مسعود ابدالی
اسرائیل کو فیصلہ کن فتح کے ساتھ جلداز جلد جنگ ختم کرنے کی تلقین
انتطامیہ، مقننہ اور عدلیہ تینوں ٹرمپ کے زیراثر
امریکی انتخابات مکمل ہوگئے جن میں ڈونالڈ ٹرمپ نے تاریخی کامیابی حاصل کی ہے۔ وہ تمام کی تمام سات فیصلہ کن ریاستوں میں جیت گئے اور 2020 کے مقابلے میں ان کے ووٹوں میں چھ لاکھ کا اضافہ ہوا۔ دوسری طرف چار سال پہلے کے مقابلے میں ڈیموکریٹک پارٹی کے ووٹ ایک کروڑ کم ہوگئے۔ سینیٹ یا راجیہ سبھا کی چار نشستیں ڈیموکریٹک پارٹی سے چھین کر صدر ٹرمپ کی جماعت نے سو رکنی ایوان میں اپنا حجم ترپن کرلیا، چھیالیس نشستوں پر ڈیموکریٹس براجمان ہیں اور ایک حلقے میں گنتی جاری ہے۔ ایوان نمائندگان (قومی اسمبلی یا لوک سبھا) میں ریپبلکن اور ڈیموکریٹک پارٹیوں کے منتخب ارکان کی تعداد بالترتیب دو سو چودہ اور دو سو پانچ ہے، جبکہ سولہ پر گنتی مکمل نہیں ہوئی۔ یہاں برتری کے لیے دو سو اٹھارہ ووٹوں کی ضرورت ہے اور خیال ہے کہ گنتی مکمل ہونے پر ریپبلکن پارٹی یہ ہدف حاصل کرلے گی۔
اگر عدلیہ کا جائزہ لیا جائے تو نو رکنی عدالت عظمیٰ میں جناب ٹرمپ کے نظریاتی اتحادیوں کی تعداد چھ ہے جن میں سے تین کا تقرر نو منتخب صدر کے گزشتہ دورِ صدارت میں ہوا تھا۔ اس کا مطلب ہوا کہ ٹرمپ انتظامیہ کو مقننہ اور عدلیہ دونوں کی مکمل حمایت حاصل ہوگی۔ انہیں قانون سازی میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی، اور اگر صدارتی احکامات کے خلاف ان کے مخالفین عدالت گئے تو فیصلہ ٹرمپ کے حق میں ہونے کی توقع ہے۔ نئے صدر، کابینہ کا انتخاب، سفرا کا تقرر اور وفاقی ججوں کی تعیناتی اپنی مرضی سے کر سکیں گے۔ اس لیے کہ امریکہ میں تمام اہم تقرریوں کی سینیٹ سے توثیق ضروری ہے۔
نئی ٹرمپ انتظامیہ کیسی ہوگی تو اس معاملے میں کوئی ابہام نہیں ہے نہ صدر ٹرمپ پتے چھپانے کے قائل ہیں۔ کامیابی کے بعد اپنے پہلے خطاب میں وہ ترجیحات کا اعلان کرچکے ہیں یعنی
صدارتی حکم کے ذریعے ایک کروڑ سے زیادہ تارکین وطن کی ملک بدری اور میکسیکو کی سرحد پر فوج کی تعیناتی۔
کارپوریشنوں کے ٹیکس میں کٹوتی۔
درآمدات پر بالعموم اور چینی مصنوعات پر بالخصوص بھاری درآمدی محصولات کا نفاذ۔ انتخاب سے ایک دن پہلے انہوں نے کہا کہ چینی درآمدات پر ستر فیصد محصول بھی خارج از امکان نہیں۔
تیل اور گیس کی تلاش کے لیے کھدائی پر تمام پابندیاں ختم کر دی جائیں گی اور وہ چاہتے ہیں ملکی برآمدات میں تیل اور LNG کا تناسب کم از کم پانچ فیصد ہو۔
امریکی فوج میں تبدیلی جنس کے آپریشن پر فوری پابندی۔
