
یوکرینی معدنیات۔ ہنگامہ ائے خدا کیا ہے؟
چینی بالادستی سے خائف صدر ٹرمپ کی نظریں یوکرین اور گرین لینڈ کے معدنی وسائل پر
مسعود ابدالی
یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلینسکی اور امریکی صدر کے درمیاں قصرِ مرمریں کے بیضوی دفتر میں حالیہ جھڑپ کے تناظر پر بحث اب تک جاری ہے۔ جیسا کہ ہم نے اس سے پہلے عرض کیا کہ جوہری تنصیبات اور ہتھیار روس کے حوالے کرنے سے پہلے امریکہ اور برطانیہ کی طرف سے یوکرین کو جوضمانتیں دی گئی تھیں ان سے روگردانی کے علاوہ یوکرین میں سابق فرزندِ اول ہنٹر بائیڈن کی مبینہ کرپشن کے بارے میں ثبوت و شواہد پیش کرنے میں یوکرینی صدر کی ناکامی (یا انکار) کی بنا پر دونوں رہنماؤں کے درمیان بد گمانی کی خلیج پہلے سے موجود تھی۔ اس کے علاوہ یوکرین کے معدنی وسائل پر صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی للچائی ہوئی نظریں بھی زیلنسکی کو چبھ رہی ہیں۔
جب پہلی بار صدر ٹرمپ نے یوکرین کے معدنیاتی ذخائر تک رسائی کی خواہش ظاہر کی تو صدر زیلنسکی نے یہ کہہ کر اسے ٹھکرا دیا کہ یوکرین برائے فروخت نہیں ہے۔ لیکن غیر ملکی مدد پر گزر اوقات کرنے والوں کو کہ جن کا نہ تن اپنا ہو نہ من، ایسا کہہ کر پچھتانا پڑتا ہے اور پھر جب مخاطب کرم ظرف بھی ہو تو کفارے کے لیے سجدہ سہو کافی نہیں ہوتا بلکہ توہین کا پورا ٹوکرا سر پر آ جاتا ہے۔
چنانچہ ایسا ہی کچھ جناب زیلنسکی کے ساتھ ہوا۔ صدر ٹرمپ نے انہیں ڈکٹیٹر کے خطاب سے نوازتے ہوئے دھمکی دی کہ اگر 500 ارب ڈالر مالیت کے معدنی وسائل سے امریکہ کو مستفید ہونے کا موقع نہ دیا گیا تو یوکرین کی مالی مدد معطل کردی جائے گی۔ یوکرین کے مالی وسائل سے فائدہ اٹھانے کے لیے یوکرین روس جنگ کا خاتمہ بھی ضروری ہے۔ چنانچہ 18 فروری کو سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں امریکی و روسی وزرائے خارجہ کا اجلاس ہوا جس میں دونوں فریقین نے یوکرین روس جنگ ختم کرنے کے لیے مل کر کام کرنے کا عزم ظاہر کیا۔ اس نشست میں یوکرین کو مدعو نہیں کیا گیا جو صدر ٹرمپ کی طرف سے اس بات کا اشارہ تھا کہ ان کے لیے ولادیمر زیلنسکی ایک ناپسندیدہ شخصیت ہیں۔
جناب زیلنسکی بچے نہیں ہیں، انہیں معلوم ہے کہ صدر ٹرمپ سے لڑائی ان کی سیاسی عاقبت کے لیے سخت نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے چانچہ انہوں نے اپنی وزارت خارجہ کو ہدایت کی کہ یوکرین کے لیے صدر ٹرمپ کے خصوصی نمائندے جنرل (ر) کیتھ کیلوگ سے معدنیات کے معاملے پر بات کی جائے۔ چنانچہ جناب کیلوگ کِیف پہنچے، اشک شوئی کے لیے زیلنسکی کو جنگ زدہ قوم کا جرأت مند رہنما کہہ کر مخاطب کیا۔یہ دراصل صدر زیلنسکی کی چوٹ کھائی ہوئی انا پر مرہم رکھنے کی ایک کوشش تھی۔چنانچہ دونوں ممالک یوکرینی معدنیات کی تلاش و ترقی کے ایک معاہدے پر رضامند ہوگئے۔حقیقت یہ ہے کہ اس میں رضا سے زیادہ جبر کا پہلو تھا لیکن جو آپ کے گھر میں دانے ڈلواتا ہو اس کے آگے سرکو جھکا لینا ہی عقلمندی ہے۔ اس معاہدے پر دستخط زیلنسکی کے حالیہ دورے کے ایجنڈے کا اہم نکتہ تھا۔لیکن ملاقات کے آغاز پر ہی جو ہوا اس کا تفصیلی ذکر ہم گزشتہ نشست میں کرچکے ہیں۔
