
ٹرمپ کی سخت پالیسی: غیر قانونی تارکینِ وطن کی واپسی
ڈالر کے خلاف عالمی کوششیں: بھارت پر سو فیصد ٹیرف کا خطرہ؟
پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا
امریکہ اور بھارت کے درمیان خوش گوار تجارتی رشتے دونوں ملکوں کے مفاد میں
میک امریکہ گریٹ’’میں بھارتی ماہرین کا ناقابلِ فراموش کردار’’
ڈونالڈ ٹرمپ نے عہدہ صدارت سنبھالتے ہی امریکی تاریخ میں ایسے صدر کا اعزاز حاصل کیا جو دوبارہ اس منصب پر فائز تو ہوا مگر تسلسل کے ساتھ نہیں۔ ان کی اقتدار پر واپسی ہمارے ملک کے لیے نئے مواقع اور چیلنجز لے کر آئی ہے۔ ٹرمپ کی تجارتی، دفاعی اور خارجہ پالیسیاں، خصوصاً جنوبی ایشیا اور ہند-پیسفک خطے میں امریکہ اور بھارت کے تعلقات کے مستقبل کو تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کریں گی۔
علاقائی اور معاشی خود مختاری کی بڑھتی ہوئی خواہشات کے پیش نظر، ٹرمپ کے دور میں دونوں ممالک کے اسٹریٹجک تعلقات میں مزید بہتری کا امکان ہے۔ تاہم، امریکہ میں خود کفالت کو ترجیح دینے کی پالیسی کے تحت بھارت پر تجارتی رکاوٹوں میں نرمی کا دباؤ ڈالا جا سکتا ہے جو مقامی صنعتوں کو متاثر کر سکتا ہے۔ بھارت کا انفارمیشن ٹیکنالوجی اور خدمات کا شعبہ جو بڑی حد تک امریکی صارفین پر منحصر ہے، ٹرمپ کی تجارتی جنگی پالیسیوں کے نتیجے میں امریکی صارفین کے اخراجات میں کمی کی صورت میں متاثر ہو سکتا ہے۔ بھارت کو ان معاشی ضابطوں کو نہایت ہوشیاری سے آگے بڑھانا ہوگا تاکہ مواقع سے فائدہ اٹھانے کے ساتھ ساتھ چیلنجوں کو بھی کم کیا جا سکے۔
ساتھ ہی ٹرمپ کی دوبارہ واپسی روایتی توانائی پالیسیوں میں تبدیلی کا اشارہ ہے، جس کے تحت خام تیل، گیس اور کوئلے کے ضوابط میں نرمی پر زور دیا جائے گا۔ یہ نقطہ نظر بائیڈن حکومت کی توانائی شراکت داری کی پالیسی کے برعکس ہوگا۔ تاہم، ٹرمپ کی پالیسیاں عالمی سطح پر فوسل فیول (حیاتیاتی توانائی) کی قیمتوں کو استحکام دے سکتی ہیں جس سے بھارت کی توانائی درآمدات کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ دوسری جانب یہ پالیسیاں شفاف توانائی میں تعاون کے فروغ کو کمزور کر سکتی ہیں۔ بھارت کے منصوبہ سازوں کو سبز توانائی کے منصوبوں کو برقرار رکھنے کے لیے نئی حکمت عملی ترتیب دینی ہوگی اور امریکی ترجیحات میں تبدیلی کے مطابق خود کو ہم آہنگ کرنا ہوگا۔
مزید برآں، ٹرمپ کے دوبارہ صدر بننے سے امیگریشن پالیسیوں، خصوصاً ایچ ون بی ویزا پر ممکنہ پابندی کے خدشات پیدا ہو گئے ہیں جو بھارت کے آئی ٹی سیکٹر کے لیے ایک اہم مسئلہ ثابت ہو سکتا ہے۔ بھارتی کمپنیاں جو بڑے پیمانے پر ایچ ون بی ویزا پروگرام کا استعمال کرتی ہیں نئی پابندیوں کا سامنا کر سکتی ہیں جس سے لیبر مارکیٹ میں تبدیلی آئے گی اور امریکہ میں کام کرنے والی بھارتی کمپنیوں کے اخراجات میں اضافہ ہوگا۔ سخت امیگریشن پالیسیوں کے نتیجے میں بھارتی کمپنیوں کو متبادل منڈیوں میں وسعت دینے پر مجبور ہونا پڑ سکتا ہے۔
