نور اللہ جاوید، کولکاتا
کیا اسرائیل غزہ کو تباہ کرکے اپنے عوام کو یہ بتاپائے گا کہ دنیا کی سب سے مضبوط انٹلی جنسی ناکام کیسے ہوگئی؟
جنگی جنون اور طاقت کے ہیجان میں مبتلا اسرائیل کی یہ خود فریبی ہی تھی کہ وہ اپنی سفاکیت اوربربریت کودنیا کی نگاہوں سے اوجھل کرکے اسرائیل کی مرکزیت والے نئے مشرق وسطیٰ کی تشکیل کرلے گا اور ’براہیمی معاہدہ‘ کی آڑ میں اسلامی غیرت و حمیت سے عاری عرب ممالک سے خوش گوار تعلقات قائم کرکے ’مسئلہ فلسطین‘ کوہمیشہ ہمیشہ کے لیے بحراحمر کی گہرائیوں میں دفن کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔ ’غزہ‘ کی چاروں طرف سے ناکہ بندی کرکے اسرائیل اس خوش گمانی میں مبتلا ہوگیا تھا کہ اس نے غزہ کے بہادر ماوں ، بہنوں اور نوجوانوں کو اپنا ذہنی غلام بنالیا ہے اوران کا جذبہ مزاحمت ماند پڑچکا ہے۔ان کی زندگیاں ہمارے رحم و کرم پر ہیں ۔اسرائیل اپنی جدید ٹکنالوجی ،تباہ کن اور اسلحہ شکن آلات کی بدولت دنیا کی سب سے محفوظ قوم ہونے کے زعم باطل میں بھی مبتلا تھا ۔مگراسلامی غیرت وحمیت،حق خود ارادیت وآزادی کے متوالے غزہ کے باشندوں اور حماس کے جنگجووں نے کمال بہادری سے زمین،آسمان اور سمندر کے راستہ سے اسرائیل کی آہنی دیواروں اور رکاوٹوں کو پھلانگ کر جہاں اسرائیل کو اس کی اوقات یاددلائی ہے وہیں کم وسائل کے باوجود مقبوضہ علاقوں میں مشکل اہداف پرحملہ کرکے پوری دنیا کو ششدر کردیا ہے۔اسرائیل کی خودفریبی اور خود اعتمادی کی ہوا چند ہی گھنٹوں میں نکل گئی ۔اسے امید نہیں تھی کہ محصورو بے بس لوگ دنیا کی سب سے مستحکم انٹلی جنس اور سیکیورٹی کے نظام کو ناکام بناکر فوجی ٹھکانوں پر حملہ کرتے ہوئے اسرائیلی فوجیوں کو یرغمال بنالیں گے ۔7ا؍اکتوبر 2023کی تاریخ کو فلسطین اور اسرائیل تنازع کی طویل تاریخ میں ایک ایسے دن کے طورپر یاد رکھا جائے گا جس میں مستعد خفیہ ایجنسیاں، فوجی حکمت عملی ، انٹلی جنس، میزائل شکن اسلحے اور سول قیادت مکمل طور پر ناکام ہوگئی اور غزہ کے عوام دنیا کو یہ پیغام دینے میں کامیاب ہوگئے کہ ’مسئلہ فلسطین‘ نہ ختم ہوا ہےاورنہ اس کوختم کیا جاسکتا ہے۔
چندہفتے قبل ہی اسرائیلی وزیر اعظم نتین یاہو نے اقوام متحدہ کے اسٹیج سے متکبرانہ اور غرور سے بھر پور لہجے میں نئے مشرق وسطیٰ کی تعمیر کا اعلان کرتے ہوئے یہ تاثر دینے کی کوشش کی تھی کہ اسرائیل کے تئیں مسلم دنیا کی سوچ تبدیل ہوچکی ہے۔عرب ممالک ان سے تعلقات استوار کرنے کے خواہاں ہیں ۔حرمین کے پاسبان ،سعودی عرب کے مستقبل کے طاقت ور حکمراں ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے بھی امریکی نیوز چینل ’’فوکس‘‘ کو انٹرودیتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی مرحلہ وار آگے بڑھ رہی ہے۔متحدہ عرب امارات، بحرین اور کئی دیگر مسلم ممالک نے بھی اسرائیل سے سفارتی تعلقات بھی قائم کرلیے تھے۔اسے المیہ ہی کہا جاسکتا ہے کہ شہزادہ سلمان جن کے چچا شاہ فیصل نے فلسطین مملکت کے قیام اور اس کی آزادی کو موت و حیات کا مسئلہ بتایا تھا، جنہوں نے فلسطین کی آزادی کے لیے خون کے آخری قطرے تک جدو جہد کرنے کا عزم کیا تھا، عرب ممالک کے حکمرانوں نے اسرائیل کے وجود کو مشرق وسطی کے لیے نا سور قرار دیا تھا ۔اب انہی عرب ممالک کے حکمرانوں نے فلسطینی کاز کو یکسرفراموش کردیا ہے ۔اسرائیل سے مذاکرات میں ’’مسئلہ فلسطین‘‘ مرکزی نقطہ تو دور ان کے ایجنڈے میں بھی شامل نہیں تھا۔ظاہر ہے کہ یہی اسرائیل کی بڑی سفارتی کامیابی تھی کہ ’’فلسطینی عوام کی آزادی ، خود ارادیت اور فلسطینی ریاست‘‘جیسے دیرینہ مسائل کو مذاکرات کا مرکزی نقطہ بنائے بغیر عرب ملکوں کو سفارت کی میز پر بٹھانے میں کامیاب ہوگیا تھا۔
