
یوکرین کا حال اور اسرائیل کا مستقبل
یوکرینی جنگ اور معدنی وسائل: صدر ٹرمپ کا عالمی مفادات کے ساتھ کھلواڑ طشت از بام
ڈاکٹر سلیم خان
غزہ میں مزاحمت کاروں کا صبر و استقلال اہل یورپ کے لیے بہترین مثال
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی توجہات کا مرکز فی الحال غزہ یا ایران نہیں بلکہ یوکرین اور ہندوستان ہیں۔ یہی وجہ ہے وہ آج کل زیلنسکی کےحوالے سے ہر روز کوئی نہ کوئی نیا شوشا چھوڑ دیتے ہیں کیونکہ وہ بے چارہ مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق تھوڑا سا انکار کرکے سرِ تسلیم خم کردیتا ہے۔ بظاہر ایسا محسوس ہورہا ہے کہ زیلنسکی نے پوری طرح ہتھیار ڈال دیے ہیں ۔ اس کو نااہل کہا جائے یا آمر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس کے برعکس حماس کے تعلق سے کہی جانے والی ہر اوٹ پٹانگ بات کا منہ توڑ جواب آجاتا ہے۔ اس کے علاوہ مصر سے سعودی عرب اور ایران سے یمن تک سارے مسلم ممالک غزہ کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے نظر آتے ہیں لیکن یوروپی یونین کی ایسی غیر مشروط حمایت سے یوکرین محروم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کی حمایت کرنے کے بجائے امریکی انتظامیہ روس کا حامی بن گیا ۔ وہ ساری روسی شرائط کو یوکرین پر تھوپ رہا ہے۔ اس معاملے میں امریکہ یوکرین یا یوروپی یونین کو اعتماد میں لینا بھی ضروری نہیں سمجھتا ۔ کسی کی مجبوری کا فائدہ اٹھانا اسی کو کہتے ہیں۔ ہندوستان کے ساتھ بھی ٹرمپ کا یہی رویہ ہے کہ پہلے تو نقل مکانی کرنے والوں کو بیڑیوں میں جکڑ کر بھیجا اور پھر یو ایس ایڈ کو بند کرتے ہوئے پہلے حزب اختلاف کی جانب شک کی سوئی گھمائی اور پھر اپنے عزیز دوست وزیر اعظم نریندر مودی کا نام تک لے لیا مگر حکومتِ ہند میں مصر کی مانند سخت موقف اختیار کرنے کی ہمت نہیں ہے۔
ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنے گودی میڈیا فاکس نیوز کو بیان دیا کہ غزہ کے حوالے سے ان کا منصوبہ اچھا ہے لیکن وہ اسے مسلط نہیں کریں گے بلکہ صرف سفارش کر رہے ہیں۔ اس اعلان کے مہذب لب و لہجے کا اگر ماضی کےدھمکیوں سے موازنہ کریں تو زمین آسمان کا فرق نظر آتا ہے۔ ٹرمپ کہا کرتے تھے ’میری مانو ورنہ قیامت آجائے گی‘ یا ’جہنم کا باب کھل جائے گا‘ وغیرہ لیکن مصر کے نہایت کمزور صدر الفتاح السیسی نے بھی جب اپنا دورہ ملتوی کردیا تو ان کی سمجھ میں آگیا کہ ان میں اور امریکہ جانے کے لیے بیتاب مودی میں کیا فرق ہے؟ حماس سمیت مصر و سعودی تک کے انکار نے ٹرمپ کو سمجھا دیا کہ یہاں اپنی دال گلنے والی نہیں ہے اس لیے اب کہہ رہے ہیں کہ غزہ مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے اور اگر اس کے باشندوں کو انتخاب کی آزادی دی گئی تو وہ اسے چھوڑ دیں گے۔ ٹرمپ کن احمقوں کی جنت میں رہ رہے ہیں شاید وہ خود بھی نہیں جانتے۔ امریکی صدرکی بلڈر والی نگاہ میں غزہ ایک شاندار محل وقوع ہے اور انہیں اسرائیل کے وہاں سے نکل جانے پر اعتراض ہے لیکن اگر وہ اس کی وجہ جاننا چاہتے ہیں تو انہیں امریکہ کے افغانستان اور عراق سے راہِ فرار اختیار کرنےپر غور کرلینا چاہیے۔
