وہ مدارس میں حاصل کردہ علم کو مسلسل تازہ رکھنے اور یاد دہانی کی کوشش کرتے رہیں تاکہ وہ ہمیشہ عملی رہنمائی کے قابل رہ سکے۔
2- جدید افکار و نظریات کی واقفیت: بدلتے ہوئے حالات اور نئے نظریات سے تفصیلی واقفیت حاصل کریں تاکہ امت کی صحیح شرعی رہنمائی ممکن ہو سکے۔
3- صلاحیتوں کی نشوونما: مولانا نے علماء کو اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کرنے کے لیے مختلف تدابیر اختیار کرنے کی تلقین کی، خاص طور پر کمپیوٹر کی تعلیم حاصل کرنے اور انٹرنیٹ سے استفادہ کا طریقہ سیکھنے پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ اقدامات نہ صرف دینی معلومات میں اضافے کا ذریعہ بنیں گے بلکہ علماء کے لیے روزگار کے مواقع میں بھی وسعت پیدا کریں گے۔
مولانا کے یہ خطابات نہ صرف علمی رہنمائی فراہم کر رہے تھے بلکہ علماء کو عملی زندگی کے نئے چیلنجوں کے لیے تیار کرنے کا عزم بھی پیدا کر رہے تھے۔ ان کے الفاظ نے کانفرنس میں شریک علماء و عالمات کو یہ احساس دلایا کہ علم ایک مسلسل جدوجہد کا نام ہے اور اس کی حفاظت اور ارتقاء ہر عالم کی ذمہ داری ہے۔
کانفرنس کے دوران تقریباً ایک گھنٹے کا "اوپن سیشن” رکھا گیا جو کہ شرکاء کے لیے اپنے سوالات پیش کرنے اور ذمہ داروں سے براہ راست رہنمائی حاصل کرنے کا ایک نادر موقع تھا۔ اس سیشن میں ہر طرح کے سوالات کی اجازت دی گئی اور شرکاء نے اس موقع کا بھرپور فائدہ بھی اٹھایا۔ سوالات کے جوابات نہایت فہم و فراست کے ساتھ دیے گئے جس سے علماء کے ذہنوں میں موجود شبہات دور ہوئے اور ان کی علمی پیاس کو تسکین ملی۔
اختتام سے قبل مولانا وحید الدین خاں عمری نے "ارکانِ مجلس سے توقعات” کے عنوان سے مختصر مگر جامع خطاب کیا۔ انہوں نے شرکاء سے امید ظاہر کی کہ ان دو دنوں کے دوران انہوں نے بہت کچھ سیکھا ہوگا۔ لہٰذا علم کے ان موتیوں کو اپنی زندگی میں عملی شکل دینا، اجتماعیت سے جڑ کر دین کے مشن کو آگے بڑھانا اور مل جل کر کام کرنا ان کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔ جناب ایس امین الحسن نے زادِ راہ کے طور پر علماء کو نہایت قیمتی اور بصیرت افروز مشورے دیے اور کہا کہ ان مشوروں پر عمل پیرا ہو کر علماء اپنی زندگیوں کو مزید مؤثر، نفع بخش اور امت کے لیے کارآمد بنا سکتے ہیں۔
ریاست کرناٹک کی مجلس العلماء کی ریاستی کانفرنس کا ایک نمایاں اور قابلِ توجہ پہلو اس میں عالمات کی بھرپور شرکت تھی۔ خواتین کے لیے پردے کا بھی انتظام تھا۔ پوری ریاست سے تقریباً سو عالمات کی شرکت نے اس اجتماع کو خاص بنا دیا۔ یہ تاریخی پروگرام بنگلور کے شفیع باغ کے علاقے میں منعقد ہوا، جہاں جماعت اسلامی ہند کی نگرانی میں لڑکیوں کا مدرسہ، جامعۃ الطیبات، کامیابی سے چل رہا ہے۔ اس جامعہ کی قیادت مولانا وحید الدین خاں عمری کر رہے ہیں جو اس کے شیخ الجامعہ ہیں۔ جامعہ میں زیرِ تعلیم ڈیڑھ سو طالبات نے اپنی معلمات کے ساتھ نہ صرف پروگرام میں شرکت کی بلکہ والنٹیئرنگ کے فرائض بھی عمدگی سے انجام دیے۔
کانفرنس کی تقاریر عمومی تھیں، جن میں علماء کے ساتھ ساتھ عالمات کو بھی مخاطب بنایا گیا تھا۔ لیکن خواتین کی طرف سے محترمہ ساجد النساء، رکن ریاستی مجلس شوریٰ، کا خطاب خاص طور پر دل نشین اور مؤثر رہا۔ انہوں نے "معمارِ جہاں تو ہے” کے عنوان پر تقریر کی جس میں خواتین کی ذمہ داریوں کو اجاگر کرتے ہوئے انہیں ایک عالم یا عالمہ ہونے کی حیثیت سے اپنے فرائض کی ادائیگی کی تلقین کی۔ انہوں نے آسان اور شستہ اسلوب میں تقریر کی جو حاضرین کے دلوں میں اتر گئی۔
جامعہ الطیبات کی معصوم طالبات نے بھی مختلف مواقع پر دلکش انداز میں ترانے پیش کیے جو پروگرام میں تازگی اور جوش و جذبے کا باعث بنے۔ ان طالبات کی شرکت اور کارکردگی نے ثابت کیا کہ یہ جامعہ صرف تعلیم ہی نہیں بلکہ تربیت اور کردار سازی کا بھی مرکز ہے۔یہ کانفرنس عالمات کے لیے ایک ایسا پلیٹ فارم بنی جس نے ان کی موجودگی، کردار اور علمی و عملی ذمہ داریوں کو نمایاں کیا اور انہیں دین کے مشن میں فعال کردار ادا کرنے کی تحریک دی۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 19 جنوری تا 25 جنوری 2024