اندرونی خلفشار، بدعنوانی کے الزامات اور غیر مستحکم اتحادی حکومت کی سربراہی کرنے والے نتن یاہو اپنی خارجہ پالیسی کی کامیابیوں کے ذریعہ اپنے اقتدار کو طول دے رہے تھے۔اندرون ملک وہ انتہائی غیرمقبول ہوتے جارہے تھے ۔اسرائیلی عوام عدلیہ کی آزادی کے حق میں گزشتہ کئی مہینوں سے احتجاج کررہی ہے ۔کئی مغربی تجزیہ نگار بتاتے ہیں کہ نتن یاہو حماس کے اس حملے کا جواب دے کر عوامی مقبولیت دوبارہ آسانی سے حاصل کرلیں گے مگر اسرائیلی عوام کی نفسیات پر گہری نظر رکھنے والے کئی تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ حماس کے حملے کے جواب میں نتن یاہو غزہ کی اینٹ سے اینٹ بجادیں تو اس میں نیا کیا ہے ؟ گزشتہ ایک دہائی میں درجنوں مرتبہ اسرائیل نے بہانے بناکر غزہ پر آگ کے گولے برسائے ہیں بلکہ اسرائیل کی عسکری قیادت کا یہ معمول ہی بن گیا تھا ۔غزہ میں کوئی بھی ایسا شخص نہیں بچا ہے جس نے کم عمری میں اپنے عزیز کو نہ کھویا ہو۔ان کے کندھے لاشیں اٹھا اٹھاکر فولاد کی طرح مضبوط ہوچکے ہیں۔موت کا خوف ان کے دلوں سے ختم ہوچکا ہے۔بلکہ موت سے آنکھیں ملانے کا ہنربچوں نے بھی سیکھ لیا ۔ان کی زبانیں’انادمی لفلسطینی ‘‘ کے نعرہ مستانہ سے معمور ہیں ۔ بلکہ اس مرتبہ نیا یہ ہوا ہے کہ حماس کے مزاحمت کاروں اور عام فلسطینی نوجوانوں نے دنیا کے سب سے مضبو ط انٹلی جنس کے حامل ملک کی تمام عسکری حکمت عملی کو ناکام بناکر اسرائیل کی غیر قانونی بستیوں میں عسکری تنصیبات کو نشانہ بنادیا ہے۔زیادہ سے زیادہ اسرائیلی فوج کے جوانوں کویرغمال بنایا ہے۔غزہ کی گلیوں میں اسرائیلی فوجیوں کو موٹر سائیکل پر بٹھاکر ذلیل ورسواکرکے اسرائیل اور عالمی برادری کے ضمیر پر دستک دینے کی کوشش کی ہے۔حماس نے کہا ہے کہ اسرائیل کی سوچ سے کہیں زیادہ اسرائیلی فوجی ہمارے قبضے میں ہیں۔حماس کے اس حملے کی رپورٹنگ کرنے والے صحافی بتارہے ہیں اسرائیلی فوجیوں کو زیادہ سے زیادہ یرغمال بنانا ان کی حکمت عملی کا حصہ تھا۔کل تک اسرائیلی افواج فلسطینی علاقے میں داخل ہوکر تانڈو مچاتے تھے مگر یہ پہلی مرتبہ ہے کہ یہودیوں کی غیر قانونی بستیوں پر حماس کے جنگجوؤں نے قبضہ کرلیا ہے اور اسرائیل فوج کو مزاحمت کرنے پر مجبور کردیا ۔ الجزیرہ کے سیاسی تجزیہ نگار ماروان بشرا نے اپنے تازہ تجزیہ میں لکھا ہے کہ’’ اسرائیل اپنی اس ہزیمت و شکست کے جواب میں غزہ پر سخت بمباری کرے گا مگر یہ اس کے لیے مزید تباہی کا ہی سبب بنے گا ۔خوف کے مارے اپنے گھروں اور قصبوں سے بھاگنے والے اسرائیلیوں کی تصویریں آنے والے کئی سالوں تک ان کی اجتماعی یادوں میں جڑی رہیں گی۔ آج کا دن شاید اسرائیل کی تاریخ کا بدترین دن تھا۔ سراسر تذلیل۔لیکن اسرائیل کو جو نقصان پہنچا ہے وہ انٹیلی جنس اور ملٹری فلاپ سے آگے ہے۔ یہ ایک سیاسی اور نفسیاتی تباہی ہے۔ ناقابل تسخیر سمجھی جانے والی ریاست نے خود کو کمزوراور خوفناک طور پر نامراد ظاہر کیا ہے، جو ایک نئے مشرق وسطیٰ کا علاقائی رہنما بننےکے متمنی ملک کے لیے کسی جھٹکے سے کم نہیں ہے۔حماس نے نہ صرف نتن یاہو کے مستقبل کو تاریک کیا ہے بلکہ اس نے پوری ریاست کو ایک ایسے ناسور کا تحفہ دیا ہے جس سے چھٹکارا پانے میں کئی دہائیاں لگیں گی۔نتن یاہو نے اپنی ناکامی اور دفاعی اداروں کے غیر فعالیت کا جائزہ لینے کے بجائے غزہ کے خلاف جنگ کا اعلان کرکے یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ حماس کے جنگجوؤں کے اس حملے کی قیمت غزہ کے عوام کو چکانی پڑے گی ۔کل سے وہ بلااشتعال غزہ کے شہریوں اور رہائشی عمارتوں پر میزائلیں داغ رہے ہیں۔مگر سوال یہ ہے کہ اس جنگ کا فاتح کون ہوگا؟ کیا اسرائیل اپنے اس نفسیاتی زخموں کا مدواکرپائے گا؟کیا عسکری اور سول قیادت اپنے عوام کو بتاسکے گی کہ دنیا کی سب سے مضبوط انٹلی جنسی ناکام کیوں ہوئی؟ ان سوالوں سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ آخر حماس اپنے منصوبہ بند حملے کے ذریعہ کیا اہداف حاصل کرنا چاہتی ہے؟ اس جنگ کی وجہ سے خطے کی سیاست پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ان سوالوں کے معروضی تجزیہ کے بغیر مشرق وسطی ٰکے مستقبل پر بات نہیں کی جاسکتی ہے۔
