
طوفان الاقصیٰ : 14 ماہ کے بعد جنگ بندی ۔بہتر مستقبل کے امکانات
حماس کے سینئر لیڈر ڈاکٹر باسم نعیم کا خصوصی انٹرویو اور کئی حقائق منظرعام پر
مترجم: احمد عظیم ندوی
سوال.1: آپ کا بہت شکریہ کہ آپ نے ہمیں وقت دیا۔ آخر کار 14 ماہ کے بعد ایک معاہدہ طے پایا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس معاہدہ کے مشمولات تو بالکل اس معاہدہ سے ملتے جلتے ہیں جسے بائڈن انتظامیہ نے مئی 2024 میں پیش کیا تھا، تو پھر یہ معاہدہ اس وقت نہ طے ہوکرمزید کئی جانیں گنوانے کے بعد اب کیوں ہوا ہے؟
جواب: 27 مئی 2024 کو جنگ بندی معاہدہ کا اسرائیلی پرپوزل ہمیں ملا جس کا اعلان بائیڈن نے اپنے مشہور زمانہ خطاب میں کیا تھا پھر یہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار داد کا حصہ ہوا۔ ہم نے ان تمام چیزوں کا استقبال کرتے ہوئے بات چیت کےلیے رضا مندی کا اظہاربھی کیا لیکن بدقسمتی سے نیتن یاہو نے کسی منصوبہ بندی کے بغیر مزید سات ماہ تک غزہ میں اسرائیلی دہشت گردی، قتل وغارت گری اور نسل کشی جاری رکھی اور اس خام خالی میں رہے کہ شاید وہ اپنے ان اہداف کو حاصل کر لیں گے جن کا انہوں نے 7 اکتوبر کے بعد دعویٰ کیا تھا کہ وہ حماس کا نام ونشان مٹا دیں گے، فلسطینی عوام کو غزہ پٹی سے مار بھگائیں گے نیز اپنے تمام یرغمالیوں کو واپس لے آئیں گے لیکن جب وہ ان اہداف کو حاصل کرنے میں ناکام رہے اور IDF (اسرائیلی ڈیفینس فورس) کے مطابق اب غزہ میں مزید کچھ کرنے کو باقی نہ رہا اس کے علاوہ اسرائیل کے اندر جنگ بندی کے لیے دباؤ بڑھا نیز امریکی انتظامیہ کی تبدیلی کے بعد نو منتخب صدر ٹرمپ کا یہ کہنا کہ میں اپنی افتتاحی تقریب سے پہلے اس تصادم کا خاتمہ چاہتا ہوں۔ شاید ان تمام وجوہات کی وجہ سے اب معاہدہ ہو سکا ۔
سوال.2: آپ نے ٹرمپ انتظامیہ کا ذکر کیا، کئی مبصرین بھی اس معاہدہ کا سہرا ٹرمپ اور مشرق وسطی میں موجود ان کے خصوصی سفیر سٹیون وکوف کے سر باندھ رہے ہیں کہ انہوں نے یہ معاہدہ کرنے کے لیے نیتن یاہو پر دباؤ ڈالا، کیا آپ کو بھی لگتا ہے کہ یہ معاہدہ امریکی صدارتی انتخاب میں ٹرمپ کی جیت کے بغیر ممکن نہیں تھا؟
جواب: ایک طرح سے کہا جاسکتا ہے کہ یہ معاہدہ صدر ٹرمپ کی انتظامیہ کے دباؤ کے بغیر ممکن نہیں تھا کیوں کہ ان کے سفیر جناب سٹیون وکوف پچھلے کئی دونوں سے خطہ میں موجود تھے، انہوں نے تمام تفصیلات اور درپیش رکاوٹوں کا جائزہ لیا اور یہ معاہدہ کرنے کے لیے اسرائیلی حکومت پر دباؤ ڈالا اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس میں ان کی بڑی کوشش رہی ۔ کیونکہ فلسطین کے خلاف جنگ میں بائیڈن انتظامیہ کی شمولیت اور اسرائیل کو بے پناہ فوجی، سیاسی اور سفارتی تعاون کرنے کی وجہ سے مجھے مزید تاخیر کا خدشہ تھا لیکن دوسری طرف یہ بات بھی ذہن نشیں رہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے اس معاہدہ کو قبول کر نے کے لیے نیتن یاہو سے کیا وعدہ کیا ہے، اس کے متعلق میں حقیقت حال سے پوری طرح واقف نہیں ہوں۔ ان کا وعدہ غزہ کے حالات کو بہتر کرے گا یا صورت حال مزید خراب ہو گی کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ ہوسکتا ہے کہ انہوں نے نیتن یاہو کو ویسٹ بینک پر اسرائیلی خود مختاری کی یقین دہانی کرائی ہو اور مزید فلسطینی زمین دینے نیز عرب خطہ میں اسرائیل کے تئیں نرم روی کی مہم چلانے کا وعدہ کیا ہو اور ان تمام چیزوں کے لیے پیشگی طور پر جارحیت روکنے اور جنگ بندی کا مطالبہ کيا گیا ہو، کیوں کہ اگر اسرائیل نسل کشی جاری رکھتا ہے تو کوئی ملک بھی اس سے معاہدہ کے لیے تیار نہیں ہوتا۔
سوال.3: میں حیران ہوں کہ آپ ایک کمزور بائیڈن انتظامیہ کو جاری تنازع اور پچھلے کئی مہینوں میں ہوئے خونریزی کا اہم ذمہ دار سمجھتے ہیں!
