توہم پرستی، انسانی جان ومال کے ضیاع کا ایک بڑا سبب

انتظامیہ کی ناعاقبت اندیشی، ہاتھرس بھگدڑ میں ہونے والی اموات کی ذمہ دار

محمد آصف اقبال، نئی دہلی

بھارت کے عوام بالخصوص خواتین میں بد اعتقادی کے خلاف بیداری پیدا کرنا اشد ضروری
ہندوستان میں مختلف مواقع پر بھیڑ کا اکھٹا ہونا اور بہتر انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے بدنظمی کا پیدا ہوجانا جس کے نتیجہ میں جانوں و مالوں کا نقصان ہو جانا عام بات ہے۔ اس کی بنیادی وجہ کسی بھی موقع پر منعقد ہونے والے پروگرام کی بہتر منصوبہ بندی کا فقدان ہے اور دوسری جانب انسانی جان کی قدر، اس کی اہمیت اور اس کے تقدس کے تصور کا نہ پایا جانا بھی ایک اہم سبب ہے۔ اگر باریکی سے اس مسئلہ کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستانی مذاہب میں انسانوں میں ذات پات کی تقسیم کی وجہ سے نچلے درجے کے لوگوں کو وہ تقدس اور اہمیت حاصل نہیں ہے جو دیگر مذاہب یا آسمانی کتب پر یقین رکھنے والے مذاہب کے ماننے والوں کے پاس پایا جاتا ہے۔ دوسری جانب جس وقت کوئی حادثاتی واقعہ خبر کی شکل میں میڈیا میں گردش کرتا ہے، حکومت، اس کے کارندے اور عوام مختصر وقت کے لیے اس پر توجہ دیتے ہیں لیکن کچھ ہی وقت گزرتا ہے کہ اس واقعہ اور اس کے منفی نتائج کو بھلا دیا جاتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہندوستانی معاشرے میں انسانی جان کی حکومت، سیول سوسائٹی اور عوام کی نظر میں خاص اہمیت نہیں ہے۔ چاہے وہ خوشحالی کی زندگی گزارے یا بدحالی کی حالت میں مر جائے اس سے دیگر لوگوں کو کوئی واسطہ ہے ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر دن اخبارات میں ایسی کئی خبریں ہوتی ہیں جن میں مختلف وجوہات کی بنا پر انسانوں کی اموات کا تذکرہ ہوتا ہے لیکن ان خبروں کو بار بار پڑھنے کی وجہ سے اخبار کا قاری، جو ملک کا اہم ذمہ دار شہری بھی ہے ان واقعات کا عادی ہوگیا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ یہ معاملہ تو معمول کا ہے لہٰذا اس پر توجہ کرنا اور ان حادثاتی معاملات کے حل کے لیے کوشش کرنا فضول ہے۔ اور جب معزز شہریوں کے لیے ایسے حادثاتی اموات کے معاملات معمولی یا غیر اہم ہو جاتے ہیں تو پھر حکومت بھی کیوں کر متوجہ ہو اور وہ بھی اپنی ذمہ داری کیوں ادا کرے؟ لہٰذا نہ حکومت اور نہ ہی عوام اس مسئلہ کو کوئی اہم مسئلہ سمجھتے ہیں اور آئے دن حادثاتی اموات کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔
ہندوستان میں حادثاتی اموات کے اعداد و شمار:
نیشنل کرائم ریکارڈبیورو آف انڈیا (NCRB) کی 2022 کی رپورٹ کی روشنی میں ہندوستان میں حادثاتی اموات کے اعداد و شمار جاری کیے گئے لہٰذا یکم دسمبر 2023 کو جاری ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سال 2021 میں حادثاتی طور پر 3,97,530 اموات ہوئیں جو سال2022 میں بڑھ کر 4,30,504 ہوگئیں۔ حادثاتی اموات کا تناسب سال2021 میں 29.1 تھا مگر وہ سال 2022 میں بڑھ کر 31.2 ہوگیا۔ اسی طرح اگر عمر کے لحاظ سے دیکھا جائے تو 2022 میں سب سے زیادہ ہلاکتیں 30 سے 45 سال کے عمر کے لوگوں کی ہوئی ہیں۔ یہ کل تعداد کا 30.9 فیصد ہے۔ رپورٹ کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ یہ تعداد 1,32,846 تھی بر خلاف اس کے 18 سے 30 سال کی عمر کے لوگوں کی کل اموات 1,07,244 ہوئیں جو کل تعداد کا 24.9 فیصد تھا۔یعنی 55.8 فیصد اموات ان لوگوں کی ہوئیں ہے جو ملک کے حال اور مستقبل کو بنانے، سنوارنے اور اس کی تعمیر وترقی میں اہم کردار ادا کرنے والے تھے۔ اس کے باوجود ان اموات کو معمول کا حصہ سمجھ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
