ترے بدنام کرنے سے کوئی بدنام کیا ہوگا

اقلیتوں کے محافظ تھے نظام حیدرآباد نوابمیرعثمان علی خاں بہادر

ڈاکٹر ضیا ء الحسن ،ناندیڑ

گرودوارے اور سکھوں کی حفاظت کے لیے فوری طور پر فوجی اقدامات لائق ستائش
مسلمانوں کی ناراضگی کی پروا کئے بغیر عید گاہ کی منتقلی مذہبی رواداری کا منہ بولتا ثبوت ہے
انصاف پسندحکم رانوں کی انسانیت نوازی اورمسلمانوں کے روشن ماضی سے نئی نسل کو آگاہ کرنے کی ضرورت
آزادی سے پہلے ریاست حیدرآباد بھارت کی سب سے بڑی دیسی ریاست تھی جس کا رقبہ انگلستان اور اسکاٹ لینڈ کے مجموعی رقبہ سے بھی زیادہ تھا۔ آصف جاہی سلاطین نے یہاں دوسو چوبیس سال ( ۱۷۲۴ تا ۱۹۴۸) حکومت کی۔ یہ ریاست چار صوبوں اور سولہ اضلاع پر مشتمل تھی۔ ملک کی سرکاری زبان اردو تھی۔ اس کے علاوہ یہاں مراٹھی،تلگو اور کنّڑ زبانیں بھی بولی جاتی تھیں۔ریاست میں ہندو اکثریت میں اور مسلمان دوسرے نمبر پر تھے ۔ان کے علاوہ سکھ ،عیسائی ،جین وغیرہ قومیں اقلیت میں تھیں۔نواب میر عثمان علی خاں بہادر (دور حکومت ۱۹۱۱ تا ۱۹۴۸) ریاست کے ساتویں اور آخری نظام تھے۔ان کے دور حکومت میں حیدرآباد نے ہر شعبہ میں ترقی کی تھی۔وہ ایک بادشاہ ہونے کے باوجود سیکولر حکم راں تھے۔اپنے بے مثل عدل و انصاف ،رعایا پروری ،مذہبی رواداری اور بے انتہا فیاضیوں کے لیے آج بھی یاد کیے جاتے ہیں ۔ مگر افسوس کہ جس سابق حکمراں نے بھارت چین جنگ کے دوران تقریباً پانچ ٹن سونا دے کر انڈین گورنمنٹ کی مدد کی تھی آج وہی حکمراں ہمارے ملک کے تنگ نظر سیاست دانوں کی نگاہوں میں بری طرح کھٹکتا ہے۔ان پر بے جا تنقیدیں کرنے اور ان کی شبیہ بگاڑنے کی کوشش کرنے والوں میں ملک کے نام نہاد سیکولر لیڈر بھی شامل ہیں۔حالانکہ بانیِ سلطنت آصفیہ نظام الملک آصف جاہ اوّل سے لے کر ساتویں اور آخری نظام میر عثمان علی خان تک سبھی حکم راں انتہائی صاف ذہن کے مالک تھے۔اپنے دور حکومت میں انہوں نے کبھی کسی فرقہ کے ساتھ امتیاز نہیں برتا بلکہ سب کے ساتھ انصاف کیا۔اپنے ہم مذہب مسلم عوام کی کبھی بے جا تائید نہیں کی۔یہ کہا جائے تو بےجا نہ ہوگا کہ ان کے دور حکومت میں ریاست حیدرآباد گنگا جمنی تہذیب کا جیتا جاگتا نمونہ تھی۔
نواب میر عثمان علی خان کی حکمرانی کے جشن سیمیں (۱۹۳۶)کے موقع پر ایک مجلہ’’یادگار سلور جوبلی آصف سابع‘‘شائع ہوا تھا۔اس مجلہ کے صفحہ ۴۵ پر ایک تحریر ہے کہ ’’مدراس، شیو مندر کی تحقیقات کے دوران جو دستاویزات عدالت میں پیش ہوئے تھے ان میں سے ایک دستاویز کے معائنہ سے اس امر کا ثبوت بہم پہنچا ہے کہ والیِ دکن مغفرت مآب نظام الملک آصف جاہ اوّل نے دو ہزار ایکٹر اراضی کا بیش قیمت عطیہ اس مندر کو عطا کیا تھا۔‘‘چنانچہ آخری نظام میر عثمان علی خان بھی اپنے بزرگوں سے چلی آرہی مذہبی رواداری کی اس روایت پر عمل پیرا رہے اور اپنے رعایا کے ساتھ ہمیشہ برابری کا سلوک کیا۔