جواب: جی بالکل سو فیصد، بائیڈن انتظامیہ بلکہ بائیڈن بذات خود اور انٹونی بلنکن یہ سب کے سب فلسطینیوں کی نسل کشی میں برابر کے شریک ہیں کیوں کہ ایک طرف تو یہ جنگ بندی کی بات کر رہے تھے اور دوسری طرف انہوں نے سلامتی کونسل میں عالمی رائے عامہ کے برخلاف چار بار اپنے ویٹو پاور کا استعمال کر کے جنگ بندی نہیں ہونے دی جب کہ 147 ممالک نے جنگ بندی کے لیے ووٹ دیا۔ اس کے علاوہ اس جنگ میں 60 سے 70 بلین ڈالر اسرائیل کو عطا کیا اور 5 سو ہزار ٹن سے زیادہ تباہ کن گولیاں اور بارود امریکہ سے اسرائیل گئے، غزہ پر پچھلے 14 مہینوں میں 80 سے 90 ہزار ٹن بارود برسائے گئے۔ اسرائيل بھرپور امریکی حمایت کے بغیر غزہ میں نسل کشی جاری رکھنے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔
سوال.4: ہر تنازع کے دو پہلو ہوتے ہیں۔ اس پورے دورانیہ میں حماس پر یہ الزامات لگتے رہے ہیں کہ اس کی طرف سے رکاوٹیں اور پیچیدگياں پیدا کرنے کی وجہ سے کئی بار معاہدہ ہوتے ہوتے رہ گيا۔ تو کیا حماس اس بات کی ذمہ داری قبول کرنے کے لیے تیار ہے کہ وہ اپنے عوام کی خاطر اس سے پہلے جنگ بندی نہیں کراسکا؟
جواب: مجھے لگتا ہے کہ میں شروع میں ہی اس کا جواب دے چکا ہوں کہ 27 مئی کو ہم نے اس اسرائیلی پیشکش کو قبول کرلیا تھا جو امریکہ کے حوالہ کیا گيا پھر وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ریکارڈ کا حصہ بنا اس وقت بھی ہم نے کہا کہ ہم اس معاہدہ کو عملی شکل دینے کے لیے تیا ر ہیں۔لیکن اس موقع پر اسرائیل کا رد عمل کیا تھا؟ وہ غزہ میں مسلسل نسل کشی کر رہا تھا ، اس نے جنگ بندی کے لیے بات چیت کرنے والے حماس کے اعلیٰ سطحی لیڈروں کو شہید کردیا۔ تو آپ ہی مجھے بتائیں کہ کیا اس طرح کوئی جنگ بندی یا امن کا معاہدہ ہوسکتا ہے کہ آپ اس شخص کو ہی مار ڈالیں جو ٹیبل پر آپ کے ساتھ بات چیت کے لیے بیٹھا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بالکل واضح ہے کہ اب تک کیوں اور کس کی وجہ سے جنگ بندی نہیں ہو سکی تھی۔ لیکن اسرئیلی فکر کے حامل کچھ میڈیا سنٹرز یہ پروپیگنڈا کر رہے ہیں کہ حماس نئے شرائط اور پیچیدگیاں پیدا کر کے ڈیل نہیں ہونے دے رہا ہے جب کہ ہم کھلے عام پوری قوت سے یہ بات کہہ چکے ہیں کہ ہمیں یہ معاہدہ منظور ہے، ہم اسے نافذ کرنے کے لیے تیار ہیں اور ہماری کوئی دوسری شرائط نہیں ہیں۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ نیتن یاہو کو اندرون خانہ شدید مزاحمت کا سامنا ہے، انہیں اپنے کیبنیٹ سے اس ڈیل کے لیے منظوری نہیں مل رہی ہے۔ چنانچہ وہ ان اندرونی مشکلات اور بندشوں کو یہ کہہ کر چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ حماس ڈیل نہیں ہونے دے رہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم سات ماہ سے معاہدہ کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔
سوال.5: ہماری معلومات کے مطابق یہ معاہدہ کئی مرحلوں میں طے ہونا ہے اور اسرائیلی وزیر اعظم نے پہلے مرحلہ کے بعد دوبارہ لڑائی شروع کرنے کی دھمکی دی تھی کیا حماس اس دھمکی کو سنجیدگی سے لے رہا ہے اور کیا آپ کو بھی لگتا ہے کہ یرغمالیوں کے تبادلہ کے بعد ایک بار پھر لڑائی شروع ہوسکتی ہے؟
جواب: ہماری یہ خواہش ہے کہ فلسطینیوں کے خلاف دوبارہ جنگی کارروائی نہ کی جائے اور ہم اس معاہدہ کے تمام ثالثی خاص طور سے امریکہ سے امید کرتے ہیں کہ وہ اس بات کی ضمانت لے کہ اس معاہدہ سے خطہ میں ہمیشہ کی جنگ بندی اور غزہ پٹی سے اسرائیلی فوج کا مکمل انخلاہو گا۔ لیکن ہمیں لگتا ہے کہ اسرائیل معاہدہ کی خلاف ورزی کرے گا اور رکاوٹیں ڈال کر خطہ میں امن قائم نہیں ہونے دے گا۔ کیوں کہ بہت سے اسرائیلی کیبنیٹ ممبر، وزراء اور حکومتی اہلکار اس معاہدہ کے حق میں نہیں ہیں اور پہلے سے ہی معاہدہ توڑنے کی بات کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ماضی کے تجربات بھی یہی کہتے ہیں۔کیونکہ اس سے قبل بھی ہونے والے تمام معاہدے عارضی ثابت ہوئے مثلاً اسرائیل نے نومبر 2023 میں ہوئے معاہدہ کی بھی خلاف ورزی کی تھی جب کہ معاہدہ کے وقت اس نے تمام شقوں پر رضا مندی کا اظہار کیا تھا۔ اس بات کا امکان ہے کہ وہ دوبارہ اس طرح کی دغا بازی کرے گا لیکن ہم حتی المقدور کوشش کریں گے کہ کسی بھی صورت جنگ نہ ہو کیوں کہ ہمارا اہم مقصد اپنے لوگوں کو تحفظ فراہم کرنا، جارحیت کو روکنا اور کسی بھی صورت دوبارہ جنگ نہ ہو اس بات کو یقینی بنانا ہے۔ اکتوبر کا آپریشن ایک رد عمل تھا اور خطہ میں بد امنی کی بنیادی وجہ غزہ پر اسرائیل کا ناجائز قبضہ ہے اور اس معاہدہ کے بعد بھی غزہ، ویسٹ بینک ، یروشلم یہ تمام علاقے اسرائیل کے ہی زیر قبضہ ہیں نیز اسرائیلی سرزمین کے توسیع کا عمل بھی جاری ہے۔ اسی لیے عالمی برادری یعنی آئی سی سی، آئی سی جی نیز امریکی سلامتی کونسل میں بھی یہ بات اٹھ چکی ہے کہ فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کی موجودگی ایک ظالمانہ قبضہ ہے اس لیے فلسطینیوں کو حق ہے کہ وہ اس ظلم سے آزادی حاصل کریں۔ چنانچہ جب تک اسرائیلی قبضہ باقی ہے کوئی بھی شخص خطہ میں دیر پا استحکام، خوشحالی اور امن وسلامتی کی توقع نہیں کر سکتاہے۔
سوال.6: آپ نے 7 اکتوبر کا ذکر کیا اس لیے میں یہ جاننا چاہتی ہوں کہ 7 اکتوبر کے آپریشن کے بعد غزہ کا زیادہ تر علاقہ تباہ وبرباد کر دیا گیا، بلکہ ملبے کے ڈھیر میں بدل دیا گیا 46000 سے بھی زیادہ فلسطینیوں کو اپنی جانیں گنوانی پڑیں، حزب اللہ اور اس کے کئی اتحادیوں کی طاقت بری طرح کمزور ہوئی نیز اس کے علاوہ بھی ہونے والے تمام نقصانات کے باوجود کیا حماس اپنے اس اقدام کو جیت تصور کرتا ہے؟
