ڈاکٹر سلیم خان،ممبئی
دنیا بھر میں جنگ بندی کا خیر مقدم اور امدادی کارروائیوں میں سبقت،قابل تحسین
طوفان الاقصیٰ کے نتیجے میں تباہ کاری اور پھر جنگ بندی کے حوالے سے جو لوگ تذبذب کا شکار ہیں انہیں چاہیے کہ یرغمالیوں کی رہائی والی ویڈیو دیکھ لیں اور پھر بھی کوئی کنفیوژن باقی رہ جائے تو ان کا موازنہ اسرائیلی سیکیورٹی کونسل کی تصاویر سے کرلیں ۔ حماس نے یر غمالیوں کی رہائی کے موقع پر زبردست جلوس نکالا اور پرمسرت نعرے لگا کر یہ پیغام دیا کہ انہیں کسی کو یرغمال بنائے رکھنے کا شوق نہیں تھا بلکہ وہ ان کو آزاد کرکے خوش ہیں ۔ اس کے برعکس یہودی رہنماوں کے چہرے پر برسنے والی لعنت اور مایوسی چغلی کھا رہی تھی کہ امن کی خاطر رضامندی ان کے لیے زہر کے پیالے سے کم نہیں ہے۔ وہ لوگ تباہی و بربادی سے روکے جانے پر بے حد ملول ہیں جبکہ حماس، یرغمالیوں کی رہائی کا جشن منا رہی ہے۔ ان لوگوں کو تحفے تحائف سے نواز رہےہیں اور اس کی ویڈیو بناکر دنیا بھر کو بتا ر ہے ہیں کہ وہ کن اعلیٰ اقدار کے حامل ہیں۔ ان تحفوں میں ایک سرٹیفکیٹ کے ساتھ قید کے دوران شوٹ کی گئی یادگار تصاویر بھی ہیں۔ اس میں یہ اشارہ بھی موجود ہے کہ اگر کل کو اسرائیلی خفیہ ایجنسی انہیں دباو ڈال کر حماس کی بدنامی کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کرے تو اس کے خلاف شواہد موجود ہیں ۔ ویسے ماضی میں بھی جو لوگ حماس کی قید سے چھوٹے انہوں نے کسی بدسلوکی کی شکایت نہیں کی ۔ ابوغریب جیسی سفاکی تو امریکہ اور اس کے دم چھلے اسرائیل کا طرۂ امتیاز ہے۔
اسرائیل کی جانب سے ہر یرغمالی کے بدلے عمر قید سے کئی گنا زیادہ سزا پانے والے بے قصور مجاہدین کو آزاد کیا جا رہا ہے مگر وہ اس کو اپنی ذلت و رسوائی کے زمرے میں ڈال کر چھپا رہا ہے۔ یہ ہے جیتنے اور ہارنے والے کا فرق۔ حماس کے مذکورہ بالا پر جوش جلوس میں ان کے ہتھیار بند مجاہدین بھی نظر آتےہیں۔ یہ ویڈیو پکار پکار کہہ رہی ہے کہ ہمیں صفحۂ ہستی سے مٹانے والے کہاں ہیں؟ یہ دیکھو ہم زندہ ہیں۔ ہم کھلے عام نعرۂ تکبیر بلند کرکے اللہ تبارک و تعالیٰ کی کبریائی بیان کر رہے ہیں۔ موت کے ڈر سے ڈپریشن میں جانے والے اسرائیلی فوجیوں کی بابت فرمانِ خداوندی ہے ’’تم انہیں سب سے بڑھ کر جینے کا حریص پاؤ گے حتیٰ کہ یہ اس معاملے میں مشرکوں سے بھی بڑھے ہوئے ہیں ان میں سے ایک ایک شخص یہ چاہتا ہے کہ کسی طرح ہزار برس جیے، حالانکہ لمبی عمر بہرحال اُسے عذاب سے تو دور نہیں پھینک سکتی جیسے کچھ اعمال یہ کر رہے ہیں، اللہ تو انہیں دیکھ ہی رہا ہے‘‘۔ (سورہ بقرہ:96) اس کے برعکس مومنین کا حال یہ ہے کہ وہ تو شہادت کو سعادت سمجھتے ہیں ۔ ایسے مجاہدین کو بھلا کون شکست دے سکتاہے؟ علامہ اقبال نے انہیں کے بارے میں فرمایا؎
کشادِ درِ دل سمجھتے ہیں اس کو
ہلاکت نہیں موت ان کی نظر میں
شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن
نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی
