
ترکیہ اور بھارت: مشترکہ تاریخ کے نئے ابواب کی شروعات
فن و ادب کا بڑھتا ہوا اشتراک۔ سیاحت، فلم اور ٹی وی ثقافتی تعلقات کی مضبوط کڑیاں
حلیل ابراہیم ازگی
فِرات سونیل ایک ہمہ جہت سفارت کار ہیں۔ وہ اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر بھارت میں اپنے قیام کی تصویری جھلکیاں پیش کرتے ہیں اور ترکیہ و بھارت کے مابین ثقافتی روابط کی تعمیر میں کوشاں ہیں۔ ان کی سرگرمیاں صرف گلی کوچوں کی مناظر کشی تک محدود نہیں بلکہ وہ اپنے وہ کتابیں بھی منظر عام پر لاتے ہیں جو بھارت میں انگریزی زبان میں ترجمہ ہو چکی ہیں۔ ان کی دو انگریزی تصانیف، "دی لائٹ ہاؤس فیملی” (Sarpıncık Feneri) اور "ازمیرلی” بھارتی کتب میلوں میں خاصی مقبولیت حاصل کر چکی ہیں جس سے ان کی ادبی موجودگی کو مزید تقویت ملی ہے، حتیٰ کہ ان کی ایک تخلیق کو ٹیلی ویژن کے لیے بھی ڈھالا گیا جو ادب اور سفارت کاری کے مابین ایک گہرے تعلق کو اجاگر کرتا ہے۔ مگر انہوں نے جو فکری پل استوار کیا ہے وہ کوئی نیا نہیں بلکہ بھارت میں ترکیہ سے دلچسپی اور ترکیہ میں بھارت کی جستجو کی گہری تاریخی جڑوں سے جڑا ہوا ہے۔
اس فکری تبادلے کی بنیادیں حلیہ اَدِب آدی وار کی تصنیف "اندرونِ ہند” (Inside India) تک جا پہنچتی ہیں جو 1930ء کی دہائی میں شائع ہوئی۔ بھارتی دانشور مختار احمد انصاری کی دعوت پر حلیہ اَدِب نے برصغیر کا سفر کیا اور یہاں کے سماجی و سیاسی ڈھانچے کا عمیق مشاہدہ قلم بند کیا۔ یہ کتاب نوآبادیاتی تسلط میں بھارت کی کایا پلٹ اور اس کی جدوجہد آزادی پر نہایت بصیرت افروز روشنی ڈالتی ہے۔ اس میں گاندھی جی سے ان کی ملاقاتوں کا بھی ذکر ملتا ہے جو ترکیہ اور بھارت کے فکری تعلقات کی ایک قدیم اور مضبوط شہادت سمجھی جاتی ہے۔
ترکیہ اور بھارت کے تاریخی تعلقات محض ادب اور فکری تبادلوں تک محدود نہیں بلکہ یہ انسان دوستی اور یکجہتی کے جذبے کا بھی احاطہ کرتے ہیں۔ خلافتِ عثمانیہ کے زوال کے دور میں، خصوصاً بلقان جنگوں کے دوران بھارت سے آنے والی طبی امدادی ٹیموں نے نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ اس حوالے سے "پیپلز مشن ٹو دی عثمانی ایمپائر: ایم اے انصاری اور بلقان جنگوں کے دوران بھارتی طبی مشن” ایک وقیع تحقیقی تصنیف ہے جو ان بھارتی طبی ٹیموں کی خدمات پر روشنی ڈالتی ہے اور دونوں اقوام کے دیرینہ روابط کا ایک بیش قیمت تاریخی تناظر فراہم کرتی ہے۔ یہ کتاب برک آقچاپار کی تصنیف ہے جو اس سے قبل ترکیہ کے سفیر کی حیثیت سے نئی دہلی میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔
آج یہ ثقافتی تعامل سنیما اور ٹیلی ویژن تک وسعت اختیار کر چکا ہے اور وسیع ناظرین تک پہنچ رہا ہے۔ ترکیہ میں بالی ووڈ فلموں کو خاصی پذیرائی حاصل ہے جبکہ بھارت میں ترک ڈرامے روز بروز مقبول ہو رہے ہیں۔ خاندانی اقدار اور جذباتی کہانیوں جیسے مشترکہ ثقافتی عناصر دونوں ممالک کے ناظرین پر یکساں اثر ڈال رہے ہیں جس کے باعث باہمی دلچسپی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جیسے جیسے بھارتی سنیما ترکیہ میں اپنی جگہ بنا رہا ہے اور ترک ڈرامے بھارتی ناظرین کو اپنی جانب متوجہ کر رہے ہیں، ویسے ویسے دونوں ممالک کے درمیان تخلیقی اشتراک کے نئے دروازے کھل رہے ہیں۔
