ٹیرف وار : بھارت اور چین کی قربت وقت کا تقاضا

ایس سی او کانفرنس میں وزیراعظم کی شرکت ۔ پالیسی میں بڑی تبدیلی کا عندیہ!

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

بھارت-چین تجارت: کھاد، نایاب معدنیات اور سرنگ کھودنے والی ٹیکنالوجی کی برآمدات کا آغاز
ٹرمپ کے دوسری بار عہدہ صدارت سنبھالتے ہی ٹیرف جنگ کا آغاز ہوگیا۔ یہ حقیقت ہے کہ بین الاقوامی سیاست ایک بڑی تبدیلی کے دور سے گزر رہی ہے۔ چند ماہ پہلے تک مودی اور ٹرمپ کے درمیان بڑی گاڑھی چھنتی تھی، وہ ایک دوسرے کو ’’فرینڈ‘‘ کہہ کر پکارتے تھے، مگر آج ٹرمپ چین کو رعایت دیتے نظر آتے ہیں اور بھارت پر بھاری ٹیرف عائد کر رہے ہیں۔ اب ضروری ہوگیا ہے کہ نئی دہلی بدلے میں بیجنگ کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کرے۔ دوسری طرف ٹرمپ یوکرین اور یورپی یونین کی تشویش کو نظر انداز کرتے ہوئے روسی صدر کا امریکہ میں والہانہ استقبال کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی امریکی درندے لاکھوں ٹن گولہ بارود دے کر غزہ کے ہزاروں معصوم بچوں، عورتوں، بوڑھوں اور نہتے شہریوں کو موت کی نیند سلانے اور بھوکا مارنے کا ٹھیکہ اپنی ناجائز اولاد، اسرائیل جیسی مجرم صیہونی ریاست کو دے چکے ہیں۔ ایسے حالات میں ٹرمپ جیسے خبطی کو صرف ایک ہی فکر لاحق ہے: ’’میک امریکہ گریٹ اگین‘‘ (ماگا) کی۔ امریکہ کے بارے میں سابق وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے کہا تھا کہ ’’امریکہ کا دوست ہونا خطرناک ہوسکتا ہے، مگر اس کا دشمن ہونا تکلیف دہ۔‘‘
اب بھارت روس کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بناتے ہوئے چین کے ساتھ اپنے تنازعات کم کرنے کی راہ پر گامزن ہے۔ قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول کی دعوت پر چین کے وزیر خارجہ وانگ ای بھارت آئے، جن کا والہانہ استقبال کیا گیا۔ اپنے دورے کے دوران انہوں نے بھارت-چین سرحدی مسائل پر خصوصی نمائندوں کے 24ویں دور کی گفت و شنید میں شرکت کی۔ وہ وزیر خارجہ ایس جے شنکر اور وزیراعظم مودی سے بھی ملے۔ وزیراعظم نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ بھارت اور چین کے درمیان مستقل، مثبت اور تعمیری تعلقات عالمی امن کے لیے معاون ہوں گے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ گزشتہ سال قازان میں صدر شی جن پنگ کے ساتھ دو طرفہ نشست کے بعد باہمی تعلقات میں مسلسل بہتری آئی ہے۔
وزیراعظم نریندر مودی آئندہ 31 اگست کو شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کی سربراہی کانفرنس میں شرکت کے لیے چین جا رہے ہیں۔ بظاہر یہ دورہ معمول کا سفارتی اقدام معلوم ہوتا ہے، لیکن درحقیقت اس کا مقصد کہیں زیادہ اہم اور وسیع ہے۔ وزیر اعظم کا چین کا یہ سفر ایس سی او کانفرنس میں شرکت کے ساتھ ساتھ چین اور بھارت کے باہمی تعلقات میں بہتری کی سنجیدہ کوشش بھی ہے۔ یاد رہے کہ ایس سی او چین کی قیادت میں قائم ایک دفاعی و علاقائی سلامتی کا ادارہ ہے، جو بالخصوص وسطی ایشیائی ممالک کی سلامتی اور خودمختاری پر مرکوز ہے۔ اگر ہم گزشتہ دو برسوں کے ریکارڈ پر نظر ڈالیں تو پائیں گے کہ بھارت نے اس تنظیم میں نسبتاً کم دلچسپی کا مظاہرہ کیا ہے۔ 2023 میں بھارت کی صدارت میں منعقدہ 23ویں ایس سی او سربراہی کانفرنس کو ورچوئل شکل دے دی گئی تھی۔ اس کے علاوہ پاکستان میں ہونے والی پچھلی ایس سی او کانفرنس میں وزیراعظم نے شرکت نہیں کی تھی، بلکہ ان کی نمائندگی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے کی تھی۔