عالمی برداری کا منافقانہ رد عمل
حماس کی اس کارروائی کے فوری بعد عالمی طاقتوں کے رد عمل نے بھی انسانی حقوق، آزادی اور استعماریت کے حوالے سے کئی سوالات کھڑے کردیے ہیں ۔ امریکہ،مغربی ممالک اور بھارت نے جس طریقے سے اسرائیل کے ساتھ اظہار یکجہتی کا مظاہرہ کیا ہےاس سے دہشت گردی ، فسطائیت اور استعماریت کے خلاف عالمی رہنماؤں کے بیانیہ کی منافقت ایک بار پھر آشکارا ہوگئی ہے۔محض چند مہینے قبل تک پوری دنیا کو ایک بستی اور ایک مستقبل کا نعرہ مستانہ سنانے والے وزیر اعظم مودی کے ملک میں فسلطینی عوام کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔دنیا کی تمام طاقتوں نے اسرائیل میں حماس کے حملے کو دہشت گردانہ کارروائی اور اسرائیلی فوج کی جوابی کارروائی کو حق دفاع قراردیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر حق دفاع میں بے قصور عوام اور نہتے شہریوں پر میزائل داغنا درست ہے تو پھر اس کا حق تو سب سے زیادہ دنیا میں اگر کسی کو ہے وہ فلسطینی عوام کو ہے۔اسرائیل گزشتہ 7دہائیوں سے مسلسل جارحیت کا مظاہرہ کررہا ہے۔فلسطینیوں سے ان کی زمینیں چھینی جارہی ہے۔اقوام متحدہ کے قرارداد اور اوسلو معاہدہ کی دھجیاں اڑاگئی ہیں ۔اقوام متحدہ کی با بار اپیل کے باوجود اسرائیل غیر قانونی بستیوں کو بسانے سے باز نہیں آرہا تھا۔فلسطین کی معیشت پر حملہ کرنے کے لیے زیتون کی زراعت کو نقصان پہنچایا جاتا رہا ہے۔کوئی بھی جنگی جرم ایسا نہیں ہے جس کا اسرائیل نے ارتکا ب نہ کیا ہو۔اسرائیل کے جنگی جرائم کے باوجود اس کی حمایت اور اس کی کارروائیوں کو حق دفاع قرار دینے والوں نے روس اور یوکرین جنگ میں برعکس موقف رکھا ہے۔اگر یوکرین کی جوابی کارروائی حق خود ارادیت ہے تو پھر فلسطینی عوام کی جدو جہد اور استعماریت کے خلاف مسلح جدو جہد دہشت گردی کیسے ہوسکتی ہے ۔نتن یاہو نے حالیہ مہینوں میں امریکی صدر جو بائیڈن کی تذلیل اور انہیں نظر انداز کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کیا ہے ۔مگر اس کے باوجود امریکہ نے اپنے صدر کے ساتھ اسرائیل کی سرکشی کو نظرانداز کرکے اسرائیل کی حمایت کا اعلان کیا ہے ۔امریکہ اور مغربی ممالک کا یہ رویہ کوئی نیا نہیں ہے بلکہ اسرائیلی ریاست کا وجود ہی مغربی اقوام کے فریب ، دھوکہ بازی اور سیاسی چالبازی کی مرہون منت ہے۔ ان سب میں حیرت انگیز رویہ ہمارے ملک کا ہے۔یوکرین پر روسی جارحیت پر خاموشی اور غیر جانبداری اختیار کرنے والے وزیر اعظم مودی نے واضح لفظوں میں اسرائیل کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا ہے جو کہ بھارت کی دیرینہ خارجہ پالیسی سے انحراف ہے۔مودی حکومت جارحانہ ہندوتوا پر یقین رکھتی ہے۔اس معاملے میں صیہونیت اور ہندوتوا میں نظریاتی مماثلت ہے۔صیہونیوں کی طرح ہندوتوا طاقتوں کی طرف سے مسلمانوں کی نسلی تطہیر کے لیے آوازیں بلند ہوتی رہی ہیں ۔تاہم مسئلہ فلسطین پر بھارت کا ایک تاریخی نظریہ رہا ہے۔استعماریت کے خلاف طویل جدو جہد کے ذریعہ آزادی حاصل کرنے والا بھارت فلسطینی عوام کی خودارادیت اور مستقل فلسطینی ریاست کا حامی رہا ہے۔90کی دہائی سے قبل تک بھارت نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا تھا۔سابق وزیرا عظم نرسمہا راو کے دور اقتدار میں اسرائیل اور بھارت کے درمیان قربت بڑھی اور پھر واجپائی کے دور حکومت میں تعلقات مستحکم ہوگئے لیکن تعلقات میں توازن باقی رکھنے کی بھر پور کوشش کی جاتی رہی ہے۔تاہم مودی کے دور حکومت میں اس توازن کو یک طرفہ جھکاؤ میں تبدیل کردیا گیا۔سوال یہ ہے کہ کیا یہ بھارت کےسیاسی مفاد میں ہے؟ یہ سوال اس لیے بھی اہم ہےکہ جنگ طویل ہونے کی صورت میں عرب ممالک کو اپنی پالیسی تبدیل کرنے پر مجبور ہونا پڑے گا۔