دوسری جانب خودکشی کے ذریعہ ہلاکتیں بھی ہندوستان میں ہر سال ہونے والی اموات کا ایک غیر اہم اور غیر سنجیدہ مسئلہ بن چکا ہے۔ رپورٹ کے چیپڑ نمبر2ــ :”Suicides in Indiaکے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ سال 2022 میں 1,70,924خودکشی کے واقعات درج ہوئے ہیں، یہ تعداد سال 2021 کے مقابلے میں 4.2 فیصد ہے۔ دوسری جانب اگر 2022 میں ہونے والی خودکشی کی تعداد 2018 سے موازنہ کریں تو اس میں 27 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ خودکشی کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 53 ملین سے زیادہ آبادی والے شہروں میں سے دہلی میں 3,367 بنگلورمیں 2,313 چنئی میں 1,581 اور ممبئی میں 1,501 خودکشیوں کی زیادہ تعداد رپورٹ ہوئی ہیں۔ اور ان چاروں میٹرو شہروں میں 26,282 خودکشی کی اموات ہوئی ہیں۔یہ خودکشی کی کل اموات کا تقریباً ایک تہائی حصہ ہے۔ حادثاتی اموات اور خودکشیوں سے متعلق حکومتی رپورٹ کے مطابق سال 2022 میں روزانہ 468 افراد نے اپنی جانیں گنوائی ہیں۔ ان میں سے ایک تہائی روزانہ اجرت پر کام کرنے والے مزدور یا کھیتوں میں کام کرنے والے کسان یا کاشتکار تھے۔ رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ خودکشی کرنے والوں میں سے تقریباً 26 فیصد ایسے افراد ہیں جو یومیہ اجرت پر کام کرنے والے تھے اور خودکشی کی کل اموات میں ان کا حصہ اور تعداد دونوں ہی میں گزشتہ پانچ سالوں میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے باوجود حکومت کے لیے بھی اور ملک کے ذمہ دار شہریوں کے لیے بھی یہ مسئلہ اتنا ہی غیر اہم ہےجتنا کہ حادثاتی طور پر ہونے والی اموات۔
حالیہ ہاتھرس بھگڈر میں ہونے والی اموات کا واقعہ:
ابھی چند دن پہلے یہ خبر گردش میں تھی کہ 2 جولائی 2024 کو اتر پردیش کے ضلع ہاتھرس میں ایک مذہبی تقریب میں جمع ہونے والی بھیڑ کو کنٹرول کرنے میں ناکامی کی صورت میں منعقدہ ستسنگ کے دوران سورج پال سنگھ عرف بھولے بابا کی تقریب کے بعد عقیدت اور توہم پرستی میں غرق بھیڑ بے قابو ہو گئی۔ بے قابو بھیڑ اور بدترین بدنظمی کی وجہ سے 121 عقیدتمندوں کی موت کا دلسوز سانحہ پیش آیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق تقریباً دو لاکھ سے زیادہ عقیدت مندوں کا ہجوم اس مقام پر جمع ہوگیا جہاں ستسنگ کی تقریب منعقد کی گئی تھی جب کہ صرف 80 ہزار لوگوں کے مذہبی اجتماع کی اجازت لی گئی تھی۔اس معاملے میں اتر پردیش پولیس نے منتظمین کے خلاف فوجداری مقدمہ درج کرلیا ہے لیکن بھولا بابا مفرور ہے۔ عرضی گزار ایڈووکیٹ وشال تیواری نے عرضی میں بھگدڑ کے متعدد واقعات کا بھی ذکر کیا جن میں 1954 میں ہونے والے کمبھ میلہ کی بھگدڑ شامل ہے جس میں تقریباً 800 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ وہیں سال 2014 میں پٹنہ کے گاندھی میدان میں دسہرہ کی تقریبات کے دوران ہونے والی اموات اور اڈوکی کے پلمیڈو میں تقریباً 104 عقیدت مندوں کی موت کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے۔ درخواست گزار نے کہا کہ ہاتھرس میں بھگدڑ کی سی بی آئی جانچ کے لیے ایک وکیل نے الٰہ آباد ہائی کورٹ میں بھی اسی طرح کی درخواست دائر کی ہے۔ مفرور بھولے بابا نے ہلاکتوں پر دکھ کا اظہار کیا ہے اور سپریم کورٹ کے معروف ایڈووکیٹ اے پی سنگھ کو اپنا وکیل مقرر کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ستسنگ ختم ہونے پر اس کے چلے جانے کے بعد سماج دشمن عناصر کی وجہ سے بھگدڑ مچ گئی جن کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔ دوسری جانب ہاتھرس بھگدڑ میں انٹلیجنس یونٹ نے انکشاف کیا ہے کہ بھولے بابا کے راستے پر بنائی گئی تقریباً دو سو میٹر لمبی رنگولی121 سے زائد لوگوں کی موت کی وجہ بن گئی۔ رپورٹ کے مطابق رنگولی تقریباً ڈھائی ٹن برادے سے تیار کی گئی تھی جس پر بابا کے گزرنے کے بعد ہزاروں لوگوں نے اس کی خاکِ پا حاصل کرنے کی غرض سے ایک ساتھ ماتھا ٹیکا اور پھر سنبھلنے کا موقع نہیں ملا۔ توہم پرستوں کا یہ عقیدہ ہے کہ جب بابا اس رنگولی سے گزر کر جاتے ہیں تو یہ رنگولی بہت متبرک ہو جاتی ہے جسے وہ برکت کے لیے اپنے گھروں کو لے جاتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ رنگولی گھر کی بیماریاں دور کرتی ہے اور بھوتوں سے بھی نجات دلاتی ہے۔ حادثے میں ہونے والی اموات میں 113 خواتین، 6 بچے اور 2 مرد شامل ہیں۔ اس سے اس بات کا بھی بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ ہندوستانی معاشرہ میں توہم پرستی کا شکار مردوں کے بالمقابل خواتین زیادہ ہوتی ہیں۔
توہم پرستی اور وشنو ہری بھولے بابا:
جس چیز کا حقیقت میں کوئی وجود نہ ہو، اس کا وجود یا جس چیز میں کوئی تاثیر نہ ہو، اس میں تاثیر کا اعتقاد رکھنا توہم پرستی کہلاتا ہے۔ بالفاظِ دیگر توہم پرستی کا مطلب خوف یا جہالت کی وجہ سے غیر عقلی عقائد پر یقین رکھنا ہے۔ جیسے عوام الناس میں چڑیل اور بھوت وغیرہ کے وجود کا یا پتھروں وغیرہ کے موثر ہونے کا اعتقاد رکھنا مشہور ہے۔ یہی معاملہ ہندوستانی معاشرہ میں رائج توہم پرستی کا بھی ہے۔اور فی الوقت ہاتھرس کے جس حادثہ کے پس پردہ معاملہ سامنے آیا ہے وہاں بھی یہی صورتحال سامنے آئی ہے۔ یہ بات آپ کے علم میں ہوگی کہ اتر پردیش کے کاس گنج کے بہادر نگر سے تعلق رکھنے والا سورج پال 1997 میں جنسی استحصال سے متعلق ایک مقدمے میں پھنسنے سے قبل پولیس میں ملازمت کرتا تھا۔ لیکن جنسی استحصال کے معاملے میں جیل سے رہا ہونے کے بعد اس نے پولیس کی ملازمت چھوڑ دی اور ایک مذہبی گرو یا خود ساختہ بھگوان بن گیا۔ اس نے اپنا نام ساکار وشنو ہری بابا رکھ لیا اور اس کے عقیدت مند اسے بھولے بابا کہنے لگے۔بابا نے آبائی گاؤں میں ایک آشرم بنایا جہاں عقیدت مندوں کی بھیڑ جمع ہونے لگی۔ بھگوان بننے سے قبل وہ اترپردیش پولیس میں سپاہی تھا۔ بعد ازاں ہیڈ کانسٹبل ہوا۔ لیکن اس نے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی۔ ستسنگ شروع کیے جانے کے بعد اس کو بھولے بابا اور ان کی بیوی کو ماتا شری کہا جانے لگا۔ اس کے پروگرام میں لوگ اپنے امراض لے کر پہنچنے لگے۔ بابا کا دعویٰ ہے کہ وہ مریض کو اپنے ہاتھوں سے چھو کر بیماریاں دور کر دیتا ہے۔