لیکن اب چین میں منعقد ہونے والی کانفرنس میں وزیراعظم مودی بذاتِ خود شرکت کر رہے ہیں۔ یہ بات واضح کرتی ہے کہ یہ صرف ایک رسمی شرکت نہیں بلکہ ایک بڑی پالیسی تبدیلی کا عندیہ ہے۔ تاہم اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ چین نے پاکستان سے اپنی پالیسی بدل لی ہے، اور نہ ہی بھارت و چین کے تعلقات 2020 کے سرحدی تنازع کے بعد مکمل طور پر بحال ہوئے ہیں۔ یاد رہے کہ 2023 میں بھارت میں ہونے والی جی-20 کانفرنس میں چینی صدر شی جن پنگ نے بھی شرکت نہیں کی تھی۔
ان تمام حالات کے پیش نظر ممکن تھا کہ وزیراعظم مودی ایس سی او کانفرنس میں شرکت نہ کرتے لیکن انہوں نے تعلقات کی بہتری کے لیے چین جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ حالانکہ چند ہفتے قبل ہی انہوں نے ’سودیشی‘ مصنوعات کے فروغ کی بات کرتے ہوئے غیر ملکی مصنوعات سے احتراز کا اعلان کیا تھا۔ یہاں تک کہ ہولی کے رنگ اور دیوی دیوتاؤں کی مورتیاں بھی باہر سے آتی ہیں۔ تو سوال یہ ہے کہ چین کو ’’لال آنکھ‘‘ دکھانے والے مودی اب چین کیوں جا رہے ہیں؟ اس کا جواب امریکہ کی بدلتی پالیسیوں، بالخصوص صدر ٹرمپ کے بھارت مخالف بیانات اور جارحانہ رویے میں پوشیدہ ہے۔ ٹرمپ کے سخت گیر مؤقف نے بھارت کو مجبور کیا ہے کہ وہ چین کے ساتھ اپنے تعلقات میں لچک پیدا کرے۔
اب بھارت کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی آ رہی ہے، جس میں غیر مغربی ممالک سے تعلقات کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ برکس (BRICS) اور ایس سی او جیسے پلیٹ فارموں کے ساتھ بھارت کے تعلقات میں بہتری کی امید ہے۔ چین کے ساتھ بھارت کے بہتر ہوتے تعلقات نہ صرف خطے کی سلامتی پر مثبت اثر ڈالیں گے بلکہ عالمی سطح پر بھی توازن قائم کرنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔ ان کے عالمی مفادات میں تنوع اور برابری کا پہلو موجود ہے۔ گزشتہ 75 برسوں میں بھارت اور چین نے بارہا جنگ و جدل کی راہ اپنائی، جس سے دونوں ہی کو نقصان ہوا۔ حالانکہ یہ دونوں متمدن اور قدیم تہذیبوں کے حامل ممالک ہیں، اس لیے اب ضروری ہے کہ وہ طویل المدتی اور مستحکم تعلقات کے لیے سنجیدہ کوششیں کریں۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں مثبت تبدیلی کا آغاز ہو چکا ہے۔
چین نے بھارت کو تین اہم اشیاء کی برآمدات کا آغاز کر دیا ہے، جن میں کھاد (فرٹیلائزر) نایاب ارضی معدنیات (Rare Earth Minerals) اور سرنگ کھودنے والی ٹیکنالوجی کی فراہمی شامل ہے۔ سرکاری ذرائع نے اس پیش رفت کی تصدیق کی ہے۔ ذرائع کے مطابق، بھارت اور چین کے وزرائے خارجہ وانگ ای اور ایس جے شنکر کے درمیان حالیہ گفت و شنید کے دوران بھارت کی جانب سے ان امور کو اجاگر کیا گیا، جس کے بعد چین نے یہ مثبت قدم اٹھایا۔ چینی وزیر خارجہ وانگ ای نے گفتگو کے دوران کہا کہ دونوں ممالک دو طرفہ تعلقات کو برقرار رکھنے پر رضامند ہو چکے ہیں۔ وانگ ای نے زور دیا کہ بھارت اور چین کو ایک دوسرے کو مخالف نہیں بلکہ شراکت دار کے طور پر دیکھنا چاہیے۔ انہوں نے بالواسطہ طور پر امریکہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یکطرفہ دھمکیوں کا رجحان بڑھ رہا ہے جو عالمی توازن کے لیے نقصان دہ ہے۔