7؍ اکتوبر 2023کے بعد شروع ہونے والی مزاحمت کے بعد کیا کھویا اور کیا پایا کا اگر جائزہ لیا جائے تو یقیناً غزہ میں انسانی جانوں کا نقصان اور شہری سہولتوں کی تباہی ناقابلِ تلافی خسارہ ہے لیکن اس کے ساتھ اور بھی بہت کچھ ہے۔ کیا یہ کوئی معمولی کامیابی ہے کہ جس برطانیہ کی ناپاک سازش کے نتیجے میں اسرائیل کا وجود ممکن ہوسکا اسی کی پارلیمنٹ کے بین الاقوامی ترقیاتی کمیٹی نے حکومت پر زور دیا کہ وہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے؟ پچھلے ۷۷ برسوں میں عالمی سفارت میں یہ فلسطینی مزاحمت کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ اس کا سہرا طوفان الاقصیٰ اور اس کے بعد پیش کی جانے والی عظیم ایثار و قربانی کو جاتا ہے۔ یہ کسی سیاسی لیڈر کا ہوا ہوائی جملہ نہیں ہے بلکہ مذکورہ بالا کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں ضروری شرائط اور منصوبہ بند اقدامات کا خاکہ بھی پیش کیا ہے۔اس کمیٹی کو غزہ کی پٹی میں انسانی صورت حال، مغربی کنارے میں ہونے والی پیش رفت اور بے گھر فلسطینیوں کے بارے میں تفصیل بتانے کی خاطر تشکیل دیا گیا تھا مگر اس نے اپنے حدود سے تجاوز کرکے یہ سفارش کی کہ "حکومت کو فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرنے کے لیے منصوبہ بند اقدامات کی ٹائم لائن طے کرنی چاہیے‘‘۔آزادی فلسطین کے حوالے سے یہ غیر معمولی کامیابی ہے۔
برطانوی استعمار میں یہودیوں کی ہمدردی جگ ظاہر ہے اس کے باوجود یہ رپورٹ اعلان کرتی ہے کہ حماس کے حملوں پر اسرائیلی ردعمل سے نمایاں شہری ہلاکتیں ہوئیں اور غزہ کے شہری بنیادی ڈھانچے کو تباہ کردیا گیا۔اسرائیلی جنگی جرائم کی جانب اشارہ کرتے ہوئے عالمی عدالت کے فیصلوں کا حوالہ دے کر غزہ میں بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں کی نشان دہی بھی کی گئی ہے۔ رپورٹ کے الفاظ میں "ہم سمجھتے ہیں کہ غزہ میں اسرائیل کی فوجی مہم میں بین الاقوامی انسانی قوانین کی سنگین خلاف ورزیوں کا ممکنہ خطرہ ہے۔ اس نے نسل کشی کے الزامات کو جنم دیا ہے۔‘‘ اسرائیل کے دیرینہ حلیف کا اس پر لگنے والے نسل کشی کے الزام کی تائید کرنا کوئی معمولی بات نہیں۔ اس کے علاوہ خطے میں دیر پا اور پائیدار امن کے حصول کے لیے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی ضرورت پر اصرار کرنا بھی نصرت الٰہی کی ایک شکل ہے۔ اس پارلیمانی رپورٹ میں برطانیہ کی حکومت پر زور دیا گیا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ بین الاقوامی انسانی قانون کی ہر خلاف ورزی کے لیے اسرائیل کو جواب دہ ٹھیرایا جائے۔‘‘ برطانیہ کی جانب سے اسرائیل کو یہ زور کا جھٹکا زور سے ہی لگا ہے۔
حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی سے اسرائیل کے علاوہ اس کے حلیف اور حریف سب خوش ہیں۔ فلسطینی جہاد میں ایران کا بڑا کردار رہا ہے کیونکہ وہ نہ صرف اسرائیل کے حملے کا نشانہ بنا بلکہ اس نے بھی جواب میں تل ابیب تک اپنے میزائل داغے۔ ایسے میں جنگ بندی کے موقع پر سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی نے ایک نہایت ایمان افروز بیان جاری کیا۔ اس میں پہلے تو سورۂ فتح کی ابتدائی تین آیات کا حوالہ دے کر خداوندِ تعالیٰ کا شکر ادا کیا گیا نیز، "طوفان الاقصیٰ” کو شان دار، تاریخی اور باعث افتخار آپریشن کہہ کر پذیرائی کی گئی پھر اس کے بعد صہیونی حکومت کے مظالم اور نسل کشی سہنے کے باوجود حماس کی برتری کو سراہا گیا۔ پاسداران نے اسرائیل کے اہداف کو یاد دلاتے ہوئے کہا وہ قیدیوں کو عسکری کارروائیوں کے ذریعے آزاد کرانا، حماس کا مکمل خاتمہ اور شمالی بستیوں کے آباد کاروں کو واپس لانا چاہتے تھے لیکن 463 دنوں کے ظلم و بربریت کے بعد اسے ان تینوں محاذوں پر شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ 50 ہزار کے قریب شہادتیں، لاکھوں لوگوں کے زخمی ہونے اور 80 فیصد سے زیادہ بنیادی اسٹرکچر کی تباہی کے باوجود غزہ کے جیالوں کی بے مثال صبر و استقامت نے ظالموں کو جھکنے پر مجبور کر دیا ہے۔ پاسداران نے خبردار کیا آگے چل کر اسرائیل کے ظالم سربراہ کو صہیونی معاشرے کے اندرونی تنازعات، شدید تنقید اور احتجاج کے طوفان کا سامنا کرنا پڑے گا اور یہ ہو بھی رہا ہے۔ نیتن یاہو فی الحال بیک وقت دو مخالف طاقتوں کی کھینچا تانی میں پھنس کر کراہ رہے ہیں ۔
دنیا بھر کے رہنماؤں نے اس جنگ بندی پر حوصلہ افزاء بیانات دیے ان میں ایران کے سربراہ آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے لکھا کہ "آج پوری دنیا یہ سمجھ چکی ہے کہ غزہ کے عوام کے صبر اور فلسطینی مزاحمت کی ثابت قدمی نے صیہونی حکومت کو پسپائی پر مجبور کر دیا ہے۔ مورخین کتابوں میں لکھیں گے کہ ایک دن صہیونی مافیا نے انتہائی درندگی کے ساتھ ہزاروں عورتوں اور بچوں کو قتل کیا لیکن آخر کار انہیں شکست ہی ہوئی۔ ‘‘ ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان نے امید ظاہر کی کہ یہ معاہدہ ’ہمارے خطے اور پوری انسانیت کے لیے فائدہ مند ہوگا، خاص طور پر ہمارے فلسطینی بھائیوں کے لیے یہ پائیدار امن اور استحکام کی راہ کھولے گا۔ پاکستان کے وزیر اعظم نے ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کرتے ہوئے اپنے ملک کے عہد کی تجدید کی اور غزہ میں جنگ بندی کے اعلان کا خیر مقدم کیا۔ انہوں نے کہا: ’’میں اور پاکستان کے تمام لوگ فلسطینی شہداء اور غزہ کے مظلوم عوام کی قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں‘‘۔
