ٹرمپ کے عزائم اور ایلن مسک کی سلطنت: استعماریت کی تاریخ کا نیا باب

نہ صرف تیسری دنیا بلکہ امریکہ کے روایتی، سفید نسل پرست حلیفوں کے لیے بھی خطرہ!

نور اللہ جاوید، کولکاتا

’امریکہ فرسٹ‘ کا نعرہ عالمی غنڈہ گردی نئی شکل۔ ٹیرف میں اضافے کے نام پر معاشی تسلط قائم کرنے کی کوشش
‘غزہ پر قبضہ اور فلسطینیوں کی نسلی تطہیر کا منصوبہ: ‘انسانیت کے خلاف جرم کی وکالت
عرب رہنماؤں کا رد عمل ناکافی۔ ٹرمپ کے مقابلے میں دنیا کے سامنے ایک قابل قبول تجویز پیش کرنا ہوگا
انیسویں صدی کی سامراجیت، نوآبادیاتی نظام اور استحصال و جبر کے خلاف دنیا بھر میں کامیاب جدوجہد اور فتح کے بعد یہ امید قائم کی گئی تھی کہ سامراجیت، استعماریت اور نوآبادیاتی نظام کے جبر کے تجربے سے دنیا دوبارہ دوچار نہیں ہوگی۔ توازن، اعتدال اور طاقتور و کمزور اقوام کے درمیان ہم آہنگی اور اختلافات کے تصفیے کے لیے کئی عالمی ادارے اور پلیٹ فارموں کی تشکیل کی گئی۔ اقوام متحدہ، سلامتی کونسل اور دیگر عالمی اداروں کا وجود اسی سوچ کا حصہ تھا۔ 20ویں صدی کے دوسرے نصف میں سامراجی اور استعماری قوتوں کو پسپائی اختیار کرنی پڑی۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان برسوں میں سامراج اپنے عزائم اور پیش قدمی سے کبھی پیچھے نہیں ہٹا۔ گزشتہ دہائیوں میں اسرائیل کا غیر قانونی وجود، امریکہ کی عراق اور افغانستان پر چڑھائی اور مسلسل معاشی تسلط قائم کرنے کی کوششیں اور اب روس و یوکرین کے درمیان جاری جنگ عالمی اداروں کی ناکامی کے ساتھ عالمی امن کے لیے خطرہ بن رہی ہیں۔ مگر امریکہ کا زمامِ اقتدار دوسری مرتبہ سنبھالنے والے صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے انتخاب میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد سے اپنے سامراجی عزائم اور استعمارانہ سوچ کا جو اظہار کیا ہے، وہ کوئی بڑپولا پن یا غیر سنجیدگی نہیں ہے بلکہ یہ 19ویں صدی کے سامراج کی علاقائی بھوک کا 21ویں صدی کے ڈیجیٹل تسلط اور معاشی غلبہ کی پیچیدہ سازشوں کا نیا اوتار ہے۔ یہ نوآبادیاتی منصوبہ، سامراجی عزائم اور استعماری سوچ ریاستی طاقت اور کارپوریٹ تسلط کے امتزاج سے وجود میں آیا ہے۔ صدر ٹرمپ کے غیر متزلزل سامراجی عزائم اور ٹیک ٹائٹن کی دنیا پر پھیلی ہوئی کارپوریٹ سلطنت کے درمیان اتحاد میں یہ امتزاج واضح ہے۔ سامراجی عزائم اور کارپوریٹ تسلط کی سوچ سے وجود میں آنے والی یہ جوڑی، یعنی ٹرمپ اور ایلن مسک کا اتحاد، دنیا بھر میں ”امریکہ فرسٹ“ کے نام پر غنڈہ گردی کے منصوبے کا تنقیدی جائزہ لینا کئی معنوں میں اہم اور ضروری ہے۔ کیونکہ یہ محض امریکی طاقت میں تبدیلی اور اس کے مفادات کے تحفظ کا سوال نہیں ہے بلکہ عالمی طاقت کے تعلقات کی بنیادی تنظیم نو کا تقاضا بھی ہے۔ ٹرمپ جس طریقے سے اپنے علاقائی توسیع کے عزائم کا اظہار کررہے ہیں اور ایلن مسک، جو ایک خالص کاروباری شخصیت ہیں، ان کا ٹرمپ کے ساتھ اتحاد و تعاون، نئی شکل اور اصطلاحات کے ساتھ نوآبادی نظام اور سامراجیت کی خطرناک صورت اختیار کر رہا ہے۔ نوآبادیاتی نظام کی یہ نئی شکل تاریخی نظائر سے جڑی ہوئی ہے، اور یہ جدید آلاتِ کنٹرول اور اثر و رسوخ کے ذریعے روایتی نوآبادیاتی ڈھانچے کے مقابلے میں زیادہ وسیع اور مزاحمت کو زیادہ مشکل بنا دیتی ہے۔ جیسے جیسے دنیا ٹرمپ اور مسک کی پیش رفتوں سے دوچار ہوگی، بین الاقوامی برادری کے سامنے کئی چیلنجز کھڑے ہوں گے۔ نوآبادیاتی تسلط کی ان نئی شکلوں کو تسلیم کرتے ہوئے بین الاقوامی استحکام کو برقرار رکھنا اور اقوام کی خودمختاری کے تحفظ کے لیے مزاحمت کرنا ایک اہم چیلنج ہوگا۔ ایسی دنیا میں جہاں ریاستی اور کارپوریٹ طاقتیں دونوں تیزی سے امریکی ہاتھوں میں مرکوز ہو رہی ہیں، سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کمزور قومیں اور ممالک اپنی خودمختاری کیسے برقرار رکھ سکتی ہیں؟ جب حکومتی اور کارپوریٹ دونوں چینلوں سے طاقت کا بہاؤ ہوتا ہے تو کمزور اور معاشی طور پر محروم قوموں کی خودمختاری، وقار اور جمہوری احتساب کی حفاظت مشکل ترین ہو جاتی ہے۔ غزہ میں فلسطینیوں کا نسلی تطہیر، کینیڈا کو 51ویں امریکی ریاست کے طور پر ضم کرنے کا عزم، گرین لینڈ پر قبضہ اور پناما کنال کو کنٹرول کرنے کا ارادہ صرف ٹرمپ کی ”معاشی ہوس“ نہیں ہے بلکہ امریکی تسلط کے بارے میں اس کا نظریہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ہمیں اسے اور اس کی سامراجی دھمکیوں کو بہت سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ یہ نوآبادیاتی منصوبہ کس طرح تکنیکی اور معلوماتی غلبہ، علاقائی قبضے سے آگے نکل چکا ہے۔ سوشل میڈیا ایکس (سابقہ ٹویٹر) جیسے اہم پلیٹ فارم کے کنٹرول کے ذریعے مسک یہ پیغام دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جدید نوآبادیاتی اثر و رسوخ، بیانیہ کی ہیرا پھیری اور معلومات کے کنٹرول کے ذریعے انجام دیا جاتا ہے۔ کس طرح کارپوریٹ طاقتیں نوآبادیاتی اثر و رسوخ کے لیے ویکٹر کے طور پر کام کرتی ہیں، اس کی مثال یہ ہے کہ ایلن مسک یورپی سیاست میں کھلے عام مداخلت کرنے لگے ہیں، خاص طور پر جرمنی کی انتہا پسند جماعت اے ایف ڈی پارٹی کی حمایت اور جرمن عوام کو اے ایف ڈی پارٹی کی کامیابی کے لیے اپیل اور برطانیہ کی لیبر پارٹی قیادت والی حکومت کے خلاف محاذ آرائی اور نئے نظام کی تشکیل کی وکالت نہ صرف سفارتی آداب کی خلاف ورزی ہے بلکہ یہ استعماری اور سامراجی سوچ کی عکاسی بھی کرتی ہے۔ استعماری اور سامراجی قوتیں پہلے تیسری دنیا کے ممالک کے نظام میں مداخلت کرتی تھیں، اپنی من پسند سیاسی جماعتوں کو انتخابات میں کامیاب کرایا جاتا تھا یا سازشوں کے ذریعے حکومتیں گرائی جاتی تھیں۔ پاکستان کے سابق وزیرِاعظم عمران خان نے اپنی حکومت کے گرنے کے بعد امریکہ میں پاکستانی سفیر کے ذریعے بھیجے گئے سائفر کے حوالے سے کہا تھا کہ ان کی حکومت امریکہ کے اشارے پر گرائی گئی۔ اسی طرح بھارت کے مقتدر حلقوں کا دعویٰ ہے کہ بنگلہ دیش میں حسینہ کی حکومت کا زوال امریکہ کی سرپرستی میں ہوا۔ مگر اب امریکی سامراج کارپوریٹ تسلط کے ذریعے دنیا کی ترقی یافتہ قوموں اور ممالک کے معاملات میں مداخلت کر رہا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سامراج اور استعماریت کس قدر خطرناک شکل میں دنیا کے سامنے کھڑے ہیں۔
