تیتو میرشہید برطانوی سامراج میں پہلی مسلح کسان تحریک کے ہیرو
’بنگالی فخر‘کی سیاست کرنے والوں نے مسلم مجاہد آزادی کی جدوجہد فراموش کردی
نور اللہ جاوید، کولکاتا
تیتو میر کی تحریک میں ہندوبھی شانہ بشانہ شامل رہے ۔ ہندو۔مسلم لڑائی کا دعوی گمراہ کن۔تاریخ کو مسخ کرنے کوشش
ہندوتوا قوم پرستی کے جواب میں ’’بنگالی فخر‘‘کی سیاست کے تحت حالیہ برسوں میں مغربی بنگال سے تعلق رکھنے والی تاریخی شخصیات کی یوم پیدائش اور یوم وفات کو بڑے ہی اہتمام سے منانے کی روایات شروع ہوئی ہیں۔عظیم شخصیات کو یاد رکھنا اوران کی خدمات سے سبق حاصل کرنا زندہ قوموں کا شیوہ رہا ہے ۔ تاہم سوال یہ ہے کہ بنگال کی عظمت و رفعت اور بنگال کی آزادی اور ادب و ثقافت کی قیمتی سرمایہ میں اضافے میں کیا خاص کمیونٹی کی ہی حصہ داری ہے؟ یہ سوال اس لیے بھی اہم ہے کہ حالیہ دنوں میں بنگال حکومت نے جن اہم بنگالی شخصیات کی یوم پیدائش اور یوم وفات پر سرکاری سطح پر پروگرام کیے ہیں ان میں مسلم شخصیات شامل نہیں ہیں۔آخر یہ سب کس ایجنڈے کے تحت کیا جارہا ہے؟ اور اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ ہم نے خود اپنی تاریخی شخصیات کی قربانیوں اور ان کے کارناموں کو یاد رکھنے کےلیے کیا اقدامات کیے ہیں ۔
بھارت کی تحریک آزادی، نوآبادیات اور استعماریت کے خلاف جدو جہد اور بغاوت کی تاریخ اور اس کے قائدین کے کردار کو مذہبی عینک سے دیکھنے کی ابتدا آزادی کے بعد سے ہی ہوگئی تھی مگر اب اس میں شدت کے ساتھ نفرت انگیزرویہ بھی سامنے آنے لگا ہے۔مسلمانوں کی تاریخی شخصیات کے کردار کو فرقہ واریت کے تناظر میں دیکھاجانے لگا ہے۔ان پر ہندوؤں پر ظلم کرنے اور مندروں کے توڑنے کے بے جا الزامات عائد کرکے مسلم شخصیات کی استعماری قوتوں کے خلاف جدوجہد اور قربانیوں کو تاریخ کے صفحات سے ہٹانے کی پوری تیاری کرلی گئی ہے۔دوسری طرف مسلم دانشور اور اسکالرس ہیں جنہوں نے آسانی سے اس بیانیے کو قبول کرلیا ہے۔مغل حکمراں اپنی تمام تر انسان دوستی اور انصاف پسندی کے باوجود پہلے سے ہی معتوب تھے مگر استعماری قوتوں کے خلاف میدان جنگ میں کار زار گرم کرنے والے ٹیپو سلطان، سراج الدولہ، تیتو میر، بہادر شاہ ظفر اور دیگر مسلم تاریخی شخصیات بھی فرقہ پرستوں کے نشانے پر ہیں ۔ دوسری طرف انگریزوں کا ساتھ دینے والے، آزادی پر استعماریت اور غلامی کو ترجیح دینے اور ملک کے اتحاد پر فوقیت دینے والے ساورکر، اور شیاما پرساد مکھرجی جیسے لوگوں کو ملک کے اصل ہیروز کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔حد تو یہ ہے کہ ملک کی آزادی میں قائدانہ کردار ادا کرنے والے مہاتما گاندھی اور پنڈٹ نہرو بھی تخریب کاروں کی زیادتی سے محفوظ نہیں ہیں۔
نوآبادیاتی بھارت میں کسانوں کی دو بڑی تحریکیں برپا ہوئی جنہوں نے استعماریت اور ان کے زر خرید زمینداروں کی مخالفت کی، ان کی طاقت کو چیلنج کیا،حکومت کے خلاف متبادل حکومت کا قیام اور ٹیکس دینے سے نہ صرف انکار کیا بلکہ خود ٹیکس وصول کرنے کا اعلان کردیا۔ان دونوں تحریکوں ’’مالابار بغاوت‘‘( موپلا تحریک) اور بنگال کی تیتومیر تحریک کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔اتفاق سے ان دونوں تحریکوں کے قائدین مسلمان تھے۔ مالابار بغاوت ایک مسلح بغاوت تھی جسے موپلا مسلمانوں نے 1921 میں برطانوی حکام اور ان کے ہندو اتحادیوں کے خلاف برپا کیا تھا۔جب کہ تیتو میر کی قیادت میں کئی سالوں تک برطانوی استعمار اور ان کے معاونین زمین دار جن میں برہمن و بنیا اور مسلم زمیندار شامل تھے کے خلاف تحریک چلائی گئی۔آخر19نومبر 1831میں ایک مسلح مقابلے میں تیتو میر اور ان کے رفقائے کار ایسٹ انڈیا کی قیادت والی فوج کے ہاتھوں شہید ہوگئے۔
تاریخی شواہد اور حقائق ہمیں بتاتے ہیں کہ دونوں بغاوتیں انگریزوں اور ان کے وفادار زمین داروں کے خلاف غریب کسانوں نے کی تھیں جو ان جاگیرداروں کے جبر و تشدد کے شکار تھے۔تاریخ کی کتابیں اوراس وقت کی یادداشتیں برطانوی حکومت اور زمین داروں کے بے رحم کردارکواجاگر کرتی ہے۔زمین داروں کے جبر و تشدد اور زیادتی کے خلاف حرف شکایت بلند کرنے والوں کو قتل کردیا جاتا تھا۔زمینداروں کے ملازمین کے ہاتھوں کسانوں کی عورتوں کی بے حرمتی عام سی بات بن گئی تھی۔غریب کسانوں کو زمین کا کرایہ ادا کرنا لازمی تھا۔چاہے خشک سالی اور سیلاب کی وجہ سے فصلیں کیوں نہ برباد ہوگئی ہوں۔زمین کا کرایہ ادا کرنے کے لیے ساہوں کاروں سے سود پر رقم لینی پڑتی تھی اور یہ سودی رقم سود در سود میں تبدیل ہوجاتی تھیں اور وہ اس کی وجہ سے زمین سے محروم ہوجاتے تھے۔ اس طرح کسان دہری مار کے شکار تھے۔ ظلم و تشدد کی چکی میں کسان پس رہے تھے۔
1757میں پلاسی کے میدان میں بنگال کے آخری نواب سراج الدولہ کی شکست کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہوا۔ انتظامی، اقتصادی، ثقافتی اور سیاسی تبدیلیوں نے زمیندار اور پیشہ ور اشرافیہ جن میں زیادہ تر اعلیٰ طبقات کے ہندو شامل تھے، ایک نیا طبقہ وجود میں آیا۔مسلم حکومت کے زوال، حکومت کی سرپرستی سے محرومی اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی مسلم دشمنی پر مبنی پالیسیوں کی وجہ سے مسلم عوام اور مسلم اشرافیہ دونوں ہی غربت اورغیر معمولی پسماندگی کے شکار ہوگئے۔ایسٹ انڈیا کمپنی کی انتظامیہ اور اعلیٰ طبقات پر مبنی اشرافیہ کا گٹھ جوڑ پسماندہ طبقات جن میں ہندو اور مسلم عوام دونوں شامل تھے کے لیے مصیبت کا سبب بن گیا تھا ۔
مشہور بنگالی مصنفہ مہاشویتا دیوی نے اپنی کتاب ’’تیتو میر‘‘ میں 18ویں صدی کے نصف آخر 1770میں آنے والے ’’بنگال قحط‘‘ کی ہولناکیوں کی تصویر کشی کرتے ہوئے لکھا کہ ’’قدرتی آفات نے نچلی ذات اور پسماندہ طبقات کو مکمل طور پر تباہ کردیا۔لوگ مکھیوں کی طرح مررہے تھے۔امیروں نے سستے داموں میں چاول خریدکر ذخیرہ کرلیا تھا۔اس کی وجہ سے عوام بھوک و پیاس سے مرنے لگے تھے۔بھوک سے مجبور گاوں والے جو کچھ پا سکتے تھے کھاتے تھے جیسے درخت، جڑیں اور چھال وغیرہ۔ ’بنگال ہولوکاسٹ‘ نے ڈیڑھ کروڑ لوگوں کا صفایا کر دیا۔مگر ان حالات میں بھی گورنر جنرل وارن ہیسٹنگز جن کی ایشاٹک سوسائٹی کے قیام کی وجہ سے مدح سرائی کی جاتی ہے۔ زیادہ آمدنی کی فکر میں لگے رہے۔اس کے لیے انہوں نے عام لوگوں کے خون کو نچوڑ لیا۔ آقاکی خوشنودی کے لیے گورنر جنرل ہیسٹنگز زمین داروں کی مدد سے کسانوں سے سب سے زیادہ محصولات جمع کرنے میں کامیاب رہے۔