!ٹریفک کے بہانے سے دلی کی سنہری باغ مسجد کے انہدام کی سازش
این ڈی ایم سی کی نوٹس پر ملّی تنظیموں اور قائدین کا شدید رد عمل۔ جماعت اسلامی ہند عدالت سے رجوع
نئی دلی :(دعوت نیوز ڈیسک)
ملک بھر کے مسلم رہنماؤں، سیاست دانوں، جہدکاروں اور تاریخ دانوں نے سنہری باغ مسجد کو ٹریفک کا بہانہ بناکر منہدم کرنے کے لیے نئی دہلی میونسپل کارپوریشن (این ڈی ایم سی) کی جانب سے دی گئی نوٹس پر اپنے غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔یہ مسجد تین صدیوں سے زیادہ قدیم ہے جو مغل دور میں تعمیر کی گئی تھی۔ اس کا اندراج گریڈ III ہیریٹیج عمارت کے طور پر قومی دارالحکومت کی تاریخی ورثے کی حامل جائیدادوں کی فہرست میں موجود ہے۔شہری ادارہ نے 24 دسمبر کو اخبارات کے لیے ایک اشتہار جاری کیا جس میں مسجد کو ہٹانے کے لیے عوام سے ’’اعتراضات اور تجاویز‘‘ طلب کی گئیں۔اشتہار میں این ڈی ایم سی نے دہلی ٹریفک پولیس کے ایک خط کا حوالہ دیا ہے جس میں اس گول چکر کو دوبارہ ترتیب دینے یا دوبارہ ڈیزائن کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے جس پر مسجد کھڑی ہے یا مسجد کے ارد گرد ٹریفک کی نقل و حرکت کو کم کرنے کے لیے کچھ اور اقدامات کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔این ڈی ایم سی کے اس اقدام پر تنقید کرتے ہوئے جماعت اسلامی ہند کے نائب صدر ملک معتصم خان نے کہا کہ جماعت اسلامی ہند نے مسجد کے تحفظ کے لیے دہلی ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور اس تاریخی و مذہبی ورثے کے تحفظ کو یقینی بنانے کی گزارش کی ہے۔انہوں نے کہا ”یہ مسجد تاریخی وثقافتی حیثیت کی حامل اور دہلی کی 141 تاریخی مقامات کی فہرست میں شامل ہے اور اصلاً اسے ایک مذہبی حیثیت حاصل ہے۔ اس وقت کے جامع مسجد کے امام (موجودہ امام کے دادا) کا مسلمانان ہند کی جانب سے وقت کے وزیر اعظم نہرو کے ساتھ ایک معاہدہ ہوا تھا جس میں مسجد کے تحفظ کی ضمانت دی گئی تھی۔ اس کے علاوہ بھی مسجد کی حفاظت کے سلسلے میں بعض دیگر معاہدے بھی موجود ہیں۔ نیز اس مسجد کے تعلق سے 18 دسمبر 2023 کو دلی ہائی کورٹ کا ایک فیصلہ آیا تھا جس میں یقین دہانی کرائی گئی کہ اس مسجد کو کسی طرح کا کوئی نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔ عدالت کی اس یقین دہانی کے باوجود اس کو توڑنے کے لیے عوامی رائے طلب کرنا غیر آئینی ہے۔ پھر یہ کہ اس مسجد کا معاملہ ابھی عدالت میں زیر التوا ہے۔ لہٰذا حتمی فیصلہ آجانے تک ’این ڈی ایم سی‘ کو مسجد کے تعلق سے اپنی باتیں عدالت میں کہنی چاہیے نہ کہ عوام سے رائے طلب کی جائے؟ اس سے عوام میں اضطرابی کیفیت پیدا ہوسکتی ہے۔اس کے علاوہ کونسل کا یہ عمل ’پلیس آف ورشپ ایکٹ 1991‘ کے بھی خلاف ہے جس میں تمام عبادت گاہوں کو 1947 کی ہیئت پر برقرار رکھنے کی ضمانت دی گئی ہے۔ ان تمام حقائق کو نظر انداز کرکے ’این ڈی ایم سی‘ نے جو عوامی رائے طلب کی ہے جماعت اسے غیر آئینی سمجھتی ہے اور اسی وجہ سے اس نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا کر یہ درخواست کی ہے کہ وہ ’این ڈی ایم سی‘ کو مسجد کے خلاف کسی بھی ایسے اقدام سے باز رہنے کی ہدایت دے“۔