ایران، پاکستان اور ترکی جیسی اسلامی دنیا کی بڑی فوجی طاقتوں کے علاوہ اس امن معاہدے کو حتمی شکل دینے والے قطری وزیر اعظم محمد بن عبدالرحمن آل ثانی نے جنگ بندی پر عمل درآمد شروع ہونے تک تحمل کا مظاہرہ کرنے کی درخواست کی۔اسرائیل نے اسے در کنار کرتے ہوئے اپنے حملے جاری رکھے مگر اس کے جواب میں حوثیوں نے بھی تل ابیب پر حملہ کرکے صہیونیوں کے دانت کھٹے کیے۔ قطری وزیر اعظم کے مطابق اس معاہدے سے مشکلات کے شکار فلسطینی عوام میں ایک امید پیدا ہو گئی ہے۔ اس کوشش میں قطر کے شریکِ کار مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے غزہ میں فوری انسانی امداد کے داخلے کا مطالبہ کیا ہے۔ اردن کے وزیر خارجہ ایمن صفادی نے عالمی طاقتوں پر زور دیا ہے کہ وہ غزہ کے لیے ’مناسب اور پائیدار‘ امداد کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔عراق کی وزارت خارجہ نے غزہ پٹی اور فلسطینی علاقوں میں فوری طور پر انسانی امداد کی اجازت دینے اور اسرائیل کے غزہ پر حملے کے دوران تباہ ہونے والے علاقوں کی تعمیر نو کے لیے بین الاقوامی کوششوں کو تیز کرنے کی ضرورت پر زور دیا ۔
مسلم دنیا سے باہر ہندوستان نے نہایت محتاط انداز میں جنگ بندی کا خیر مقدم کیا۔ وزیر خارجہ نے ایکس پر لکھا کہ "ہمیں امید ہے کہ اس سے غزہ کے لوگوں کو انسانی امداد کی ایک محفوظ اور پائیدار راہ ہموار ہوگی‘‘۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے معاہدے کے بارے میں بتایا کہ اس تک پہنچنا آسان نہیں تھا۔ اس کے بعد انہوں نے معاہدے کے تینوں مراحل انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کے ساتھ یرغمالیوں اور قیدیوں کی رہائی، مستقل جنگ بندی کے لیے مذاکرات اور جنگ سے تباہ حال غزہ پٹی کی تعمیر نَو کا ذکر کیا۔یورپی کمیشن کی سربراہ ارزولا فان ڈئر لاین نے اسرائیل اور حماس کے مابین ہونے والی اس جنگ بندی پر خوشی کا اظہار کر کے ایک طویل عرصے سے مشکلات کا شکار فلسطینیوں کے لیے ایک امید کی کرن دیکھی یعنی انہوں نے مستقل حل کی جانب اشارہ کیا۔ یورپی پارلیمنٹ کی صدر روبیرٹا میٹسولا نے اسے پائیدار امن کے قیام میں ایک اہم موڑ بتایا۔ہسپانوی وزیر اعظم پیڈرو سانچیز نے جنگ بندی سے آگے بڑھ کر کہا کہ یہ معاہدہ دو ریاستی حل اور بین الاقوامی قوانین کو تسلیم کرکے قیامِ امن کی جانب ایک اہم پیش رفت کی علامت ہے۔ اس جنگ کے دوران پچھلےسال مئی میں اسپین ، آئرلینڈ اور ناروے نے فلسطین کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم کرکے کمال جرأت مندی کا مظاہرہ کیا تھا امید ہے کہ دیگر ممالک بھی ان کی پیروی کریں گے۔
فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے بھی معاہدۂ امن پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے فریقین کو جنگ بندی کی پاسداری کرنے کی تلقین کی۔ ظاہر ہے کہ اس کا اشارہ اسرائیل کی جانب ہے جو آنا کانی کررہا ہے۔ اسرائیلی صدر آئزک ہیرزوگ نے اسے یرغمالیوں کی واپسی کے لیے درست قدم بتادیا ہے۔ برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر نے اسے ایک طویل عرصے سے زیر التوا خبر قرار دیا جس کا اسرائیلی اور فلسطینی عوام بے صبری سے انتظار کر رہےتھے۔ انہوں نے ’مستقل طور پر بہتر مستقبل‘ کے لیے اقدامات پر زور دیا جو دو ریاستی حل پر مبنی ہے۔‘ اس مزاحمت کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ اب دنیا کی ساری بڑی طاقتیں فلسطین کی آزادی پر گفتگو کرنے لگی ہیں ۔ جرمنی کے چانسلر اولاف شولز نے کہا کہ اس معاہدے سے لڑائی کے مستقل خاتمے اور غزہ میں خراب انسانی صورت حال میں بہتری کے دروازے کھلیں گے۔
