طوفان الاقصیٰ کے سلسلے میں بین الاقوامی کارکردگی
اگر جنگ کا دائرہ وسیع ہوتا ہے تو اس جنگ میں روس بھی شامل ہو سکتا ہے :موسی ابو مرزوق
فهيم الصوراني
ماسکو میں حماس کے سیاسی شعبے کے نائب صدر موسیٰ ابو مرزوق کے الجزیرہ کو دیے گئے حالیہ انٹرویو کی جھلکیاں
پچھلے دنوں حماس کے سیاسی شعبے کے نائب صدر موسی ابو مرزوق نے روس کا دورہ کیا اور روسی حکومتی اہلکاروں سے ملاقات کی۔ الجزیرۃ نے ماسکو میں ہی ان کا انٹرویو لیا اور روسی دورے کا مقصد، غزہ جنگ کی صورت حال اور فلسطینی اتھاریٹی کے سلسلے میں چند سوالات کیے۔ اس انٹرویو کے چند نکات مندرجہ ذیل ہیں :
موسی ابومرزوق سے جب ان کے ماسکو دورے کی وجوہات پوچھی گئیں اور 7 اکتوبر کے بعد سے ان کے متعدد دوروں اور روس سے ہونے والی بات چیت سے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ سیاسی اور سفارتی تحریکیں ایک ایسا ایشو ہے جس میں روس جیسے طاقتور ملک سے الگ نہیں رہا جا سکتا ، کیونکہ وہ یو این سیکورٹی کونسل کا مستقل رکن ہے اور عالمی سطح پر اس کی حیثیت ایک طاقتور ملک کی ہے ۔
مثال کے طور پر امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن مسلسل ان علاقوں کا دورہ کر رہے ہیں جہاں جنگ جاری ہے اور کافی بڑے پیمانے پر وہاں تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں، جو کہ ہر سطح پر بات چیت اور مشورے کا تقاضا کر رہی ہیں، کیونکہ خاص طور پر حماس اور فلسطینی مزاحمتی گروپس اس جنگ کے بنیادی حصے ہیں، اس کے بالمقابل اس جنگ میں اسرائیل کی حیثیت ایک جنگی محاذ اور ایک آلہ کار کی ہے۔ اس لیے حقیقی جنگ تو امریکہ سے ہے جو کہ لگاتار اسرائیل کی ہتھیاروں سے مدد کر رہا ہے اور عالمی محفلوں میں اس کا دفاع اور پابندیوں سے اس کی حفاظت کر رہا ہے۔ اس لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ روس جیسا ملک آپ کے ساتھ ہو تاکہ امریکہ مشرق وسطی اور عالمی اسٹیج پر فیصلہ کرنے میں تنہا مالک نہ ہو جائے۔ لہٰذا صورت حال کا جائزہ لینے اور مشاورت جاری رکھنے کے لیے روس نے ہمیں دعوت دی ہے اور اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ اسرائیلی سفارتی کوششیں اب بہت بڑھ گئی ہیں تاکہ ان مرکزی بات چیت سے توجہ ہٹائی جائے جس کے پیپرز پر سیکیورٹی کونسل میں مہر لگ چکی ہے ۔
ایک بڑا سیاسی اور عسکری اسرائیلی وفد ماسکو آیا اور اس نے وقتی طور پر جنگ بندی اور حماس کے پاس روسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ پیش کیا ، روسی قیدی سے مراد وہ اسرائیلی ہیں جن کے پاس دہری شہریت ہے، اس لیے ضروری تھا کہ روس سے اس موضوع پر بات چیت کی جائے۔ یہ ایک وجہ ہے جس پر روسی دوستوں نے بات چیت کرنے کے لیے ہمیں بلایا ہے اور ہم نے واضح طور پر ان کے سامنے اپنا موقف رکھ دیا کہ وہ قرارداد جو سیکیورٹی کونسل میں منظور کی گئی ہے، اسے نافذ کیا جائے ، اسرائیلی جارحیت کو روکا جائے اور مکمل جنگ بندی کی جائے، فلسطینی عوام کی امداد شروع کی جائے، غزہ کی تعمیر نو کی جائے اور اسرائیلی ناکہ بندی کا مکمل خاتمہ کیا جائے، تب ہی دونوں جانب سے قیدیوں کے تبادلے پر بات چیت شروع ہو سکتی ہے۔