دوسری جانب عقیدت مندوں کا معاملہ یہ ہے کہ بابا کے پروگرام کے بعد جہاں سے وہ گزرتا ہے اس کے پیروں کی دھول کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اس دھول کو وہ لاکٹ میں رکھ کر گلے میں پہنتے ہیں۔ اس سے ان کا یقین ہے کہ ان کی زندگی آسان ہوگی، ان کے مسائل حل ہوں گے۔ساتھ ہی بابا کے پیروں کو دھوکر جو پانی اکھٹا کیا جاتا ہے اور اسے عام پانی میں ملاکر عقیدت مندوں کو تقسیم کیا جاتاہے اور اسے لینے کی بھی ہوڑ ہوتی ہے۔ بی بی سی کے دل نواز پاشا نے عقیدت مندوں سے بات کی تو انہیں بتا گیا کہ وہ زندگی میں بہت پریشان ہیں، غم زدہ ہیں، کوئی گھر کے معاملات سے پریشان ہے، کوئی روزگار کی وجہ سے پریشان ہے، بابا کی موجودگی میں انہیں سکون ملتا ہے، ایک امید کی کرن نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ دور دراز سے بابا کے ستسنگ میں شریک ہوتے ہیں۔سورج پال، نارائن ساکر ہری، Jatav sub-caste سے ہے۔ اپنی کمیونٹی میں خاص اثر و رسوخ وتسلط رکھتا ہے اور مغربی اتر پردیش کے علاقے میں گہرا اثر رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی بے پناہ مقبولیت اور روحانی اجتماعات نے سیاسی شخصیات کو بھی اس کی طرف متوجہ کیا اور مقامی سیاست کو نمایاں طور پر متاثر کیا ہے۔ یعنی اس نے اور اس جیسے دیگر باباؤں اور مذہبی مبلغین نے سیاسی بساط پر بھی تسلط اور غلبہ قائم کرلیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی لیڈر ان باباؤں کے خلاف کوئی اقدامی کاروائی کرتے نظر نہیں آتے۔ اور اگر کبھی کسی خاص وجہ سے کوئی وقتی اقدام کرنا ہوتا بھی ہے تو وہ بہت دیر پا نہیں ہوتا۔ یعنی ہر دوبسطح پر ہندوستانی معاشرہ پر ان مذہبی باباؤں کی پکڑ مضبوط ہے۔ ایک طرف عوام ہیں جو توہم پرستی اور عقیدت میں مبتلا ہیں تو دوسری جانب سیاسی لیڈر اور حکومتیں ہیں جو سیاسی بساط پر کامیابی اور ناکامی کے جوڑ توڑ میں مصروف رہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اگر کسی بابا کو ناراض کر دیا تو اس کے عقیدت مند ہمیں ووٹ نہیں دیں گے۔
رائج الوقت توہم پرستی اور اسلام:
توہم پرستی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ وہ حق کو قبول کرنے میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔ توہم پرستی کے نتیجہ میں انسان غور و فکر اور تدبر و تفکر سے دور جاتا ہے۔ کیونکہ توہم پرست آدمی مادی نفع کی چیزوں کو حق و باطل کے پرکھنے کا معیار بناتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جس چیز میں اسے نفع نظرآتا ہے وہ اس کے نزدیک حق اور درست ہو جاتی ہے اور جس چیز میں اسے نقصان دکھائی دیتا ہے وہ اس کے نزدیک باطل اور غلط ہو جاتی ہے۔ توہم پرستی اور بدشگونی جیسے عقائد کے حامل افراد کچھ چیزوں، واقعات یا علامات کو اپنے لیے مبارک سمجھنے لگتے ہیں اور کچھ کو نقصان دہ یا منحوس۔ توہم پرست لوگ منفی خیالات کا شکار ہو کر اپنی خوشیاں اور سکون برباد کر لیتے ہیں اور بہت جلد مایوس ہو جاتے ہیں۔ اس پس منظر میں ضرورت ہے کہ انسان جسے اس کے خالق اور اس کے رب نے عقل و شعور اور علم عطا کیا ہے، اس کی طرف پلٹایا جائے۔ مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ خود اپنے مسلم معاشرے میں اور ہندوستانی معاشرے میں بھی رائج توہم پرستی کے خاتمہ کے لیے منظم ومستحکم کوشش کریں۔ کیونکہ غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ توہمات پر یقین رکھنا درحقیقت تقدیر پر یقین کا رد ہے۔ سوائے اللہ کے کوئی دن، پتھر، بشر، چرند پرند یا ستارے وغیرہ انسان کے نفع و نقصان کے خالق و مالک نہیں ہوسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ رب کائنات انسان کو متوجہ فرماتا ہے کہ”اے انسان! تجھے جو بھلائی بھی حاصل ہوتی ہے اللہ کی عنایت سے ہوتی ہے اور جو مصیبت تجھ پر آتی ہے وہ تیرے اپنے کسب و عمل کی بدولت ہے”(النساء:79) اور اللہ کے رسول حضرت محمد ﷺ کا ارشاد ہے "بدفالی لینا جس شخص کو اس کے کسی کام سے روک دے تو اس نے شرک کیا، لوگوں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول اگر کوئی ایسا کر بیٹھے تو اس کا کفارہ کیا ہو گا؟ آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا: اس کا کفارہ یہ ہے کہ وہ شخص اِس طرح دعا کرے کہ اے اللہ! تیری طرف سے پہنچنے والا خیر ہی اصل خیر ہے اور تیری طرف سے پہنچنے والی برائی ہی اصل برا شگون ہے، اور اے اللہ تیرے سوا ہمارا کوئی معبود نہیں ہے” (مسند احمد5054) ایک اور موقع پر آپ ﷺ نے فرمایا بدشگونی شرک ہے، بدشگونی شرک ہے، بدشگونی شرک ہے۔ اور ہم میں سے ہر ایک کو (کوئی نہ کوئی وہم) ہو جاتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ توکل کی برکت سے اسے دور کر دیتا ہیـ”(لسنن ابی دائود:3915) بد شگونی کے معنی بد فالی اور نحوست کے ہیں۔ اور اللہ کے علاوہ کسی چیز کو نفع اور نقصان میں موثر بالذات سمجھنا شرک ہے۔ نیز چونکہ زمانہ جاہلیت میں لوگ بعض چیزوں اور اعمال سے بد فالی لیتے تھے اور اس کو نحوست میں موثر سمجھتے تھے، اس لیے احادیث میں بد شگونی کو شرک قرار دیا گیا ہے۔اسی طرح توہم پرستی جیسے برے خیالات سے بچنے والے کے لیے حضرت ابن عباسؓ سے یہ حدیث مروی ہے، جس میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:” میری اْمت کے ستر ہزار لوگ بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جو جھاڑ پھونک نہیں کرواتے، بدشگونی نہیں لیتے اور اپنے رب پر بھروسا کرتے ہیں”(صحیح البخاری:6472)۔
متذکرہ بالا قرآن و احادیث پر مبنی تعلیمات سے واضح ہوجاتا ہے کہ ہندوستان میں رائج توہم پرستی اور اس کے نقصانات سے نہ صرف مسلمانوں کو ہر سطح پر گریز کرنا ہے بلکہ ان تمام انسانوں کو بھی اس کے نقصانات سے بچانے کی مخلصانہ کوشش کرنا ہے جو اس جال میں پھنس کے دنیا میں اپنی شناخت کھو بیٹھتے ہیں اور شیطانی چالوں پر مبنی انسانی کوششیں انہیں اس غفلت میں مبتلا کر دیتی ہیں جس سے وہ اپنی ذات کو کمتر یا بے اثر محسوس کرتے ہیں۔ نتیجہ میں نہ صرف ایک فرد ضائع ہوتا ہے بلکہ خالق کی عطا کردہ نعمتوں سے بھی وہ فائدہ اٹھانے یا فائدہ پہنچانے کی حیثیت میں نہیں رہتا۔یہاں تک کہ وہ دنیا میں اپنی حیثیت کھو بیٹھتا ہے اور مکار و چال باز لوگ اس کی صلاحیتیں، اس کی جان توڑ کوششوں کے عوض ملنے والی رقوم اور اس کی جان سے بھی کھلواڑ کرتے ہیں اور وہ بے چارہ اس شعور سے دوچار ہی نہیں ہوپاتا کہ اس کے ساتھ کیا کچھ ہو رہا ہے!!
***

 

یہ بھی پڑھیں

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 14 جولائی تا 20 جولائی 2024