یوجی سی ڈرافٹ ریگولیشنز 2025 پر رائے عامہ طلب
اسٹیٹ یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں کے انتخاب میں ریاستی حکومتوں کے کردار کو ختم کرنے کی کوشش
شہاب فضل، لکھنؤ
تجاویز کی منظوری کے بعد اعلیٰ تعلیمی اداروں پر مرکزی حکومت کے بڑھتے ہوئے کنٹرول سے کئی نقصانات کا اندیشہ
نئی قومی تعلیمی پالیسی کے تحت یونیورسٹی گرانٹ کمیشن کے ڈرافٹ میں کئی مثبت اقدامات لائق تحسین
یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (یوجی سی) نے حال ہی میں ملک کی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں اساتذہ اور اکیڈمک اسٹاف کی تقرری اور ترقی کے لیے کم از کم اہلیت وغیرہ کے سلسلہ میں ڈرافٹ ریگولیشنز 2025 جاری کیا ہے جس میں اساتذہ کی تقرری کے ضابطوں اور وائس چانسلروں کے انتخاب کے قوانین میں کچھ بنیادی تبدیلیوں کی تجاویز شامل ہیں۔ مرکزی وزیر تعلیم دھرمیندر پردھان نے چھ جنوری 2025 کو ڈرافٹ ریگولیشنز کا اجراء کیا اور یوجی سی نے اس پر پانچ فروری 2025 تک بذریعہ ای میل رائے عامہ طلب کی ہے تاکہ انہیں حتمی شکل دی جاسکے۔
رائے اور تجویز ارسال کرنےکا ای میل ہے:
[email protected]
کچھ دیگر تجاویز کے ساتھ ایک اہم تجویز اس میں یہ شامل ہے کہ ریاستی یونیورسٹی یا مرکزی یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے انتخاب کے لیے ایک تین رکنی سرچ کمیٹی بنائی جائے گی جس میں متعلقہ یونیورسٹی کی اعلیٰ ترین انجمن (سینیٹ، سنڈیکیٹ یا ایکزیکیٹیو کونسل) سے ایک نمائندہ، یوجی سی کا ایک نمائندہ اور ریاستی یونیورسٹی کی صورت میں گورنر (چانسلر) کا ایک نمائندہ شامل ہوگا۔ مرکزی یونیورسٹی کے معاملہ میں ریاستی گورنر کے بجائے صدر جمہوریہ (وزیٹر) کا نمائندہ کمیٹی میں رہے گا۔ ریاستی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر کی سرچ و سلیکشن کمیٹی کی تشکیل گورنر کریں گے جو ریاستی یونیورسٹیوں کے چانسلر ہوتے ہیں۔
ڈرافٹ ریگولیشنز کی دیگر تجاویز غنیمت ہیں البتہ مذکورہ بالا تجویز نہ صرف ریاستی حکومتوں کے کردار کو محدود کردے گی بلکہ یہ قومی تعلیمی پالیسی 2020 کی روح سے بھی متصادم ہے جس میں اعلیٰ تعلیمی اداروں کو زیادہ خودمختاری دینے کی بات کہی گئی ہے۔ تعلیم چونکہ مرکز و ریاست کے مشترکہ امور کی فہرست کا حصہ ہے اس لیے اس میں مرکزی حکومت کا کردار بڑھانا اور ریاستی حکومت کا کردار ختم کرنا عقل و منطق سے پرے ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مرکزی حکومت اداروں کو اپنے کنٹرول میں لینے کی روش جاری رکھے ہوئے ہے۔ اسے ایک رجعت پسندانہ اور اعلیٰ تعلیمی اداروں کی خود مختاری چھیننے والا اقدام قرار دیا جارہا ہے۔