جناب موسیٰ ابو مرزوق نے اس جنگ میں روس کے کردار اور اس کی متوقع حدود کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ روس کا سیاسی رول ہمارے نزدیک لائق تحسین ہوگا، کیونکہ لمبے عرصے سے فلسطینی عوام کے سلسلے میں ان کا موقف بالکل واضح ہے۔ وہ فلسطینی اسٹیٹ کے قیام اور خود ارادیت کے حق کی تائید کرتے ہیں اور اب وہ شہری امداد بھی بھیج رہے ہیں ۔
رہا عسکری سطح کا سوال تو فلسطینی مزاحمت کار اپنا اسلحہ خود ہی بناتے ہیں اور خود دشمن سے مقابلہ کر رہے ہیں ، لیکن اگر علاقے میں جنگ کا دائرہ وسیع ہوتا ہے تو روس پوری قوت کے ساتھ موجود ہوگا، کیونکہ علاقے میں اس کے کئی سارے حلیف موجود ہیں اور اس کی فوج شام میں بھی موجود ہے اور ایران کے ساتھ بہت ہی گہرے تعلقات بھی ہیں۔ اسی طرح روس کے اس کے علاوہ اور بھی دوسرے رول ہوں گے، جسے وہ ابھی ادا کر رہا ہے، حالات کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا ۔
صحافی کی جانب سے ایک اور سوال کیا گیا کہ آخر مکمل جنگ بندی کی بات چیت کا دور کہاں تک پہنچا اور وہ کیا اسباب ہیں جو نیتن یاہو کو فلسطینی مزاحمت کاروں کی شرائط قبول کرنے پر مجبور کر دیں گے؟ تو اس کا جواب دیتے ہوئے موسیٰ ابو مرزوق نے کہا کہ تین اسباب ہیں، جو نیتن یاہو کو اپنی جارحیت روکنے اور اسے سیاسی میدان سے نکلنے پر مجبور کر سکتے ہیں :
1: فلسطینی عوام کی ثابت قدمی ، مجاہدین کا عزم و حوصلہ اور اسرائیلی فوج سے مقابلہ کرنے میں ان کے کارنامے اور قابض فوج کی تمام سازشوں اور اہداف کو ناکام بنانے میں ان کی طاقت و قوت ۔
2: الیکشن کی وجہ سے امریکہ ابھی بہت ہی کمزور حالت میں ہے، اس لیے وہ نیتن یاہو کو جنگ بندی پر مجبور کرنے کی کوشش کر سکتا ہے۔
3: تیسرا سبب اسرائیلیوں کی اندرونی حالت ہے، کیونکہ وہ داخلی طور پر سیاسی اعتبار سے تقسیم ہو گئے ہیں، اور یہ تقسیم عوام اور نیتن یاہو اور فوج اور نیتن کے درمیان ہے جس نے اس کو جنگی کونسل کو ختم کرنے پر مجبور کر دیا ہے، اسی طرح تل ابیب میں عوام سڑکوں پر موجود ہیں، جس کی وجہ سے وہاں کی صورت حال بھی اچھی نہیں ہے۔ یہ وہ اسباب ہیں جو اس کو جنگ بندی کے لیے مجبور کر سکتے ہیں ۔