بنگال کے قحط کے بعد، کسانوں اور عام لوگ جن میں ہندو اور مسلمان دونوں شامل تھے نے فقیروں اور سنیاسیوں کی قیادت میں برطانوی راج اور ان کے محصولات اکٹھا کرنے والے ایجنٹوں کے خلاف بغاوت کی۔ اگرچہ اس بغاوت کو سنیاسی بغاوت کہا جاتا تھا، لیکن فقیر، سادھو، بُنکر، کسان، کمہاراور مزدورسب اس میں شریک تھے۔دو دہائیوں تک یہ تحریک چلتی۔اسی دور میں کلکتہ سے 70کلومیٹر دور شمالی 24پرگنہ کے بشیر ہاٹ سب ڈویژن کے نارکل بڑیا پرگنہ کے حیدر پور گاوں میں1782 میں ایک کسان گھرانے میں سید میر نثار علی عرف تیتو میر کی پیدائش ہوئی۔
تیتو میر کا تعلق مسلم شریف خاندان سے تھا۔ ان کے پیش رو ’سید شہادت علی‘ عرب سے بنگال آئے۔ شہادت علی کے بیٹے سید عبداللہ کو شہنشاہ دہلی نے جعفر پور کا چیف قاضی مقرر کیا اور ’’میر انصاف‘‘ کے لقب سے نوازا۔ اس کے بعد شہادت علی کی اولاد نے موروثی لقب ’’سید‘‘ اور ’’میر‘‘ استعمال کیا۔ تیتو میرنےکم عمری میں ہی قرآن پاک حفظ کیا۔ ابتدائی تعلیم گاوں کے مکتب سے حاصل کی اور پھر مقامی مدرسہ میں داخلہ لیااور اسلامی علوم پر عبور حاصل کی۔ انہیں تین زبانوں بنگلہ، عربی اور فارسی پر یکساں دسترس حاصل تھی۔ عربی اور فارسی ادب میں ان کی گہری دلچسپی تھی۔ اسلامی الہیات، فقہ، فلسفہ، اسلامی تصوف جیسے علوم پر ان کی نظر گہری تھی۔اس کے علاوہ وہ ایک ماہر جمناسٹک بھی تھے۔ان کا شمار اپنے وقت کے نامور پہلوانوں میں ہوتا تھا۔پہلوانی کے علاوہ انہوں نے بھودیب لال چودھری کے چیف لاٹھی باز تاج الدین سے تیر اندازی اور دیگر ہتھیاروں کا استعمال بھی سیکھا تھا ۔وہ اس دور کے مقابلوں میں بھی حصہ لیتے تھے ۔اس کی وجہ سے ان کی شہرت علاقے میں پہلوان کے نام سے تھی۔
بنگال قحط کے بعد فقیروں اور سنیاسیوں کی تحریک ایسٹ انڈیا کمپنی اور زمینداروں کے استحصال کی راہ میں سب سے بڑی روکاوٹ تھی ۔ایسٹ انڈیا کمپنی اور زمینداروں نے فقیروں اور سنیاسوں کی تحریک کو سختی سے کچلنے کے لیے طاقت کا استعمال کیا۔انگریزوں نے اعلان کررکھا تھا کہ جو بھی فقیروں اور سنیاسوں کو پناہ دے گا اور ان کی حمایت کرے گا ان کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی۔جیساکہ مہاشویتا دیوی نےلکھا ہے کہ نوجوانی کی عمر سے ہی تیتو میر زمینداروں کے استحصال اور غریب کسانوں کی حمایت میں کھل کر سامنے آنے لگے تھے۔اس دور میں ایسٹ انڈیا کمپنی اور زمینداروں کی پالیسی تھی کہ فقیروں اور سنیاسیوں کی حمایت کرنے والوں کو ڈاکو اورچور قراردے دیا جاتا ہے۔اس کا مقصد حوصلہ شکنی کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔ یہ وہی دور ہے جب عظیم اسلامی مصلح اور انقلابی رہنما سید احمدشہیدؒ کلکتہ میں فروکش ہوئے تھے، حج کے سفر کے دوران انہوں نے یہاں طویل قیام کیا تھا۔