جواب: پہلی بات یہ ہے کہ حماس ایک بہت بڑی اور انتہائی منظم تحریک ہے اس لیے مجھے یقین ہے کہ یہ 7 اکتوبر کے بعد سے اب تک ہونے والی چیزوں کا اندازہ لگانے کے لیے سر جوڑ کر بیٹھے گی اور تمام مثبت و منفی نتائج پر سنجیدگی سے غور وفکر کرے گی۔ لیکن میں ایک بار پھر یہ بات واضح کردینا چاہتا ہوں کہ 7 اکتوبر کا آپریشن ظالمانہ قبضہ کے خلاف ایک جوابی کارروائی تھی۔
سوال.7: (اینکر قطع کلامی کرتے ہوئے) آپ کی باتوں سے ایسا لگتا ہے کہ آپ درحقیقت 7 اکتوبر کے آپریشن کو ایک بہتر قدم سمجھتے ہیں۔
جواب: مجھے سنا جائے، میں اپنی بات مکمل کرلوں۔ صرف 2023 میں غزہ کو چار سے پانچ بار اسرائل کی طرف سے تھوپی گئی جنگ اور جارحیت کا سامنا کرنا پڑا ان تمام واقعات کے وقت 7 اکتوبر جیسی کوئی بھی چیز نہیں تھی، 7 اکتوبر سے پہلے بھی ہزاروں لوگوں کو شہید کیا گیا، ہزاروں گھروں کو مسمار کر دیا گیا اس وقت 7 اکتوبر جیسی کوئی بات نہیں تھی اور ویسٹ بینک جہاں نہ حماس کا نام ونشان ہے اور نہ ہی کبھی 7 اکتوبر جیسا کوئی اقدام ہوا اور نہ ہی وہاں حماس کا کوئی راکٹ ہے تو پھر پچھلے 20 سالوں کے اندر چیک پوائنٹ پر اسرائیلی فوجیوں اور وہاں آکر بسنے والے صہیونیوں نے 20 ہزار سے زیادہ فلسطینیوں کو گولی مار کرکیوں شہید کردیا؟ ویسٹ بینک کے اندر ظالمانہ اسرائیلی توسیع میں تو 7 اکتوبر کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ یاد رکھیں یہ ایک ظالمانہ قبضہ اور صہیونی نظریہ ہے ۔ کوئی بتائے کہ ہم اسرائیلی وزیرا عظم کے اس سرکاری بیان کا کس طرح جواب دیں جس میں انہوں نے اقوام متحدہ کے اندر کھلے عام یہ بات کہی کہ ’یہاں اسرائیل کے علاوہ کسی دوسری ریاست کے لے کوئی گنجائش نہیں ہے، یہاں فلسطینی ریاست کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، فلسطینوں کو ریاست، خود مختاری، زمین اور پانی کا کوئی حق نہیں ہے، ان کے لیے ارن میں ایک جگہ ہے یا اس سرزمین کے علاوہ دنیا میں اور کہیں۔‘‘ وہ اس سے بھی آگے بڑھ کر گریٹر اسرائیل کی بات کرتے ہیں یعنی ارن، لبنان اور مصر کے بھی کچھ حصے پر قابض ہونا چاہتے ہیں، اس لیے یہ صرف فلسطینیوں کا مسئلہ نہیں یہ مظلوم تو بس 75 سالوں سے جاری قبضہ سے پریشان حال ہیں۔ چنانچہ جو کچھ بھی ہم کر رہے ہیں یہ ایک رد عمل ہے اور اس کا اصل مقصد یہ ہے کہ ہم اس قید سےچھٹکارا پانے کی کوشش کریں کیوں کہ ہم ایک انتہائی شریف مظلوم کی طرح مزید خاموش نہیں رہ سکتے ہیں چنانچہ ہم اس قید سے آزادی چاہتے ہیں،آپ بس اتنا سمجھ لیں کہ ہم قید خانہ میں رہتے ہوئے اپنی صورت حال بہتر کر نے کی جد وجہد کر رہے ہیں۔
سوال.9: کیا آپ کو لگتا ہے کہ اس طرح حماس نے پچھلے 14 ماہ میں فلسطینی عوام کی حالت بہتر کی ہے؟