اب وزیر خارجہ ایس جے شنکر بھارت اور روس کے مابین وقت کی کسوٹی پر پوری اترنے والی شراکت داری کو مزید مستحکم بنانے کے لیے ماسکو کے تین روزہ دورے پر جا رہے ہیں۔ روسی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ موجودہ عالمی دباؤ اور پابندیوں کے باوجود بھارت اور روس کے درمیان تعاون مضبوط اور دیرپا رہے گا۔
چین عالمی سطح پر امریکہ کو اپنی سب سے بڑی مسابقتی طاقت تصور کرتا ہے، جبکہ واشنگٹن نے بھی بیجنگ کو اپنا اہم ترین حریف قرار دے دیا ہے۔ اس پس منظر میں، حالیہ دنوں میں واشنگٹن اور نئی دہلی کے تعلقات میں بھی کشیدگی بڑھ گئی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے روس سے خام تیل کی خریداری کے جواب میں بھارتی مصنوعات پر ٹیرف 25 فیصد سے بڑھا کر 50 فیصد کر دیا۔ امریکہ کا مؤقف ہے کہ روس سے درآمد شدہ تیل کا فائدہ بھارتی عوام کو نہیں بلکہ چند امیر کاروباری طبقوں کو ہوا ہے اور اس تیل کی خریداری بالواسطہ طور پر روس-یوکرین جنگ کو طول دینے کا باعث بن رہی ہے۔ اس اچانک پیدا ہونے والی تلخی نے بھارت اور امریکہ کے درمیان ان شعبوں میں قائم ہونے والے قریبی تعلقات، خصوصاً دفاع اور ٹیکنالوجی میں شدید دھچکا پہنچایا ہے۔
اب چین کو یہ موقع ملا ہے کہ وہ عالمی سطح پر امریکہ کے اثر و رسوخ کو محدود کرنے کی اپنی دیرینہ خواہش کو عملی شکل دے اور اسی کوشش میں بھارت کے ساتھ تعلقات میں بہتری لائی جا رہی ہے۔ یہ عمل اس وقت نمایاں ہوا جب وزیراعظم مودی اور چینی صدر شی جن پنگ کی قزاقستان میں منعقدہ ’’ایمرجنگ اکنامیز سمٹ‘‘ میں ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے تجارتی رکاوٹوں کو ختم کرنے اور عوامی سطح پر آمد و رفت میں آسانی پیدا کرنے پر گفتگو کی۔
ٹکشالہ انسٹیٹیوشن، بنگلورو کے انڈو-پیسیفک اسٹڈیز کے سربراہ، منوج کیول رمانی کا کہنا ہے کہ دہلی اور واشنگٹن کے درمیان سیاسی اعتماد میں پیدا ہونے والا بریک ڈاؤن بیجنگ کے لیے نئی دہلی کے ساتھ تعلقات استوار کرنے میں مددگار ثابت ہو رہا ہے۔ یاد رہے کہ بھارت اور چین کے درمیان 2100 میل طویل مشترکہ سرحد ہے۔ چین اور پاکستان کے درمیان گہرے تعلقات اور بین الاقوامی مینوفیکچررز کا چین پر انحصار کم کرکے بھارت میں سرمایہ کاری کی طرف رجحان—یہ دونوں عوامل بھارت-چین تعلقات میں رکاوٹیں بنے ہوئے تھے۔ مزید برآں، ہمالیائی سرحد پر دونوں ممالک کے درمیان فوجی جھڑپیں بھی ہو چکی ہیں، جنہوں نے باہمی اعتماد کو مجروح کیا تھا۔
تاہم، موجودہ عالمی سیاسی ماحول میں چین اور بھارت دونوں ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں، جس کی جڑیں نہ صرف خطے کی سیاست میں ہیں بلکہ عالمی طاقتوں کے درمیان بدلتے رشتوں میں بھی تلاش کی جا سکتی ہیں۔ موجودہ حالات میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکہ اپنی غیر متوازن خارجہ پالیسیوں کے باعث بھارت کو غیر ارادی طور پر چین کے قریب دھکیل رہا ہے۔ چین بھی، جس نے ماضی میں کئی بار بھارت کے ساتھ کشیدگی اختیار کی، اب تعلقات بہتر بنانے کے لیے عملی اقدامات کر رہا ہے۔