بنگال میں ’’ویشنو تحریک‘‘ کے اثرات کے خاتمہ میں مولانا سید احمد شہیدکے رفقائے کار کا بہت بڑا رول ہے۔سید احمد شہید ؒ کی کوششوں کا ہی اثر تھا کہ مشرقی بنگال (موجودہ بنگلہ دیش)کے فرید آباد میں حاجی شریعت اللہ کی قیادت میں فرائضی تحریک کی شروعات ہوئی۔اس تحریک کی بنیاد مسلم معاشرہ کی اصلاح اور رسوم و رواج کا خاتمہ کرکے مسلم معاشرہ کو قرآن و سنت کی راہ پر گامزن کرنا تھا۔مگر حاجی شریعت اللہ کے انتقال کے بعد ان کے صاحب زادے حاجی محمدمحسن عرف وددو میاں کے دور میں یہ تحریک بہت ہی وسیع ہوئی۔ایسٹ انڈیا کمپنی اور کسانوں پر ظلم و جبر کے خلاف بھی اس تحریک کے وابستگان نے زبردست مقابلہ کیا۔تاہم فقہی اصطلاحات کی تعبیر میں شدت اور غیر لچکدارانہ رویہ کی وجہ سے فرائضی تحریک کا دائرہ کار مخصوص حلقے تک محدودہوکر رہ گیا۔دارالحرب کے اصطلاح کی تعبیر کرتے ہوئے فرائضی تحریک کا موقف تھا کہ ’انگریزوں کے تسلط کے ساتھ ہی بھارت دارالحرب ہے اس لیے مسلمانوں کو جمعہ اور عیدین کی نماز کی جماعت نہیں کرنی چاہیے۔جب کہ بنگال کے عام مسلمان کسی بھی صورت میں جمعہ اور عیدین کی جماعت سے دست بردار ہونے کے لیے تیار نہیں تھے۔اس اصطلاح کی تعبیر و تشریح اور غیر لکچدرانہ رویے کی وجہ سے فرائضی تحریک اختلافات کی شکا ر ہوگئی۔ مگر اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ’فرائضی تحریک نے فرید پور، ڈھاکہ، باریسال اور مغربی بنگال کے متعدد علاقوں کو متاثر کیا اور مسلم معاشرہ میں ایک نئی حرکت پیدا کردی۔(موج کوثر)
تیتو میر کا ان تحریکوں سے تعلق کب قائم ہوا اور مولانا سید احمد شہید ؒ کے کلکتہ قیام کے دور میں تیتو میرکی سید صاحب سے ملاقات ہوئی یا نہیں اس کے تاریخی ثبوت نہیں ملتے ہیں۔مگر تیتو میر سے متعلق اب تک جو دستاویز سامنے آئے ہیں اور مشہورمورخ پروفیسرگوتم بھدرا نے ایسٹ انڈیا کے دستاویز کے حوالے سے لکھا ہے کہ 1822میں تیتو میر حج کے سفر پر مکہ مکرمہ کے لیے روانہ ہوئے اور چند سال وہاں قیام کیا۔مکہ کے قیام کے دوران ہی ان کے رابطے سید احمد شہید اور حاجی شریعت اللہ سے ہوئی۔رابطے، تعلقات میں تبدیل ہوئے اور ان تعلقات نے برطانوی استعمار، زمین داروں اور مہاجنوں کے کٹھ جوڑ کے خلاف ان کے دل میں جذبہ جہاد پیداکیا۔ 1827میں جب وہ مکہ مکرمہ سے واپس ہوئے توتیتو میر کی زندگی تبدیل ہوچکی تھی۔ان کا سینہ جذبہ جہاد سے لبریز تھا،کسانوں اور عام شہریوں پر مظالم سےان کا دل دکھی تھی۔حج سے واپسی کے بعد انہوں نے شمالی 24پرگنہ کے بشیر ہاٹ سب ڈویژن کے حیدرپور میں سکونت اختیار کی۔علاقہ کا دورہ کیا، عوام سے ملاقاتیں کیں، ایسٹ انڈیا کمپنی کے اہلکاروں، زمینداروں اور مہاجنوں کے مظالم کاجائزہ لیا۔ ان لوگوں کی پریشانیوں کا مشاہدہ کیا جو ان استحصالیوں کے چنگل میں پھنسے ہوئے تھے۔ان حالات میں انہوں نے فرائضی تحریک کی طرح سماج و معاشرہ کے اصلاحات کے ساتھ ایسٹ انڈیا کمپنی اور استحصالیوں کی خلاف جدو جہد کرنے کا فیصلہ کیا۔اصلاحی مہم کے ساتھ غیر ملکی حکمرانوں کے خلاف بغاوت کے لیے بیداری مہم چلائی۔ظلم کی چکی میں پس رہے کسانوں اور مزدوروں میں بغاوت کا حوصلہ پیدا کیا۔اس طرح تیتو میر بہت ہی تیزی سے بنکروں اور کسانوں میں مقبول ہوگئے۔ان کے ماننے والوں میں بڑی تعداد جہاں مسلمانوں کی تھی وہیں مقامی غیرمسلم کسان اور پسماندہ طبقات کے ہندوؤں کی بھی تھی۔کیوں کہ ایسٹ انڈیا کمپنی، زمینداروں اور مہاجنوں کے مظالم کے وہ یکساں شکار تھے۔