ٹرمپ کے اس بیان سے واضح ہوگیا ہے کہ اسرائیل پر اعتراض کرنے والا خود غزہ کو خریدنے اور اس کی ملکیت حاصل کرنے کےعزم سے دستبردار ہو چکا ہے۔ اپنی منافع خوری کے حرص میں عرب ملکوں کو شمولیت کا لالچ دینے کی غرض سے ٹرمپ نے پیشکش کی تھی کہ مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک کو بھی وہ ساحلی پٹی کے کچھ حصے پرنام نہاد تعمیر نو کی مہم میں شامل کر سکتے ہیں۔ اس پیشکش کو سن کر اس ٹھگ کی یاد آگئی جس نے تاج محل کو بیچنے کا اشتہار نکال دیا تھا جبکہ وہ اس کی ملکیت میں ہی نہیں تھا ۔ امریکی صدر نےاچھا کیا جو اپنے ناپاک منصوبے میں شامل ہونے والے ملکوں کا نام نہیں بتایا ورنہ ان کی جانب سے تردید مزید رسوائی کا سبب بنتی ۔ ٹرمپ نے یہ دعویٰ تو کیا تھا کہ وہ غزہ کو مستقبل میں ترقی کے لیے ایک اچھے مقام میں بدل دیں گے لیکن یہ نہیں بتایا تھا کہ یہ کام کس کو فائدہ پہنچانے کے لیے کیا جائے گا اور جو باشندے اس سرزمین کے مالک ہیں ان کو کیا ملے گا۔ ان کی پردہ داری کے باوجود ساری دنیا سمجھ گئی اس لیے اسرائیل کے سوا کوئی حمایت کے لیےآگے نہیں آیا یہاں تک کہ بالآخر انہیں اپنے نامعقول خیال سے رجوع کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔
ڈونالڈ ٹرمپ کی اس احمقانہ تجویز کے بعد جس طرح امریکہ ساری دنیا سے الگ تھلگ ہوگیا اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی ۔ اس پیشکش کومسلم دنیا کی جانب سے متحدہ طور پرکڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ تمام عرب ممالک سمیت ساری عالمی برادری نے اسے مسترد کردیا الٹا ماضی میں ہونے والی فلسطینیوں کی نقل مکانی کے زخم تازہ ہوگئے اوران کا حقِ واپسی زیرِ بحث آگیا ۔ ٹرمپ کو اس وقت صدمے کا شدید جھٹکا لگا جب مغربی ملکوں اور امریکہ کے یوروپی اتحادیوں نے بھی واضح کیا کہ وہ مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کے موقف پر قائم ہیں۔ موصوف کو یہ بتایا گیا کہ غزہ کی آبادی کو نقل مکانی کے لیے مجبور کرنا انسانی حقوق اور بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے ۔ یہ خیال فلسطین کے حوالے سے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی بین مخالفت ہے۔ اس سے صدر ٹرمپ اس قدر دل برداشتہ ہوئے کہ انہوں نے روس کے ساتھ سعودی عرب میں بات چیت شروع کی تو یوروپی یونین کو پوری طرح کنارے کردیا۔ حد تو یہ ہےکہ یوکرین کو بھی بھلادیا گیا جبکہ وہ اس تنازع میں فریق اول اور امریکہ کا حلیف ہے۔
فلسطین کے تعلق سے ایسی ہر کوشش کی زبردست مخالفت ہوتی اور اس کے فیصلوں کو مسترد کردیا جاتا ہے مگر اب نہ تو ایسا کرنے کے لیے یوروپی یونین تیار ہے اور نہ یوکرین اس کی ہمت کر پارہا ہے۔ اس سے مسلم دنیا اوریوروپ کے درمیان فرق کو سمجھا جاسکتا ہے۔ یوکرین کا تو خیر غزہ سے کوئی تقابل ہی نہیں ہے۔ امریکہ اور یوروپ کس طرح مختلف ممالک کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے بعد بے یارو مددگار چھوڑ دیتے ہیں اس کی تازہ ترین مثال یوکرین ہے ۔ سوویت یونین سے علیحدگی کے بعد یوکرین نے بہت ترقی کی تھی ۔ وہ ایک خوشحال ملک تھا مگر ہم سایہ روس پر لگام لگانے کے لیے اسے استعمال کیا گیا۔ اسے یوروپی یونین اور نیٹو میں شمولیت کے خوشنما خواب دکھائے گئے۔یوکرین کے عوام نے پچھلی بار ایک یہودی ولادیمیر زیلنسکی کو صدر منتخب کیا تو یوروپی یونین کی رکنیت کے لیے وہ امریکہ کی طرف بڑھنے لگے اور روس سے دور ہوتے چلے گئے۔