جون میں چین نے بھارتی زائرین کو تبت کے مذہبی مقامات پر جانے کی اجازت دے دی، جو اعتماد سازی کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ اب دونوں ممالک ہمالیائی سرحدی علاقوں میں تین تجارتی پوسٹیں کھولنے پر بات چیت کر رہے ہیں۔ بھارت کی وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے گزشتہ ہفتے اس پیش رفت کی تصدیق کی۔ تین برسوں سے زیادہ کے عرصے میں پہلی بار چینی وزیر خارجہ وانگ ای بھارت پہنچے۔ ان کے استقبال کے موقع پر بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے کہا ’’جب دنیا کے دو بڑے ممالک آپس میں ملتے ہیں تو بین الاقوامی امور پر تبادلۂ خیال فطری بات ہے۔ ہم ایک متوازن، بہتر اور کثیر قطبی (multipolar) عالمی نظام کے خواہاں ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ عالمی معیشت میں استحکام پیدا ہو۔‘‘
اسی ماہ وزیر اعظم مودی کی چین کے مشرقی شہر تیانجن میں روسی صدر ولادیمیر پوتن اور چینی صدر شی جن پنگ سے ملاقات طے ہے۔ یہ تینوں رہنما مختلف سطحوں پر امریکہ سے اختلافات رکھتے ہیں جو ان کی باہمی قربت کا ایک سبب بن سکتا ہے۔ امکان ہے کہ اس ملاقات کے دوران مودی پاکستان کو دی جانے والی چینی امداد کا موضوع چھیڑنے سے گریز کریں گے، کیونکہ بیجنگ نے حالیہ دنوں میں نئی دہلی کے دوستانہ اشاروں کو خاصی اہمیت دی ہے۔
تاہم ان تمام مثبت پیش رفتوں کے باوجود، چین مسلسل سرحدی علاقوں میں نئی سڑکیں، ریلوے نیٹ ورک اور دیہات تعمیر کر رہا ہے جو چینی افواج کی جنگی تیاریوں کو تقویت دے سکتے ہیں۔ ان اقدامات سے بھارت میں خدشات پیدا ہو رہے ہیں کیونکہ دہلی پر یہ الزام لگتا رہا ہے کہ اس نے اپنی روایتی غیر وابستہ (non-aligned) خارجہ پالیسی کو ترک کر کے امریکہ کی قیادت میں بننے والے اتحادوں، خصوصاً کواڈ (QUAD) میں شمولیت اختیار کی ہے۔
بیجنگ کی نظر میں کواڈ جس میں امریکہ، آسٹریلیا، جاپان اور بھارت شامل ہیں، چین کو گھیرنے کی ایک کوشش ہے۔ چینی کمیونسٹ پارٹی کے سرکاری ٹیبولائیڈ گلوبل ٹائمز نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’’مودی کا حالیہ چین کا سفر دراصل امریکہ کی ناکام خارجہ پالیسی کو بے نقاب کرتا ہے۔‘‘ چین اور بھارت ہمسایہ ممالک ہیں اور ان کے درمیان تعاون کے کئی میدان موجود ہیں۔ اگر بھارت واقعی چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنانا چاہتا ہے تو بیجنگ کا اصرار ہے کہ اسے اپنی کچھ شرائط کو تسلیم کرنا ہوگا جن میں چینی کمپنیوں کے لیے بھارتی منڈی کو کھولنا اور پابندیوں میں نرمی لانا شامل ہے۔ مثال کے طور پر بھارت نے چینی آٹو کمپنی BYD کو مقامی فیکٹری قائم کرنے سے روک دیا تھا اور چینی سوشل میڈیا ایپ TikTok پر پابندی عائد کی تھی۔ چین کا مؤقف ہے کہ ان اقدامات کو واپس لیے بغیر اعتماد سازی ممکن نہیں۔
فودان یونیورسٹی (چین) کے جنوبی ایشیائی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ چین بھارت کو اپنی قیمت پر کسی بھی قسم کی رعایت دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ بیجنگ اس بات سے آگاہ ہے کہ بھارت چین کے پاکستان سے قریبی تعلقات پر ہمیشہ سے نالاں رہا ہے اور یہی عنصر مستقبل میں بھی رکاوٹ بن سکتا ہے۔ وزیراعظم مودی بھی اب چین کے ساتھ معاملات میں خاصی احتیاط برت رہے ہیں، کیونکہ ماضی میں صدر شی جن پنگ پر اعتماد کے بعد انہیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اب جب کہ امریکہ کے ساتھ بھارت کے تعلقات میں تناؤ آ چکا ہے، نئی دہلی نے چین کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے۔ یہ ایک ایسا قدم ہے جسے بیجنگ نہایت ہوشیاری اور حکمت سے پرکھ رہا ہے۔