ٹرمپ اور ایلن مسک کی جوڑی کس قدر دنیا کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے، اس پر روس کلڈ یونیورسٹی میں انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ اسٹڈیز کے ایسوسی ایٹ پروفیسر سومدیپ سین نے ”ایلن مسک: ایک عالمی مسئلہ“ کے عنوان سے لکھے گئے اپنے حالیہ تجزیہ میں کہا کہ ریاستہائے متحدہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی افتتاحی تقریب میں ایلن مسک کی ظاہری ”نازی سلامی“ سے لے کر امریکی ایجنسی برائے بین الاقوامی ترقی کو ایک ”مجرم تنظیم“ کے طور پر لیبل لگانے تک، اور اس ادارے کو منطقی انجام تک پہنچانے کے عزم کے ساتھ امریکہ میں کفایت شعاری کے لیے بنائے گئے محکمہ ای ڈی او کے سربراہ کے طور پر ایلن مسک نہ صرف امریکہ بلکہ پوری دنیا کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتے ہیں۔ مسک کے ناروا سیاسی عزائم صرف امریکہ کی سرحدوں تک محدود نہیں ہیں۔ ٹرمپ اور اس کی انتہائی دائیں بازو کی MAGA (میک امریکہ گریٹ اگین) تحریک کو امریکہ کا کنٹرول سنبھالنے میں مدد کرنے کے بعد، اس نے پوری دنیا میں اس کامیابی کو نافذ کرنے پر توجہ مرکوز کی ہے۔ بلاشبہ یہ مسک کے عالمی انتہائی دائیں بازو کے انقلاب کی کوشش کے ابتدائی دن ہیں۔ اس کی کچھ حرکتیں کارگر ہو سکتی ہیں، اور ہو سکتا ہے کہ وہ دیگر سیاسی اثرات کی سطح پر نہ ہوں جس کی وہ امید کر رہے ہیں۔ تاہم، یہ امر اب بھی تشویشناک ہے کہ مسک کئی ممالک کی اندرونی سیاست میں مداخلت کے معاملے میں اس حد تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ کوئی صرف امید کر سکتا ہے کہ مسک کی عالمی چالوں پر جلد ہی ایک ٹھوس پُش بیک ہو گا۔
دنیا بھر میں امریکہ کی جمہوریت کی مثال دی جاتی ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ امریکہ میں اقتدار ذاتی دولت، طاقت اور کارپوریٹ گھرانوں کی مدد سے چلتا ہے۔ ٹرمپ نے اقتدار سنبھالنے کے بعد اپنی تقریر میں کہا تھا کہ ان کی ”سب سے قابل فخر میراث دنیا بھر میں امن ساز کی ہوگی۔“ مگر اسی لمحے میں وہ غزہ پر امریکی قبضہ، پناما کنال کو کنٹرول کرنے، گرین لینڈ کو خریدنے اور کینیڈا کے انضمام کی وکالت کرتےہوئے اپنے قول وفعل میں تضادکو نمایاں کرتے ہیں۔ ٹرمپ کی جارحانہ خارجہ پالیسی اور متشددانہ سوچ کو عظیم مؤرخ ٹیسِٹ کی عبارت ”اشیاء کی سیاست، زمین کی سیاست، خون کی سیاست“ میں سمونے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ یہ عبارت ایک بین الاقوامی تعلقات کی کلیدی تشریح فراہم کرتی ہے، جس میں ریاستی طاقت کو استحکام کی وجہ سے پھیلایا جاتا ہے، لیکن انسانیت کے مفاد میں اس سے کسی بھی قسم کی نقصان دہ سوچ کی رہنمائی کی جاتی ہے۔