باہمی تعلقات میں آنے والی سلوٹوں کو دور کرنے کے لیے صدر زیلنسکی نے اپنے امریکی ہم منصب کو خط لکھا جس میں معافی تو نہیں مانگی لیکن جھڑپ پر افسوس (Regret) کا اظہار کرکے غلطی تسلیم کرلی گئی۔ صدر ٹرمپ نے یہ خط فخریہ انداز میں 4 مارچ کو کانگریس کے مشترکہ اجلاس میں پڑھ کر سنادیا۔ اسی کے ساتھ معدنیات کے بارے میں معاہدے کا مسودہ امریکہ بھیج دیا گیا ہے جبکہ یوکرین، روس سے امن کے لیے سعودی عرب میں امریکی وزیر خارجہ سے ملاقات پر بھی آمادہ نظر آرہا ہے۔
اب آتے ہیں یوکرین کے معدنی وسائل کی طرف جس کی امریکہ حوالگی پر صدر زیلنسکی کے تحفظات حالیہ ناخوشگوار جھڑپ کی وجہ بنے۔
قارئین یقیناً جاننا چاہتے ہوں گے کہ یہ معدنیات کیا ہیں اور امریکہ اسے کیوں حاصل کرنا چاہتا ہے؟
نایاب زیر زمین معدنیات جنہیں Rare Earth Elements یا REE کہا جاتا ہے، 17 ملتی جلتی کیمیائی خصوصیات والی معدنیات ہیں جو اسمارٹ فونوں، کمپیوٹروں، طبی سامان اور کئی دیگر اشیاء کی تیاری میں استعمال ہوتی ہیں۔ان میں سکینڈیئم، یٹریئم، لانتھانم، سیریئم، پراسیوڈائمیئم، نیوڈیئم، پرومیتھیئم، سماریئم، یوروپیئم، گاڈولینیئم، ٹیربیئم، ڈسپروسیئم، ہولمیئم، اربیئم، تھولیئم، یٹیربیئم اور لٹیٹیئم نامی معدنیات شامل ہیں۔علم کیمیاء کے ماہرین نے عناصر کے اس گروپ کو Lanthanides کا نام دیا ہے جس کا یونانی زبان میں مطلب ہے ‘کسی چیز سے ڈھکا ہوا’ یعنی خالص حالت میں یہ عناصر بہت کم جگہ دستیاب ہیں۔ عام طور سے ان قیمتی معدنیات میں تھوریئم اور یورینیئم جیسے تابکاری عناصر کی آمیزش ہوتی ہے۔ اِن ناپسندیدہ کثافتوں سے انہیں پاک کرنا ممکن ہے لیکن اس مشکل عمل پر بھاری سرمایہ خرچ ہوتا ہے۔
تاہم دنیا میں کئی مقامات پر یہ عناصر خالص حالت میں پائے جاتے ہیں۔ان میں چین سرِ فہرست ہے جہاں REE ذخائر کا مجموعی حجم چار کروڑ چالیس لاکھ ٹن ہے جو آکسفورڈ انسٹیٹیوٹ اور انرجی اسٹڈیز کے مطابق دنیا بھر میں پائے جانے والے REEs کا 90 فیصد ہے۔ ہندوستان دوسرے پر نمبر ہے جہاں 69 لاکھ ٹن REE موجود ہیں، 38 لاکھ ٹن کے ساتھ روس کا نمبر تیسرا ہے اور چوتھے نمبر پر ویتنام ہے جہاں REE کا مجموعی حجم 25 لاکھ ٹن ہے۔ گرین لینڈ پر بھی صدر ٹرمپ کی نظریں ہیں جہاں REE کا تخمینہ 15 لاکھ ٹن ہے۔ امریکہ میں ان عناصر کا تخمینہ 19 لاکھ ٹن ہے۔ نایاب معدنیات کے اعتبار سے یوکرین دنیا کے 10 بڑے ممالک میں نہیں آتا، تاہم امریکی ماہرین کا خیال ہے کہ دنیا میں REE کے پانچ فیصد ذخائر اسی ملک میں ہیں۔دنیا بھر میں معدنیات پر نظر رکھنے والے مؤقر برطانوی ادارے بینچ مارک منرل انٹیلیجنس‘ المعروف Benchmark کے مطابق یوکرین کے نیچے چھپی نایاب معدنیات کے بارے میں اب تک جو تخمینے لگائے گئے وہ قیاس آرائی سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔ یوکرینی ماہرین ارضیات دارالحکومت کِیف، شمال وسطی یوکرین میں Vinnytsia اور چند دوسرے مقامات پر ان معدنیات کی موجودگی کا دعویٰ کر رہے ہیں لیکن اب تک ان علاقوں میں مساحت ارضی کا کوئی ٹھوس کام نہیں کیا گیا۔ ایک اور مشکل یہ ہے کہ REE کے ذخائر مشرقی یوکرین میں لوہانسک (Luhansk) اور ڈونیتسک (Donetsk) صوبوں پر مشتمل علاقے دونباس (Donbas) اس کے مغرب میں زیپوریزا (Zaporizhia) دریائے دنائپر (Dnieper) کے کنارے، تاتاروں کے جزیرہ نما کریما اور اس کے شمال میں بحیرہ آزوو (Azov) کے ساحل پر ہیں۔ یہ تمام کا تمام علاقہ روس کے قبضے میں ہے۔ یوکرین مساحت ارضی کے مطابق ملک میں بیٹری بنانے کے کام آنے والے قیمتی عنصر لیتھیم (Lithium) کے دریافت شدہ ذخائر کا تخمینہ ساڑھے چار لاکھ ٹن ہے لیکن اس کے بڑے حصے پر بھی روس قابض ہے۔
