
ترکی میں کرد بغاوت کے خاتمے کے آثار
عبداللہ اوکلان کی امن کی اپیل: کردوں کے مستقبل کا ایک نیا رخ
اسد مرزا، سینئر سیاسی تجزیہ نگار
حکمت عملی سے کام لیا جائے تو مشرقِ وسطیٰ کی سب سے پرانی شورش کا خاتمہ ممکن
تازہ اطلاعات کے مطابق مشرقِ وسطیٰ کے سب سے پیچیدہ تنازعات میں سے ایک شاید اپنے اختتام کے قریب ہو۔ یہ امید کرد باغی گروپ PKK کے رہنما عبداللہ اوکلان کی جانب سے امن کی اپیل کے بعد پیدا ہوئی ہے اور اس کے اثرات عالمی اور علاقائی سطح پر محسوس کیے جائیں گے۔
کرد عسکریت پسند نصف صدی سے ترکی کے جنوب مشرق میں آزادی کے لیے لڑ رہے ہیں، جس میں اب تک چالیس ہزار سے زیادہ جانیں جا چکی ہیں اور یہ جدوجہد ترکی کی سرحدوں سے آگے ایران، عراق اور شام تک پھیل چکی ہے۔ لیکن پچھلے دنوں کردستان ورکرز پارٹی (PKK) کے جیل میں بند رہنما عبداللہ اوکلان نے اپنے اراکین سے ہتھیار ڈالنے اور گروپ کو تحلیل کرنے کا مطالبہ کیا ہے جس نے اس بات کی امید قائم کی کہ شاید مشرقِ وسطیٰ کی سب سے پرانی شورش خاتمے کے قریب ہے۔ لیکن اس اپیل کی کامیابی اب اس میں شامل مختلف جماعتوں کے درمیان پائیدار تعاون پر منحصر ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کو اس بات پر یقین نہیں ہے کہ شمالی عراق کے پہاڑی علاقے میں واقع PKK کے عسکریت پسند، اوکلان کی اپیل پر توجہ دیں گے جو ایک چوتھائی صدی سے استنبول کے قریب ایک جزیرے کی جیل میں قید ہیں۔
ترک صدر رجب طیب اردگان نے اوکلان کے پیغام کو امن کی کوششوں کے لیے ایک نئے دور کا آغاز قرار دیا ہے، حالانکہ ان کی حکومت نے عوامی طور پر ان تجاویز کو مسترد کر دیا ہے کہ اوکلان کی اپیل کے بعد امن مذاکرات دوبارہ شروع کیے جا سکتے ہیں۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ فی الوقت 71 سالہ اردگان خاص طور پر ملکی سیاست پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں، کیونکہ وہ اپنی دو دہائیوں کی حکم رانی کو 2028 سے آگے بڑھانا چاہتے ہیں جب ان کی صدارت کی مدت ختم ہو رہی ہے، اور اگر وہ واقعی کرد شورش کا خاتمہ کرانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو وہ ان کی ایک بڑی کامیابی ہوگی۔
اس اعلان نے پورے مشرق وسطیٰ میں ہلچل پیدا کر دی ہے اور یہ اپیل دیگر چھوٹے کرد باغی گروپوں کی مختلف جماعتوں کو بھی متاثر کر سکتی ہے جن کے PKK سے طویل عرصے سے تعلقات ہیں۔ یہ بات واضح رہے کہ PKK کو ترکی، امریکہ اور برطانیہ میں دہشت گرد تنظیم قرار دیا گیا ہے اور اس پس منظر میں اوکلان کے اعلان کو مشرق وسطیٰ کے لیے ’ایک نئے تاریخی عمل‘ کا حصہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ PKK کی ایگزیکٹیو کمیٹی نے اوکلان کو جیل سے فوری طور پر رہا کرنے کی اپیل کی ہے تاکہ وہ کسی بھی اگلے قدم کے لیے ذاتی طور پر PKK کی سرگرمیوں کی رہنمائی کرسکیں اور گروپ کے مختلف دھڑوں کو اپنے ہتھیار ڈالنے پر آمادہ کرسکیں۔