چین کے ساتھ اعتماد کی بحالی آسان نہیں ہے۔ لائن آف ایکچوئل کنٹرول (LAC) پر کشیدگی نے نہ صرف فوجی بلکہ سیاسی سطح پر بھی گہرے زخم چھوڑے ہیں۔ تاہم موجودہ حالات میں وزیراعظم مودی اور صدر شی جن پنگ کے درمیان تعلقات مکمل میل ملاپ کے بجائے ایک مشترکہ مفاداتی بنیاد پر استوار کیے جا سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ پابندیوں اور کشیدگیوں کے باوجود، بھارت اور چین کے درمیان دو طرفہ تجارت 2024 میں 135 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئی ہے جس نے دونوں ممالک کو ایک دوسرے کا اہم تجارتی شراکت دار بنا دیا ہے۔ یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ اقتصادی مفاد اور زمینی حقیقتیں سیاسی تنازعات کے باوجود تعاون کی گنجائش باقی رکھتی ہیں۔

 

***

 چین اور بھارت کے درمیان تاریخی سرحدی کشیدگی کے باوجود، دونوں ممالک ہمالیائی سرحدی علاقوں میں تجارتی پوسٹیں قائم کر رہے ہیں، اعتماد سازی کے عملی اقدامات کر رہے ہیں اور دوطرفہ تجارت میں 2024 میں 135 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئی ہے۔ یہ سب عوامل ظاہر کرتے ہیں کہ اقتصادی مفاد اور زمینی حقیقتیں سیاسی تنازعات کے باوجود تعاون کی گنجائش برقرار رکھتی ہیں۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 07 اگست تا 13 اگست 2025

hacklink panel |
betorder giriş |
güncel bahis siteleri |
hacklink panel |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
şans casino |
deneme bonusu veren siteler |
gamdom |
gamdom giriş |
casino siteleri |
casino siteleri |
casino siteleri güncel |
yeni casino siteleri |
betorder giriş |
sekabet giriş |
2025 yılının en güvenilir deneme bonusu veren siteler listesi |
Deneme Bonusu Veren Siteleri 2025 |
deneme bonusu veren siteler |
deneme bonusu veren siteler |
taksimbet giriş |
betpas giriş |
bahis siteleri |
ekrem abi siteleri |
betebet giriş |
gamdom |
gamdom |
gamdom giriş |
gamdom |
betsat |
ronabet giriş |
truvabet |
venüsbet giriş |
truvabet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
onlyfans nude |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
Sweet Bonanza oyna |
hacklink panel |
betorder giriş |
güncel bahis siteleri |
hacklink panel |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
şans casino |
deneme bonusu veren siteler |
gamdom |
gamdom giriş |
casino siteleri |
casino siteleri |
casino siteleri güncel |
yeni casino siteleri |
betorder giriş |
sekabet giriş |
2025 yılının en güvenilir deneme bonusu veren siteler listesi |
Deneme Bonusu Veren Siteleri 2025 |
deneme bonusu veren siteler |
deneme bonusu veren siteler |
taksimbet giriş |
betpas giriş |
bahis siteleri |
ekrem abi siteleri |
betebet giriş |
gamdom |
gamdom |
gamdom giriş |
gamdom |
betsat |
ronabet giriş |
truvabet |
venüsbet giriş |
truvabet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
onlyfans nude |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
Sweet Bonanza oyna |