اسی کے ساتھ ساتھ میں ایک اور سبب کا اضافہ کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ عالمی برادری کے نزدیک اسرائیل ایک ناپسندیدہ ملک قرار دیا جا چکا ہے، کیونکہ اس نے عالمی اور انسانی قوانین کی دھجیاں اڑا دی ہیں، اس کے قائدین کے سلسلے میں گرفتاریوں کا حکم جاری ہو چکا ہے اور عالمی کریمنل کورٹ اور عالمی عدالت نے اس کو پھٹکار لگائی ہے اور اسی طرح کئی سارے ممالک کی مقامی عدالتوں میں اسرائیل کے خلاف مقدمات دائر کیے گئے ہیں۔
امریکی صدر بائیڈن اور نیتن یاہو کے درمیان اختلافات کی حقیقت کے بارے میں تذکرہ کرتے ہوئے جناب موسی ابو مرزوق نے کہا کہ واشنگٹن کی سیاست ابھی نتن یاہو سے ہٹ کر اسرائیل کی سلامتی میں مضمر ہے، کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ نیتن یاہو تل ابیب کے مفاد میں نہیں بلکہ اپنے سیاسی مفاد کی خاطر کام کر رہا ہے، کیونکہ امریکہ اسرائیل کی سلامتی کا ضامن ہے ۔
نیتن یاہو اس دباؤ کا مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے، خاص طور سے اس وقت جبکہ امریکہ میں صدارتی انتخابات ہونے والے ہیں اور امریکی اداروں کو یہودیوں کے مال کی ضرورت ہے، اسی طرح امریکی سینیٹ میں صیہونیت نوازوں کی اکثریت ہے اور امریکی ادارہ تل ابیب پر اثر انداز ہونے میں اس لیے بھی کمزور ہے کیونکہ امریکی کانگریس میں بھی اسرائیل نواز لوگوں کی اکثریت موجود ہے۔
دوران انٹرویو اسرائیل کے عالمی سطح پر اخلاقی اور سیاسی طور پر نقصان کے علاوہ مسئلہ فلسطین نے طوفان الاقصیٰ سے جو حقیقی فائدے حاصل کیے ہیں اس کی وضاحت ان الفاظ میں کی گئی کہ 7 اکتوبر 2023 کے بعد فلسطینی قضیے نے بڑے پیمانے پر تائید حاصل کی ، خاص طور سے یہ کہ فلسطینیوں کو خود ارادیت اور اپنا آزاد اسٹیٹ بنانے کا حق حاصل ہے، اب تک تقریباً 144 ممالک نے فلسطینیوں کے اس حق کا اعتراف کیا ہے اور اس کے علاوہ بڑے پیمانے پر یورپی عوام کی تائید بھی حاصل کی ہے، جس میں غیر صیہونی یہودی بھی شامل ہیں، اسی طرح کئی نئے ممالک اسرائیل کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں مقدمات میں شامل ہو رہے ہیں۔ یہ غزہ کے بہادر عوام کی ثابت قدمی اور جد وجہد کی وجہ سے ہوا ہے، جو ان کی مضبوطی، اپنے حقوق پر جمے رہنے اور ہجرت سے انکار کرنے کو ظاہر کرتا ہے ۔
اسی طرح اسرائیل کا مقام و مرتبہ پہلے جیسا نہیں رہا، کیونکہ وہ علاقےکے ممالک کی حمایت حاصل کرنے پر غیر قادر ہے بلکہ وہ بذات خود اپنے دفاع تک پر بھی قادر نہیں ہے اگر دوسرے ممالک ان کے ساتھ سیکیورٹی اور عسکری طور پر شامل نہ ہوں۔ لیکن بنیادی مشکلات مزاحمت کاروں، عربی اور عالمی موقف میں نہیں ہے بلکہ ہمارے یہاں ایک فلسطینی اتھاریٹی ہے جو بالکل کمزور اور کچھ بھی کرنے سے عاجز ہے، اس میں ساری مشکلات موجود ہیں، یہ تمام فائدے حاصل کیے جا سکتے تھے لیکن وہ غیر فعال ہے اور کسی بھی قسم کی تحریک چلانے کے لیے تیار نہیں ہے، نہ فلسطینی عوام کو متحد کرنے کی سطح پر اور نہ مسئلہ فلسطین کی خاطر ان بڑے فوائد کو حاصل کرنے کے لیے اور نہ ان کامیابیوں کو حاصل کرنے کے لیے تیار ہے جو فلسطینی مزاحمت کاروں نے اپنا خون دے کر حاصل کی ہیں۔ ان فوائد کو حاصل کرنا ممکن نہیں ہے، یہاں تک عوام کے ذریعے اس اتھاریٹی کو تبدیل کیا جائے جو فلسطینی عوام کی نمائندگی کرنے اور ان کی امیدوں پر کھرا اترنے کے لائق نہیں ہے۔