یوکرین کے خلاف روسی یہ دلیل ہےکہ جس طرح اسے کیوبا میں فوجی تنصیبات قائم کرنے سے یہ کہہ کر روک دیا گیا تھا کہ ایسا کرنا امریکہ کی سیکیورٹی کے لیے خطرہ ہے اسی طرح یوکرین میں بھی روس کو لاحق خطرات کے پیش نظر امریکی اڈوں کی اجازت ممکن نہیں ہے ۔روس نے پہلے سمجھایا اور پھر دھمکی دی مگر زیلنسکی نہیں مانےتو پھر شدید جنگ شروع ہو گئی۔ اس نے ابھی حال میں ۲۲ فروری کو تین سال مکمل کرلیے ہیں ۔ اس دوران یوکرین و روس میں مرنے و زخمی ہونے والوں کی جملہ تعداد کا تخمینہ 16لاکھ سے متجاوز ہے۔ یوکرین میں مکانات، عمارتیں، سڑکیں، پل تو کیا چپہ چپہ تباہ ہو گیا مگر زیلنسکی نہ صرف میدان میں ڈٹے رہے بلکہ اپنی عوام کو بھی لڑنے کی ترغیب دیتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ جس جنگ کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ اسے روس دو دن میں جیت جائے گا تین سال سے جاری ہے۔
امریکہ اور نیٹو ممالک پس پردہ زیلنسکی کو چڑھاتے رہے یہاں تک کہ امریکہ میں اقتدار تبدیل ہوگیا اور اس کے ساتھ سب کچھ بدل گیا۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے یوکرین کی رضامندی کے بغیر سعودی عرب میں روس اور امریکہ کی بات چیت شروع کردی اور زیلنسکی کو مدعو تک نہیں کیا ۔ یہ معاملہ کھٹائی میں اس لیے پڑا کیونکہ موجودہ امریکی صدر نے یوکرین کو اب تک دی گئی مدد کے عوض یوکرین کے معدنی وسائل کی رسائی کے معاہدے پر زور دیا۔ اسی طرح کی سودے بازی ٹرمپ غزہ کی باز آباد کاری کے نام پر کرنا چاہتے تھے۔ اس کا ابتدائی ردعمل بھی و یساہی ہوا کہ زیلنسکی کو بہت غصہ آیا۔ انہوں نے امریکہ کو خوب سنایابلکہ ٹرمپ کو براہ راست چیلنج تک کردیا۔ یورپی ممالک کو ساتھ لے کر جنگ لڑنے کی کوشش کے عزم کا اظہار کیا لیکن بات نہیں بنی کیونکہ امریکہ اور یوروپین یونین نے وہی کیا جو ثاقب لکھنوی نے اس شعر میں کہا؎
باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے
امریکہ کی آگ اور یوروپی یونین کی ہوا نےصدر زیلنسکی کے ہوش اڑادیے۔ انہوں نے 500 بلین ڈالرس کے معدنیات سستے میں امریکہ کودینے کا وعدہ کیا تھا، لیکن بعد میں یوکرین اپنے وعدوں سے پیچھے ہٹ گیا۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اس سے خفا ہوکر یوکرینی صدر زیلنسکی کو دھمکی دی کہ قیمتی معدنیات دو ورنہ خیر نہیں۔ ایسے میں اربوں روپے کے معدنی ذخیرہ کے حوالے سے یہ خدشہ پیدا ہوگیا کہ کیا اس پر امریکہ قبضہ کرلے گا؟ یوکرین کے ڈونباس، لوہانسک، ڈونیسک میں 60 فیصد معدنیات ہیں۔ 40 فیصد ذخیرہ وسطی اور مغربی یوکرین میں ہیں ۔ امریکہ ان علاقوں میں لیز پر قبضہ چاہتا ہے۔ ڈونباس کے آس پاس تو روس نے تسلط جمالیا ہے ۔ یوکرین امریکہ سے رضامندی ظاہر کردے توروس کو وہاں سے ہٹنا پڑے گا ۔ ایسی حالت میں روس اور امریکہ آمنے سامنے ہوجائیں گے۔