گوبر ڈنگا کے پورہا کالی پرسنا مکھوپادھیائے کے زمین دار کرشن دیوا رائے، تاراگونیا کے زمیندار راج نارائن، ناگپور کے زمیندارگوری پرساد چودھری اور گوبرا گووند پور کے زمیندار دیواناتھ رائے، یہ وہ زمیندار تھے جن کے مظالم سے صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ علاقے کے عام کسان بھی پریشان تھے ۔یہ زمیندار ہم وطنوں کی مدد کرنے کے بجائے انگریزوں کے ساتھ تھے۔ وہ ایسٹ انڈیا کمپنی اور اس کے افسران کو خوش کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ ٹیکس وصول کررہے تھے۔ ان زمینداروں نے فرائضی تحریک اور سید احمد شہید کے ’’تحریک احیائے اسلام‘‘ کے اثرات کو ختم کرنے کے لیے مسلمانوں پر ڈاڑھی رکھنے، مساجد، خانقاہوں اور عبادت کرنے پر بھی ٹیکس عائد کررکھا تھا۔اس ٹیکس کا مقصد تھا کہ بنگال کے مسلمان مسلم تہذیب و تمدن سے کٹ جائیں اور ان میں جو بیداری پیدا ہوئی ہے وہ جہالت اور پسماندگی میں بدل جائے ۔ایسٹ انڈیا کمپنی کے حکمرانوں کے جابرانہ ٹیکسوں اور مقامی زمینداروں کی غیر انسانی رویوں کی مخالفت کرتے ہوئے، تیتو میر نے کسانوں اور بنکروں کو بغاوت پر آمادہ کیا۔پروفیسر گوتم بھدرا نے لکھا ہے کہ
’’سید میر نثار علی عرف تیتو میر اتنے دلیر تھے کہ وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے اہلکاروں اور پولیس کو بھی اپنے حملوں کی پیشگی اطلاع دیتے تھے۔ان کی جرأت مندانہ روش نے کسانوں اوربنکروں کو ان کا گرویدہ بنادیا تھا۔ہزاروں افراد مذہبی اور طبقاتی وفاداری سے قطع نظر رکھ کر ان کی اس تحریک میں شامل ہوگئے۔تیتو میر کے ساتھ شانہ بشانہ مل کر ایسٹ انڈیا کمپنی کی افواج اور زمینداروں کا مقابلہ کیا۔کئی مواقع پر ان زمینداروں اور ان کے حواریوں کو منہ کی کھانی پڑی۔
تیتو میر کی تحریک اب اس پوزیشن پر پہنچ چکی تھی کہ انہوں نے باضابطہ مجاہدین کی فورسیس کی تشکیل دے دی۔شمالی 24پرگنہ،ندیا اور فریدآباد جیسے اضلاع میں ایسٹ انڈیا کی حاکمیت کو چیلنج کرتے ہوئےان اضلاع کا کنٹرول حاصل کرلیا۔ ٹکی اور گوبر ڈانگہ کے زمینداروں کو ہدایت دی کہ وہ اب ٹیکس ایسٹ انڈیا کمپنی کو دینے کے بجائے ان کے حوالے کریں ۔ان کی فوج میں پانچ ہزار افراد تھے۔ اکتوبر 1831 میں نارکل بیڑیا میں بانس کے قلعہ کی تعمیر کی۔ہندوؤں کے اعلیٰ ذات کے زمیندار اور مہاجنوں نے مقامی قیادت کو ترجیح دینے کے بجائے برطانوی استعمار اورایسٹ انڈیا کمپنی کی غلامی کو زیادہ بہتر سمجھا۔چناں چہ انہوں نے تیتو میر اور ان کے حامیوں کے خلاف ایسٹ انڈیا کمپنی سے مدد طلب کی۔انگریزانتظامیہ کو تیتو میر کی طاقت کا اندازہ نہیں تھا لہٰذا انگریزوں اور زمینداروں کی مشترکہ فوجوں کو مجاہدین کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا۔اس شکست کے بعد گورنر جنرل لارڈ ولیم بینٹنگ نے لیفٹیننٹ کرنل سٹیورٹ کو تیتو میر کے خلاف فوج کشی کی ہدایت دی۔ باقاعدہ فوج تشکیل دی گئی جس میں سو گھڑسوار دستے، تین سو مقامی پیادہ اور دو توپ شامل تھے۔انگریزوں نے 14 نومبر 1831 کو مجاہدین پر حملہ کیا۔ مجاہدین جدید ہتھیاروں سے لیس نہیں تھے اس لیے وہ جدید ہتھیاروں سے لیس انگریزی فوج کا مقابلہ نہیں کرسکے۔انگریزوں نے گولہ باری کی اور قلعہ کو مکمل طور پر تباہ کر دیا جس میں مجاہدین کو بھاری جانی نقصان ہوا۔ تیتو میر اپنے بہت سے پیروکاروں کے ساتھ 19 نومبر 1831 میں شہید ہوگئے۔ کمانڈر غلام معصوم سمیت ساڑھے تین سو مجاہدین گرفتار ہوئے۔ غلام معصوم کو سزائے موت اور دیگر 140 قیدیوں کو مختلف الزامات کے تحت سزائیں دی گئیں۔
ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف کسانوں اور عام لوگوں کی پہلی مسلح بغاوت تیتو میر کی شہادت کے ساتھ ختم ہوگئی مگر یہ شہادتیں رائیگاں نہیں گئیں۔
تیتو میر نے اپنی شہادت کے ذریعہ بنگال کے دیہی علاقوں میں ایسٹ انڈیا کمپنی اور زمینداروں کے خلاف کسانوں کو احتجاج کرنے اور بغاوت کرنے کا عزم و حوصلہ دیا۔ 1857کے انقلاب کی راہ ہموار ہوگئی۔
مگر تاریخ کا جبر ملاحظہ کیجیے کہ تیتو میر کی شہادت کے دو صدی بعد ان کی قربانی اور جذبہ حریت کو فرقہ پرستی کے الزامات سے داغ دار کرنے کی کوشش کی گئی۔ تحریک آزادی میں انگریزی کی حمایت کرنے اور ان کے خلاف تحریک سے خود کو علیحدہ رکھنےوالے اور گرفتاری کی صورت میں معافی مانگنے والی آر ایس ایس گزشتہ ستر سالوں سے تاریخ پر حملہ آور ہے۔گزشتہ ایک دہائی سے ایک نیا ٹرینڈ شروع کیا ہے کہ مسلمانوں کی جدوجہد آزادی اور استعماریت کے خلاف تحریکوں اور اس کے مسلم قائدین کے کردار کو مجروح کیا جا رہا ہے۔ تیتو میر بھی اسی جارحانہ مہم کے شکار ہیں۔
مسلم دشمنی میں آرایس ایس اور اس کے ہم خیال دانشور، برطانوی استعماریت کو بھارت میں قدم جمانے میں مدد کرنے والے زمینداروں میں خوبیاں تلاش کرنے لگے ہیں۔چند سال قبل کیرالا کی حکومت نے 1921 میں موپلا تحریک کے شرکا کو شہادت کا درجہ دینے کا فیصلہ کیا تو آر ایس ایس کے سینئر لیڈر اور بی جے پی کے سابق جنرل سکریٹری رام مادھو کا بیان آیا کہ’’موپلا تحریک طالبانی ذہنیت کا مظہر تھی۔ انہیں شہادت کا درجہ دینا بھارت کی توہین ہے‘‘ دراصل طالبان کی تحریک اور کسان تحریک سے موازنہ آر ایس ایس لیڈروں کی فسطائی ذہنیت کا مظہر ہے۔
2017میں مغربی بنگال حکومت کے محکمہ تعلیم نے دسویں جماعت کے تاریخ کے سبجیکٹ میں ’’بنگال میں وہابی تحریک‘‘ کے عنوان سے تیتو میر کو مسلم مبلغ کے طور پر پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ تیتو میر نے زمینداروں پر حملہ کیا اور پجاریوں کو ہلاک کردیا‘‘ یہ نصابی کتاب سامنے کے بعد تاریخی بحث شروع ہوگئی۔فسطائی ذہنیت کے حاملین نے تیتو میر کے کردار پر حملہ شروع کردیا۔ 190 سال بعد تیتو میر تاریخ کا موضوع بحث بن گئے۔مگر سوال یہ ہے کہ برطانوی استعماریت اور زمینداروں کے خلاف تحریک برپا کرنے والے تیتو میر اور ان کے ساتھیوں نے کیا واقعی مندروں پرحملہ اورپجاریوں کا قتل کیا تھا؟ کیا تیتو میر کی تحریک ہندو مخالف تھی؟ اس سوال کاجواب سنٹر فار اسٹڈیز آف سوشل سائنسز کے بانی اورمشہور مورخ گوتم بھدرا اس طرح دیتے ہیں:
یہ دعویٰ کہ ’تیتو میر کی قیادت میں وہابیوں نے بہت سے ہندو مندروں کو تباہ کیا اور کئی پجاریوں کو ہلاک کیا‘ بے بنیاد ہے۔ زمیندار دیب رائے کی مندر میں کام کرنے والا ایک پجاری ٹیکس بھی وصول کیا کرتا تھا۔کسانوں کے تئیں اس کا رویہ توہین آمیز تھا۔تیتومیر کی قیادت والی تحریک کو کچلنے میں وہ پجاری بھی شامل تھا۔کسانوں اور زمینداروں کے ساتھ مقابلہ آرائی میں وہ پجاری بھی مارا گیا ۔اس لیے اس واقعے کو فرقہ واریت کا رنگ دینا انصاف کے خلاف ہے۔(ایمان و نشان بنگلہ )