جناب معتصم خاں نے کہا کہ”مسجد سے پیدا ہونے والے ٹریفک کے مسائل پر ’این ڈی ایم سی‘ کو عوام کی رائے لینے کے بجائے ماہرین سے صلاح و مشورہ لے کر متبادل حل کے امکانات پر غور کرنا چاہیے۔ مثال کے طور پر زیر زمین ٹنل یا ہیڈ فلائی اوور بناکر اس مسئلے کا حل نکالا جاسکتا ہے۔ جہاں تک ٹریفک کا معاملہ ہے تو دہلی میں ہر روز کسی نہ کسی مذہبی، ثقافتی، تعلیمی، سیاسی اور کاروباری تقریبات کی وجہ سے ٹریفک جام رہتی ہے، تو کیا ان تمام سرگرمیوں کو ختم کر دیا جائے؟ دنیا کا کوئی بھی ملک ٹریفک اور گاڑیوں کی آمدو رفت میں بہتری لانے کے لیے اپنے ورثے کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں کرتا۔ کیونکہ تاریخی وراثتیں قیمتی سرمایا ہوتی ہیں“۔ انہوں نے مزید کہا کہ ”جماعت اسلامی ہند کا ماننا ہے کہ سنہری مسجد، دہلی وقف بورڈ کی نگرانی اور اس کی تولیت میں ہے اور اس کی زمین پر ’این ڈی ایم سی‘ کا دعویٰ جو کہ عدالت میں زیر التوا ہے، غلط ہے۔ میڈیا رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ ’این ڈی ایم سی‘ نے جو عوام سے رائے طلب کی ہے، اس سلسلے میں لوگوں کی اکثریت نے مسجد کو منہدم کرنے کی مخالفت کی ہے۔ کسی تاریخی نشانی کو مٹانا افسوسناک ہے۔ اگر ہماری حکومت انصاف اور شفافیت پر یقین رکھتی ہے تو اسے ایسے کسی بھی اقدام سے گریز کرنا چاہیے جو آئینی، تاریخی اور ثقافتی شبیہ کو خراب کرے‘‘۔
جماعت اسلامی ہند کے معاون سکریٹری انعام الرحمن، جنہوں نے ہائی کورٹ میں مفاد عامہ کی عرضی دائر کی، اس بات پر روشنی ڈالی کہ سنہری باغ کے علاقے میں ٹریفک شہر کے گول چکر والی دیگر جگہوں کے مقابلے میں کافی کم ہے، جس سے NDMC کے دعووں کی صداقت پر شک پیدا ہوتا ہے۔ انعام الرحمٰن نے حال ہی میں مسجد کا دورہ کیا اور نوٹس کے بعد امام عبدالعزیز سے ملاقات کی، انہوں نے مسجد کے گول چکر کے ارد گرد ضرورت سے زیادہ ٹریفک کے دعووں کو بے بنیاد قرار دیا۔
اس مسئلہ پر انتہائی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کل ہند مسلم پرسنل لا بورڈ نے بھی شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔ بورڈ کے ترجمان ڈاکٹر قاسم رسول الیاس نے کہا ہے کہ نئی دہلی مونسپل کونسل نے ایک مبہم سی نوٹس جاری کر کے سنہری مسجد کو شہید کرنے سے متعلق لوگوں سے اعتراضات طلب کیے ہیں۔ نوٹس میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ دہلی ٹریفک کمشنر نے مسجد کے اردگرد ٹریفک کے بآسانی گزرنے میں پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے این ڈی ایم سی سے اس مسجد کو ہٹائے جانے کا مطالبہ کیاہے، جس پر این ڈی ایم سی نے مسجد کا مشترکہ معائنہ کیا اور اس معاملہ کو مذہبی کمیٹی کے سپرد کیا۔ اب یہ کہا جا رہا ہے کہ نام نہاد مذہبی کمیٹی نے اتفاق رائے سے یہ کہہ دیا ہے کہ مسجد کو منہدم کیا جا سکتا ہے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ نے ایک بیان میں واضح طور پر کہا کہ نئی دلی، رفیع مارگ پر واقع ساڑھے تین سو سالہ سنہری مسجد کو شہید کر نے کی منظم سازش ہو رہی ہے جسے کسی بھی قیمت پر قبول نہیں کیا جائے گا۔ اس سے قبل اس مسجد کے انہدام کے اندیشہ کے پیش نظر عدالت میں کیس داخل کیا گیا تھا اور عدالت نے اس پر اسٹے لگاتے ہوئے یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ اسے منہدم نہیں کیا جائے گا۔ اس یقین دہانی کے بعد ہی اس کیس کو واپس لے لیا گیا تھا۔ این ڈی ایم سی اگر عدالت کی اس یقین دہائی کے خلاف کارروائی کرتا ہے تو وہ باقاعدہ توہین عدالت کا بھی مرتکب ہو گا۔
مسلم پرسنل لا بورڈ یہ واضح کر دینا بھی ضروری سمجھتا ہے کہ مسلمانان ہند مسجد کے انہدام کو برداشت نہیں کریں گے۔ مسجد اللہ کا گھر اور وقف الی اللہ ہے۔ اس کو نہ تو منتقل کیا جا سکتا ہے نہ ہی اس کی کوئی خرید فروخت ہو سکتی ہے۔ لہٰذا این ڈی ایم سی اپنے اس مذموم ارادے سے فوری باز آجائے اور ملک کے دارالحکومت میں خواہ مخواہ فرقہ وارانہ کشیدگی پھیلانے سے گریز کرے۔
انہوں نے کہا ’’ہم ریاستی و مرکزی حکومتوں پر یہ واضح کر دینا ضروری سمجھتے ہیں کہ وہ مساجد، منادر، گرودواروں و دیگر عبادت گاہوں کے انہدام کے ارادوں سے فوری طور پر باز آجائیں اور ملک کی فرقہ وارانہ صورت حال کو مزید پراگندہ کرنے کی کوشش نہ کریں‘‘۔
وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ کو لکھے ایک خط میں، جمعیۃ علماء ہند (محمود دھڑے) کے صدر مولانا محمود مدنی نے این ڈی ایم سی نوٹس پر گہری تشویش کے ساتھ ان سے اپیل کی کہ اس طرح کی کارروائی سے مشترکہ ثقافتی ورثے کو کافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ مولانا مدنی نے اس بات پر زور دیا کہ مسجد اپنی گہری تاریخی اہمیت کے ساتھ ملک کی تکثیری اخلاقیات اور مختلف برادریوں کے ہم آہنگ بقائے باہمی کا ثبوت ہے۔ انہوں نے وزیر اعظم اور وزیر داخلہ پر زور دیا کہ وہ مہربانی کرکے اس معاملے کا نوٹس لیں اور مسجد سنہری باغ کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ضروری اقدامات کریں۔
مولانا حکیم الدین قاسمی کی قیادت میں جمعیت کے ایک وفد نے حال ہی میں مسجد کا دورہ کیا اور مسجد کے امام مولانا عبدالعزیز سے ملاقات کی۔ انہوں نے انہیں مسجد کی جانب سے حکومت کی تمام ہدایات پر سختی سے عمل کرنے کے بارے میں بتایا اور کہا کہ پارلیمانی اجلاسوں کے دوران باجماعت نماز بھی روک دی جاتی ہے اور ٹریفک میں خلل سے بچنے کے لیے اقدامات کیے جاتے ہیں۔
جمعیت (ارشد گروپ) کے سربراہ مولانا سید ارشد مدنی نے مسجد کے انہدام کو ایک سازش قرار دیا اور اس عزم کا اظہار کیا کہ تنظیم سنہری باغ مسجد کے تحفظ کے لیے ہر قانونی جنگ لڑے گی۔ انہوں نے کہا ’’ بابری مسجد کے فیصلے کے بعد فرقہ پرست طاقتوں کو حوصلہ ملا ہے۔ ان کی نظر ہماری عبادت گاہوں پر ہے۔ مسجد کی حفاظت کے لیے ہم ہر قدم اٹھائیں گے۔ انتظامیہ کو غیر قانونی اقدام سے باز رہنا چاہیے۔‘‘
سنی مکتبہ فکر کی نمائندگی کرنے والی ممبئی کی ایک ممتاز تنظیم رضا اکیڈمی، نے اپنے X پر، 350 سال پرانی سنہری مسجد کے انہدام کی کوشش کو ملک میں افراتفری پھیلانے کی ایک خطرناک کوشش قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی اور کہا کہ ٹریفک کے خدشات محض ایک بہانہ ہیں۔