فلسطینی مزاحمت کاروں اور اسرائیل کے درمیان حالیہ جنگ کی وجہ سے ممکن ہے کہ قومی مفادات کی خاطر فلسطینی تنظیمیں آپس میں مصالحت کریں، جبکہ روس ان گروپوں کے درمیان مصالحت کروانے اور بات چیت کے ذریعے مسئلے کو حل کروانے کے لیے بڑا رول ادا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس سلسلے میں جناب موسیٰ ابو مرزوق نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کا موقف اور فتح کا موقف نہ تو ان کے شخصی مستقبل، نہ اتھارٹی کے مستقبل اور نہ فلسطینیوں کے مستقبل کے ساتھ میل کھاتا ہے بلکہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان کا موقف علاقے کے ممالک، امریکہ اور اسرائیل کا مرہون منت ہے۔ اور وہ ایک ایسا موقف ہے جو فلسطینی عوام کی خدمت نہیں کرتا۔
اسی لیے ابو مازن (محمود عباس) نے تمام مصالحت کی کوششوں کو کسی نہ کسی طریقے سے ناکام بنا دیا ہے۔ اس وقت جبکہ ہم ماسکو میں 14 فلسطینی گٹ اکھٹے ہوئے تھے اور ایک موقف پر متفق ہوئے تھے اور سب نے مل کر بیان جاری کیا تھا اور یہ 7 اکتوبر کے معرکے کے بعد پہلا اجتماع تھا ۔
پھر اسی طرح ایک اور اجتماع فتح اور حماس کے درمیان طے تھا تاکہ آنے والے مرحلے کے لیے اہم موضوعات کو طے کیا جا سکے، جو فلسطینی حکومت، پی ایل او، فلسطینی ریاست اور ان قومی پروجیکٹس کے متعلق تھیں جس کے لیے ہم جد وجہد کر رہے ہیں، تاکہ ہم تمام فلسطینی دھڑوں کو ایک ایسے اتفاق رائے پر لے آئیں جس پر ہم سب اکھٹے ہو سکیں۔
لیکن اس کے صرف دو دن بعد اچانک ابو مازن نے بغیر کسی مشورے اور دلائل کے ایک قرارداد پاس کی اور یہ کام انہوں نے علاقائی ممالک اور امریکہ کے مشورے پر کیا اور محمد مصطفیٰ کو وزیر اعظم مقرر کر دیا اور روس کی ان کوششوں کو ناکام بنا دیا ۔
اس سلسلے میں دوسری کوشش چین کی جانب سے کی گئی۔ انہوں نے اپریل میں حماس اور فتح کو بیجنگ میں دعوت دی۔ یہ ایک کامیاب ملاقات تھی۔ اس کے درمیان ہم ایک ایجنڈے پر متفق ہوئے کہ اس ملاقات کو دوسرے فلسطینی گروپوں تک پھیلایا جائے، اس میں آٹھ پوائنٹس تھے جس پر تمام فلسطینی دھڑوں کا متفق ہونا ضروری تھا مثلاً یہ کہ فلسطینی عوام کا تنہا اور قانونی نمائندہ پی ایل او ہوگا اور تمام فلسطینی دھڑے اس میں شامل ہوں گے اور ایک متفقہ قومی حکومت کی تشکیل دی جائے گی، اسی طرح فلسطین 4 جون کے حدود کے مطابق ایک خود مختار اور آزاد ریاست ہوگی، ویسٹ بینک کی حفاظت کی جائے گی، یہودی آبادکاری کا مقابلہ کیا جائے گا، قدس کو یہودیانے کی کوشش کو روکا جائے گا اور قیدیوں کا مسئلہ حل کیا جائے گا۔ اور ہم اس بات پر بھی متفق ہوئے کہ آنے والی ملاقات میں ان پوائنٹس کی مزید تفصیلات پر گفتگو کی جائے گی اور یہ ملاقات 23 جون کو ہونی تھی۔ پھر اچانک میٹنگ سے ایک دن پہلے صدر محمود عباس نے چینی سفیر سے ملنے کی درخواست کی اور ان سے کہا کہ میٹنگ غیر متعین وقت کے لیے ملتوی کر دی جائے۔ اور یہ خبر ہمیں چینی سفیر کے ذریعے ملی، جس پر ہمیں بہت تعجب ہوا۔
وہ نہیں چاہتے کہ تمام فلسطینی دھڑے اکھٹے ہوں اور مل کر کام کریں اور اس طرح انہوں چینی کوششوں کو بھی ناکام بنا دیا۔
اس کے بعد فتح نے ایک نئے اجتماع کی تجویز پیش کی لیکن حماس نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور اصرار کیا کہ بیجنگ میں جس ایجنڈے پر اتفاق ہوا تھا اور یہ طے ہوا تھا کہ تمام دھڑے ایک ساتھ بیٹھیں گے، اسی کو آگے بڑھایا جائے اور نئے اجتماع کی کوئی ضرورت نہیں ہے تو فتح نے ان تمام باتوں کا انکار کر دیا جو بیجنگ میں طے ہوئی تھیں، جو کہ سراسر جھوٹ پر مبنی تھا، اس پر چینی گواہ ہیں، کیونکہ وہ پیپر چینی نائب وزیر خارجہ کو پیش کیا گیا تھا اور انہوں نے اس ملاقات کی تعریف کی تھی اور پھر چینی وزارت خارجہ نے اس ملاقات کی کامیابی پر بیان دیا تھا اور کہا تھا کو اس کوشش کو مزید آگے بڑھایا جائے گا۔
دو اسباب کے تحت فتح نے اس اتفاق کو ناکام بنایا:
پہلا : امریکہ اور اسرائیل اس بات کے لیے تیار نہیں ہیں کہ جنگ کے بعد حکومت کرنے میں حماس کا کسی بھی قسم کا رول ہو، اسی لیے وہ حماس کو اس سے باہر رکھنا چاہتے ہیں۔
دوسرا : امریکہ اس بات کے لیے تیار نہیں ہے کہ مشرق وسطیٰ اور فلسطین کے سلسلے میں چین کا کسی بھی قسم کا رول ہو۔
اتھاریٹی حقائق کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتی، اس لیے وہ جھوٹ، الزام تراشیاں اور مخالفین کی گرفتاریوں سے کام لیتی ہے، اور یہ چیزیں انہیں کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچا سکتیں، اسی لیے انہیں چاہیے کہ وہ حماس اور دوسرے فلسطینی مزاحمت کاروں پر حملہ کرنے اور فلسطینی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کے بجائے وہ اسرائیلی حملے اور ان کی چالوں کا مقابلہ کریں اور اپنی ذمہ داریوں کو بحسن و خوبی انجام دیں ۔
صحافی نے پوچھا کہ اسرائیلی فوج کی جانب سے ویسٹ بینک میں مسلسل نوجوانوں کی گرفتاریاں جاری ہیں، آپ کو کیا لگتا ہے کہ وہاں کوئی بڑی عوامی تحریک، مظاہرہ یا تیسرے انتفاضہ کا آغاز ہو سکتا ہے؟