نیویارک ٹائمز کے مطابق PKK نے 1980 کی دہائی کے اوائل میں ترک ریاست کے خلاف مسلح بغاوت شروع کی تھی، جو کہ دراصل کردوں کی تحریکِ آزادی ہے، جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ترکی کی آبادی کا تقریباً 15 فیصد یا اس سے بھی زیادہ ہیں۔ ابتدائی طور پر شورش مشرقی اور جنوبی ترکی کے پہاڑوں سے شروع ہوئی۔ PKKکے جنگجوؤں نے ترک فوجی اڈوں اور پولیس اسٹیشنوں پر حملہ کیا جس سے حکومت کی جانب سے سخت رد عمل سامنے آیا۔ بعد میں تنازعہ ملک کے دیگر حصوں میں پھیل گیا۔ ترکی کے شہروں میں PKK کے تباہ کن بم دھماکوں میں کئی سو شہری مارے گئے جس سے ترکی میں کرد مخالف جذبات کو ہوا ملی۔
1999 میں ترکی نے اوکلان کو گرفتارکر لیا اور اسے ایک مسلح دہشت گرد گروہ کی قیادت کرنے کا مجرم قرار دیا۔ اسے موت کی سزا سنائی گئی جسے بعد میں عمر قید میں تبدیل کر دیا گیا۔ اپنی قید کے بعد سے اوکلان نے اپنے نظریہ کو علیحدگی سے ہٹا کر ترکی کے اندر کرد حقوق کو شامل کیے جانے کی جانب منتقل کر دیا ہے۔
کرد تقریباً 40 ملین افراد کا ایک نسلی گروہ ہے جو ایران، عراق، شام اور ترکی میں مرکوز ہیں۔ زیادہ تر کرد سنی مسلمان ہیں۔ کردوں سے پہلی جنگ عظیم کے بعد عالمی طاقتوں کی طرف سے ان کے اپنے ملک کو قائم کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا۔ آنے والی نسلوں میں مختلف ممالک میں کرد بغاوتیں ہوئیں اور کردوں کو اپنی زبان اور ثقافت کے خلاف ریاستی جبر کا سامنا کرنا پڑا۔
1991 کی خلیجی جنگ کے بعد سے عراق کا زیادہ تر کرد شمالی علاقہ نیم خود مختار رہا ہے۔ Türkiye-PKK تنازعہ کو منجمد کرنے یا ختم کرنے کی متعدد کوششیں کی گئی ہیں جن کا آغاز 1993 میں جنگ بندی سے ہوا اور 2009 تا 2011 اور 2013 تا 2015 کے درمیان مذاکرات کے کئی دور ہوئے لیکن وہ سب ناکام رہے۔
اس تناظر میں مصر کی طنطہ یونیورسٹی میں ایرانی اور ایشین اسٹڈیز کے پروفیسر اور فارابی سنٹر فار پولیٹیکل اینڈ ڈیولپمنٹ اسٹڈیز کے سربراہ ڈاکٹر مدحت حماد نے ترکی کے ’ہور نیوز‘ کو بتایا کہ عبداللہ اوکلان کا یہ اعلان انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایک سیاسی، نظریاتی اور یہاں تک کہ قومی طرز عمل کے بعد خود کو ایک نئی سوچ کا حامل قرار دینے کی کوشش کر رہے ہیں جو کہ پورے عالمی اور علاقائی منظر نامے کی تبدیلیوں کا احاطہ بھی کرتی ہے۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ترک سیاسی ذہنیت میں ایک حقیقت پسندانہ جائزہ لیا گیا ہے جو ایک طرف ترک ریاست کے معاملات کو بہتر طور پر چلانے اور دوسری جانب بالعموم کردوں اور بالخصوص اوکلان کے ساتھ بات چیت کو کس طرح شروع کیا جائے اس پر روشنی ڈالتا ہے۔ ڈاکٹر حماد نے کہا کہ اوکلان نے یہ بیان اس وقت تک جاری نہیں کیا ہوگا جب تک کہ ان کے پاس ترک یقین دہانیاں، وعدے اور بات چیت کو دوبارہ شروع کرنے کے علاوہ اور کردوں کو ایک مستحکم جمہوری زندگی فراہم کرنے کے عملی وعدوں کے ثبوت نہ دیے گئے ہوں۔ یعنی کہ وہ سب جو وہ ہتھیاروں کے ذریعے حاصل نہیں کر سکتے تھے۔
ڈاکٹر حماد نے وضاحت کی کہ PKK کے رہنما اوکلان نے ایک طرف کردوں کے مسئلے کے مستقبل کے بارے میں اور دوسری جانب مغربی منصوبوں، خاص طور پر امریکی منصوبے، جس کے ذریعے شام میں بہت کچھ کیا گیا، ان سب کا تجزیہ کیا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ یہی ذہنیت یا منصوبے آنے والے سالوں میں مل کر کردوں اور ترکوں دونوں کے اسٹریٹجک اور اہم مفادات پر حملہ کر سکتے ہیں جو امریکی منصوبے ان دونوں کے خلاف کافی خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔
ڈاکٹر حماد نے کہا کہ اوکلان کو علاقائی اور بین الاقوامی منظر نامے کی حقیقت پسندانہ سمجھ بوجھ ہے لہذا وہ شاید کرد کاز کے مستقبل کو بچانا چاہتے ہیں، اور انہوں نے موجودہ منظر کو اچھی طرح سمجھا بھی ہے نیز، وہ اگلے سو سال کے لیے کرد کاز کے وجود اور جوہر کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں۔
دریں اثنا، ترکی کی نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی جو کہ اردگان کی دائیں بازو کی اتحادی بھی ہے، اس نے اس امن اپیل کا خیر مقدم کیا ہے اور درحقیقت MHP کے رہنما ڈیولٹ باہیلی نے اکتوبر 2024 میں اوکلان سے رابطہ قائم کر کے اس شورش کو ختم کرنے کے امکانات پر اوکلان کی حمایت کیے لیے کامیاب مذاکرات کیے تھے۔ لیکن اس کے باوجود امن کی بحالی شاید اتنی آسان نہ ہو۔ واشنگٹن انسٹیٹیوٹ کے ترک تحقیقی پروگرام کے ڈائریکٹر سونر کاگپتے نے خبر رساں ایجنسی رائٹرز کو بتایا کہ شمالی عراق کے قندیل پہاڑوں میں چھپے PKK کے رہنما انقرہ کے ارادوں پر شدید مشکوک ہیں۔ انہوں نے کہا ’’بزرگ کمانڈر PKKکو مکمل اور فوری طور پر اس کے کسی بھی اصل اہداف کو حاصل کیے بغیر ختم کرنے پر اعتراض کر سکتے ہیں‘‘ Cagaptay نے کہا کہ Ocalan کے اعلان کی تفصیلات پُر اسرار لگ رہی ہیں کیونکہ PKK کے ساتھ انقرہ کے دو سابقہ مکالمے بری طرح ناکام ہو چکے ہیں۔‘‘
اگر اوکلان کے پیروکار نئی اپیل پر دھیان دیتے ہیں تو یہ ترکی کے لیے ایک اہم موڑ کا ثابت ہوسکتا ہے۔ ساتھ ہی مشرقِ وسطیٰ کے لیے اس کے دور رس اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ اردگان شام میں ہونے والی بغاوت اور شمالی عراق میں مقیم PKK کے جنگجوؤں کے خلاف فوجی کامیابیوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ترکی میں مکمل امن قائم کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں جس سے ان کو ملکی سطح پر فوائد حاصل ہوسکتے ہیں۔ ساتھ ہی وہ تیزی سے بدلتی ہوئی علاقائی صورت حال پر ترکی کو ایک بااثر ملک کے طور پر شامل کراسکتے ہیں جس سے کہ علاقائی سطح پر ترکی کی اہمیت اور اثر و رسوخ اور زیادہ بڑھ سکتا ہے۔
***
اگر اوکلان کے پیروکار نئی اپیل پر دھیان دیتے ہیں تو یہ ترکی کے لیے ایک اہم موڑ کا ثابت ہوسکتا ہے۔ ساتھ ہی مشرقِ وسطیٰ کے لیے اس کے دور رس اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ اردگان شام میں ہونے والی بغاوت اور شمالی عراق میں مقیم PKK کے جنگجوؤں کے خلاف فوجی کامیابیوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ترکی میں مکمل امن قائم کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں جس سے ان کو ملکی سطح پر فوائد حاصل ہوسکتے ہیں۔ ساتھ ہی وہ تیزی سے بدلتی ہوئی علاقائی صورت حال پر ترکی کو ایک بااثر ملک کے طور پر شامل کراسکتے ہیں جس سے کہ علاقائی سطح پر ترکی کی اہمیت اور اثر و رسوخ اور زیادہ بڑھ سکتا ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 16 مارچ تا 22 مارچ 2025