سیاحت بھی اس ثقافتی تبادلے کا ایک اہم پہلو بن چکی ہے۔ حالیہ برسوں میں ترکیہ آنے والے بھارتی سیاحوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے جبکہ ترک سیاحوں کی بھارت میں دلچسپی بھی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ بالی وڈ فلموں کی شوٹنگ ترکیہ کے حسین مقامات جیسے کپادوکیا اور استنبول میں ہونے سے بھارت میں ترکیہ کے ثقافتی و تاریخی ورثے کا شعور بڑھا ہے۔ اسی طرح بھارت کے قدیم ثقافتی ورثے اور تاریخی مقامات نے ترک سیاحوں کو اپنی جانب متوجہ کیا ہے۔
ثقافت کی حدود سے آگے بڑھتے ہوئے ترکیہ اور بھارت دونوں ابھرتی ہوئی اقتصادی قوتیں ہیں جو عالمی سطح پر نمایاں کامیابیاں حاصل کر رہی ہیں۔ ان کی معیشتیں مسلسل ترقی کر رہی ہیں اور وہ اس اقتصادی عروج کو ثقافتی کامیابیوں کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے متمنی ہیں۔ اس مقصد کے لیے فنونِ لطیفہ اور ادب کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں جو بین الاقوامی تعلقات کو مستحکم بنانے کے مؤثر ذرائع ہیں۔ سفارتی کوششوں میں علمی و فکری پیداوار کی شمولیت، سنیما اور ٹیلی ویژن میں بڑھتا ہوا تعاون اور مشترکہ ثقافتی منصوبوں کی ترقی نہ صرف اقتصادی استحکام میں معاون ثابت ہو رہی ہے بلکہ ثقافتی روابط کو بھی مضبوط کر رہی ہے۔
یہ ادبی اور فنی تبادلے ہمیں بھولی بسری کہانیوں اور پوشیدہ تاریخی روابط کو از سرِ نو دریافت کرنے کا موقع بھی فراہم کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک کہانی میرے پر دادا کی ہے جو جنگ عظیم اول کے دوران بیلاری قیدی کیمپ (Bellary POW Camp) میں قید رہے۔ ان کے تجربات ترکیہ اور بھارت کی باہم جڑی ہوئی تاریخ کے ایک اور پہلو کو اجاگر کرتے ہیں۔ جس طرح حلیہ ادِب آدی وار کی کتاب "اندرونِ ہند” (Inside India) ایک مخصوص عہد کی تصویر کشی کرتی ہے اسی طرح یہ ذاتی کہانیاں بھی دونوں اقوام کے تاریخی تعلقات کو نئے زاویے سے دیکھنے میں مدد دیتی ہیں۔
تاریخ جو درد و الم اور فتوحات و کامرانیوں کا مجموعہ ہے، ہمیں نہ صرف ہمارے مشترکہ ماضی کی یاد دلاتی ہے بلکہ ہمیں مستقبل کے لیے نئے پل تعمیر کرنے کی دعوت بھی دیتی ہے۔ ترکیہ اور بھارت محض اپنی مشترکہ تاریخ کے مشاہد نہیں بلکہ وہ ایک دوسرے کو دیکھ کر خود کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کی جدوجہد، جدیدیت کے مراحل اور عالمی منظرنامے میں ان کے بدلتے ہوئے کردار انہیں ایک دوسرے کے قریب لا رہے ہیں۔ ایک دوسرے کے تاریخی چیلنجوں پر غور کرتے ہوئے اور بصیرت کے لیے ایک دوسرے کی طرف رجوع کرتے ہوئے وہ اپنے مستقبل کے لیے ایک نیا نقطہ نظر تشکیل دے رہے ہیں۔ ایک دوسرے کو آئینے میں دیکھنا ترکیہ اور بھارت کو نہ صرف تاریخی واقعات پر نظرِ ثانی کا موقع فراہم کرتا ہے بلکہ اپنی ثقافتی گہرائیوں کی ازسرِ نو دریافت کی ترغیب بھی دیتا ہے۔ ان ابھرتی ہوئی اقوام کے لیے ثقافتی تعاون کو مزید گہرا کرنا اور فن و ادب کو باہمی تعلقات کے مضبوط وسیلے کے طور پر برقرار رکھنا، آنے والے برسوں میں اس تعاون و اشتراک کے تسلسل کو برقرار رکھنے کی کلید ثابت ہوگا۔ (بشکریہ: ڈیلی صبا ڈاٹ کام)
***
ادب، سفارت کاری اور ثقافتی تبادلے کے ذریعے ترک سفارت کار فِرات سونیل ماضی اور مستقبل کے درمیان ایک پُل قائم کرتے ہوئے ترکیہ اور بھارت کے گہرے تعلقات کو مستحکم کر رہے ہیں۔ ان کے مشہور ناول Sarpıncık Feneri (دی لائٹ ہاؤس فیملی) اور İzmirli بھارت میں انگریزی میں ترجمہ ہو چکے ہیں اور اہلِ ذوق انہیں شوق سے پڑھ رہے ہیں۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 23 فروری تا 01 مارچ 2025