امریکہ میں جاری کیے جانے والے 3 لاکھ 86 ہزار ایچ ون بی ویزوں میں سے تقریباً تین چوتھائی بھارتی شہریوں کو ملتے ہیں جو بھارت کی ٹیک کمپنیوں کے کاروبار کے لیے نہایت اہم ہیں۔ تاہم، ٹرمپ کے حالیہ بیانات اور ایلون مسک جیسے صنعت کاروں کے خیالات سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ اپنی معیشت کے لیے اعلیٰ مہارت یافتہ غیر ملکیوں کی اہمیت کو سمجھتی ہے۔ لیکن ٹرمپ کے شدت پسند حمایتی، جیسے اسٹیو بینن، اس بات کو ناپسند کرتے ہیں کہ زیادہ تنخواہ والی اور مہارت طلب ملازمتیں امریکی شہریوں کے بجائے غیر ملکیوں کو دی جائیں۔ اسی تناظر میں چند بھارتی ٹیک کمپنیوں نے امریکی ملازمین کی تعداد میں اضافہ کرنا شروع کر دیا ہے، جس کے باعث یہ امکان کم ہے کہ ایچ ون بی ویزا کے معاملے پر کوئی بڑا تنازعہ کھڑا ہوگا۔
ٹرمپ حکومت کے رویے کو بھانپتے ہوئے بھارتی حکومت نے تقریباً اٹھارہ ہزار غیر قانونی تارکین وطن کو واپس لانے کا عمل شروع کر دیا ہے۔ یاد رہے کہ امریکہ میں بھارتیوں کی تعداد 50 سے 60 لاکھ کے درمیان ہے جن میں سے تقریباً 75 ہزار غیر قانونی طور پر مقیم ہیں۔ اس لیے بھارتی حکومت کو یہ خدشہ لاحق ہے کہ غیر قانونی طور پر جانے والے افراد کی وجہ سے ایچ ون بی ویزا پر جانے والے تکنیکی ماہرین یا اعلیٰ تعلیم کے لیے جانے والے طلبہ کو مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
اس کے علاوہ غیر قانونی اور غیر مستقل رہائش پذیر افراد کے امریکہ میں پیدا ہونے والے بچوں کے شہریت کے حق کو ختم کرنے کے حکم نامے نے بھارتیوں کے لیے ایک نیا مسئلہ کھڑا کر دیا ہے۔ بھارت کے لیے سب سے بڑا چیلنج اپنی تجارت کو محفوظ رکھنا بھی ہے۔ اس وقت بھارت کی سب سے زیادہ تجارت امریکہ کے ساتھ ہے اور امریکہ بھارتی اشیا کے لیے نہ صرف سب سے بڑی بلکہ سب سے زیادہ منافع بخش منڈی ہے۔ بھارت کو سب سے زیادہ تجارتی فائدہ بھی وہیں سے حاصل ہوتا ہے۔
اگرچہ امریکہ کو بھارت سے ہونے والا تجارتی خسارہ چین، یورپ اور میکسیکو کے مقابلے میں بہت کم ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ٹرمپ کسی قسم کا تجارتی خسارہ برداشت کرنے کے قائل نہیں ہیں۔ اس لیے وہ ٹیرف عائد کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ اس سے بچنے کے لیے بھارت امریکی اشیا پر اپنے درآمدی ٹیکس کو کم کر سکتا ہے۔ دوسری طرف اگر ٹرمپ روس-یوکرین جنگ کو ختم کر کے امریکہ میں گیس اور تیل کی قیمتوں میں کمی کر دیتے ہیں تو بھارت امریکہ سے گیس اور تیل خرید کر اپنا نقصان کم کر سکتا ہے۔