ترکیہ ، قطر، کویت اور ایران نے واضح طور پر حماس کی حمایت کا اعلان کرکے عالمی برداری کو فلسطین کے مسئلے کا حل کرنے پرزور دیا ہے۔سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات بھی زیادہ دنوں تک غزہ پر اسرائیلی جارحیت کو نظرانداز نہیں کرسکتے ہیں۔حکومت کی پالیسی میں تبدیلی لازمی ہے کیوں کہ عرب عوام کے جذبات کو نظر اندازکرنا ان کے لیے مشکل ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ اس صورت میں اسرائیل کی طرف بھارت کا زیادہ جھکاؤ چین کومشرق وسطیٰ سے قربت حاصل کرنےکے لیے میدان خالی کرنے کے مترادف ہے۔چوں کہ روس اس وقت مشرق کی پالیسی پر گامزن ہےاس لیے مغربی ممالک کے مقابلے میں اس کا رد عمل محتاط ہے۔بلکہ حماس کی خفیہ منصوبہ بند کارروائی کے بعد مغربی ممالک کی طرف سے اس شک و شبہ کا بھی اظہار کیا جارہا ہے کہ کہیں چین غزہ کے عوام کو اسلحہ سپلائی تو نہیں کررہا ہے۔
روسکلڈ یونیورسٹی ڈنمارک کے شعبہ انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ اسٹڈیز میں ایسوسی ایٹ پروفیسربھارتی سوم دیپ سین جنہوں نے Decolonizing Palestine: Hamas Between the Anticolonial and the Postcolonial کے نام ایک کتاب بھی تصنیف کی ہے، حماس کے ’’طوفان الاقصی ‘‘ آپریشن پر تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے ’’ ایسا لگتا ہے کہ اسرائیلی انتظامیہ ہفتے کے روز حماس کے آپریشن الاقصیٰ طوفان کی وجہ سے چوک گئے ہیں۔ راکٹ فائر کرنے کے علاوہ، فلسطینی دھڑے نے غزہ کی پٹی سے اپنے جنگجوؤں کو جنوبی اسرائیل میں بھیجا، جہاں انہوں نے فوجی اہداف پر حملہ کیا، کچھ اسرائیلی بستیوں پر مختصر طور پر کنٹرول حاصل کیا اور درجنوں شہریوں اور فوجیوں کو یرغمال بنا لیا۔کچھ لوگوں نے حماس کے حملے کو اسرائیلی فوج اور انٹیلی جنس آلات کی ’بڑی ناکامی‘ قرار دیا ہے۔زیادہ تر سفارت کاروں اور مغربی رہنماؤں نے اسے ایک ’بلا اشتعال دہشت گردانہ فعل قرار دیا ہے اور اصرار کیا ہے کہ اسرائیل کو ’’اپنے دفاع کا حق‘‘ حاصل ہے۔لیکن یہ آپریشن نہ حیران کن ہے اور نہ ہی بلا اشتعال ہے۔ نہ ہی یہ صرف اسرائیلی حفاظتی اقدامات میں خامیوں کا نتیجہ ہے۔ یہ ایک ایسا ردعمل ہے جس کی فلسطینی عوام سے توقع کی جانی چاہیے، جنہوں نے کئی دہائیوں سے اسرائیلی آبادکار استعماری حکومت اور قبضے کا سامنا کیا ہے۔بین الاقوامی قانون ریاستوں کو کسی بھی فوجی قبضے سے روکتا ہے، چاہے وہ عارضی ہی ہو۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد نمبر 37/43 اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ نوآبادیاتی حکمرانی سے آزادی اور آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والو کومسلح جدوجہد سمیت تمام دستیاب ذرائع کا استعمال کرنے کا حق حاصل ہے۔ دوسرے لفظوں میں، آپریشن الاقصیٰ طوفان فلسطینیوں کی مسلح جدوجہد کا حصہ ہے جسے اسرائیلی قبضے اور استعمار نے اکسایا ہے۔یہ آپریشن غزہ سے شروع کیا جانا بھی حیران کن نہیں ہے۔ مرحوم فلسطینی نژاد امریکی اسکالر ایڈورڈ سعید نے ایک بار غزہ کو فلسطینی جدوجہد کا ’لازمی مرکز‘‘ قرار دیا تھا۔ یہ ایک غریب اور پرہجوم جگہ ہے جہاں 1948 کے نکبہ کے دوران اپنے گھروں سے بے دخل کیے گئے فلسطینی پناہ گزینوں کی بڑی تعداد آباد ہے۔ اس نے پہلے انتفاضہ کو جنم دیا تھا اور گزشتہ چند دہائیوں سے فلسطینی مسلح مزاحمت کی زیادہ تر میزبانی کر رہا ہے۔غزہ بھی 16 سال سے محاصرے کی زد میں ہے۔اسرائیل مسلسل حملے کررہا ہے لیکن مزاحمت کرنے کی ان کی خواہش کو ختم کرنے میں ناکام رہا ہے۔ یہ ناکہ بندی 2006 میں فلسطینی قانون ساز کونسل کے انتخابات میں حماس کے جیتنے کے بعد عائد کی گئی تھی لیکن اس کے فلسطینی حریف الفتح نے اسرائیل اور اس کے حامیوں کے ساتھ مل کر اسے اقتدار میں آنے سے روکنے کی سازش کی۔