’’آج بلقیس ہے، کل کوئی اور بھی ہو سکتی ہے‘‘: سپریم کورٹ نے گجرات حکومت سے مجرموں کو معافی دینے کی وجوہات طلب کیں
نئی دہلی، اپریل 18: سپریم کورٹ نے منگل کے روز گجرات حکومت سے کہا کہ وہ ان بنیادوں کی وضاحت کرے جن کی بنا پر اس نے بلقیس بانو کی اجتماعی عصمت دری اور 14 افراد کے قتل کے مجرم 11 افراد کی قبل از وقت رہائی کی اجازت دی۔
جسٹس کے ایم جوزف اور بی وی ناگارتھنا پر مشتمل بنچ نے عرضیوں کے ایک بیچ کی سماعت کرتے ہوئے یہ بات کہی، جس میں خود بلقیس بانو کی طرف سے دائر کی گئی ایک درخواست بھی شامل ہے، جس میں 11 قصورواروں کو معافی دینے کے گجرات حکومت کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا ہے۔
بنچ نے نوٹ کیا ’’ایک حاملہ خاتون کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کی گئی اور کئی لوگوں کو قتل کر دیا گیا۔ آپ متاثرہ کے کیس کا سیکشن 302 [قتل] کے معیاری مقدمات سے موازنہ نہیں کر سکتے۔ جس طرح آپ سیب کا سنترے سے موازنہ نہیں کر سکتے، اسی طرح قتلِ عام کا موازنہ ایک عام قتل سے نہیں کیا جا سکتا۔‘‘
عدالت نے گجرات حکومت سے پوچھا کہ کیا اس نے مجرموں کی جلد رہائی کی درخواستوں پر فیصلہ کرتے ہوئے اپنا دماغ استعمال کیا؟ عدالت نے پوچھا ’’آج یہ بلقیس ہے لیکن کل یہ کوئی اور بھی ہو سکتی ہے… اگر آپ معافی دینے کی اپنی وجوہات نہیں دکھاتے ہیں تو ہم اپنے نتائج اخذ کریں گے۔‘‘
ایڈیشنل سالیسیٹر جنرل ایس وی راجو نے، جو مرکز اور گجرات حکومت دونوں کی طرف سے پیش ہوئے، عدالت کو بتایا کہ وہ 27 مارچ کے سپریم کورٹ کے حکم پر نظرثانی کی درخواست دائر کر سکتے ہیں۔ اس دن عدالت نے گجرات حکومت سے کہا تھا کہ وہ قصورواروں کو معافی دینے پر اصل فائلوں کے ساتھ تیار رہیں۔
اس کے بعد ڈویژن بنچ نے کہا کہ حکومت کا موقف توہین عدالت کے مترادف ہے، کیوں کہ اس نے ابھی تک عدالتی حکم کے خلاف نظرثانی کی درخواست دائر نہیں کی لیکن پھر بھی فائلیں پیش نہیں کر رہی ہے۔
عدالت نے پوچھا کہ ’’آج ہمیں [فائلیں] دکھانے میں کیا حرج ہے۔ آپ اسے پیش نہ کرکے توہین عدالت کی زد میں ہیں۔ آپ کیوں ہچکچا رہے ہو؟ آپ نے نظرِ ثانی کی درخواست دائر نہیں کی، ہم نے آپ کو کبھی نہیں روکا۔‘‘
ڈویژن بنچ نے یہ بھی نوٹ کیا کہ محض اس وجہ سے کہ مرکز نے گجرات حکومت کے موقف سے اتفاق کیا تھا، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ریاست کو اپنا دماغ استعمال کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
کیس کی اگلی سماعت 2 مئی کو ہوگی۔