جہاں تک بین الاقوامی امور اور عالمی امن کا تعلق ہے تو اس حوالے سے ٹرمپ حکومت مسلمانوں کے لیے اچھی نظر نہیں آ رہی۔ ہم اپنی آج کی گفتگو کو ٹرمپ انتظامیہ کی فلسطین پالیسی تک محدود رکھیں گے۔ انتخابی مہم کے آخری دنوں میں انہوں نے مسلمانوں اور عربوں کا ذکر عزت و احترام اور ‘اپنائیت’ سے کیا۔ وہ بار بار یہ کہتے رہے کہ مشرق وسطیٰ میں جنگ بندی ان کی ترجیح ہوگی۔ کامیابی کے بعد حامیوں سے خطاب میں انہوں نے مسلمانوں کی حمایت کا فخریہ اعتراف کیا۔ لیکن غزہ جنگ بندی کے حوالے سے ان کی تجویز فلسطینیوں کے لیے انتہائی تشویشناک ہے۔ نتائج کے اعلان کے ساتھ ہی ریپبلکن پارٹی کی ترجمان الیزبتھ پیپکو نے اسرائیلی ٹیلی ویژن چینل-12 سے بات کرتے ہوئے کہا "ڈونالڈ ٹرمپ کی خواہش ہے کہ ایک فیصلہ کن فتح کے ساتھ اسرائیل غزہ جنگ کو جلد ختم کردے۔” ڈونالڈ ٹرمپ اس سے پہلے بھی غزہ جنگ کے خاتمے کو اسرائیل کی فیصلہ کن فتح سے مشروط کر چکے ہیں۔
ایرانی امور کے لیے سابق امریکی سفارت کار برائن ہوک (Brian Hook) ٹرمپ عبوری بندوبست (Transition) کے ذمہ دار بنائے گئے ہیں۔ برائن ہوک، ایران کے معاملے میں اپنے سخت گیر رویے کے لیے مشہور ہیں۔ آٹھ نومبر کو سی این این سے بات کرتے ہوئے برائن ہوک نے کہا کہ ایران مشرق وسطیٰ میں بدامنی اور عدم استحکام پھیلا رہا ہے اور صدر ٹرمپ چاہتے ہیں کہ کسی نئی امن پیش رفت سے پہلے ایران کو تنہا اور مالی پابندیوں کے ذریعے اس کی معیشت کی نمو کو کم سے کم کر دیا جائے تاکہ تہران دہشت گردوں کی مالی اعانت، حوصلہ افزائی اور سہولت کاری نہ کر سکے۔ برائن ہوک کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ ایران میں regime change کی خواہش نہیں رکھتے لیکن وہ ایران کو معقولیت پر مجبور کرنے کے لیے اسے دیوار سے لگا کر رکھنا چاہتے ہیں۔ بائیڈن انتظامیہ کے اس الزام کے بعد کہ ایران ڈونالڈ ٹرمپ کو قتل کرانا چاہتا ہے، ٹرمپ صاحب مزید مشتعل ہوگئے ہیں۔
اپنے گزشتہ دور اقتدار میں جناب ٹرمپ نے Deal of the Century کے عنوان سے جو ‘معاہدہ ابراہیمؑ’ متعارف کرایا تھا وہ اسے آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔ ابراہیمؑ معاہدہ امن کے خالق ان کے داماد جیرڈ کشنر تھے، جن کی معاونت کے لیے اب نو منتخب صدر کے دوسرے داماد مائیکل (مسعود) بولوس بھی میدان میں ہیں۔ دو سال پہلے جناب ڈونالڈ ٹرمپ کی چھوٹی صاحبزادی ٹیفنی ٹرمپ نے لبنانی کروڑ پتی مائیکل بولوس سے شادی کی ہے۔ دلہا میاں کا اصل نام مسعود ہے جس کے تلفظ میں مشکل کی وجہ سے وہ خود کو مائیکل کہتے ہیں۔ جناب بولوس نے اپنے سسر کی انتخابی مہم میں دل کھول کر پیسے خرچ کیے۔ سات نومبر کو لبنانی میڈیا الجدید سے بات کرتے ہوئے مائیکل بولوس نے بتایا کہ ٹرمپ انتظامیہ میں وہ لبنانی امور کے ذمہ دار ہوں گے۔ جیرڈ یہودی اور مائیکل بولوس راسخ العقیدہ قبطی مسیحی ہیں۔