کئی مہینوں کی لڑائی کے بعد، حماس جون 2007 میں غزہ پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی اس کے لیے اسرائیل اور اس کے شراکت داروں نے وہاں رہنے والے فلسطینیوں کو اجتماعی طور پر سزا دینے کا فیصلہ کیا۔16 سال سے زائد عرصے سے غزہ کے باشندوں کو نقل و حرکت کی آزادی نہیں ہے۔ وہ اسرائیلی زیر کنٹرول چوکیوں کے ذریعے جا سکتے ہیں اگر ان کے پاس اسرائیلی ورک پرمٹ ہے یا شاذ و نادر صورتوں میں اگر انہیں اسرائیل کی طرف سے مقبوضہ مغربی کنارے میں جان لیوا حالات میں طبی علاج کروانے کی خصوصی اجازت دی جاتی ہے۔ دنیا کے کسی بھی دوسرے حصے میں جانے کے لیے، ان کے پاس ایک درست ویزا ہونا ضروری ہے، جسے بے وطن لوگوں کے لیے حاصل کرنا مشکل ہے، اور پھر مصری انتظایہ کے رفح بارڈر کراسنگ کو بند کرنے اور فلسطینیوں کے داخلے پرپابندی سے زندگی اور مشکل بنادی گئی ہے۔
حماس کی کارروائی ۔خودکشی یا منصوبہ بند حملہ
اسرائیلی کی فوجی طاقت ، انٹلی جنسی اور دنیا بھر کی حمایت کی وجہ سے بہت سے لوگ حماس کی تازہ کارروائی کو خودکشی سمجھتے ہیں ۔یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ حماس نے ایک سوئے ہوئے شیر کو جگا دیا ہے۔تاہم الجزیرہ کے سیاسی تجزیہ نگار مروان بشراکے مطابق نہ یہ خودکشی ہے اور نہ ہی سوئے ہوئے شیر کو جگانے کا بیوفوفانہ عمل ہے بلکہ واضح اہداف اور مقاصد کے تحت حماس نے منصوبہ بند طریقے سے یہ کارروائی کی ہے۔اس حملے کے ذریعہ حماس نے ایک دو نہیں بلکہ کئی مقاصد کی تکمیل کی ہے اور حماس نے دو روزہ کارروائیوں کے بعد کہا کہ جنگ اس کی حکمت عملی کے مطابق آگے بڑھ رہی ہے اور وہ آخری وقت تک فلسطینی ریاست کے دفاع کے لیے جدو جہد کرتے رہیں گے۔حماس کی اس کارروائی کے بعد جس طریقے سے فلسطین کے متحارب گروپ نے اختلافات بھلا کر القسام بریگیڈ کی کارروائیوں کی حمایت کی ہے اور اس میں شامل ہونے کا اعلان کیاہے وہ فلسطین کی اندرونی سیاست کے اعتبار سے کافی اہم ہے۔حزب اللہ بھی لبنانی بارڈر سے اس جنگ کا حصہ بن گیا ہے۔
سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور ان کے یہودی داماد نے اسرئیل اور عرب ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کی حکمت عملی کا آغاز کر دیا ہے ۔ڈونالڈ ٹرمپ کے دور میں ہی متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان تعلقات استوار ہوگئے اس کے بعد بحرین نے بھی جلد بازی کا مظاہرہ کیا۔ جو بائیڈن کے دور میں بظاہرامریکہ اور اسرائیل کے درمیان تعطل تھا لیکن حال ہی میں سعودی عرب نے ایک طرف جہاں عرب و مسلم ممالک کے درمیان تعلقات میں توازن قائم کرنے کی کوشش کی وہیں وہ اسرائیل سے بھی مرحلہ وار تعلقات استوارکررہا تھا۔حماس کا ایک بڑا مقصد عرب ممالک کو نسل پرست اسرائیل کو تسلیم کرنے سے روکنا ہے۔یا پھر وہ تعلقات کو استوار کرنے میں مسئلہ فلسطین کے حل سے مشروط کرنا چاہتے ہے۔ترکیہ، ایرن ، کویت اور قطر نے جس طریقے سے فلسطینی عوام کے ساتھ اظہار ہمدردی کیا ہے اور کویت نے مالی مدد کا اعلان کیا ہے ۔اس کے بعد سعودی عرب کے لیے بہت ہی مشکل ہوگا کہ وہ اس کو نظرانداز کرکے اسرائیل سے تعلقات استوار کرے۔چنانچہ کل سعودی عرب امریکہ اور دیگر ممالک سے رابطہ کرکے واضح کیا ہے کہ فلسطینی ریاست کی تشکیل اس کا واحد حل ہے۔چین نے کسی بھی جانب اپنا پلڑا ڈالنے کے بجائے اس کو امریکی پالیسیوں کی ناکامی قراردیتے ہوئے فلسطینی ریاست کی تشکیل کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔امریکی تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ فار اسٹڈی آف وار (ISW) نےاس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ مشرق وسطی کی تبدیلی کا سب سے زیادہ فائدہ روس اٹھاسکتا ہے اور روس نے مشرق وسطی کی تازہ صورت حال کے لیے امریکہ کو ذمہ دار ٹھہرانا شروع کردیا ہے۔ظاہر ہے کہ اس طرح کی بیان بازیاں ، عالمی رہنماؤں کے بدلتے موقف اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ حماس اپنے اس مقصد میں کامیاب نظر آرہی ہے۔
