یوکرین جنگ کے تین سال: یورپ کے لیے نئے چیلنجز

امریکی مدد کے بغیر یورپ کا دفاعی مستقبل کیا ہوگا؟

اسد مرزا، سینئر سیاسی تجزیہ نگار

یوکرین پر روس کے حملے کو تین سال مکمل ہونے کے بعد یورپ کو یہ احساس ہو چکا ہے کہ جنگ ایک بار پھر براعظم میں واپس آ گئی ہے۔ یعنی اب یورپی ممالک کو روس کے خلاف جنگ خود لڑنی ہوگی، کیونکہ اس جنگ میں امریکہ نہ تو یورپی ممالک کی مدد کرے گا اور نہ ہی یوکرین کا ساتھ دے گا۔
ڈونالڈ ٹرمپ کے دوبارہ امریکی صدر منتخب ہونے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی پہلی میعاد زیادہ تر حکومتی اداروں اور فیصلہ سازی کے عمل کو سمجھنے میں گزری، جبکہ اس بار وہ اپنی پالیسیوں کے عملی نفاذ پر توجہ دے رہے ہیں۔ ان کی خارجہ پالیسی کا نیا انداز، بحرِ اوقیانوس کے اتحاد سے بیزاری اور روس کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا رجحان نیٹو کی موجودہ حیثیت کو مستقل طور پر نقصان پہنچا سکتا ہے۔
یورپی ممالک اب واضح طور پر یہ سمجھ چکے ہیں کہ روس کے خلاف جنگ اور یوکرین کی حمایت اب انیں اپنے وسائل اور اپنی حکمتِ عملی کے تحت کرنی ہوگی۔ ساتھ ہی انہیں یہ بھی ادراک ہو چکا ہے کہ نیٹو کے لیے اب امریکہ سے کسی مدد کی توقع نہیں رکھی جا سکتی۔
موجودہ حالات سے نمٹنے کے لیے یورپی کمیشن (EC) نے ایک انتہائی متوقع "یورپی دفاع کے لیے وائٹ پیپر” اور "ری آرم یورپ” (ReArm Europe) کے تحت تجاویز پیش کی ہیں۔ ان تجاویز کے ذریعے، یورپی کمیشن نے دفاعی نظام میں بیوروکریسی کو کم کرنے، رکن ریاستوں کے لیے دفاعی بجٹ میں اضافہ کرنے اور دفاعی کوششوں کو مزید مؤثر بنانے کا عندیہ دیا ہے۔
یورپی کمیشن نے یوکرین کی مدد بڑھانے، اس کی دفاعی صنعت کو یورپی منصوبوں سے جوڑنے اور خطے کے دفاعی نظام کو مستحکم کرنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔ ان تمام کوششوں میں مختلف یورپی ممالک کلیدی کردار ادا کریں گے، جن کی نگرانی یورپی کمیشن کرے گا۔
"وائٹ پیپر” اور "ری آرم یورپ” کی تجویز یورپی یونین کے حالیہ دفاعی اقدامات کو مزید مستحکم کرنے اور وسعت دینے کی کوشش ہے۔ 2022 میں یورپی یونین نے "اسٹریٹیجک کمپاس” اپنایا تھا، جو اگلی دہائی کے دوران یورپی سیکیورٹی اور دفاعی پالیسی کے لیے ایک فریم ورک تھا۔ 2023 میں، یورپی کمیشن نے یوروپی دفاعی صنعتی حکمتِ عملی متعارف کرائی تھی، جس کا مقصد طویل مدتی دفاعی تیاری اور صلاحیتوں کو بڑھانا تھا۔
ٹرمپ کی دوسری مدت اور یورپ کی بدلتی حکمتِ عملی
ٹرمپ کے دوسری بار اقتدار سنبھالنے کے بعد، یورپی ممالک نے اپنی سلامتی کے لیے امریکہ پر انحصار ختم ہوتا دیکھا۔ فروری 2025 میں جرمنی کے انتخابات کے بعد، نئے جرمن چانسلر فریڈرک مرز نے کہا:
"یورپ کو امریکہ سے قدم بہ قدم آزادی حاصل کرنی چاہیے۔”
مرز اور پولینڈ کے وزیر اعظم ڈونالڈ ٹسک دونوں نے یورپی جوہری ڈیٹرنٹ کے امکانات پر بات کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا ہے۔
اس ماہ کے اوائل میں یوکرین میں امریکہ کی جانب سے انٹلیجنس شیئرنگ روکنے کے بعد یورپ نے Starlink اور دیگر امریکی آپریٹرز پر انحصار کم کرنے کے لیے نئے فوجی سیٹلائٹ انٹیلیجنس اور کمیونیکیشن نیٹ ورکس کی تلاش شروع کر دی ہے۔
پرتگال کے وزیر دفاع نے عندیہ دیا ہے کہ مستقبل میں ان کا ملک امریکی ساختہ F-35 طیارے خریدنے کے امکان کو کم کر رہا ہے۔ سابق اطالوی وزیر اعظم ماریو ڈریگی نے ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کے ردعمل میں نئے علاقائی دفاعی کمانڈ ڈھانچے کی تجویز دی ہے۔
یورپی ممالک کے بڑھتے ہوئے دفاعی اخراجات
کئی یورپی ممالک نے اپنے دفاعی بجٹ میں نمایاں اضافے کا اعلان کیا ہے:
• برطانیہ نے اپریل 2027 سے دفاعی اخراجات کو جی ڈی پی کے 2.5 فیصد تک بڑھانے کا عندیہ دیا ہے۔
• جرمن پارلیمنٹ نے اس ماہ اپنے زیادہ تر دفاعی اخراجات کو روایتی اصولوں سے مستثنیٰ قرار دینے کے لیے ووٹ دیا ہے۔
• پولینڈ اور ایسٹونیا دونوں نے 2025 میں اپنے دفاعی بجٹ کو جی ڈی پی کے 5 فیصد تک لے جانے کے منصوبوں کا اعلان کیا ہے۔