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے موسیٰ نے کہا کہ :ایسا لگتا نہیں ہے، کیونکہ کہ اس کا پہلا سبب فلسطینی اتھاریٹی اور پھر اسرائیل ہے، اتھاریٹی نے کئی ساری یونیورسٹیوں اور کالجز کو بند کر رکھا ہے اور کسی بھی قسم کا مظاہرہ یا کسی نئے انتفاضہ کی اجازت نہیں ہے، اسی طرح اتھاریٹی ان تمام مزاحمت کاروں کو گرفتار کر رہی ہے جو اسرائیلی فوج کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں اور ان لوگوں کو بھی گرفتار کر رہی ہے جو کسی بھی قسم کا مظاہرہ، اجتماع یا بھوک ہڑتال کرنے کی کوشش کرتے ہیں، یہاں تک وہ لوگ بھی ان کے نشانے پر ہیں جو سوشل میڈیا پر اس قسم کے پوسٹ کرتے رہتے ہیں ۔
ویسٹ بینک کی سیکیورٹی ٹیم جو کہ فلسطینی اتھاریٹی کے تابع ہے، عوامی مظاہرے کو روک کر، پر امن اور بات چیت کے ذریعے مسئلے کو حل کرنے کے نام پر دن رات اسرائیلی دشمن کی خدمت کر رہی ہے۔ یہ وہ بنیادی اسباب ہیں جس کی وجہ سے نہیں لگتا کہ بڑے پیمانے پر کوئی عوامی تحریک یا کوئی مسلح جد وجہد کا آغاز ہو سکے گا، جبکہ قابض اسرائیل مسلسل فلسطینیوں کی زمین چھین کر انہیں ہجرت کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔
اسی کے ساتھ ساتھ آپ کو معلوم ہے کہ وہاں بڑے پیمانے پر گرفتاریاں ہو رہی ہیں، ویسٹ بینک کے تقریباً نو ہزار شہری اسرائیلی جیلوں میں قید ہیں اور یہ ایک بڑی تعداد ہے۔ اس کی وجہ سے بھی لوگ کچھ نہیں کر پا رہے ہیں۔ لیکن ہمیں امید ہے کہ آج نہیں تو کل ضرور وہاں کے لوگ بڑے پیمانے مظاہرے اور مسلح جد وجہد کے لیے نکلیں گے، کیونکہ ہمیشہ ایک جیسے حالات نہیں رہتے، حالات ضرور بدلیں گے۔
گفتگو کے آخر میں حزب اللہ کے مسلسل حملوں سے مسئلۂ فلسطین کے فائدے پر بات کرتے ہوئے موسیٰ ابو مرزوق نے کہا کہ جنگ کا دوسرے محاذوں تک پھیلاؤ نیتن یاہو کے مفاد میں ہے، کیونکہ اس صورت میں امریکہ بذات خود جنگ میں شامل ہو جائے گا، جیسا کہ جنگ کا لمبے وقت تک چلنا بھی نیتن یاہو کے مفاد میں ہے، کیونکہ وہ نہیں چاہتا کہ وہ حکومت سے باہر ہو یا شکست کے ساتھ اس کی حکومت کی مدت مکمل ہو۔
اسی طرح اگر جنگ کا دائرہ وسیع ہوتا ہے تو اسرائیل دونوں محاذوں پر مقابلہ نہیں کر سکتا اور جیسے ہی اس کی فوج دو محاذوں پر تقسیم ہو گی تو اس کا راست فائدہ غزہ کو ملے گا۔ لہٰذا اس وقت جو لوگ بھی اس جنگ میں ہماری مدد کر رہے ہیں ان کے ہم اور فلسطینی عوام بے حد ممنون و مشکور ہیں۔
ہمیں یاد ہے کہ حماس کے ذریعے اسرائیلی فوجی جلعاد شالیط کی گرفتاری کے بعد اسرائیل نے بڑے پیمانے پر غزہ پر حملہ شروع کر دیا تھا اور یہ اس وقت رکی جب حزب اللہ نے شمالی فلسطین میں تین اسرائیلی فوجی کو قیدی بنا لیا اور پھر اسرائیل نے غزہ پر جنگ روک کر لبنان سے جنگ شروع کر دی، اس لیے اسرائیل کے لیے ممکن نہیں ہے کہ وہ بیک وقت دونوں محاذوں پر ایک ساتھ جنگ جاری رکھ سکے۔
مترجم: محمد اکمل علیگ
(بشکریہ: الجزیرہ ڈاٹ نیٹ)
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 14 جولائی تا 20 جولائی 2024