یعنی یوکرین میں نایاب معدنیات کے ذخائر تو ہیں لیکن روسی قبضے کی وجہ سے ان تک پہنچنا فی الحال ممکن نہیں ہے، شاید اسی لیے یوکرینی حکومت نے صدر ٹرمپ کے عتاب سے بچنے کے لیے اپنے معدنی وسائل تک امریکی رسائی کی کڑوی گولی یہ سوچ کر نگل لی کہ جب دادا مریں گے تب بیل بٹیں گے۔ ماہرین کے مطابق امریکہ میں نایاب معدنیات کے دریافت شدہ ذخائرکا حجم یوکرین سے زیادہ ہے لیکن صدر ٹرمپ خود کو دبنگ ثابت کرنے کے لیے یوکرینی معدنی وسائل تک رسائی کا معاہدہ چاہتے ہیں تاکہ وہ سینہ پھلا کر امریکی عوام کو بتا سکیں کہ ان کی انتظامیہ یوکرین کو مدد میں دی گئی ایک ایک پائی سود کے ساتھ واپس لے رہی ہے۔
چچا سام کا اصل حریف چین، ان معدنیات کے عالمی ذخائر کے 90 فیصد کا مالک ہے۔ خام ذخائر کے علاوہ چین نے یہ معدنیات نکالنے اور نتھارنے (Processing) کے باب میں زبردست مہارت حاصل کرلی ہے۔ امریکی مساحت ارضی کے مطابق امریکہ درآمد کیے جانے والے REE میں چین کا حصہ 72 فیصد ہے۔ امریکہ کے لیے مزید پریشان کن بات یہ ہے کہ افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکہ میں موجود ان نایاب معدنیات کی بہت سی بڑی کانوں کے مالک چینی ادارے ہیں۔ حالیہ تجارتی جنگ میں چین نے جن جوابی اقدمات کا عندیہ دیا ہے ان میں امریکہ کو REE برآمد پر پابندی بھی شامل ہے۔
ٹرمپ کے مشیر خصوصی ایلون مسک کا خیال ہے کہ امریکی صدر کے نعرے Make America Great Again یا MAGA کو عملی جامہ پہنانے میں مصنوعی ذہانت (AI) اور اس میدان کی دوسری ٹیکنالوجیاں اہم کردار اداکریں گی۔ ایک نشست میں وہ امریکی فضائیہ کے جدید ترین F35 طیاروں کو ‘نقش کہن’ کہہ چکے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ پائلٹ کی ‘ناقص عقل’ پر بھروسہ کرنے اور اس کی جان کو خطرے میں ڈالنے کا زمانہ گزر گیا ہے، اب ڈرونوں کا دور ہے۔
جدید الیکٹرانکس، ہتھیار سازی، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کے ڈیٹا مراکز کے لیے روایتی معدنیات یعنی تانبا، لیتھیم، سیلیکون، ورق پزیر ہیرا (Palladium) کے ساتھ REE کی بہت بڑی مقدار درکار ہے۔ امریکہ بہادر بلاشبہ ٹیکنالوجی کا مردِ میدان ہے لیکن ارضیات، کانکنی اور خاص طور سے نایاب معدنیات کی تلاش و ترقی میں اس کا چین سے کوئی مقابلہ نہیں۔ معدنیات کو سنوارنے اور نتھارنے کی ٹیکنالوجی میں تو مہارت حاصل کی جا سکتی ہے لیکن اس کے ذخائر پر قدرت نے چین کو جو برتری عطا کی ہے اس کا صدر ٹرمپ کے پاس کوئی علاج نہیں ہے۔ شاید اسی لیے ان کی نظریں یوکرین اور گرین لینڈ پر ہیں۔ لیکن ایک سوال یہ بھی ہے کہ اگر یوکرین اپنے معدنی وسائل تک امریکہ کو رسائی دینے پر رضا مند ہو بھی جائے تو کیا روس، معدنیات سے مالا مال یہ علاقے امریکی کانکنوں کے لیے خالی کردے گا؟
[email protected]
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 16 مارچ تا 22 مارچ 2025