معاہدہ ابراہیمؑ کے مطابق مشرقی بیت المقدس سمیت تمام قبضہ بستیوں کو اسرائیل کا حصہ تسلیم کرلیا جائے گا۔ باقی ماندہ علاقوں کو نیم خود مختاری دے کر ریاست فلسطین قائم ہوگی۔ فلسطینی ریاست کو فوج اور اسلحہ رکھنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ اس معاہدے کو مزاحمت کار یکسر مسترد کرچکے ہیں۔
معاہدے کی ‘روح’ بیان کرتے ہوئے جیرڈ کشنر نے اسے فلسطینیوں کے لیے مواقع اور امکانات کی دستاویز قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ معاہدہ امن پر دستخط کے ساتھ ہی غرب اردن اور غزہ میں جدید ترین صنعتی منصوبے شروع کیے جائیں گے۔ زراعت و مویشی بانی کے لیے تمام سہولتوں سے مزین فارم قائم ہوں گے۔ ٹیکنالوجی سنٹر کے قیام سے فلسطینی نوجوان کرہ ارض پر راج کریں گے۔ چمکتی ریت سے آراستہ غزہ کا شفاف ساحل دنیا بھر کے سیاحوں کا مرکز نگاہ بنے گا اور صرف چند سال میں فلسطینیوں کا یہ علاقہ قرآن کے الفاظ میں سونا اگلتی ہوئی برکتوں والی سرزمین میں تبدیل ہو جائے گا۔
جناب ٹرمپ نے غزہ جنگ کے آغاز پر اسے ایرانی کارروائی قرار دیا تھا۔ ان کا خیال ہے کہ طوفان اقصٰی کا مقصد معاہدہ ابراہیمؑ کو سبوتاژ کرنا تھا اور یہ سارا منصوبہ ایران میں تیار ہوا۔ گزشتہ ماہ مشرق وسطیٰ کا دورہ کرنے والے ریپبلکن سینیٹر لنڈسے گراہم نے ٹرمپ بیانئے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کے سعودی عرب اور دوسرے عرب ممالک سے سفارتی تعلقات کی راہ میں اصل رکاوٹ ایران ہے اور ایرانی اثر و رسوخ ختم کیے بغیر علاقے میں استحکام نہیں آسکتا۔ ٹرمپ انتظامیہ کے لیے جو نام سامنے آ رہے وہ لوگ بھی ایران کو ‘فلسطینی تنازعے’ کی جڑ سمجھتے ہیں۔ سفارت کار جان بولٹن، سینیٹر ٹام کاٹن، سینیٹر مارک روبیو، ان کی بہو لارا ٹرمپ اور کاش پٹیل سب کے سب اسرائیل نواز ہیں اور اس بات پر مُصر ہیں کہ فلسطینی مزاحمت کاروں کو اسلحہ اور نظریاتی تربیت ایران سے ملتی ہے۔ ان کے مشیرِ خصوصی، ٹیسلا و ٹویٹر کے سربراہ ایلون مسک مصنوعی ذہانت (AI) کی مدد سے سوشل میڈیا پر ایران کے خلاف منظم و مؤثر مہم چلا رہے ہیں۔
