احتجاج میں ایوارڈ واپس کرنے واقعات کو روکنے کے لیے پارلیمانی پینل نے ایورڈ وصول کرنے والوں سے ایک انڈرٹیکنگ پر دستخط لینے کی سفارش کی

نئی دہلی، جولائی 26: پیر کے روز ایک پارلیمانی کمیٹی نے سفارش کی کہ مرکز کو سرکاری ایوارڈز حاصل کرنے والوں کو سے ایک انڈرٹیکنگ پر دستخط لینے چاہئیں کہ وہ انھیں کسی بھی مرحلے پر بطور احتجاج واپس نہیں کریں گے۔

پارلیمانی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے ٹرانسپورٹ، ٹورازم اور کلچر نے نوٹ کیا کہ 39 فنکاروں، بشمول معروف مصنفہ نین تارا سہگل، نے 2015 میں احتجاج کے طور پر ساہتیہ اکادمی کو اپنے ایوارڈ واپس کر دیے تھے۔

ان ایوارڈ یافتگان نے مرکز میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت والی حکومت پر کی جانے والی تنقید کو دبانے، اقلیتوں کو نشانہ بنانے اور مذہبی کشیدگی کو ہوا دینے کا الزام لگایا۔ فنکار 30 اگست 2015 کو عقلیت پسند ایم ایم کلبرگی کے قتل کے خلاف بھی احتجاج کر رہے تھے۔

ایک رپورٹ میں پارلیمانی پینل نے پیر کو ان وصول کنندگان سے سوال کیا، جنھوں نے اپنے ایوارڈز واپس کر دیے تھے لیکن مبینہ طور پر یہ توہین کرنے کے بعد بھی اکادمی کے ساتھ اپنا تعلق جاری رکھا۔

وائی ایس آر کانگریس کے وی وجیسائی ریڈی کی سربراہی میں اور 10 راجیہ سبھا ممبران پارلیمنٹ اور 31 لوک سبھا ممبران پر مشتمل پینل نے کہا ’’ایوارڈز کی واپسی سے متعلق اس طرح کے نامناسب واقعات دیگر ایوارڈز کی کامیابیوں کو نقصان پہنچاتے ہیں اور ایوارڈز کے مجموعی وقار اور ساکھ کو بھی متاثر کرتے ہیں۔‘‘

کمیٹی نے کہا کہ سیاسی مسائل ثقافتی دائروں اور اداروں کے خود مختار کام کے دائرے سے باہر ہیں۔ لہٰذا اس نے تجویز پیش کی کہ ایک ایسا نظام وضع کیا جائے جس سے یہ یقینی بنایا جا سکے کہ فنکار اور دیگر دانشور مستقبل میں ’’ایوارڈ کی بے عزتی نہیں کر سکتے۔‘‘

رپورٹ میں کہا گیا کہ ’’لہٰذا کمیٹی تجویز کرتی ہے کہ جب بھی کوئی ایوارڈ دیا جائے، وصول کنندہ کی رضامندی لی جائے، تاکہ وہ سیاسی وجوہات کی بنا پر اسے واپس نہ کرے۔ کیوں کہ یہ ملک کی بدنامی ہے۔ کمیٹی حتمی شکل دینے سے پہلے ایوارڈز کے لیے شارٹ لسٹڈ امیدواروں سے پیشگی منظوری لینے کی سفارش کرتی ہے۔‘‘

لیکن پینل کے ایک رکن نے اس تجویز پر اعتراض کیا کہ فنکاروں کو ایک معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے کہا جانا چاہیے، اور کہا کہ کمیٹی اس کے بجائے حکومت پر زور دے کہ وہ اس طرح کے احتجاج کا باعث بننے والے مسائل کا جائزہ لے۔

پینل کے رکن نے کہا ’’ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے، اور ہمارے آئین نے ہر شہری کو تقریر اور اظہار کی آزادی اور کسی بھی شکل میں احتجاج کرنے کی آزادی فراہم کی ہے۔ ایوارڈ واپس کرنا صرف احتجاج کی ایک شکل ہے۔‘‘