جواب: کیا یہ ایک غیرمناسب سوال نہیں ہے؟ حالات کی بہتری سے آپ کی کیا مراد ہے؟ یہ بات خوب اچھی طرح سمجھ لیں کہ ہمیں دو طرح کی موت میں سے ایک کو انتخاب کرنے پر مجبور کیا گيا۔ ہمارے پاس صرف اور صرف دو آپشن ہیں نمبر ایک یہ کہ ہم آزادی کا مطالبہ کیے بغیر دوائیوں کے فقدان اور کھانے پینے کی چیزوں کے بحران کی وجہ سے خاموشی کے ساتھ گھٹ گھٹ کر مرجائیں، چاروں طرف سرحدوں پر اسرائیلی فوج کی گولیاں کھائیں نیز اسرائیل کی فوجی کارروائیوں میں اپنی جان گنوائیں۔ اور نمبر دو یہ ہے کہ ہم بہادری کے ساتھ اپنا دفاع کرتے ہوئے اسرائیلی اور امریکی بم وبارود کی زد میں آکر جام شہادت نوش کریں۔ چنانچہ ہم نے اس بات کو ترجیح دی کہ ہم اپنے تشخص اور آزادی کے لے جد وجہد کرتے ہوئے موت کو گلے لگائیں گے۔
اس لیے آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ کوئی جنت اور جہنم جیسی چیزوں میں سے کسی ایک کے انتخاب کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ ہمیں صرف یہ اختیار ہے کہ ہم جہنم کے کس درجہ کا انتخاب کرتے ہیں، اس لیے میں پھر بتا دینا چاہتا ہوں کہ یہ تمام تگ ودو صرف اس لیے کی جارہی ہے تاکہ ہماری سرزمین سے اسرائیل کا ناجائز قبضہ ختم ہو۔ کیوں کہ ہمیں بھی حق ہے کہ ہم آزادی اور اپنے پورے تشخص کے ساتھ زندگی گزاریں! ہمیں بھی حق ہے کہ ہم پر امن ماحول میں اپنے بچوں کے لیے روشن مستقبل کو یقینی بنائیں! اب ان تمام چیزوں کی روشنی میں آپ خود ہی فیصلہ کریں کہ آپ نے جو سوال کیا وہ جائز ہے یا نہیں! اگر آپ کا یہ سوال درست ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ تمام یورپی بے وقوف اور انتہا درجہ کے احمق تھے جنہوں نے فاشسٹ حکومت اور نازی آرمی سے لڑتے ہوئے اپنے 30 سے 40 ملین معصوم شہریوں کی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، ان کے لندن، پیرس، ڈریسڈن اور ان جیسے مزید بہت سے انتہائی خوبصورت شہر تباہ وبرباد کردیے گئے۔ میں پھر یہ بات کہ رہا ہوں کہ یہ آزادی اور تشخص کی لڑائی ہے اور عظیم مقاصد کے لیے نفع و نقصان سے اوپر اٹھ کر جد وجہد کی جاتی ہے۔
سوال.10: اگر یہ جنگ بندی جاری رہتی ہے تو حماس کا غزہ میں کیا رول ہوگا نیز اگر عالمی کمیونٹی اس بات پر اصرار کرے کہ غزہ کی تعمیر نو میں حماس کا کوئی عمل دخل نہیں ہو گا تو کیا حماس یہ بات مانے گا؟
جواب: دیکھیں دوچیزیں ہیں، پہلی یہ کہ حماس کوئی مسلح جماعت نہیں ہے اور نہ ہی یہ فوجی تحریک ہے، حماس ایک بڑی سیاسی تحریک ہے جس کی ایک فوجی ونگ بھی ہے۔ ہم فلسطین کے سماجی تانے بانے کا ایک حصہ ہیں اور فلسطین میں تعلیمی، سماجی خدمات کے ساتھ ساتھ ہمارے دوسرے بہت سے قابل ذکر کام ہیں۔ اسی لیے اس موقع پر یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ ہم فلسطین کی اکثریت کی نمائندگی کرتے ہیں اور ماضی میں یہ بات انتخابات اور دوسرے طریقہ کار سے ثابت ہو چکی ہے۔ اس لیے اگر کوئی بھی یہ خواب سجائے بیٹھا ہے کہ حماس اچانک منظر نامہ سے غائب ہوجائے گا تو یہ اس کا وہم ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر آپ نے انٹونی بلنکن کی آخری پریس کانفرنس دیکھی ہو تو آپ کو معلوم ہو گا کہ انہوں نے کہا ہے کہ: ’حماس ایک آئیڈیالوجی ہے جسے فوجی آپریشن سے ختم نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ‘
