
تلنگانہ میں طبقاتی مردم شماری ایک اجمالی جائزہ
بی سی سروے کے اعداد و شمار میں تضادات: حکومت کے دعووں پر شکوک کا اظہار
زعیم الدین احمد ،حیدرآباد
حالیہ مردم شماری تلنگانہ میں پسماندہ عوام کی معاشی، سماجی اور سیاسی ترقی کے بجائے طبقاتی تقسیم کی عکاس
تلنگانہ حکومت کی جانب سے حالیہ دنوں میں بی سی سروے کرایا گیا اور اس کی رپورٹ کو اسمبلی میں بھی پیش کیا گیا۔ رپورٹ میں صرف مختلف طبقات کی آبادی کا تناسب پیش کیا گیا ہے لیکن ان طبقات کی دیگر صورت حال کی تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔ رپورٹ کےبعد ریاست کے مختلف گوشوں سے مثبت اور منفی ردعمل آنے لگا ہے، کچھ لوگوں نے اس پر تنقید کی ہے اور کچھ نے اس کو خوش آمدید کہا ہے، ان سب کے باوجود بی سی سروے 2024 تلنگانہ کے عوام کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے، یہ سروے تلنگانہ میں پائے جانے والے مختلف طبقات ان کی تعلیمی، معاشی اور سماجی صورت حال کی ایک اجمالی تصویر پیش کرتا ہے۔ اور ساتھ ہی یہ سروے مسلمانوں کی حیثیت کو بھی واضح کرتا ہے۔
کانگریس حکومت نے انتخابات کے دوران اور خاص طور پر راہل گاندھی نے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ ذاتوں کا سروے کرائیں گے، اسی کے پیش نظر حکومت تلنگانہ نے یہ سروے کروایا تاکہ مستقبل کی پالیسیوں، بجٹ اور تعلیمی ترقی کے منصوبوں کی تشکیل میں مددگار ثابت ہو۔
سروے میں استعمال کیا گیا طریقہ کار
اتم کمار ریڈی نے ایک پریس کانفرنس میں مذکورہ سروے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ اس سروے کو 94,863 شمار کنندگان اور 9,628 سپروائزروں کی مددسے پورا کیا گیا۔ سروے میں تلنگانہ کے 96.9 فیصد گھرانوں کا احاطہ کیا گیا ہے، یہ سروے 56 سوالوں پر مشتمل تھا۔ شہریوں سے ان کی ذات اور ذیلی ذات، آبادیاتی پیرامیٹرز جیسے نام، عمر، پیشہ، آمدنی، جائیداد اور صحت سے متعلق معلومات جمع کی گئی تھیں۔ کل 76 ہزار ڈیٹا انٹری آپریٹرز نے 36 دنوں کے اندر شہریوں سے لی گئی معلومات کو ڈیجیٹلائز کیا۔ سنٹر فار گڈ گورننس نے اس پروجیکٹ کو انجام دینے کے لیے ڈیجیٹل انفراسٹرکچر فراہم کیا لیکن اس سروے میں 3.1 فیصد گھرانوں نے انامریٹرس کا تعاون نہیں کیا۔ "1.03 لاکھ مکانات مقفل پائے گئے، 1.68 لاکھ خاندانوں نے ابتدائی طور پر حصہ لینے سے ہچکچا ہٹ ظاہر کی اور 84،137 مکانات کو غلط طور پر درج کیا گیا تھا، کیونکہ ان رہائشیوں کا تعلق تلنگانہ سے تھا ہی نہیں”۔
سماجی ،اقتصادی، تعلیمی، سیاسی، روزگار اور ذات (SEEEPC) سروے کے اعداد و شمار کے مطابق، بی سی آبادی ایک کروڑ 99 لاکھ 85 ہزار 767 یعنی 56.33 فیصد کا تعلق پسماندہ طبقات (BCs) پر مشتمل ہے، ان بی سی طبقات میں 35 لاکھ 76 ہزار 588 یعنی 10.08 فیصد کا تعلق مسلمانوں سے ہے۔ اسی طرح درج فہرست ذاتوں (SCs) کی آبادی 61 لاکھ 84 ہزار 319 یعنی 17.43 فیصد اور درج فہرست قبائل (STs) کی آبادی 37 لاکھ 5 ہزار 929 یعنی 10.54 فیصد ہے۔ دیگر ذاتیں یعنی (OCs) کی آبادی 56 لاکھ ایک ہزار 539 افراد یعنی 15.79 فیصد پر مشتمل ہے۔ ان میں 8 لاکھ 80 ہزار 424 یعنی 2.48 فیصد مسلمان او سی ہیں۔