واضح رہے کہ ریاستی یونیورسٹیوں میں وائس چانسلروں کی تقرری کے سلسلہ میں تمل ناڈو، کرناٹک، کیرالا اور مغربی بنگال سمیت ایسی تمام ریاستوں میں ماضی قریب میں خلفشار پیدا ہوچکا ہے جہاں بی جے پی کی مخالف پارٹیوں کی حکومت ہے۔ اس کے باعث کئی یونیورسٹیوں میں دو تین سال سے وائس چانسلر کے عہدے خالی ہیں۔ چونکہ وائس چانسلر کا عہدہ یونیورسٹی کا اعلیٰ ترین عہدہ ہوتا ہے جسے علمی اور انتظامی دونوں طرح کے فریضے انجام دینے ہوتے ہیں، اس لیے عہدہ خالی رہنے سے ان اداروں میں تعلیم و تحقیق کا کتنا نقصان ہورہا ہوگا اس کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
سیاسی حلقوں کی اگر بات کی جائے تو کیرالا اور تمل ناڈو کی حکومتوں نے مجوزہ ڈرافٹ ریگولیشنز کی مذمت کی ہے اور خاص طور سے وائس چانسلروں کے انتخاب میں گورنر یعنی ریاستی یونیورسٹیوں کے چانسلر کو اختیار کلّی دیے جانے کی مخالفت کی ہے۔ اس ڈرافٹ ریگولیشنز کے خلاف تمل ناڈو اسمبلی نے تو ایک قرارداد منظور کرکے مرکزی حکومت سے اسے فوراً واپس لینے کا مطالبہ کیا۔
کانگریس نے وائس چانسلروں اوراساتذہ کی تقرری کے سلسلہ میں یوجی سی ریگولیشنز کو آئین مخالف قرار دیا ہے۔ پارٹی کے جنرل سکریٹری (کمیونکیشنز) جے رام رمیش نے کہا کہ ان ضوابط میں کانٹریکٹ پر پروفیسر کی تقرری کی دس فیصد حد کو ختم کردیا گیا ہے جس سے اعلیٰ تعلیم میں کانٹریکٹ پر کام لینے کی روایت مضبوط ہوگی جس سے تعلیم و تحقیق کا معیار پست ہوگا۔ اس کے علاوہ ریاستی یونیورسٹیوں میں وائس چانسلروں کی تقرری کے سلسلہ میں ریاستی حکومتوں سے اختیار چھین لیا گیا ہے اور گورنروں کو اختیار دے کر سب کچھ ایک طریقہ سے مرکزی حکومت کے ہاتھ میں دے دیا گیا ہے۔ کانگریس نے اس مسودے کو واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔
وائس چانسلر کی تقرری کے مسئلہ پر گورنروں اور ریاستی حکومتوں میں ٹکراؤ
گزشتہ کچھ برسوں سے ریاستی یونیورسٹیوں میں وائس چانسلروں کی تقرری پر متعدد ریاستی حکومتوں اور ان کے گورنروں کے درمیان ٹکراؤ کی نوبت آئی ہے۔
کیرالا میں اس طرح کا تنازعہ سن 2021 میں شروع ہوا جب وہاں کے اس وقت کے گورنر عارف محمد خاں نے کنّور یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے عہدے کے لیے گوپی ناتھ رویندرن کو وائس چانسلر بنانے کی ریاستی حکومت کی سفارش پر عدم اطمینان ظاہر کیا۔ اس پر 2023میں کیرالا اسمبلی نے ریاستی یونیورسٹیوں کے چانسلر کے عہدے سے گورنر کو ہٹاکر کسی بھی نامور ماہر تعلیم کو چانسلر مقرر کرنے کا بل پاس کیا۔ یہ بل ابھی تک صدر جمہوریہ ہند کے پاس زیر التوا ہے۔
دوسری طرف کرناٹک میں دسمبر 2024 میں کرناٹک اسٹیٹ رورل ڈیولپمنٹ اینڈ پنچایتی راج یونیورسٹی کے چانسلر کے عہدے کے سلسلہ میں ریاستی اسمبلی نے ایک بل منظور کرکے گورنر کی جگہ وزیر اعلیٰ کو چانسلر طے کردیا۔ اس بل کو گورنر نے اپنی منظوری نہیں دی۔ دیگر ریاستی یونیورسٹیوں کےسلسلہ میں بھی اسی طرح کا قانون لانے کا عندیہ ریاستی حکومت دے چکی ہے۔