سیاسی تجزیہ نگار مروان بشاراکہتے ہیں کہ اسرائیل حماس اور دیگر فلسطینی دھڑوں کو ختم کرنے کے بہانے غزہ پٹی اور مغربی کنارے کے فلسطینی شہروں، قصبوں اور پناہ گزیں کیمپوں میں اپنی فوج کو دوبارہ تعینات کرنے پر غور کر سکتا ہے۔اس طرح کا مکمل قبضہ اسرائیل کے حکمراں اتحاد اور اس کے جنونی اراکین کی تاریخی خواہش ہے۔یہ فلسطینی اتھارٹی کو تباہ کرنا چاہتے ہیں، پورے فلسطین پر، یا جسے وہ اسرائیل کی عظیم سرزمین کہتے ہیں، براہ راست کنٹرول حاصل کرنا چاہتے ہیں۔فلسطینیوں کی نسلی تطہیر بہت بڑی غلطی ہوگی۔ یہ ایک مکمل غیر متناسب جنگ کی طرف لے جائے گا، اور اس عمل میں، اسرائیل کو الگ تھلگ کر دے گا جیسا کہ پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ یہاں تک کہ مغربی رہنما جو اب تک اسرائیلی نسل پرستی کی حمایت کرتے رہے ہیں وہ اسرائیلی حکومت سے خود کو دور کرنا شروع کر سکتے ہیں۔حماس کے ہاتھوں اسرائیل کی ذلت آمیز رسوائی نے خطے میں اس کی اسٹریٹجک اور سیاسی حیثیت کو کمزور کر دیا ہے۔ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے والی اور نتن یاہو حکومت کے ساتھ شراکت دار عرب حکومتیں ہر گزرتے گھنٹے کے ساتھ مزید بے وقوف دکھائی دے رہی ہیں ۔حماس کے اس حملے سے جو تبدیلی آئی ہے وہ یہ ہے کہ یہ جنگ شخصیات سے بڑھ کر ہوگئی ہے۔ یہ مجموعی طور پر دو لوگوں کے بارے میں ہے کہ آیا وہ امن سے رہنا چاہتے ہیں یا لڑتے ہوئے مرنا چاہتے ہیں۔ درمیان میں کسی اور چیز کے لیے وقت اور جگہ نہیں ہے۔فلسطینیوں نے آج واضح کر دیا ہے کہ وہ ذلت میں گھٹنوں کے بل مرنے کے بجائے انصاف اور آزادی کے لیے اپنے پیروں پر لڑنا پسند کریں گے۔
حماس کے ’’طوفان الاقصیٰ ‘‘ تحریک کے دوسرے مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے پروفیسر سوم دیپ کہتے ہیں کہ16 سال سے زائد عرصے سے غزہ کے باشندوں کو نقل و حرکت کی آزادی نہیں ہے۔ وہ اسرائیلی زیر کنٹرول چوکیوں کے ذریعے ہی جا سکتے ہیں۔ناکہ بندی نے غزہ کی معیشت کو تقریباً ٹھپ کر دیا ہے۔ تقریباً نصف آبادی بے روزگار ہے۔ نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح 60 فیصد سے زیادہ ہے۔ محاصرے کی وجہ سے خوراک کی فراہمی بھی محدود ہے۔ 2007 سے 2010 تک، اسرائیلی انتظامیہ نے غزہ کے لوگوں کے لیے خوراک تک رسائی کو بھی محدود کردیا تھا ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق، آبادی کا ایک اہم حصہ غذائی عدم تحفظ کا شکار ہے۔ 2022 میں پورے فلسطین میں 1.84ملین افراد (آبادی کا ایک تہائی حصہ) کے پاس کھانے کے لیے کافی خوراک نہیں تھی۔غزہ میں جب اسرائیل چاہتا ہے بجلی کی سپلائی روک دیتا ہے۔ اس کے نتیجے میں پانی کی فراہمی اور صفائی ستھرائی کے ساتھ شدید مسائل پیدا ہوئے ہیں۔غزہ کے آبی ذخائر، جو اس کے پانی کا بنیادی ذریعہ ہیں، بھی تقریباً ختم ہو چکے ہیں اور سمندری پانی سے آلودہ ہو چکے ہیں۔ غزہ میں تمام رپورٹ شدہ بیماریوں کا ایک اہم حصہ محفوظ پانی تک ناقص رسائی کی وجہ سے ہے۔اس کی وجہ سے فلسطینی نوجوان نفسیاتی اور ذہنی طور پر شدید محرومی کا شکار ہیں ۔دوسری طرف حماس اسرائیلی افواج کے ذرایعہ مسجد اقصی کی بے حرمتی، اسلام کے تیسرے مقدس ترین مقام اور فلسطینیوں کے خلاف آباد کاروں کے تشدد میں اضافے کی سزا دینا چاہتا تھا۔چنانچہ حماس نے اپنی اس مہم کا نام ’’الاقصی طوفان‘‘ رکھ کریہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ اسلام کے تیسرے مقدس ترین مقام کی حفاظت وہی کرسکتی ہے۔غزہ اور فلسطینی عوام کے حقوق کی نگہبانی کی حقدار وہی ہے۔