لیکن آج کے فرقہ پرست عناصر تاریخ کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں۔جھوٹے اور بے بنیاد الزامات لگا کر نظام سابع کو بدنام کرنے کی منظم کوششیں کرتے رہتے ہیں۔ان جھوٹے پروپیگنڈوں سے برادران وطن کے ذہنوں میں مسلمانوں اور مسلم حکمرانوں کے تئیں غلط فہمیاں اور نفرت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں جس سے قومی یکجہتی کے ماحول کو ہمیشہ نقصان پہنچا ہے۔ چونکہ ۱۷ ستمبر ۱۹۴۸ کے دن حیدرآبادی افواج نے انڈین یونین کی فوجوں کے آگے ہتھیار ڈالے تھے اس لیے اس واقعہ کی یاد تازہ رکھنے کی خاطر علاقہ مراٹھواڑہ میں ۱۷ ستمبر کو سرکاری طور پر’’مراٹھواڑہ مکتی سنگرام دن‘‘ منایا جاتا ہے۔اس دن عام تعطیل ہوتی ہے اور پرچم کشائی کی جاتی ہے۔یہی دن ناندیڑ کی سوامی رامانند تیرتھ مراٹھواڑہ یونیورسٹی کا یوم تاسیس بھی ہے۔
معروف محقق ڈاکٹر سید داؤد اشرف نے اپنی کتاب ’ریاست حیدرآباد کے آخری حکم راں کی وسیع النظری ‘میں نواب میر عثمان علی خان کی مذہبی رواداری سے متعلق مستند مواد (مع فرامینِ شاہی کا عکس) پیش کیا ہے جس سے کئی حقائق سامنے آتے ہیں اور غلط فہمیوں کا ازالہ ہوتا ہے۔
دریائے گوداوری کے کنارے آباد شہر ناندیڑ ستمبر ۱۹۴۸ء تک نظام کی ریاست حیدرآباد کا حصہ تھا۔لسانی بنیادوں پر ریاستوں کی تشکیل جدید کے بعد یہ ضلع مراٹھی ریاست مہاراشٹر کا حصہ بن گیا۔ناندیڑ شہر میں سکھوں کے دسویں اور آخری گرو ،گرو گوبند سنگھ جی کا گرودوارہ سچ کھنڈ حضور صاحب ہے جس کی زیارت کے لیے دنیا بھر کے سکھ آتے ہیں۔آخری نظام میر عثمان علی خان نے مساجد و منادرکے علاوہ اس گرودوارہ کو بھی کئی قیمتی اراضیات بطور انعام دی تھیں۔ ۲۴۸۱ فصلی سے ۷ مواضعات کی جاگیراور بموجب منتخب منظورہ سرکار ۲۵۷ ایکڑ ۲۷ بیگھے اراضی خالصہ اور ۱۰۹ ایکٹر ۸ بیگھے اراضی انعام بحال ہوئی تھی۔(تاریخ ناندیڑ دکن صفحہ ۶۲)
شہر ناندیڑ میں بہمنی دور حکومت میں تعمیر کی گئی ایک عیدگاہ تھی جہاں مسلمان عید کی نمازیں ادا کرتے تھے۔عید گاہ سے کچھ فاصلے پر گرودوارہ سچ کھنڈ کی عمارت ہے۔اس گرودوارے کی تعمیر مہاراجہ رنجیت سنگھ اور نظام سوم نواب سکندر جاہ کے وزیر مہاراجہ چندو لال کے مالی تعاون سے سن ۱۸۳۵ء کے آس پاس ہوئی تھی۔عید گاہ کا راستہ گرودوارے کے قریب سے ہوکر گزرتا ہے۔برسوں سے یہ دستور چلا آرہا تھاکہ مسلمانان ناندیڑ عیدین کی نماز پڑھنے کے بعد نعرے لگاتے ہوئے جلوس کی شکل میں اسی راستے سے واپس ہوا کرتے تھے۔اس پر کبھی کسی کو اعتراض نہیں ہوا تھا۔شہر کے سبھی فرقوں میں بھائی چارہ تھا۔بعد میں یہ خرابی پیدا ہونے لگی کہ بعض نا عاقبت اندیش مقامی مسلم رہنماؤں کے بہکاوے میں آکر جلوس میں شامل کچھ لوگ اشتعال پیدا کرنے والے نعرے لگانے لگے۔مسلمان لیڈروں کو اس بات پر بھی اعتراض تھا کہ عیدگاہ کے سامنے سے گزرتے ہوئے باجا نہیں بجانا چاہیے۔چنانچہ ان وجوہات کی بنا پر عیدین کے موقع پر شہر کا پر امن ماحول ختم ہونے اور فرقہ وارانہ کشیدگی پھیلنے کا اندیشہ لگا رہتا تھا۔لیکن ضلع انتظامیہ اور صلح پسند افراد کی کوششوں سے اب تک کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش نہیں آیا تھا۔