مغربی بنگال میں بھی کچھ ایسی ہی صورت حال پیدا ہوئی جب 2023 میں گورنر سی وی انندا بوس نے تیرہ ریاستی یونیورسٹیوں میں عارضی وائس چانسلر مقرر کردیے۔ اسے ریاستی حکومت نے ہائی کورٹ میں چیلنج کیا۔ معاملہ اب سپریم کورٹ میں ہے۔ ریاستی گورنر کے رویے پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے مغربی بنگال حکومت نے ایک نیا بل لاکر گورنر کی جگہ وزیر اعلیٰ کو چانسلر بنادیا۔ یہ بل بھی ریاستی گورنر کے پاس زیر التوا ہے۔
ریاستی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں کی تقرری پر تمل ناڈو میں ڈی ایم کے کی حکومت اور ریاستی گورنر آر این روی کے درمیان گزشتہ تین برس سے رسہ کشی اور بیان بازی دیکھنے کو مل رہی ہے، جس کے باعث کئی ریاستی یونیورسٹیوں میں وائس چانسلر کے عہدے خالی ہیں۔ سن 2022 میں ریاستی حکومت نے اس سلسلہ میں دو بل منظور کیے جس میں گورنر کے اختیارات محدود کردیے گئے تھے۔ انہیں گورنر نے اپنی منظوری نہیں دی۔ گورنر نے وائس چانسلر کے انتخاب کی سرچ کمیٹی کو حکومت سے واپس لینے کے لیے کہا کیونکہ کمیٹی میں یوجی سی چیئرمین کے نمائندے کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔
وائس چانسلروں کی تقرری کے لیے یکساں قانون کا فقدان
مرکزی یونیورسٹیوں میں وائس چانسلروں کی تقرری کے سلسلہ میں کوئی یکساں قانون نہیں ہے۔ زیادہ تر یونیورسٹیوں کے اپنے ایکٹ ہیں جن کے ضابطے الگ الگ ہیں۔
مثال کے طور پر جواہر لال نہرو یونیورسٹی اور دہلی یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے انتخاب کے لیے ایک تین رکنی سرچ کمیٹی قائم کی جاتی ہے اور وائس چانسلر کے انتخاب کے لیے ایک اشتہار جاری کیا جاتا ہے۔ یہ سرچ کمیٹی جو یونیورسٹی کی ایکزیکیٹیو کونسل سے دو ممبران اور وزیٹر (صدر جمہوریہ) سے نامزد شدہ ایک ممبر پر مشتمل ہوتی ہے، اشتہار کے بعد آنے والی درخواستوں کو شارٹ لسٹ کرتی ہے اور منتخب امیدواروں کا انٹرویو کرتی ہے۔ اس میں سے تین ناموں کو منتخب کرکے وزیٹر کے پاس بھیجا جاتا ہے جو کسی ایک کو وائس چانسلر کے عہدے کے لیے منتخب کرلیتا ہے۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ میں بھی وائس چانسلر کے انتخاب کے لیے ایک سرچ کمیٹی ہوتی ہے۔ جامعہ ایکٹ کے مطابق یونیورسٹی کی ایکزیکیٹیو کونسل دو ممبران نامزد کرتی ہے جب کہ ایک ممبر مرکزی وزیر تعلیم کی جانب سے نامزد کیا جاتا ہے۔ وائس چانسلر کے عہدے کے لیے درخواستیں طلب کی جاتی ہیں۔ نام شارٹ لسٹ ہوتا ہے اور پھر انٹرویو کے بعد تین نام صدر جمہوریہ (وزیٹر) کو بھیجے جاتے ہیں۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے ایکٹ میں سرچ کمیٹی کا تصور نہیں ہے۔ اے ایم یو کی ایکزیکیٹو کونسل جو 28 اراکین پر مشتمل ہے، اس کی میٹنگ میں وائس چانسلر کے عہدے کے لیے نام تجویز کیے جاتے ہیں اور پھر ان ناموں پر ووٹنگ ہوتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ایکزیکیٹیو کونسل میں بسااوقات عہدے خالی رہتے ہیں۔ بہرحال جتنے بھی اراکین ہوتے ہیں وہ اپنے ووٹ ڈالتے ہیں۔ سب سے زیادہ ووٹ پانے والے پانچ ناموں پر اس کے بعد اے ایم یو کورٹ میں ووٹنگ ہوتی ہے اور یہاں تین سب سے زیادہ ووٹ پانے والے ناموں کو صدر جمہوریہ ہند (وزیٹر) کے پاس بھیج دیا جاتا ہے۔ وزیٹر ان میں سے ایک نام کو وائس چانسلر کے عہدے کے لیے منتخب کرلیتا ہے۔