ReArm Europe – یورپی دفاعی سرمایہ کاری کا نیا منصوبہ
ReArm Europe، یورپی کمیشن کی جانب سے ایک نئی تجویز ہے، جس کے تحت یورپی دفاعی سرمایہ کاری کو 800 بلین یورو سے زیادہ بڑھایا جائے گا۔ اس میں:
• 650 بلین یورو قومی اخراجات میں اضافے کے ذریعے متحرک کیے جائیں گے۔
• یورپی یونین کے خسارے کے قوانین میں نرمی کر کے دفاعی اخراجات کو آسان بنایا جائے گا۔
• یورپ کے لیے ایک نئی سیکیورٹی ایکشن (SAFE) قرض اسکیم متعارف کرائی جائے گی۔
• امریکی دفاعی کمپنیوں کو ReArm Europeکے تحت فنڈنگ سے مستثنیٰ رکھا جائے گا۔
آنے والے مہینوں میں رکن ممالک کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ اپنے دفاعی اخراجات میں اضافے کے ساتھ کیا خریدنا چاہتے ہیں۔ نئے وائٹ پیپر میں، یورپی کمیشن (EC) نے سات اہم دفاعی ترجیحات کی نشاندہی کی ہے جن پر مشترکہ یورپی اخراجات مرکوز ہونے چاہئیں۔ ان میں شامل ہیں: فضائی اور میزائل دفاع، توپ خانے کے نظام، گولہ بارود اور میزائل، ڈرون اور انسدادِ ڈرون نظام، فوجی نقل و حرکت، مصنوعی ذہانت (AI) کوانٹم ٹیکنالوجی، سائبر سیکیورٹی اور الیکٹرانک جنگ۔ اس کے ساتھ ساتھ، اسٹریٹیجک سطح پر یورپی ممالک کو مزید مستحکم بنانے کے لیے انٹلیجنس، نگرانی اور جاسوسی جیسی صلاحیتوں کو بھی جدید اور مؤثر بنانے پر زور دیا جا رہا ہے، کیونکہ یہ براہِ راست جنگ میں ملوث نہیں ہوتیں لیکن فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہیں۔ تاہم، حالیہ برسوں میں برسلز رکن ممالک کو یورپی یونین کے ذریعے دفاعی پالیسی کے فیصلوں میں شامل کرنے اور EC کی افادیت پر قائل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ رکن ممالک نہ صرف ایک دوسرے بلکہ خود EC کے ساتھ بھی حساس معلومات شیئر کرنے سے گریزاں رہے ہیں۔ اعلیٰ درجے کی دفاعی صنعتوں کے بغیر زیادہ تر یورپی ممالک یہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ یورپی یونین کے اقدامات سے کوئی خاص فائدہ نہیں اٹھا رہے۔ دوسری طرف وہ ممالک جو روایتی طور پر زیادہ دفاعی اخراجات کرتے رہے ہیں، وہ یورپی یونین پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ مشترکہ دفاعی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کے بجائے اپنے وسائل کو امداد کے طور پر استعمال کر رہی ہے، جس کی وجہ سے قومی دفاعی سرمایہ کاری کو نظر انداز کیا گیا ہے۔
کوئی بھی ملک اپنی دفاعی منصوبہ بندی کا اختیار برسلز کو دینے پر آمادہ نہیں اور نہ ہی کوئی دفاعی صنعت مزید حریفوں کا سامنا کرنا چاہتی ہے۔ مختصراً یورپی ممالک کو یقین نہیں کہ EU کے ساتھ تعاون ان کی دفاعی خریداری، تحقیق اور ترقی کو مؤثر اور کم خرچ بنا سکتا ہے۔ وہ نہ تو EC پر اعتماد کرتے ہیں اور نہ ہی ایک دوسرے پر، جس کی وجہ سے یورپی یونین کے زیادہ تر اقدامات کمزور مالی وسائل اور قومی دفاعی منصوبہ بندی سے الگ تھلگ رہ گئے ہیں۔
مجموعی طور پر یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ یورپی حکام اب تک غفلت کا شکار رہے ہیں اور اس امید پر بیٹھے رہے کہ جیسا کہ پہلی عالمی جنگ کے بعد سے ہوتا آیا ہے، امریکہ بالآخر ان کی مدد کو پہنچے گا۔ لیکن اب مستقبل میں ایسا ہونے کا امکان بہت کم نظر آتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ یورپی ممالک کو بالآخر اپنی اندرونی سیاسی چالوں اور تقسیم کو ختم کرکے اپنے دفاع کو یقینی بنانے کے لیے خود ہی متحد ہونا ہوگا، ووہ بھی بغیر کسی امریکی مدد کے۔ یہی وہ راہ ہے جس پر چل کر یورپی ممالک اپنی سلامتی کو یقینی بنا سکتے ہیں۔
***

 

***

 یورپی ممالک اب واضح طور پر یہ سمجھ چکے ہیں کہ روس کے خلاف جنگ اور یوکرین کی حمایت اب انیں اپنے وسائل اور اپنی حکمتِ عملی کے تحت کرنی ہوگی۔ ساتھ ہی انہیں یہ بھی ادراک ہو چکا ہے کہ نیٹو کے لیے اب امریکہ سے کسی مدد کی توقع نہیں رکھی جا سکتی۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 13 اپریل تا 19 اپریل 2025