اگر آپ غزہ کی حکمرانی کی بات کررہی ہیں تو صرف 7 اکتوبر کے بعد سے نہ کریں بلکہ ہمیں کئی سال پیچھے جانا ہو گا۔ ہم سالوں پہلے کہہ چکے ہیں کہ ہمارے پیش نظر غزہ کی حکمرانی نہیں ہے،بس ہم کسی ایسی پارٹی کو حکومت دینے کے لیے تیار ہیں جو فلسطینیوں اور عالمی برادری کے لیے قابل قبول ہو۔ یہی وجہ کہ ہم نے مفاہمت کے لیے سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں گھنٹے صرف کیے ہیں تاکہ ایک ایسی متحدہ حکومت تشکیل دی جائے جو تمام فلسطینیوں کی نمائندگی کرے۔ اور یہاں میں یہ بات بھی واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ ہم نے گزشتہ مہینوں میں اندرونی طور پر فلسطینیوں سے تبادلہ خیال کیا ہے کہ کیسے ایک ایسی عوامی حکومت بنائی جائے جن کے نمائندوں کا نہ صرف یہ کہ حماس بلکہ کسی بھی پارٹی سے کوئی تعلق نہ ہو اور وہ غزہ اور ویسٹ بینک کا کنٹرول سنبھال کر غزہ کی تعمیر نو کرے نیز جلد ہی پورے فلسطین میں صاف وشفاف الیکشن کو یقینی بنائے۔ اس کے علاوہ ہمیں مصر کی یہ پیشکش بھی قبول ہے کہ غزہ پر حکمرانی کے لیے ایسے فلسطینیوں پر مشتمل ایک خود مختار ادارہ بنایا جائے جو غزہ کے شہری ہوں اور ان کا کسی بھی دھڑے سے کوئی تعلق نہ ہو نیز اس سے عالمی برادری اور فلسطینی عوام بھی متفق ہوں۔ ہم کئی مہینوں سے تمام ذمہ داریاں سپرد کرنے کے لیےتیار بیٹھے ہیں۔
سوال.10: اس وقت تباہ شدہ علاقوں کی تعمیر کے لیے فلسطینی عوام کو عالمی تعاون کی فوری ضرورت ہے اور پچھلے 14 مہینوں میں جو کچھ ہوا اس کے پیش نظر عالمی برادری حماس کی سیاسی جماعت کو اس کے فوجی ونگ سے الگ نہیں سمجھتی ہے! تو اگر عالمی برادری کی طرف سے اس کا مطالبہ کیا گيا کہ غزہ کی تعمیر نو میں حماس کا کوئی رول نہیں ہوگا تو کیا حماس پیچھے ہٹے گا؟
جواب: میں یہ بات پہلے ہی کہ چکا ہوں کہ ہم کئی مہینوں سے کسی بھی ایسے شخص کو حکومت حوالے کرنے کے لیے تیار ہیں جو فلسطینیوں اور عالمی برادری کے لیے قابل قبول ہو۔ ہم ایک مزاحمتی تحریک ہیں نہ کہ حکمراں جماعت؟ جب ہماری اپنی خود مختار ریاست ہوگی تو ہم غزہ پر حکومت کرنے کے سلسلے میں غور وفکر کریں گے۔ لیکن یہاں رک کر بڑی معذرت کے ساتھ مجھے یہ بات کہنی پڑرہی ہے کہ آپ بار بار عالمی برادری جیسے مبہم اصطلاحات کا استعمال کر کے ناظرین کو گمراہ کررہی ہیں اور دھوکہ دہی سے کام لے رہی ہیں کیوں کہ جب آپ عالمی برادری کی بات کرتی ہیں تو اس سے آپ کی کیا مراد ہے؟ دیکھیں، اقوام متحدہ حماس کو دہشت گرد تنظیم نہیں مانتی ہے اس لیے بین الاقوامی برادری کا مطلب امریکہ نہیں ہے اور نہ ہی مغرب! ہاں اگر آپ کے ذہن میں مغربی امریکہ اور کچھ جدید وقدیم نوآبادیاتی یورپی طاقتیں ہیں تو اس پہ الگ سے بات ہوسکتی ہے۔ کیوں کہ روس کا زاویہ نظر بالکل مختلف ہے وہ اور چین حماس کے ساتھ باقاعدہ ڈیل کررہے ہیں، لاطینی امریکہ، افریقہ اور تمام عرب ممالک حماس کے حق میں ہیں۔ چنانچہ غزہ سے حماس اور فلسطینیوں کو بے دخل کرنا صرف صہیونی نظریہ فکر کے حامل کچھ امریکیوں کی سوچ ہے جو مسلسل اسرائیل کی حمایت کر رہے ہیں اور کچھ یورپی ممالک بھی ان کے ساتھ ہیں مثلاً جرمنی جو ماضی میں بھی دو بار نسل کشی کا مجرم رہ چکا ہے۔ اور اس بار بھی فلسطین میں ہو رہی نسل کشی کی حمایت کر رہا ہے۔
آپ غور کریں کہ آج کون بین الاقوامی کمیونٹی کو خاطر میں نہیں لارہا ہے حماس یا پھر وہ اسرائیل جو انتہائی گندی پالیسی کے ساتھ ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کر کےعالمی قوانین کی دھجیاں اڑا رہا ہے۔ امریکہ کا رویہ بھی اسی قسم کا ہے جس نے 147 ممالک کی رائے کے بر خلاف ویٹو پاور کا استعمال کر کے کئی بار جنگ بندی نہیں ہونے دی۔
اس لیے برائے مہربانی عالمی برادری جیسی مبہم اصطلاحات کا استعمال نہ کریں کیوں کہ یہ صرف امریکہ اور کچھ یورپی ممالک کی کارستانی ہے اور کچھ نہیں ۔
سوال.12: تقریباً 46ہزار لوگ جاں بحق ہوئے ہیں، اکثر علاقے تباہ کردیے گيے ہیں، لینسیٹ میڈیکل جرنل ( Lancet Medical Journal) کے ایک رپورٹ کے مطابق مرنے والوں کی تعداد اس سے بھی بہت زیادہ ہوسکتی ہے۔ آپ کے مطابق زمینی حقائق کیا ہیں؟ آپ کو کیا لگتا ہے کہ کتنے لوگ جاں بحق ہوئے ہیں اور جنگ رکتے ہی غزہ کے اندر پہلے مرحلہ میں کون سا کام سب سے زیادہ ضروری ہے؟
جواب: جی بہت شکریہ یہ بہت ہی اہم سوال ہے۔ میں بطور سابق وزیر صحت، وزیر کھیل ویوتھ اور کچھ وقت کے لیے وزیر برائے سماجی امور کے ان نمبرات کے حوالہ سے بات کر سکتا ہوں۔ ہمارے مطابق کم سے کم 50 ہزار فلسطینیوں کو شہید کیا گیا ہے جن میں 70 فیصد عورتیں اور بچے ہیں باقی 30 فیصد میں زیادہ تر ضعیف اورعمر دراز لوگ تھے، اس کے علاوہ 10 سے 15 ہزار فلسطینی ملبے میں دبے ہوئے ہیں ایک لاکھ بیس ہزار سے زیادہ زخمی ہیں، ان میں سے کم از کم 20 ہزار شدید زخمی ہیں جنہیں بیرون ملک لے جا کر فوری علاج کی ضرورت ہے یا پھر کم سے کم طبی وفود اور آلات کی غزہ کے اندر فوری ضرورت ہے۔
سارے اسکول اڑا دیے گئے ہیں، تمام ہسپتال ختم کر دیے گئے ہیں، مساجد، گرجا گھروں اور دوسری عمارتوں کو زمین دوز کردیا گیا ہے، بجلی سولار انرجی، جنریٹر واٹر ویل ہر چیز ختم ہوگئی ہے، 7 لاکھ 50 ہزار سے زیادہ طالب علموں کے دو تعلیمی سال ضائع ہوچکے ہیں۔ ان تمام چیزوں کے پیش نظر سب سے پہلا اور ضروری کام غزہ کی تعمیر نَوہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ سرحدیں کھولی جائیں، غزہ کا محاصرہ ختم کیا جائے۔ اس لیے عالمی برادری کا یہ حقیقی کردارہو گا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ اسرائیل کی اجازت کے بغیر پوری آزادی سے تمام ضروری ساز وسامان غزہ کے اندر آسکے۔ آخر میں ہم ہر اعتبار سے غزہ کی تعمیر نو کے لیے تمام ممالک، عالمی تنظیموں، ایجنسیوں اور ایکٹوسٹ حضرات سے کم از کم سو بلین ڈالر کے مالی فراہمی کے منتظر ہیں اور یہاں یہ بات واضح کردینا ضروری ہے کہ جس وقت اس معاہدہ پر دستخط ہوئے اسی وقت ایک دوسرے معاہدہ پر بھی دستخط ہوئے جس کو ہم ’معاہدہ برائے انسانی ہمدردی‘ کا نام دیتے ہیں جسے قطر اور امریکہ نے تیار کیا ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ ایک بار پھر فلسطینیوں کے حالت زار بہتر کرنے کے لیے کیسے عالمی برادری کی توجہ اس جانب مبذول کرا کے ان کی صلاحیتوں کو بروئے کار لایا جائے۔ لیکن ان سب کا دار ومدار اس بات پر ہے کہ اسرائیل اس معاہدہ کو نافذ کرنے کے لیے کتنا پر عزم ہے، ضروری سازوسامان آنے کے لیے کتنے بارڈرز کھولے جائيں گے، اسرائیل کتنے طبی، صحافتی اور دیگر وفود کو غزہ میں آنے کی اجازت دے گا۔ مجھے لگتا ہے کہ بلینوں ڈالرس ،کئی سالوں کی سخت محنت اور تمام پارٹیوں کی مخلصانہ رضا مندی سے ہم اس گول کو حاصل کرسکیں گے۔
سوال: کیا یرغمالیوں کو بتادیا گیا ہے کہ جنگ بندی معاہدہ ہو چکا ہے اور جلد ہی قیدیوں کے تبادلہ کا عمل شروع ہو جائے گا ؟
جواب: مجھے اس کا علم نہیں ہے، لیکن میں اپنے تجربہ سے یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ عام طور پر ایسا نہیں ہوتا ہے کہ آفیشیلی انہیں اس طرح کی اطلاع دی جائے اور اگر کبھی بتایا بھی جاتا ہے تو زیادہ سے زیادہ ایک دن پہلے۔ لیکن ان کی نقل مکانی شروع ہوجاتی ہے اور بسوں کو ذریعہ انہیں ایک قید خانہ سے دوسرے قید خانہ یا ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جاتا ہے اور عام طور پر یہ اس بات کی ایک عملی علامت ہوتی ہے کہ وہ جلد ہی رہا ہونے والے ہیں۔
اینکر: ہم آپ کے بہت مشکور ہیں کہ آپ نے العربیہ نیوز کو اپنا قیمتی وقت دیا۔
جواب : بہت شکریہ
(اس انٹرویو کے مترجم مدرسہ اسلامیہ عربیہ،گھوری گھاٹ، چترا، جھارکھنڈ میں بحیثیت مدرس اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں)
***
***
14 ماہ کے طویل اور انتہائی تکلیف دہ مدت کے بعد اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی معاہدہ ہو چکا ہے۔ اس موقع پر العربیہ انگلش چینل (سعودی عرب) کی مشہور اینکر محترمہ میلنڈا نوسفورا نے حماس کے سینئر لیڈر ڈاکٹر باسم نعیم کا انٹرویو لیا تھا جو معاہدہ امن، جنگ بندی کے نفاذ اور قیدیوں، یرغمالیوں کے تبادلے کے عمل سے قبل لیا گیا تھا۔ اس کا اردو ترجمہ افادہ عامہ کے لیے پیش خدمت ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 09 فروری تا 15 فروری 2025