امریکہ کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ بلامفاد کچھ نہیں کرتامگر اس کے ناپاک عزم بہت آگے چل کر سامنے آتے ہیں جیسے غزہ میں جنگ بندی کا مقصد امن قائم کرنا نہیں بلکہ زمین ہڑپنا تھا۔ گزشتہ تین سالوں سے اس کے یوکرین کو اسلحے دینےکے پیچھے بھی معدنیاتی ذخیرہ پر قبضہ کرنے کا ارادہ کار فرما تھا۔ ویسے پہلےہی ’بلیک راک‘ نامی کمپنی کو یوکرین کی بہت بڑی زرخیز زمین دی جا چکی ہے۔یوکرین میں کوئلے اور لوہے کے علاوہ ریئر ارتھ منرلس کی وافر مقدار موجود ہےجو جدید ٹیکنالوجی یعنی سیمی کنڈکٹر یا اس جیسی دیگر چیزوں میں استعمال کیے جاسکتے ہیں۔ گزشتہ سال ستمبر میں ٹرمپ سے وعدہ کرنے کے بعد زیلنسکی پیچھے ہٹے تو ان کا حال ’نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم‘ جیسا ہوگیاہے ۔ اپنی زمین گنوانے کے بعد اب ان پر واشنگٹن کا دباو اس قدر زیادہ ہوگیا ہے کہ معدنی وسائل کے تعلق سے وہ کہہ رہے ہیں ’’یہ ایک ایسامعاہدہ ہے جو ہمارے تعلقات کو مضبوط بنا سکتا ہے، مجھے امید ہے کہ ایک منصفانہ نتیجہ نکلے گا‘‘۔
روس یوکرین جنگ اب ختم تو ہونے جا رہی ہے مگر اس میں سب سے زیادہ فائدہ روس کو ہو گا۔ اس بات کااندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ ابھی حال میں امریکہ نے اقوام متحدہ کے اندر یوکرین کے تنازعے پرایک قرارداد پیش کی ۔ اس میں روس کے زیرتسلط کیف کے علاقے کا کوئی ذکر ہی نہیں ہےاور اس کے بغیر ہی تنازعہ کے جلد خاتمے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے امریکہ کی تجویز نے اقوام متحدہ میں ماسکو کے سفیر واسیلی نیبنزیا کو باغ باغ کردیا اور انہوں نے بغیر وقت گنوائے اس کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے ایک اچھا قدم قرار دے دیا۔اتنا کچھ ہوتے ہوتے زیلنسکی کو اپنی شکست کا احساس ہوگیا اور انہوں نے ٹرمپ کے آگے سپر ڈالتے ہوئے ’منصفانہ نتیجہ‘ کی توقع ظاہر کرنے پر اکتفا کیا۔روس کی جانب ڈونالڈ ٹرمپ کا جھکاو اس قدر زیادہ ہے کہ ان کے مطابق دونوں فریق امن چاہتے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ کھلے عام کہہ رہا ہے کہ یوکرین کے لیے اپنی 2014 کی سرحدوں پر واپس آنے یا کسی بھی معاہدے کے تحت نیٹو اتحاد میں شامل ہونے کی توقع رکھنا غیر حقیقت پسندانہ ہے۔ یعنی اس کی حالت دھوبی کتے کی طرح ہوگئی ہے جو گھر کا ہوتا ہے اور نہ گھاٹ کا۔ نہ ہی نیٹو میں شمولیت کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوگا اور نہ اپنی کھوئی ہوئی سرحدیں واپس ملیں گی ۔ امریکہ نےیہ یقین دہانی بھی کرائی ہے کہ جنگ بندی کو نافذ کرنے والی امن والےبین الاقوامی فوج میں کوئی امریکی فوجی شامل نہیں ہوگا ۔
ماہرین کے مطابق روس پر یہ ساری نوازشات اسے برکس سے نکالنے یا چین سے دور کرنے کے لیے ہے۔ ٹرمپ چین سے بھڑنا نہیں چاہتے بلکہ اس کو کمزور کرکے اپنے ساتھ لینا چاہتے ہیں تاکہ ’پھر سے امریکہ کو عظیم بنانے ‘ کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوسکے ۔ ہندوستان کو تو ٹرمپ نے اپنے جھانسے میں لے لیا اب دیکھنا یہ ہے کہ روس اس کے دام پھنستا ہے یا نکل جاتا ہے۔اس تنازعہ کا ایک فریق یورپی یونین بھی ہے ۔