۲۰ مئی ۱۹۲۹ عیدالاضحی کا دن تھا۔ناندیڑ کے مسلمان عید کی نماز پڑھنے کے لیے صبح صبح عید گاہ پر جمع ہوئے ۔ان میں نوجوان ،بوڑھے اور بچے سبھی شامل تھے۔عید کی نماز کے بعد مسلمان حسب روایت قدیم جلوس کی شکل میں واپس ہونے لگے۔کہا جاتا ہے کہ اس دوران جلوس میں شامل کچھ افراد نے اشتعال انگیز نعرے لگائے ۔
حیدرآبادی مصنف نانک سنگھ نشتر اپنی کتاب ’سکھ۔ مسلم ریلیشنس‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’بقرعید کے موقع پر نماز عید کے لیے مسلمانوں کی کثیر تعداد عیدگاہ پر جمع ہوگئی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد اشتعال انگیز تقریریں شروع کردی گئیں تاکہ مرکزی گرودوارے پر زبردستی قبضہ کرکے وہاں نماز ادا کرنے کے لیے مصلّیوں کو اکسایا جا سکے۔ حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے ضلع کلکٹر نے فوری حضور نظام سے ربط پیدا کیا اور ان سے احکامات جاری کرنے کی درخواست کی۔ اس پر حضور نظام نے ہجوم بے قابو ہوجانے کی صورت میں فائرنگ کی اجازت دے دی۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔‘‘ (صفحہ ۲۲۵)
مسلمانوں کا جلوس نعرے لگاتے ہوئے اس چوراہے تک پہنچ گیا جہاں سے مرکزی گرودوارے کا فاصلہ تقریباََ سو میٹر ہے۔یہ منظر دیکھ کر سکھوں کا بے چین اور مشتعل ہوجانا فطری تھا۔چنانچہ سردار پورن سنگھ نامی سکھ نے اپنی دو نالی بندوق سے ہجوم پر گولی چلا دی جس سے دو مسلمان جائے موقع پر ہلاک ہوگئے۔شہر میں فرقہ وارانہ کشیدگی پھیل گئی۔نظام حیدرآباد نے حالات کے مزید بگڑنے کا انتظار کیے بغیر بہتر انتظامات اور گرودوارے کی حفاظت کے لیے فوج کی ایک ٹکڑی ناندیڑ روانہ کردی۔میجر جنرل سید احمد العیدروس جو بعد میں حیدرآبادی افواج کے سپہ سالار (کمانڈر ان چیف) بنے اپنی کتاب Hyderabad of Seven loaves میں لکھتے ہیں ’’جب ناندیڑ میں حالات کشیدہ ہوگئے تو فوج کی کمان کے ساتھ مجھے وہاں لا اینڈ آڈر قائم رکھنے اور سکھوں کے مذہبی مقام کی حفاظت کے لیے بھیجا گیا۔یہ موقع عید الاضحی یعنی بقرعید کا تھا ۔‘‘ اپنی ریاست کی ایک بہت چھوٹی اقلیت یعنی سکھوں اور ان کے مذہبی مقام کی حفاظت کے لیے کی گئی اس طرح کی عاجلانہ کارروائی حیدرآباد کے آخری مسلم فرماں روا کی نیک نیتی ،فرض شناسی اور اقلیتوں سے ان کی سچی ہمدردی کی بہترین مثال ہے۔آج کے حکم رانوں کو اس سے سبق لینا چاہیے۔