مورخ وماہر تعلیم، سید عرفان حبیب اپنے X پر لکھتے ہیں،’’سنہری باغ مسجد صرف ایک مسجد نہیں ہے، اس کی ایک تاریخ ہے جو ہمارے کئی آزادی پسندوں سے گہرا تعلق رکھتی ہے۔ ہماری دستور ساز اسمبلی کے رکن حسرت موہانی اجلاسوں میں شرکت کے لیے یہاں ٹھہرتے تھے۔ اس کی شاندار تاریخ کا خیال رکھیں۔‘‘
مشہور مصنف تشار ارون گاندھی، جو گاندھی جی کے پڑ پوتے ہیں، انہوں نے اپنے X پر ’’تاریخی سنہری مسجد کے مجوزہ انہدام کے بارے میں اپنا احتجاج درج کرتے ہوئے چیف آرکیٹیکٹ NDMC کو لکھا ’’سنہری مسجد کو بچائیں‘‘۔
ایک اور مؤرخ رانا صفوی اپنے X پر لکھتے ہیں، ’’یہ وہی مسجد ہے جہاں سے شاعرو قوم پرست مولانا حسرت موہانی جنہوں نے انقلاب زندہ باد کا وضع کیا تھا، سب سے پہلے 1930 میں مکمل آزادی کا مطالبہ کیا تھا۔ جب پارلیمنٹ کے اجلاس میں شرکت کرتے ہوئے وہ سو گئے تھے، انہوں نے سرکاری رہائش اور ٹرانسپورٹ لینے سے انکار کر دیا تھا۔
حسیب احمد، جو سابق بیوروکریٹ ہیں اور صنعت بھون میں تعینات رہنے کے دوران 15 سال تک اس مسجد میں نماز ادا کرچکے ہیں انہوں نے این ڈی ایم سی کی نوٹس پر سخت اعتراض ظاہر کرتے ہوئے کہا ’’یہ مسجد گول چکر کے اندر ہے، سڑک پر نہیں۔ دراصل مسجد پہلے بنی اور سڑک بعد میں۔ مسجد کی وجہ سے ٹریفک میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔
این ڈی ایم سی کے چیف آرکیٹیکٹ کو لکھے گئے ایک خط میں آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسد الدین اویسی نے تاریخی مسجد کو ہٹانے کی این ڈی ایم سی کی تجویز کی سخت مذمت کرتے ہوئے اسے ’ہندوستان کے ورثے کے لیے ناقابل تلافی نقصان‘ قرار دیا اور اس سے فوری طور پر دستبرداری کا مطالبہ کیا۔
کانگریس کے رہنما اور آسام کے رکن پارلیمنٹ عبدالخالق نے بھی NDMC کے چیئرمین امیت یادو کو خط لکھا، جس میں کہا گیا کہ سنہری مسجد کو منہدم کرنے سے ’’نئی دہلی کے ثقافتی تانے بانے اور اجتماعی شناخت کو نقصان پہنچے گا‘‘۔
دہلی کے معماروں کے ایک گروپ نے ایک خط میں جو انٹرنیٹ پر بڑے پیمانے پر گردش کر رہا ہے لکھا ہے، ’’سنہری باغ مسجد محض اینٹ اور گارے کا ڈھانچہ نہیں ہے۔ یہ ہماری تاریخی میراث اور تعمیراتی عظمت کا ثبوت ہے۔ اس کے انہدام کے نتیجے میں ثقافتی تانے بانے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔
اس دوران فیڈریشن آف مہاراشٹر مسلمس نے نئی دہلی میں سنہری باغ مسجد کو شہید کرنے کے خلاف اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح کی کوئی بھی حرکت ملک کی سالمیت و یکجہتی کے لیے خطرہ ہوسکتی ہے۔ اس لیے حکومت کو ایسی کسی بھی کارروائی کو فوری طور سے روکنا چاہیے اور مسلمانوں سمیت سبھی انصاف پسندوں کو یہ یقین دلانا چاہیے کہ حکومت ملک میں مسلمانوں سمیت سبھی اقلیتوں کی عبادت گاہوں اور ان کی شناخت پر آنچ نہیں آنے دے گی‘‘۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 07 جنوری تا 13 جنوری 2024