انڈین اسٹیٹسٹیکل انسٹی ٹیوٹ سوشیالوجیکل ریسرچ یونٹ کلکتہ سے وابستہ رہنے والے پروفیسر اتیس داس گپتااپنے مضمون’’تیتو میر کی بغاوت: ایک پروفائل (1983)‘‘میں لکھتے ہیں :
تیتو میر بنگال میں’لوک اسلام کی روایت‘ کی مخالفت کرتے ہوئے وہابیت کے فروغ اور شرعی قوانین کے نفاذ کی وکالت کرتے تھے اور طریقہ محمدی کے نام سے تحریک چلاتے تھے مگر ان کی یہ تحریک مسلم معاشرہ تک محدود تھی۔ اس کے ساتھ ہی وہ برطانوی استعمار کے بھی خلاف تھے ۔تیتو میر نے شمالی 24 پرگنہ ضلع میں غریب کسانوں پر عائد بے رحمانہ ٹیکس اور زمینداروں کے استحصالی رویہ کے پرزور مخالف تھے ۔انہوں نے کسانوں کو آمادہ کیا کہ وہ ٹیکس دینے سے انکار کردیں ۔انہوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی اور زمینداروں کے خلاف احتجاج کو منظم کیا اور اس کی قیادت کی ۔تیتو میر اور ان کے حامیوں کی تحریک کو کچلنے میں ہندو اور مسلمان دونوں زمیندار شامل تھے۔ علاقے کے زمینداروں نے مشترکہ طور پرتیتو میر کی بغاوت کے خلاف انگریزوں سے مدد طلب کی اور ان سے فوج کشی کی درخواست کی۔چناں چہ 18نومبر1931کو گورنر جنرل لارڈ ولیم بینٹنگ کی ہدایت پر تیتومیراور ان کے ساتھیوں کے خلاف فوج کشی ہوئی اور 19 نومبر کی صبح یہ لڑائی شدت کے ساتھ شروع ہوئی ۔چوں کہ انگریزوں کے پاس جدید اسلحے تھے اس لیے تیتو میر اور ان کے ساتھی جلد ہی شکست سے دو چار ہوگئے مگر انہوں نے آخر وقت تک مقابلہ کیا۔اس لڑائی میں تیتو میر سمیت ان کے پچاس ساتھی شہید ہوگئے ۔
’’ ڈاکٹر داس گپتا یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ’’نوآبادیاتی مخالف کسانوں کی تحریک کی تاریخ میں تیتو میر اور ان کے وہابی پیروکار جبر و استحصال کے خلاف مستقبل کے کسان معاشرے کے لیے ایک پیغام لے کر نمودار ہوتے ہیں‘‘ کسان رہنما ہونے کے ساتھ وہ ایک اسلامی مبلغ بھی تھے۔ اپنی اسی پیچیدہ شناخت کی وجہ سے بھارت کی آزادی کے بعد بھی بنگال میں قائم ہونے والی حکومتوں نے، جس میں کانگریس اور بایاں محاذ دونوں شامل ہیں، بشیر ہاٹ کے نارکل بیڑیا میں ان کی یاد گار قائم کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی‘‘
استعماریت کو مضبوط کرنے کے لیے انگریزوں کی پالیسی’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کی رہی ہے۔ اس پالیسی کو مختلف سطحوں پر آزمایا گیا، معاشرے کو مذہبی بنیاد پر تقسیم کرنے کے لیے تاریخ کے ساتھ چھیڑ خانی کی گئی۔اس میں کسی حدتک انہیں کامیابی بھی ملی۔تیتو میر کی بغاوت کے بعد انگریزوں نے ان کی جدوجہد آزادی کو بدنام کرنے کے لیے ہندو مسلم فسادات اور ہندوؤں کے خلاف محاذ آرائی کا نام دیا گیا ۔چناں چہ انگریز مصنف جان رسل کولون نے تیتو میر کو ڈاکو قرار دیتے ہوئے لکھا کہ تیتو میر ہندوؤں کا مخالف تھا وہ تکثیری معاشرے کے بجائے مسلمانوں کی علیحدہ شناخت کا قائل تھا۔یہ علاقہ مدت سے ہندو مسلم دوستی اور رواداری کے اعتبار سے مثالی تھا مگر تیتو میرنے اپنے شدت پسندانہ رویہ کی وجہ سے سماجی تانے بانے کو شدید نقصان پہنچایا۔ مندروں پر حملہ کیا اور ہندوؤں کا قتل عام کیا۔