ویسے تو اصولی طور پر اے ایم یوکورٹ 194 اراکین کی ایک باڈی ہے مگر اس میں فی الحال تقریبا 94 عہدے خالی ہیں۔ اے ایم یو میں چونکہ وائس چانسلر کے انتخاب کے لیے کوئی سرچ کمیٹی نہیں بنتی، اس لیے وائس چانسلر کے عہدے کے لیے کوئی اشتہار نہیں جاری ہوتا۔ وائس چانسلر بننے کی خواہش رکھنے والے افراد ایکزیکیٹیو کونسل کے اراکین سے رابطہ کرکے اپنے لیے راہ ہموار کرتے ہیں اور اپنا نام تجویز کرواتے ہیں۔ اراکین کے ووٹ کے لیے انہیں کافی تگ و دو کرنی پڑتی ہے۔
ریاستی یونیورسٹی میں وائس چانسلر کے انتخاب سے متعلق تجویز پر واویلا
جہاں تک ریاستی یونیورسٹیوں کا معاملہ ہے تو ان کے وائس چانسلر کےانتخاب کے لیے ریاستی حکومت سرچ کمیٹی قائم کرتی ہے۔ اس سلسلہ میں 2018 کا یوجی سی نوٹیفکیشن رہنمائی کرتا ہے۔ سرچ و سلیکشن کمیٹی کے ذریعہ وائس چانسلر کے عہدے کے لیے تین تا پانچ ناموں کا انتخاب کرکے انہیں صدر جمہوریہ کے پاس بھیجا جاتا ہے۔ ریاستی یونیورسٹیوں میں یوجی سی چیئرمین کا نامزد کردہ ایک ممبر ہوتا ہے۔ بقیہ ممبران ریاستی قانون کے مطابق کمیٹی میں شامل ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر کیرالا میں ریاستی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر کے انتخاب کے پینل میں ایک ممبر یونیورسٹی سینیٹ سے، ایک یوجی سی چیئرمین سے نامزد شدہ اور ایک ممبر چانسلر (گورنر) کا نامزد کردہ ہوتا ہے۔
یوجی سی نوٹیفکیشن 2018 کے مطابق سرچ کمیٹی میں ریاستی یونیورسٹیوں کے گورنر (چانسلر) کی نمائندگی کے سسلسلہ میں یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ ریاستی حکومت تین نام گورنر کے پاس بھیجتی ہے جس میں سے ایک نام کو گورنراپنے نمائندے کے طور پر منتخب کرلیتا ہے۔
2025 کے ڈرافٹ ریگولیشنز میں اس شق میں بنیادی تبدیلی یہ کی گئی ہے کہ اب گورنر/ چانسلر بذات خود اپنا نمائندہ نامزد کرے گا۔ اس میں ریاستی حکومت کا کوئی کردار نہیں ہوگا۔ اس میں واضح کیا گیا ہے کہ وزیٹر/ چانسلر، ماہرین کی تین رکنی سرچ و سلیکشن کمیٹی کی تشکیل کرے گا۔ کمیٹی میں وزیٹر/ چانسلر کا نامزد کردہ ایک رکن، یوجی سی چیئرمین کا نامزد کردہ ایک رکن، اور متعلقہ یونیورسٹی کی اعلیٰ ترین انجمن (سینیٹ، سنڈیکیٹ یا ایکزیکیٹیو کونسل) کا ایک رکن شامل ہوگا۔
یوجی سی کی یہ تجویز ریاستی حکومتوں کے کردار کو محدود کرنے والی ہے۔ اس سلسلہ میں کیرالا کے وزیر اعلیٰ پی وجیین نے کہا ہے کہ وائس چانسلروں کی تقرری میں گورنر کو تمام اختیار دیا جارہا ہے جو وفاقی نظام حکم رانی کے اصولوں کے برعکس ہے۔
تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن نے کہا کہ یہ وفاقیت اور ریاستوں کے اختیارات پر براہ راست حملہ اور جمہوری طریقہ سے منتخب کی گئی حکومتوں کو کم تر کرنے کی کوشش ہے۔ حالانکہ یوجی سی کے چیئرمین ایم جگدیش نے ڈرافٹ ریگولیشنز کو قومی تعلیمی پالیسی 2020 کے اصولوں اور اہداف سے ہم آہنگ قرار دیا۔
دوسری طرف نامور ماہرقانون اور چانکیہ لا یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر فیضان مصطفیٰ کا کہنا ہے کہ سرچ کمیٹی میں یونیورسٹیوں کا کردار بڑھانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہاکہ تین رکنی کمیٹی کے بجائے یہ پانچ رکنی کمیٹی ہونی چاہیے اور اس میں متعلقہ یونیورسٹی سے تین اراکین کو شامل کیا جائے تاکہ یونیورسٹیوں کی خودمختاری برقرار رہے اور وہ اپنی ضروریات کے مطابق اپنی بات رکھ سکیں۔ ان کے علاوہ ایک ایک فرد یوجی سی چیئرمین اور وزیٹر/چانسلر کا نامزد کردہ ہو۔ انہوں نے کہاکہ یونیورسٹیوں کی بات سنی جانی چاہئے۔نیز انہوں نے نامور ماہرین جو اکیڈمیشیئن نہیں ہیں انہیں وائس چانسلر بنائے جانے کی تجویز کا بھی خیرمقدم کیا۔
ڈرافٹ ریگولیشنز 2025 کی دیگر تجاویز
مجوزہ ضوابط میں وائس چانسلر کے عہدے کے لیے اکیڈمیشیئن ہونے کی لازمیت ختم کردی گئی ہے۔ یہ ضابطہ نیا نہیں ہے۔ نو دس قبل بھی یہی ضابطہ نافذ تھا، چنانچہ کئی یونیورسٹیوں میں سِول سرونٹس، سائنس داں اور انڈسٹری کے ماہرین وائس چانسلر رہ چکے ہیں۔ اب پھر پروفیسروں کے علاوہ سینئرایڈمنسٹریٹیو اہلکار، انڈسٹری، پبلک پالیسی، پبلک ایڈمنسٹریشن یا پبلک سیکٹر کے اداروں کے سینئر اہلکار اور ماہرین بھی وائس چانسلر بن سکیں گے۔
اس کے علاوہ ریاستی یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی مدت تین سال سے بڑھاکر پانچ سال کرنے کی تجویز ہے جو لائق خیرمقدم ہے۔
اساتذہ کی تقرری کے سلسلہ میں تجویز رکھی گئی ہے کہ امیدوار جس سبجیکٹ یا موضوع میں پی ایچ ڈی ہے اس میں وہ بطور اسسٹنٹ پروفیسر تقرری کے لیے مجاز ہوں گے، چاہے اس سبجیکٹ میں بیچلر یا ماسٹر ڈگری نہ ہو۔ نئی قومی تعلیمی پالیسی کے مطابق ملٹی ڈسپلینری نقطہ نظر کو فروغ دینے کے لیے یہ تجویز شامل کی گئی ہے۔
اس کے ساتھ ہی انجینئرنگ میں ایم ٹیک ہونے پر بطور اسسٹنٹ پروفیسر تقرری کی گنجائش پیدا کی گئی ہے۔ اس میں نیشنل اہلیتی ٹسٹ (نیٹ) یا پی ایچ ڈی کی لازمیت ختم کردی گئی ہے۔
تازہ یوجی سی ریگولیشن میں ایک تجویز یہ بھی ہے کہ کسی شعبہ میں ٹیچر کی مستقل اسامی خالی ہونے کی صورت میں کانٹریکٹ پر کسی ٹیچر کی تقرری بقدر ضرورت صرف چھ ماہ کے لیے کی جاسکے گی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ مختلف یونیورسٹیوں میں ٹیچنگ اور نان ٹیچنگ عہدوں کو پُر کرنے کی کارروائی نہیں کی جاتی اور بعض دفعہ یہ بھی ہوتا ہے کہ اشتہار جاری کرنے کے بعد بھی سلیکشن کمیٹی نہیں ہوتی اور ایڈہاک یا گیسٹ ٹیچر کے نام پر تقرری کرکے ان کا مختلف طریقے سے استحصال کیا جاتا ہے۔