چنگیز خان سے لے کر ایڈولف ہٹلر تک، آمروں اور جابروں کی حکمت عملی یہ رہی ہے کہ وہ جنگ کے نئے نئے محاذ کھولتے ہیں۔ ٹرمپ بھی اپنے دوسرے صدارتی دور کا آغاز آمروں کے طرز پر متعین دشمنوں—چین، روس اور ایران—کے خلاف بظاہر محاذ آرائی کے بجائے اپنے تاریخی حلیفوں اور سفید فام دوستوں کے خلاف بھی محاذ کھول چکے ہیں۔ ممکن ہے کہ ٹرمپ کینیڈا پر قبضہ کرنے میں سنجیدہ نہ ہوں، مگر وہ کینیڈا کی اقتصادی اور معاشی ناکہ بندی پر سنجیدہ ضرور ہیں۔ ٹرمپ کی جارحانہ پالیسی امریکہ کے جنوبی پڑوسی تک بھی پہنچ چکی ہے۔ وہ اپنے نیٹو جیسے اتحادی کی بھی کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ وہ نیٹو کے ممالک کو اپنی جی ڈی پی کا 5 فیصد ہتھیاروں اور سیکیورٹی پر خرچ کرنے اور امریکی اسلحہ خریدنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ نیٹو ممالک اس وقت اپنی جی ڈی پی کا 2 فیصد اسلحہ خریدنے پر خرچ کر رہے ہیں۔ "امریکہ فرسٹ”، جو غنڈہ گردی کی ایک نئی ثقافت اور زبان ہے، صرف ایک مہم ہے کہ دنیا اسلحے کی خریداری میں مصروف ہو جائے۔ اس کی سب سے بڑی مثال وزیر اعظم نریندر مودی کا حالیہ امریکہ دورہ ہے، جس میں سفارتی آداب کو ملحوظ خاطر رکھے بغیر امریکہ نے بھارت کو اپنے ساز و سامان، تیل اور گیس خریدنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی۔ وہ جنگی طیارے بھارت کو دے رہا ہے وہ بھارتی افواج کے لیے کسی لائق نہیں ہیں اور ان کی جنگی ضروریات کو پورا نہیں کرتے۔ دونوں رہنماؤں کے درمیان ملاقات کے دوران صدر ٹرمپ کی باڈی لینگویج سے سپریمیسی عیاں ہو رہی ہے۔
صدر ٹرمپ کی جارحانہ پالیسی کے خلاف امریکہ میں بھی آواز بلند ہونے لگی ہے، تاہم امریکہ میں مخالفت کی آواز اس قدر مضبوط اور مستحکم نہیں ہے کہ کہا جا سکے کہ صدر ٹرمپ کو ان کے عزائم سے باز رکھا جا سکے۔ پہلی مدت کے دوران کانگریس اور دیگر امریکی اداروں نے ٹرمپ کے سامنے احتجاج اور مزاحمت کی کوشش کی، مگر اس مرتبہ ایسا نہیں لگ رہا۔ ری پبلکن پر مکمل طور پر ٹرمپ اور ان کے ایم اے جی اے گروپ حاوی ہو چکے ہیں۔ ڈیموکریٹ ابھی شکست کے جھٹکوں سے نہیں ابھر سکے ہیں۔ جارحانہ امریکی قوم پرستی کے متبادل کے طور پر ان کے پاس کوئی قابل قبول بیانیہ نہیں ہے۔ امریکہ کی وزارت دفاع کے ہیڈ کوارٹر پینٹاگون کی سربراہ کے طور پر پیٹ ہیگستھ کی تقرری اور سینیٹ کی جانب سے توثیق واضح کرتی ہے کہ ادارے ٹرمپ کے سامنے خودسپردگی اختیارکر چکے ہیں۔ پیٹ ہیگستھ پر جنسی زیادتی کے سنگین الزامات ہیں اور انہیں مالی بدانتظامی اور انتظامی نا تجربہ کاری کا سامنا بھی ہے، حالانکہ انہیں 3.2 ملین ملازمین کی نگرانی کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ امریکی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق پیٹ ہیگستھ جنگ کے قوانین کو "بوجھل” قرار دیتا رہا ہے اور دعویٰ کرتا رہا ہے کہ ان قوانین کی موجودگی میں جنگوں کو جیتنا ہمارے لیے ناممکن ہے۔ پیٹ ہیگستھ کی دلیل یہ ہے کہ "قانونیت اور مہلکیت کے درمیان توازن کے بارے میں بہت گہرائی سے سوچا گیا اور واضح طور پر مہلکیت جیت گئی۔ اس کا کام صرف جیت حاصل کرنا ہے، چاہے وہ کسی بھی طرح سے حاصل کی جائے۔” ہیگست کے مذکورہ عزائم کے بعد یہ خطرہ بڑھ گیا ہے کہ دنیا کو جلد ہی قابو سے باہر فوج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جس کو دنیا بھر میں پھیلے ہوئے 750 فوجی اڈوں سے تقویت ملے گی۔ اس کا آغاز اسرائیل کو بڑے پیمانے پر بموں کی سپلائی کے ذریعے کر دیا گیا ہے۔ ٹرمپ کی تضاد فکر اور پالیسی کا یہ عملی نمونہ ہے۔ صدر ٹرمپ نے حلف برداری کے 24 گھنٹوں کے اندر تمام غیر ملکی امداد روکنے کا ایک ایگزیکٹو آرڈر جاری کر دیا تھا، لیکن اسرائیل اور مصر کو اربوں ڈالر کی فوجی امداد جاری رکھنے کے لیے ایک رعایت دی گئی اور ٹرمپ نے غزہ اور لبنان میں گھروں اور محلوں کو تباہ کرنے کے لیے اسرائیل کی جانب سے استعمال کیے جانے والے اضافی 2,000 پاؤنڈ بموں کی کھیپ پر مئی 2024 میں بائیڈن کی عارضی روک تھام کو فوری طور پر ختم کر دیا تاکہ اسرائیل بے مہار سفاکیت کا مظاہرہ کرتا رہے۔
سرد جنگ کے خاتمے کے بعد امریکہ نے پوری دنیا میں لبرل آرڈر کے فروغ کی کوشش کی۔ آزاد معیشت کا ایجنڈا نافذ کیا گیا ہے مگر ٹرمپ کی جارحانہ خارجہ پالیسی اور توسیع کے عزائم اور ایلن مسک اور امریکہ فرسٹ کے ذریعہ دنیا بھر کی معیشت کو ختم کرنے اور امریکی معیشت کے تسلط کے خواب نے نہ صرف نیو لبرل آرڈر کے نعرے اور اس کے فروغ دینے کی مہم کو اپنے منطقی انجام تک پہنچا دیا ہے بلکہ سیاسی پاپولزم، قوم پرستی اور تحفظ پسندی کے رجحانات نے سامراجیت کے خطرے کو کہیں زیادہ پھیلادیا ہے۔ عالمی نظام پہلے ہی نازک، تیزی سے انتشار اور بین الاقوامی اداروں کے زوال کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ ایسے میں یہ سوال اہم ہے کہ کیا دنیا ٹرمپ کی ان حرکتوں کا جواب دینے کے لیے تیار ہے؟
کینیڈا امریکی ریاست میں ضم ہوتا ہے یا نہیں، گرین لینڈ پر قبضہ کرنے کا طریقہ کیا ہوگا، پاناما کینال پر کس طرح امریکہ کنٹرول کرے گا اور یورپی ممالک کو زیادہ سے زیادہ ہتھیار خریدنے پر مجبور کرنے کے لیے کیا حکمت عملی اپنائی جائے گی، یہ سوالات اپنی جگہ اہم ہیں، مگر جس اصرار کے ساتھ امریکہ اور ٹرمپ غزہ پٹی پر قبضہ کرنے اور فلسطینیوں کے انخلا کے عزم کا اظہار کر رہے ہیں، وہ نہ صرف مشرق وسطیٰ کی سیاسی، جغرافیائی اور علاقائی سیاست کو متاثر کرے گا بلکہ اس پورے خطے کو جنہم زدہ کر سکتا ہے۔ اگرچہ ٹرمپ کے اس اعلان پر عرب ممالک نے اتحاد کا مظاہرہ کیا ہے، سعودی عرب کے فرماں رواؤں نے روایت سے برعکس ٹرمپ کے اعلان کے فوری بعد نصف شب کو بیان جاری کر کے اس کو مسترد کر دیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ عرب ممالک کے متفقہ بیانات کے بعدکیا ٹرمپ اپنے عزم سے کنارہ کشی اختیار کر لیں گے؟ مشہور امریکی میگزین "فارن پالیسی” نے "ٹرمپ کا غزہ پلان دنیا کے لیے کیا معنی رکھتا ہے؟” کے عنوان سے 10 سیاسی تجزیہ نگاروں کے تبصرے شائع کیے ہیں۔ یہ تمام تجزیے پڑھنے کے لائق ہیں۔ بیشتر تجزیہ نگاروں کا تعلق امریکی سیاسی اشرافیہ سے ہے، مگر زیادہ تر مبصرین ٹرمپ کی اس پالیسی کو "انسانیت کے خلاف جرم کی وکالت” سے تعبیر کر رہے ہیں۔ ایک مبصر نے لکھا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ ٹرمپ کے خیال کی ابتدا ان کے داماد جیرڈ کشنر سے ہوئی ہے، جس نے گزشتہ سال ہارورڈ یونیورسٹی کے سامعین کو بتایا تھا کہ غزہ کی "واٹر فرنٹ پراپرٹی” "بہت قیمتی” ہے۔ واشنگٹن انسٹیٹیوٹ فار نیئر ایسٹ پالیسی کے ایک ممتاز فیلو ڈینس راس نے عرب ممالک کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ٹرمپ پر تنقید کرنا کافی نہیں ہے۔ عرب رہنماؤں کو جوابی تجویز دینے کی ضرورت ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے رئیل اسٹیٹ اور تعمیرات کے پس منظر کا ان کے چونکا دینے والے اعلان سے بہت کچھ تعلق ہے۔ عرب رہنما سمجھتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ میں فلسطینیوں کے قومی حقوق کے ساتھ غداری کے طور پر جس چیز کو پیش کیا جا رہا ہے، اس کی حمایت کرنا ان کے خلاف شدید عوامی غصے کو جنم دے سکتا ہے، ممکنہ طور پر ان کی حکومتوں کو غیر مستحکم کر سکتا ہے اور ایران، حزب اللہ اور حماس کو دھوکہ دہی کے خلاف مزاحمت کرنے کے لیے تیار کر سکتا ہے۔ تاہم ڈینس راس لکھتے ہیں کہ اگر وہ ٹرمپ کو اپنے عزائم سے باز رکھنا چاہتے ہیں تو وہ صرف دو ریاستی حل کے مطالبات کے ساتھ نہیں آ سکتے، جو اس وقت ایک نعرے سے کچھ زیادہ نہیں ہے۔ جس طرح عربوں نے غزہ کے لیے ٹرمپ کے منصوبے کو عوامی طور پر مسترد کرنے کے لیے مربوط ردعمل کا مظاہرہ کیا ہے، اسی طرح انہیں غزہ میں آگے آنے والی باتوں کے لیے ٹھوس جوابی تجویز کو مربوط کرنا چاہیے جو کہ باتوں سے بالاتر ہو۔
آخری بات یہ ہے کہ نئی امریکی استعماریت، جس کی خاصیت یہ ہے کہ ریاستی طاقت، کارپوریٹ اثر و رسوخ اور ٹیکنالوجی کے ذریعے دنیا کو زیر کرنے کے منصوبے کا اتحاد ہے، سرد جنگ کے بعد ترتیب پانے والے نظام کے لیے سب سے بڑا چیلنج بن کر ابھرا ہے۔ آج یہ موضوع بحث ہے کہ ٹرمپ کا نوآبادیاتی منصوبہ عالمی طاقتوں کے درمیان تعلقات کو نئی شکل دینے میں کامیاب ہوگا یا دوسری قوموں اور بین الاقوامی تحریکوں کی طرف سے مؤثر مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ دیکھنا باقی ہے۔ تاہم جو بات واضح ہے وہ یہ ہے کہ ٹرمپ کے علاقائی عزائم اور ایلن مسک کی کارپوریٹ سلطنت کے امتزاج نے نوآبادیاتی طاقت کے تخمینے کی تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز کیا ہے، جو آنے والی نسلوں کے لیے عالمی سیاست کو متاثر کرے گا۔
***

 

***

 نئی امریکی استعماریت، جس کی خاصیت یہ ہے کہ ریاستی طاقت، کارپوریٹ اثر و رسوخ اور ٹیکنالوجی کے ذریعے دنیا کو زیر کرنے کے منصوبے کا اتحاد ہے، سرد جنگ کے بعد ترتیب پانے والے نظام کے لیے سب سے بڑا چیلنج بن کر ابھرا ہے۔ آج یہ موضوع بحث ہے کہ ٹرمپ کا نوآبادیاتی منصوبہ عالمی طاقتوں کے درمیان تعلقات کو نئی شکل دینے میں کامیاب ہوگا یا دوسری قوموں اور بین الاقوامی تحریکوں کی طرف سے مؤثر مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ دیکھنا باقی ہے۔ تاہم جو بات واضح ہے وہ یہ ہے کہ ٹرمپ کے علاقائی عزائم اور ایلن مسک کی کارپوریٹ سلطنت کے امتزاج نے نوآبادیاتی طاقت کے تخمینے کی تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز کیا ہے، جو آنے والی نسلوں کے لیے عالمی سیاست کو متاثر کرے گا۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 23 فروری تا 01 مارچ 2025