تیسرا مقصد قیدیوں کا تبادلہ یقینی بنانا ہے ۔اس لیے سیاسی حکمت عملی کے ذریعہ حماس کے جنگجوؤں نے زیادہ سے زیادہ اسرائیلی فوجی جوانوں کو یرغمال بنانے کی کوشش کی ہے۔گولف کارٹس، وین اور موٹر سائیکلوں پر حماس کے جنگجو ہفتے کے روز اسرائیل پر حملے کے بعد درجنوں اسرائیلی شہریوں اور فوجیوں کو غزہ کی پٹی واپس لے گئے ہیں۔اگرچہ گزشتہ ایک دہائی سے غزہ کھلی جیل میں تبدیل ہوچکاہے۔4ملین افراد ایک چھوٹے سے ساحلی انکلیو میں بند ہیں۔اس سال ہی اقوام متحدہ کے ذریعہ جاری رپورٹ کے مطابق 1967 میں اسرائیل کے مشرقی یروشلم، غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے پر قبضہ کرنے کے بعد سے اب تک دس لاکھ فلسطینیوں کو گرفتار کیا ہے ۔آج اسرائیل کی جیلوں میں فلسطینیوں کی تعداد 5,200ہے جن میں 33 خواتین اور 170 بچے بھی شامل ہیں۔ فلسطینی قیدیوں کو کوئی حقوق حاصل نہیں ہے۔1967کی جنگ کے بعد عرب اور فلسطینی علاقے پر قبضہ کرنے کے بعد اسرائیل نے ملٹری آرڈر 101جاری کیا جس کے تحت اسرائیلی ریاست کی مخالفت ، پروپیگنڈے اور شہریوں کی سرگرمیوں کو مجرمانہ قراردیا گیا ہے۔اس آرڈر کے تحت مظاہروں میں شرکت اور تنظیم سازی ، سیاسی مواد کی طباعت اور تقسیم، جھنڈے اور دیگر سیاسی علامتیں لہرانےکو جرم قرار دیا گیا ہے ۔1970میں اسرائیلی حکومت کی طرف سے ایک اور فوجی حکم (378) جاری کیا گیا۔ اس کے تحت فوجی عدالتوں کا قیام اوربنیادی طور پر اسرائیلی قبضے کے خلاف فلسطینی مزاحمت کی تمام اقسام کو دہشت گردی کے طور پر کالعدم قرار دے دیا گیا۔اس وقت اسرائیل میں 19اور مقبوضہ مغربی کنارے میں ایک جیل ہے۔ان جیلوں 1500ایسے فلسطینی شہری بند ہیں جن کے خلاف کوئی الزامات نہیں ہیں ۔مقبوضہ مغربی کنارے کے 18 سال سے کم عمر کے کم از کم 700 فلسطینی بچوں کو اسرائیلی فوج کے ہاتھوں گرفتار، پوچھ گچھ اور حراست میں لینے کے بعد ہر سال اسرائیلی فوجی عدالتوں کے ذریعے مقدمہ چلایا جاتا ہے۔ بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے مطابق اسرائیلی جیلوں میں بند بچوں کو اکثر جسمانی اور نفسیاتی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ والدین یا وکیل کی موجودگی کے بغیر ان سے پوچھ گچھ کی جاتی ہے۔بچوں کی حراست کا فائدہ اٹھا کر انہیں مخبر بنانے اور ان کے اہل خانہ کو بھاری جرمانے ادا کرنے پر مجبور کر کے مالی استحصال کیا جاتا ہے۔
ناکامیوں کا جواب کون دے گا؟
اسرائیل کے مشہور انگریزی اخبار ’’ہارٹز‘‘نے ’’اسرائیل-غزہ جنگ کی ذمہ داری نتن یاہو پر ہے‘‘ کے زیر عنوان اپنے اداریہ میں نتن یاہو کی سیاسی حکمت عملی پر کئی سوالات کھڑے کیے ہیں اور واضح لفظوں میں انہیں بدعنوان کہتے ہوئے لکھا ہے کہ ان کی ناکامی کی قیمت جنوبی اسرائیل کے عوام نے اپنے خون سے چکائی ہے۔حماس کی طاقت کے سامنے اسرائیل کے تین طاقتور اداروں شن بیٹ (اسرائیل سیکیورٹی ایجنسی) اسرائیل ڈیفنس فورسز (آئی ڈی ایف) اور موساد جو دنیا بھر سے انٹیلی جنس اکٹھا کرنے پر کافی رقم خرچ کرتے ہیں، ان کی ناکامی نے بھی اسرائیل کو بے چین کردیا ہے۔یہ سوال کھڑا کیا جارہا ہے کہ غزہ کی پٹی کو کنٹرول کرنے والی سرحد پر تمام تاروں/باڑھوں کوکاٹ کر حماس کے نوجوانوں نے اسے کیسے عبور کیا؟ اس کام کے لیے ان کے پاس جدید ترین ہتھیار کہاں سے آئے ۔اسرائیل کا آئرن ڈوم، جو ہر موسم کا فضائی دفاعی نظام ہے، کام کیوں نہیں کر پایا؟ اب ایران کو مورد الزام ٹھہرانے کی قواعد شروع ہوگئی ہے۔یہ دعویٰ کیا جانے لگا ہے کہ حماس کے پیچھے کئی اور طاقتیں کام کررہی ہے۔اسرائیل کے آئرن ڈوم کو ناکام بنانے کی صلاحیت صرف چینی ہتھیار ٹروجن کے پاس ہے۔ سوال یہ ہے کہ گزشتہ 16سالوں سے جیل میں تبدیل ہوچکے غزہ کے پاس چینی ٹروجن کیسے پہنچ گیا؟
***
***
مسئلہ فلسطین ایک بار پھر زندہ ہوگیا ہے:ڈاکٹر ظفرالاسلام