اس کے ساتھ اگر بھارت تجارتی جنگ سے بچا رہے تو اسے امریکی-چینی تجارتی جنگ (Trade War) کا فائدہ بھی پہنچ سکتا ہے۔ چین پر 60 فیصد ٹیرف کی دھمکیوں سے پریشان مغربی کمپنیاں اپنے کاروبار چین سے نکال کر بھارت جیسے ممالک میں منتقل کرنے کے لیے تیار ہیں، لیکن یہ تبھی ممکن ہوگا جب بھارت بیوروکریسی میں موجود سرخ فیتہ شاہی اور بد عنوانی کا خاتمہ کرے اور اپنے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنائے۔
ٹرمپ نے اپنے ایگزیکٹیو آرڈر کے ذریعے سرمایہ کاری کے قوانین کو نرم کر دیا ہے اور کمپنیوں کے لیے ٹیکس میں بھی کمی کی ہے تاکہ صنعت و تجارت امریکہ میں واپس آئے۔ سست معیشت میں نئی جان ڈالنے کے لیے بھارت کو صنعت و تجارت کی امریکہ سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔
بھارتی تارکینِ وطن کا کردار اور امریکی پالیسی
یاد رہے کہ ٹرمپ کی توجہ اس بات پر ہے کہ ان کے ملک میں غیر ملکیوں کی بڑی تعداد موجود ہے لیکن وہ اس پہلو کو نظر انداز کر رہے ہیں کہ ان غیر ملکیوں کی بدولت امریکہ اور اس کے شہری بے شمار فوائد حاصل کر رہے ہیں۔ اگر صرف بھارتی شہریوں کی بات کی جائے تو غیر قانونی تارکینِ وطن بھارت کے لیے باعثِ شرمندگی بن رہے ہیں مگر وہاں قانونی طور پر رہنے والے اور بیش قیمت خدمات انجام دینے والے بھارتیوں کا کوئی ذکر نہیں کیا جا رہا ہے۔
نئی امریکی انتظامیہ کو اس حقیقت پر غور کرنا چاہیے کہ بھارتی تارکینِ وطن امریکہ میں نمایاں خدمات انجام دے رہے ہیں، خصوصاً آئی ٹی سیکٹر میں بھارتی ماہرین کی بڑی تعداد شامل ہے جو اپنی بے پناہ صلاحیتوں سے امریکہ کو فائدہ پہنچا رہے ہیں۔ آج وہ لوگ امریکہ کی ضرورت بن چکے ہیں۔ امریکہ میں 72 فیصد بھارتی تارکینِ وطن یونیورسٹی گریجویٹ ہیں۔
ٹرمپ کی دھمکیاں اور بھارت کے لیے ممکنہ اثرات
ٹرمپ کے صدارت کا حلف لیتے ہی روس، چین، برازیل، بھارت اور جنوبی افریقہ کے معاشی علاقائی تعاون کے گروپ (BRICS) کو دھمکی دی گئی کہ اگر وہ ڈالر کو عالمی کرنسی کے طور پر ختم کر کے اپنی کرنسی متعارف کروانے کی کوشش کرتے ہیں تو ان پر سو فیصد ٹیرف عائد کر دیا جائے گا۔
یہ دھمکی خاص طور پر بھارت کے لیے تشویش کا باعث بن سکتی ہے کیونکہ روس اور چین کے ساتھ وزیرِ اعظم نریندر مودی بھی متبادل کرنسی کی وکالت کر چکے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے اور سو فیصد ڈیوٹی عائد کی جاتی ہے تو بھارت کا تجارتی خسارہ بہت زیادہ بڑھ جائے گا جس کا تدارک ناگزیر ہوگا۔