بہرحال شہر میں رفتہ رفتہ امن قائم ہونے لگا۔پورن سنگھ (جس کی گولیوں سے دو مسلمان ہلاک ہوئے تھے)اور کئی سکھوں کو گرفتار کیا گیا ۔سکھوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچا تھا اس لیے مسلمانوں پر کوئی مقدمہ درج نہیں کیا گیا۔پولیس کی رپورٹ کچھ اس طرح تھی کہ سکھوں کو غلط فہمی ہوئی کہ مسلمانوں کا ہجوم قریبی عید گاہ سے واپس ہوتے ہوئے گرودوارے پر حملہ کرنے آرہا ہے۔اس لیے فائرنگ کا واقعہ پیش آیا۔اس سانحہ کے بعد دونوں فریق نظام حیدرآباد سے رجوع ہوئے۔والی ریاست میر عثمان علی خاں نے ایک انصاف پسند حکمراں کا کردار ادا کرتے ہوئے کسی فریق کی تائید نہیں کی۔انہوں نے اس بارے میں ایک فرمان جاری کیا کہ ’’ناندیڑ کا دوسرا قضیہ جو کہ بقر عید کے موقع پر پیش آیا اس کے متعلق قرار پایا کہ اس کا تصفیہ عدالت کے ذریعہ سے ہو جو کہ بالذات ایک عدالتی کارروائی ہوگی جس میں انتظامی اْمور دخیل نہیں ہوسکتے اور فریقین باضابطہ عدالت میں رجوع ہوجائیں اور جو کچھ فیصلہ عدالت مجاز کرے وہ فریقین پر تعمیل کی حد تک واجب ہوجائے گا۔الحاصل یہ کہ انتظام جو میری گورنمنٹ کر رہی ہے وہ ایسا باضابطہ اور ایسا مبنی بر انصاف و بغیر کسی جانب داری لیے ہوئے ہے کہ جس پر کوئی ذی شعور فرد بشر اعتراض نہیں کر سکتا ۔چنانچہ اس سے متعلق ضروری کارروائی شروع کردی گئی ہے۔‘‘(مجلہ سلور جوبلی آصف سابع صفحہ ۱۱۱)
کچھ ہی دنوں میں عید گاہ کے واقعہ کی عدالتی کارروائی کا آغاز ہوگیا۔گواہ پیش ہوئے جرح ہوئی۔ مقدمہ کی پوری سماعت کے بعد مسلمانوں کے ہجوم پرفائرنگ کرنے والے پورن سنگھ کو عمرقید کی سزا سنائی گئی۔ اس کے علاوہ چالیس سکھوں کو مختلف مدت کی سزائیں ہوئیں۔
عید گاہ کو لے کر مستقبل میں ناخوشگوار واقعات ہونے کے امکانات تھے اس لیے نظام سابع نے مسلمانوں کی ناراضگی کی پروا نہ کرتے ہوئے ناندیڑ کی عیدگاہ کو مغرب سے مشرق کی سمت تقریباََ چار کلو میٹر دور منتقل کرنے اور قدیم عید گاہ کو مسجد میں تبدیل کرنے کا حکم صادرکیا۔چنانچہ اندرون ایک سال یعنی ۱۹۳۰ء میں سولہ ہزار روپے کے صرفہ سے دریائے گوداوری کے قریب نئی عیدگاہ کی تعمیر ہوئی۔قدیم عید گاہ آج بھی ’ مسجد عید گاہ قدیم‘ کے نام سے جانی جاتی ہے۔حالانکہ یہ مقامی سطح کی کارروائی تھی لیکن اس سے نواب میر عثمان علی خاں بہادر کی اقلیت دوستی نیک نیتی اور فراست کا پتہ چلتا ہے ۔در اصل وہ حقیقی معنی میں اقلیتوں کے محافظ تھے اور ان کی نیت میں کھوٹ نہیں تھا۔اس طرح نظام سابع کی دور اندیشی نے عید گاہ ناندیڑ کو لے کر مستقبل کے تمام ممکنہ خدشات کو ختم کر ڈالا جس سے سکھ اقلیت کا اعتماد ان پر بڑھ گیا۔ناندیڑ کا یہی ایک قضیہ نہیں بلکہ اس طرح کے کئی معاملات میں انہوں نے اپنے عوام کے ساتھ انصاف کیا تھا۔