دوسری طرف پروفیسرشپ کے لیے کانٹریکٹ پر تقرری کی گنجائش پیدا کی گئی ہے تاکہ اسپیشلسٹ ماہرین کے تجربات اور اختصاص سے اعلیٰ تعلیمی ادارے فائدہ اٹھاسکیں۔
بھارتی زبانوں میں ریسرچ اشاعتوں کو اہمیت دیتے ہوئے یہ کہا گیا ہے کہ ٹیچر کی تقرری میں اگر اس شخص کی ریسرچ پیپر کی اشاعتیں بھارتی زبانوں میں ہیں تو انہیں ترجیح ملے گی۔اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مجوزہ ریگولیشن کے منظور ہونے اور اس کے نوٹیفیکیشن کے بعد چھ مہینوں کے اندر یونیورسٹیوں کو ان ضوابط کے مطابق اپنے قوانین میں ترامیم کرنی ہوں گی۔ اگر کسی یونیورسٹی نے ترامیم نہیں کیں تو ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی یعنی ان کا فنڈ روکا جاسکتا ہے اور یوجی سی کی اسکیموں میں وہ شامل نہیں ہوسکیں گیں۔
28 صفحات پر محیط یوجی سی ڈرافٹ ریگولیشنز کا مطالعہ کرنے کے بعد جو یوجی سی کی ویب سائٹ پر موجود ہے، بذریعہ ای میل معقول تجاویز بھیجی جاسکتی ہیں۔
یہ بات مسلّم ہے کہ یونیورسٹیوں میں وائس چانسلر کے عہدے پر سیاسی تقرری ہونے سے تعلیم و تحقیق پر زوال آئے گا اور اعلیٰ تعلیمی اداروں کا معیار متاثر ہوگا۔ چاہے وہ بائیں بازو کی حکومت ہو یا دائیں بازو کی، یونیورسٹیوں میں سیاسی تقرریوں کا چلن ایسا نہیں ہے کہ پہلے نہیں تھا مگر حالیہ برسوں میں یہ چلن زیادہ بڑھا ہے۔ چاہے وہ ریاستی حکومت ہو یا مرکزی حکومت دونوں کو ایک متوازن اور معتدل راستہ اپنانا ہوگا تاکہ ملک کی یونیورسٹیوں میں تعلیم و تدریس اور تحقیق کا ماحول باقی رہے اور وہ دنیا کی اعلیٰ معیاری یونیورسٹیوں سے مقابلہ کرسکیں اور علوم کی تخلیق و ترسیل میں مزید بہتر کردار ادا کرسکیں۔
***
اساتذہ کی تقرری کے سلسلہ میں تجویز رکھی گئی ہے کہ امیدوار جس سبجیکٹ یا موضوع میں پی ایچ ڈی ہے اس میں وہ بطور اسسٹنٹ پروفیسر تقرری کے لیے مجاز ہوں گے، چاہے اس سبجیکٹ میں بیچلر یا ماسٹر ڈگری نہ ہو۔ نئی قومی تعلیمی پالیسی کے مطابق ملٹی ڈسپلینری نقطہ نظر کو فروغ دینے کے لیے یہ تجویز شامل کی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی انجینئرنگ میں ایم ٹیک ہونے پر بطور اسسٹنٹ پروفیسر تقرری کی گنجائش پیدا کی گئی ہے۔ اس میں نیشنل اہلیتی ٹسٹ (نیٹ) یا پی ایچ ڈی کی لازمیت ختم کردی گئی ہے۔ تازہ یوجی سی ریگولیشن میں ایک تجویز یہ بھی ہے کہ کسی شعبہ میں ٹیچر کی مستقل اسامی خالی ہونے کی صورت میں کانٹریکٹ پر کسی ٹیچر کی تقرری بقدر ضرورت صرف چھ ماہ کے لیے کی جاسکے گی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ مختلف یونیورسٹیوں میں ٹیچنگ اور نان ٹیچنگ عہدوں کو پُر کرنے کی کارروائی نہیں کی جاتی اور بعض دفعہ یہ بھی ہوتا ہے کہ اشتہار جاری کرنے کے بعد بھی سلیکشن کمیٹی نہیں ہوتی اور ایڈہاک یا گیسٹ ٹیچر کے نام پر تقرری کرکے ان کا مختلف طریقے سے استحصال کیا جاتا ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 26 جنوری تا 01 فروری 2025