یورپی یونین کمیشن کی صدر ارسلا وان ڈیرلیئن اور یورپی کونسل کے صدر انتونیو کوسٹا نے فرانس دارالحکومت پیرس میں صدر ایمانوئل میکرون کی میزبانی میں یوکرین سے متعلق غیر معمولی سربراہی اجلاس کے بعد اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے یوکرین روس کے مابین ممکنہ امن کی بحالی پر زور دیا اور کہا کہ سربراہی اجلاس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ یوکرین کو مضبوط پوزیشن میں امن کی میز پر بیٹھنا چاہیے اور یہ کہ امن ملک کی آزادی ، خودمختاری ، علاقائی سالمیت اور مضبوط سلامتی کی ضمانت کے ساتھ آنا چاہیے۔یہ کہنےکے بعد کہ یورپ نے یوکرین کو فوجی امداد میں اپنا مکمل کردار ادا کیا ہے ، دونوں نے دفاعی سرمایہ کاری ، پیداوار اور اخراجات میں اضافہ پراتفاق کیا۔ یورپ میں سلامتی کے امور رہنماؤں کے درمیان مشاورت میں جرمنی، برطانیہ، اٹلی، پولینڈ، اسپین، نیدرلینڈز ، ڈنمارک کے رہنماؤں نیز نیٹو سکریٹری جنرل مارک روٹ نے شرکت کی۔
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ کاجا کالس نے ایکس پر ایک پیغام میں امریکہ کو خبردار کیا ہے کہ وہ روس کے دھوکے میں نہ آئے۔ یورپی یونین کے ترجمان سٹیفن ڈی کیرسمیکر کا کہنا تھا کہ صدر زیلنسکی صاف شفاف اور جمہوری انتخابات کے ذریعے منتخب ہوئے تھے۔ یوکرین یورپی یونین کا رکن تو نہیں ہے لیکن اس کا اہم اتحادی ہے ۔اس کے برعکس امریکی صدر نے یوکرین کے صدر کو آمر قرار دے چکے ہیں ۔ برکس میں شامل برازیل امریکہ پر تنقید کرتا ہے مگر کریملن کا ترجمان یوکرین تنازع ختم کرنے کے لیے نئی امریکی انتظامیہ سے مکمل متفق ہوجاتا ہے ۔ برازیل کے صدر لوئیز اناسیو لولا ڈاسلوا نے ٹرمپ پر الزام لگایا کہ وہ دنیا کا شہنشاہ بننا چاہتے ہیں، انہوں نے امریکی صدر سے مطالبہ کیا کہ وہ دوسرے ممالک کی خودمختاری کا احترام کریں ۔
امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ، نیٹو ہیڈکوارٹر میں خوشامد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ دنیا خوش قسمت ہے کہ کرہ ارض کے ٹرمپ جیسے بہترین مذاکرات کار نے بات چیت کے ذریعے امن کی غرض سے فریقوں کو یکجا کیا ہے۔”کریملن کے ترجمان پیسکوف بھی ٹرمپ کی جانب سے حل کی تلاش سے "متاثر” نظر آتے ہیں ۔یوکرین کی جانی و مالی تباہی غزہ سے بہت زیادہ ہے مگر فرق یہ ہے کہ ایران آج بھی فلسطین کے ساتھ کھڑا ہے مگر امریکہ نے اپنے حلیف کی پیٹھ میں خنجر گھونپ دیا ۔امریکہ کی اس دغا بازی میں اسرائیل کے لیے سبق ہے کہ آج جو کچھ یوکرین کے ساتھ ہوا ہے وہ کل اس کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔ صدر ٹرمپ پروفیسر جیفری شاس کی وہ ویڈیو ٹویٹ کرچکے ہیں جس میں نیتن یاہو کو نہ صرف کالا کتا کہا گیا ہے بلکہ امریکہ کو ایک لامتناہی جنگ میں گھسیٹنے کا الزام لگا کر اس سے دور رہنے کی تلقین کی گئی ۔ صدر ٹرمپ یا کسی اور امریکی صدر کے سر میں جب بھی یہ سودا سمائے گا اسرائیل نامی شجر خبیثہ ازخود جڑ سے اکھڑ جائے گا اور یہودی یہ کہتے پھریں گے ’وہ شاخ ہی نہ رہی جس پے آشیانہ تھا‘۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 02 مارچ تا 08 مارچ 2025