یادگار سلور جوبلی مجلہ میں ’بے نقاب حقیقت‘ کے زیر عنوان میر خورشید علی خاں، نظام سابع کی رواداری اور بے تعصبی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’۔۔۔۔ اس عنوان کے تحت بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے لیکن بخوف طوالت پیوستہ سال کے اس فرمان مبارک کی یاد کافی ہے جس میں ایک پکے مسلم بادشاہ نے غیر مسلم جماعتوں کو اطمینان دلایا کہ جہاں تک تمہارے معاملات کا تعلق ہے ہم کو لا مذہب سمجھو اور یقین رکھو کہ تمہارے ساتھ وہی برتاؤ ہوگا جو ہم مسلمانوں کے ساتھ کریں گے۔‘‘( صفحہ ۱۰۳ )
حیدرآباد کے آخری نظام اپنے اس عہد پر قائم رہے اور ایک عادل بادشاہ کی طرح انہوں نے اپنے غیر مسلم عوام کے ساتھ ہمیشہ انصاف کیا۔
‏کیا آج کے موقع پرست سیاست داں اس طرح کی کوئی مثال پیش کرسکتے ہیں؟
یہ ایک اطمینان بخش بات ہے کہ گزشتہ چند برسوں سے فرقہ وارانہ یکجہتی کے حامی افراد کے ایک گروپ نے ستمبر کے مہینے میں سابق ریاست حیدرآباد کے اضلاع میں سقوط حیدرآباد اور پولیس ایکشن اور انضمام حیدرآبادجیسے موضوعات پر تقاریر کا سلسلہ شروع کیا ہے۔جس میں ان واقعات سے جڑے حقائق کو عوام کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔اس موضوع پر اردو اور انگریزی زبانوں میں چھپی اہم معلومات تقسیم کی جاتی ہیں۔ان جلسوں میں غیر مسلم مقررین بھی اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔البتہ نام نہاد سیکولر سیاسی جماعتوں سے وابستہ اکثر مسلم رہنما اپنے سیاسی آقاؤں کی خوشنودی کی خاطر ان پروگراموں سے دوری بنائے رکھتے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ آخری نظام میر عثمان علی خاں کی ریاست حیدرآباد میں اور بیرون ریاست کی گئی بے شمار عوامی خدمات خصوصاًان کے انصاف ،مذہبی رواداری ،رعایا پروری ،ہندوؤں اور مسلمانوں کے تعلیمی اداروں کو دیے گئے فیاضانہ عطیات وغیرہ جیسے موضوعات پر ہمارے اہل قلم اردو، انگریزی کے علاوہ مراٹھی، تلگو اور کنّڑ زبانوں میں وقتاً فوقتاً مضامین چھپواتے رہیں۔ غیر مسلم حضرات کو بھی یہ مضامین پڑھوائیں۔سال میں کم از کم ایک مرتبہ اس موضوع پر سیمینار ہو۔جس میں صاف ذہن رکھنے والے غیر مسلم حضرات کو بطور خاص مدعو کیا جائے۔ہماری نئی نسل اپنی تاریخ سے قطعی واقف نہیں وہ انہی باتوں کو سچ سمجھتی ہے جسے میڈیا پیش کرتا ہے۔چنانچہ نئی نسل کو حقائق سے آگاہ کرانا ہماری اہم ذمہ داری ہے۔اس طرح کی کوششوں سے حقائق عوام کے سامنے آکر غلط فہمیاں دور ہوسکتی ہیں اور ملک میں قومی یکجہتی کو فروغ مل سکتا ہے۔
حوالہ جات:
۱۔یادگار مجلہ سلور جوبلی آصف سابع ۱۹۳۶
۲۔ریاست حیدرآباد کے آخری حکمراں کی وسیع النظری ۲۰۱۴
۳۔تاریخ ناندیڑ دکن ۱۹۶۱
۴۔Sikh Muslim Relations 2015۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 17 ستمبر تا 23 ستمبر 2023