دس نومبر کو ٹرمپ عبوری ٹیم نے نیویارک سے رکن کانگریس اور ریپبلکن پارلیمانی پارٹی کی نائب قائد محترمہ ایلس اسٹیفانک (Elise Stefanik) کو سفیر برائے اقوام متحدہ کا منصب پیش کیا ہے۔ چالیس سالہ اسٹیفانک نے امریکی جامعات میں غزہ نسل کشی کے خلاف مظاہروں کو یہود دشمن یعنی Antisemitic قرار دیتے ہوئے جامعہ ہارورڈ، ایم آئی ٹی اور جامعہ پینسلوانیہ (Upen) کے صدور کو کانگریس کمیٹی کے روبرو طلب کیا اور سماعت کے دوران امریکہ کی اِن موقر ترین جامعات کی سربراہان کے خلاف دھمکی آمیز زبان استعمال کی۔ اس رویے سے پریشان ہوکر Upen کی سربراہ ڈاکٹر لز میگل (Liz Magill) مستعفی ہوگئیں، جس پر اسٹیفانک نے ہانک لگائی کہ ‘ایک گئی، دو باقی ہیں’۔ ہارورڈ کی سربراہ ڈاکٹر کلاڈین گے (Claudine Gay) کو مظاہرین سے تعاون کے الزام میں مقدمات کی دھمکی دی گئی۔ ڈاکٹر صاحبہ پھر بھی نہ مانیں تو ان کے خلاف ادبی سرقے یا plagiarism کا اسکینڈل اچھال کر ڈاکٹر گے کو استعفے پر مجبور کردیا گیا۔
اس پس منظر میں جلد از جلد فیصلہ کن فتح کے اصرار سے غزہ کی جو صورتحال ابھرتی نظر آرہی اس پر سنگاپور میں مقیم ماہر تعلیم جناب اعظم علی صاحب کا تجزیہ بڑا صائب محسوس ہوتا ہے۔ اعظم علی صاحب اپنی ایک فیس بک پوسٹ میں رقم طراز ہیں ’جنگ ختم کرنے کے دو طریقے ہوسکتے ہیں: ظالم کا ہاتھ روکنا یا مظلوم اور اس کی مزاحمت کو ختم کرنا۔ یہاں دوسرا حل زیادہ قرین از قیاس نظر آتا ہے۔‘
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]
***
***
ٹرمپ نے غزہ جنگ کے آغاز پر اسے ایرانی کارروائی قرار دیا تھا۔ ان کا خیال ہے کہ طوفان اقصٰی کا مقصد معاہدہ ابراہیمؑ کو سبوتاژ کرنا تھا اور یہ سارا منصوبہ ایران میں تیار ہوا۔ گزشتہ ماہ مشرق وسطیٰ کا دورہ کرنے والے ریپبلکن سینیٹر لنڈسے گراہم نے ٹرمپ بیانئے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کے سعودی عرب اور دوسرے عرب ممالک سے سفارتی تعلقات کی راہ میں اصل رکاوٹ ایران ہے اور ایرانی اثر و رسوخ ختم کیے بغیر علاقے میں استحکام نہیں آسکتا۔ ٹرمپ انتظامیہ کے لیے جو نام سامنے آ رہے وہ لوگ بھی ایران کو ’فلسطینی تنازعے‘ کی جڑ سمجھتے ہیں۔ سفارت کار جان بولٹن، سینیٹر ٹام کاٹن، سینیٹر مارک روبیو، ان کی بہو لارا ٹرمپ اور کاش پٹیل سب کے سب اسرائیل نواز ہیں اور اس بات پر مُصر ہیں کہ فلسطینی مزاحمت کاروں کو اسلحہ اور نظریاتی تربیت ایران سے ملتی ہے۔ ان کے مشیرِ خصوصی، ٹیسلا و ٹویٹر کے سربراہ ایلون مسک مصنوعی ذہانت (AI) کی مدد سے سوشل میڈیا پر ایران کے خلاف منظم و مؤثر مہم چلا رہے ہیں۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 17 نومبر تا 23 نومبر 2024