حماس یا اس کے فوجی شعبہ القسام بریگیڈز کے اسرائیل پر حملے کی کئی وجوہات ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے ۲۰۰۷ء سے اسرائیل نے غزہ کا مکمل محاصرہ کر رکھا ہے۔ لوگوں کا آنا جانا، دوا، پٹرول، سمنٹ ہر چیز کے آنے جانے پر پابندی ہے۔ لوگ وہاں سے علاج اور تعلیم کے لیے بھی نکل نہیں سکتے۔ تقریباً ۷۰ فیصد غزہ کے لوگ بے روزگار ہیں۔ دوسری طرف اسرائیل یہ سمجھ رہا تھا اور اپنے حامیوں کو سمجھا رہا تھا کہ غزہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ دس بیس سال میں یہ سب ٹھیک ہو جائے گا اور لوگ ہماری شرطوں پر زندگی گزاریں گے۔ القسام بریگیڈز کے موجودہ حملے کی بنیادی وجہ اس سوچ کو ناکام بنانا ہے جس کی وجہ سے مغربی ممالک اسرائیل پر کوئی دباؤ نہیں ڈالتے۔ اب مغربی ممالک، خصوصاً امریکہ، اسرائیل کو مسئلۂ فلسطین کو کسی طرح حل کرنے کے لیے مجبور کریں گے یا کم از کم اوسلو معاہدے پر عمل کرنے کے لیے مجبور کریں گے۔ ۱۹۹۲ کے اوسلو معاہدے کے مطابق پانچ سال میں آزاد فلسطینی حکومت قائم ہو جانی تھی، لیکن آج تیس سال بعد بھی ایسا کچھ نہیں ہو پایا ہے جبکہ اوسلو معاہدے کے تحت فلسطینیوں کو اصل فلسطین کا صرف ۲۲ فیصد مل رہا تھا یعنی فلسطین کے اصل رقبے کا ۷۸ فیصد اسرائیل کو مل رہا تھا جبکہ اقوام متحدہ کے 1947 کےتقسیم کے پلان کے تحت یہودیوں کو فلسطین کا ۵۶ فیصد ملا تھا۔
القسام بریگیڈز کے حملے کا دوسرا مقصد عرب ممالک اور خصوصاً سعودی عرب کو باور کرانا ہے کہ اسرائیل ان کی سیکیوریٹی کی گارنٹی نہیں دے سکتا، وہ تو خود ہی عاجز ہے۔ اب یقینی طور سے عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم کرنے اور ’’ابراہیمی معاہدہ‘‘ جیسی حماقت سے دور بھاگیں گے کیونکہ فلسطینیوں کی کمزوری کی بنیاد پر جو اقدامات کیے جا رہے تھے وہ اچانک ڈھے گئے ہیں اور اب فلسطینیوں کی مرضی کے بغیر اسرائیل اور فلسطین کے مسئلے پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکے گا۔
موجودہ جنگ مختصر ہو یا طویل، عرب ممالک کے سامنے اب یہ واضح ہو گیا ہے کہ فلسطینی فریق اتنا کمزور نہیں ہے کہ اسے نظر انداز کیا جائے یا اس پر کوئی بھی حل زبردستی تھوپ دیا جائے۔ جن عرب ملکوں نے اسرائیل سے تعلقات قائم کر لیے ہیں وہ بھی اس پر نظرثانی کریں گے اور جو ایسا کرنے کے بارے میں سوچ رہے تھے وہ اب دسیوں بار اس پر غور کریں گے۔ یہ تعلقات، عرب ممالک اپنے مفاد اور مقصد کی وجہ سے نہیں کر رہے تھے بلکہ امریکہ کے شدید دباؤ میں کر رہے تھے۔ اب ان کے پاس کہنے کو یہ طاقتور دلیل ہے کہ فلسطینی فریق کو نظرانداز کر کے علاقے پر کوئی حل تھوپا نہیں جا سکتا ہے۔
اس حملے سے اسرائیل کی نفسیاتی بلکہ فوجی شکست ہو چکی ہے۔ حملہ شروع ہونے کے گھنٹوں بعد تک اسرائیل کی حکومت اور فوج کو معلوم ہی نہیں تھا کہ کیا ہو رہا ہے کیونکہ فلسطینی ہیکرز نے ان کے خطوط مواصلات جام کر دیے تھے۔ یہ کوئی معمولی کامیابی نہیں ہے۔اب اسرائیل دوسرے اور بالخصوص مغربی ملکوں کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا۔ وہ اب تک مغربی ملکوں کو سبز باغ دکھاتا رہا کہ فلسطینی بہت کمزور ہیں اور ان کو کوئی کنسیشن دینے کی بالکل ضرورت نہیں ہے۔ اب یہ منطق کام نہیں دے گی۔ اب اسرائیل کو مغربی ممالک کا دباؤ قبول کرنا ہو گا۔ مغربی ممالک کی مالی ، فوجی اور اخلاقی مدد کے بغیر اسرائیل باقی نہیں رہ سکتا۔
اس بات کا امکان کم ہے کہ اس حملے سے فلسطین کے مختلف گروپوں میں اتحاد ہو جائے گا۔ ان کے درمیان مفادات اور نظریات کے اختلافات ہیں۔ اس حملے سے یہ نتیجہ بہرحال نکلے گا کہ اب حماس ہی سب سے اہم فلسطینی تنظیم کے طور پر ابھرے گی۔ کسی کے لیے اس سے تغافل برتنا ممکن نہیں رہے گا۔ یہ بات فلسطینی تنظیموں، اسرائیل اور مغربی ممالک سب پر صادق آتی ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 15 اکتوبر تا 21 اکتوبر 2023