یورپی یونین کی جانب سے جنگ بندی کا اعلان ہوتے ہی چند گھنٹےمیں غزہ کی مدد کے لیے 120 ملین یورو مالیت کا ایک نیا انسانی امدادی پیکج پیش کیا گیا جو اس کی سنجیدگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ویسے برطانوی پورٹ میں یہ بتایا گیا تھا کہ غزہ کی انسانی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے روزانہ 500 امدادی ٹرکوں کی ضرورت ہے لیکن اسرائیلی رکاوٹوں کے سبب یہ تعداد کم ہو کر اوسطاً 25 رہ گئی ہے۔یورپی کمیشن کی صدر ارسولا وان ڈیر لیین نے برسلزایک پریس کانفرنس میں اعتراف کیا کہ غزہ میں انسانی صورتحال جنگ بندی کے بعد بھی بدستور الم ناک ہے۔ یورپی کمشنر برائے کرائسز منیجمنٹ حدجہ لہبیب نے X پلیٹ فارم پر لکھا کہ انہوں نے رملہ میں فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ غزہ اور مغربی کنارے کی بے پناہ ضروریات اور ان کو پورا کرنے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کیا اور وہ جلد ہی فلسطینی علاقوں کا رخ کریں گی۔
• یوروپی یونین کے اس نئے پیکیج کے ساتھ یورپی یونین کی طرف سے 2023 سے غزہ کو فراہم کی جانے والی کل انسانی امداد 450 ملین یورو سے زیادہ ہو گئی ہے، اس کے علاوہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر فضائی پل کے ذریعے 3,800 ٹن سے زیادہ امداد فراہم کی گئی تھی۔یورپی یونین نے تصدیق کی کہ وہ زمینی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام جاری رکھے گا تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ غزہ کی پٹی میں ضرورت مندوں تک جلد سے جلد امداد پہنچ جائے۔ حدجہ لہبیب نے مزید کہا کہ فلسطینیوں کی مسلسل حمایت کو یقینی بنانے کے لیے 2025 میں یورپ کے امدادی پیکج میں سیکڑوں ٹن مختلف اقسام کی ضروری امداد بھی فراہم کی جائے گی تاکہ غذائی قلت کو دور کرکے طبی سہولیات کو یقینی بنایا جاسکے۔ ان ضروریاتِ زندگی میں پانی اور صفائی کی خدمات کو بہتر بنانا بھی شامل ہے۔امید ہے کہ اس ایمرجنسی امداد کے بعد تعمیر نو کا کام شروع ہوگا اور مسلم ممالک اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے ۔
اس جنگ بندی کے معاہدے میں اسرائیل کا جھک کر حماس کی شرائط پر راضی ہونا اور عالمِ انسانیت کا فلسطینیوں کی حمایت میں آجانا نبی کریم ﷺ کی اس دعا کو یاد دلاتا ہے ’’اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس نے اپنے وعدے کو سچا کر دکھایا، اپنے بندے کی مدد کی، اپنے لشکر کی عزت کی، تمام دشمنوں سے آپ ہی نمٹ لیا اور سب کو شکست دے دی‘‘۔
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 26 جنوری تا 01 فروری 2025