جاں رسل کا یہ مضمون تضادات سے بھرا ہوا ہے۔ایک طرف وہ تیتو میر کو ڈاکو اور چوروں کا سرغنہ قرار دیتے ہوئے لکھتا ہے کہ اسی وجہ سے اس کی گرفتاری ہوئی تھی اور وہ کمپنی کا مخالف بن گیا ۔دوسری طرف وہ تیتو میر کو مذہبی انتہا پسند بھی قرار دیتا ہے۔یقیناً تیتو میر سید احمد شہیدؒ کی تحریک اور ان کی مہم سے متاثر تھے مگر اس میں کوئی برائی نہیں ہے۔ سید احمد شہیدؒ بھارت کی تحریک آزادی کی وہ عظیم شخصیت ہیں جنہوں نے اپنے استاذ حضرت شاہ عبد العزیز کے فتوی جہاد پر لبیک کرتے ہوئےبھارت میں انگریزی تسلط کے خلاف میدان کارزار گرم کیا۔سید احمد شہیدؒ نے بھارتی عوام بالخصوص مسلمانوں میں انگریزوں کے خلاف جو جذبہ جہاد بیدار وہ بھارت کی تاریخ کا روشن باب ہے۔شاہ عبدا لعزیز اور ان کے شاگردسید احمد شہیدؒ نے اس وقت انگریزی تسلط کو چیلنج کیا جب کسی دوسری اقوام میں آزادی کے حصول کا شعور تک نہیں پیدا ہوا تھا۔چناں چہ سید احمد شہید ؒ کی تحریک سے متاثر ہونے کی وجہ سے کوئی بھی شخص معتوب نہیں ہوسکتا ہے۔
دراصل انگریز مصنفین اس طرح کی تاریخی تحریف کے ذریعہ اپنے مظالم اور زیادتیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔انگریزی قوم جس نے 19ویں صدی میں اپنی چالاکی اور مکاری سے دو تہائی دنیا کو اپنی کالونیوں میں تبدیل کرکے اپنے عیش و عشرت کا سامان فراہم کیا۔کسانوں سے زمین کے حقوق چھینے، غلاموں کی منڈیا سجائیں، نہتوں پر گولیاں چلائیں مگر ظلم کی داستان کو دنیا کے سامنے آنے نہیں دیا الٹا اس کے خلاف جدوجہد کرنے والے لیڈروں کو بدنام کرنے کے لیے ذرائع ابلاغ کا استعمال کیا۔
جہاں تک آر ایس ایس اور اس کے ہم خیال مصنفین کاسوال ہےتو اس حقیقت کو ہمیں ملحوظ رکھنا چاہیے کہ آر ایس ایس دراصل برہمنوں کی جماعت ہے۔ بھارت میں منووادی (منوسمرتی) نظام کا نفاذ ان کا خواب ہے۔ منوواد کا پورا نظام ذات پات پر مبنی ہے۔ان کے ناپاک مقاصد کی تکمیل کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ مسلمان ہیں، انہیں یقین ہے کہ منوواد کے نفاذ میں مسلمانوں کے علاوہ کوئی انہیں چیلنج نہیں کرسکتا ۔اس کے لیے ہندوؤں کو متحد کرنا ضروری ہے چناں چہ وقتی طور پر ذات پات کی تفریق کو کنارے لگاکر وہ مسلمانوں کے تئیں نفرت انگیز ماحول تیار کررہے ہیں۔منوواد کے حامی کبھی بھی قیادت و لیڈرشپ پسماندہ اور دلت طبقات کو نہیں دے سکتے ہیں۔بیشتر زمین دار اعلی ذات رہے ہیں۔ان کے مظالم کے شکار کسان تھے۔ زیادہ تر کسان مسلمان اور ہندوؤں کے پسماندہ طبقات تھے۔چناں چہ برہمنوں کی جماعت آر ایس ایس نے کبھی بھی کسانوں کی تحریک کو ابھرنے نہیں دیا۔ اس وقت بھارت میں کسانوں کی تحریک کے تئیں برہمنی میڈیا اور لیڈروں کے رویوں کو اسی آئینے میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔تیتو میر کی تحریک کو ہندو مسلم لڑائی قرار دینے والوں سے یہ سوال ضرور کرنا چاہیے کہ کیا تیتو میر کی تحریک میں مسلم زمین دار شامل تھے؟ یہ دعویٰ تو خود انگریز مصنفین بھی نہیں کرتے ہیں۔
***
تیتو میر کی تحریک کو ہندو مسلم لڑائی قرار دینے والوں سے یہ سوال ضرور کرنا چاہیے کہ کیا تیتو میر کی تحریک میں مسلم زمین دار شامل تھے؟ یہ دعویٰ تو خود انگریز مصنفین بھی نہیں کرتے ہیں۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 27 نومبر تا 03 نومبر 2022