یاد رہے کہ اس وقت ڈالر کے مقابلے میں بھارتی روپے کی قدر تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ اگر امریکی انتظامیہ کوئی انتقامی کارروائی کرتی ہے تو بھارت کے لیے ان حالات کو سنبھالنا انتہائی مشکل ہو جائے گا۔ بھارتی فیڈریشن آف ایکسپورٹ آرگنائزیشن (FIEO) کے صدر اشونی کمار نے کہا ہے کہ اگر روپیہ دو فیصد تک گرتا ہے اور دیگر بڑی کرنسیوں میں تین سے پانچ فیصد کی کمی واقع ہوتی ہے تو بھارتی برآمد کنندگان عالمی منڈی میں اپنی مسابقتی حیثیت کھو دیں گے۔
یہ صورتِ حال بھارتی اشیا کے ممکنہ منافع کو ختم کر سکتی ہے۔ مزید برآں، گھریلو کرنسی کی کمزوری کی وجہ سے بیرونی قرضوں کی لاگت بھی بڑھ جائے گی جس سے حکومت اور کمپنیوں پر اضافی دباؤ پڑے گا۔ اس لیے حکومت کو روپے کی قدر میں استحکام لانے کے لیے مؤثر منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔
بھارت کا "میک امریکہ گریٹ” میں کردار
"میک امریکہ گریٹ” مہم میں بھارت کا بھی ایک اہم کردار رہے گا، کیونکہ بھارتی تارکینِ وطن امریکہ میں سب سے زیادہ آمدنی والے گروپ میں شامل ہیں۔ گزشتہ 25 برسوں میں بھارتیوں نے سلیکان ویلی کے تقریباً 25 فیصد اسٹارٹ اپس کی قیادت کی ہے۔
اس کے علاوہ، گوگل، مائیکرو سافٹ، ایڈوبی اور IBM میں بھارتی اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ یہی نہیں، امریکی معیشت کی بحالی کے لیے بھارتی ماہرین کا بھی انتخاب کیا گیا، جیسے بھٹاچاریہ کو نیشنل ہیلتھ آرگنائزیشن کا ڈائریکٹر مقرر کیا گیا، آکاش پٹیل کو ایف بی آئی کی ذمہ داری سونپی گئی، جبکہ وینچر کیپٹلسٹ شری رام کرشنن کو مصنوعی ذہانت (AI) کے اعلیٰ مشیر کے طور پر منتخب کیا گیا۔
اگر امریکی سرمایہ دار بھارتی فرموں میں سرمایہ کاری کرتے ہیں تو امریکہ بغیر امیگریشن بڑھائے بھی بھارتی ماہرین کی اختراعی صلاحیتوں سے مستفید ہو سکتا ہے۔ اس لیے امریکہ کو "میک امریکہ گریٹ” مہم میں بھارت کے لیے بھی ایک خاص مقام رکھنا ہوگا۔
***
"میک امریکہ گریٹ” مہم میں بھارت کا بھی ایک اہم کردار رہے گا، کیونکہ بھارتی تارکینِ وطن امریکہ میں سب سے زیادہ آمدنی والے گروپ میں شامل ہیں۔ گزشتہ 25 برسوں میں بھارتیوں نے سلیکان ویلی کے تقریباً 25 فیصد اسٹارٹ اپس کی قیادت کی ہے۔ گوگل، مائیکرو سافٹ، ایڈوبی اور IBM میں بھارتی اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ یہی نہیں، امریکی معیشت کی بحالی کے لیے بھارتی ماہرین کا بھی انتخاب کیا گیا، جیسے بھٹاچاریہ کو نیشنل ہیلتھ آرگنائزیشن کا ڈائریکٹر مقرر کیا گیا، آکاش پٹیل کو ایف بی آئی کی ذمہ داری سونپی گئی، جبکہ وینچر کیپٹلسٹ شری رام کرشنن کو مصنوعی ذہانت (AI) کے اعلیٰ مشیر کے طور پر منتخب کیا گیا۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 02 فروری تا 08 فروری 2025