سروے میں ریاست کی کل آبادی 3,54,77,554 بتائی گئی ہے اور 16 لاکھ لوگوں نے سروے میں حصہ نہیں لیا، اس طرح جملہ آبادی 3 کروڑ 70 لاکھ 77 ہزار 554 ہوگی۔
کیا نتائج حیران کن ہیں؟
2011 کی مردم شماری کے مطابق، ایس سی طبقے کی آبادی 54.09 لاکھ تھی، اس سروے میں ایس سی طبقے کی 61.84 لاکھ بتائی گئی ہے۔ جب کہ ایس ٹی طبقے کی آبادی 31.78 لاکھ تھی، جو اب بڑھ کر 37.05 لاکھ ہوگئی ہے۔ پسماندہ طبقات یعنی بی سی کو 2011 کی مردم شماری میں الگ سے شمار نہیں کیا گیا تھا، اس لیے ان کا حقیقی تناسب یا حقیقی اعداد و شمار نہیں بتائے جاسکے، البتہ تلنگانہ میں موجود پسماندہ طبقات کے ڈپارٹمنٹ کے مطابق یہ قیاس کیا جاتا رہا ہے کہ ریاست میں بی سی طبقات کا تناسب 50 فیصد سے زیادہ ہے۔ قیاس کے مطابق سروے میں بی سی طبقات ، آبادی کا 56.33 فیصد ہیں، اور اس میں مسلم کمیونٹی کے 10.08 فیصد کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ لیکن ان اعداد و شمار پر بی سی طبقات کے مختلف لیڈروں اور انجمنوں نے عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے، بعض بی سی قائدین نے مردم شماری کے طریقے کار پر ہی سوالات اٹھائے ہیں۔
بی سی طبقات کے حقوق کے لیے چالیس سال سے جدوجہد کرنے والے آر کرشنیا جو راجیہ سبھا کے ممبر بھی ہیں، انہوں نے سروے پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سروے میں سائنٹفک طریقہ کار نہیں اپنایا گیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ تلنگانہ میں بی سی طبقات کا تناسب مسلمانوں کو چھوڑ کر 52 فیصد ہونا چاہیے تھا۔ "ریاست میں OC کی آبادی کو ہمیشہ 8 فیصد مانا جاتا رہا ہے۔ اب کا تناسب مسلم او سی کو ملا کر 15.79 فیصد ہوگیا ہے۔ اس آٹھ فیصد کا اضافہ دراصل بی سی طبقات سے چھین کر کیا گیا ہے”۔
ایک اور بی سی قائد چنتا پنڈو نوین عرف تین مار ملنّا جو اس وقت کانگریس کے ایم ایل سی ہیں، انہوں نے سروے پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس سروے کو نذر آتش کردیا جانا چاہیے، سروے میں اعلیٰ ذاتوں کے تناسب کو بڑھا کر بتایا گیا ہے، اس میں اعلیٰ ذاتوں کی سازش نظر آتی ہے،کیونکہ اعلیٰ ذاتوں کو حاصل ہونے والے دس فیصد ای ڈبلیو ایس ریزرویشن کو بچانے کے لیے سروےمیں ان نام نہاد اونچی ذاتوں کے تناسب کو بڑھا کر بتایا گیا ہے۔
2014 میں جب تلنگانہ ریاست کا قیام عمل میں آیا تھا تو اس وقت کے وزیر اعلیٰ کے چندر شیکھر راؤ نے ایک ہمہ گیر خاندانی سروے یعنی "سمگرا کٹمبا سروے” کروایا تھا، گو کہ اس سروے کو اسمبلی یا سرکاری طور پر پیش نہیں کیا گیا لیکن اس میں ہر ایک فرد سے ساری تفصیلات لی گئیں تھیں، اس سروے کے مطابق تلنگانہ کی کل آبادی 3 کروڑ 63 لاکھ 95 ہزار 796 تھی۔ جن میں ایس سی طبقات کی آبادی 63 لاکھ ساٹھ ہزار 158 یعنی 18 فیصد، ایس ٹی طبقات کی آبادی 36 لاکھ 2 ہزار 228 یعنی 10 فیصد، مسلمانوں کی آبادی 46 لاکھ 25 ہزار 62 یعنی 13 فیصد اور دیگر او سی طبقات کی آبادی 31 لاکھ 29 ہزار 160 یعنی 8 فیصد تھی۔ لیکن حکومت ان اعدادوشمار کو صحیح ماننے کے لیے تیار نہیں ہے، وہ اس سروے کی قانونی حیثیت کو ہی تسلیم نہیں کر رہی ہے، جب کہ یہ سروے حکومتی اہلکاروں سے ہی کروایا گیا تھا۔
طبقاتی سروے اور 2014 میں کیے گئے سروے کے درمیان بہت سے تضادات پائے جاتے ہیں، جیسا کہ گزشتہ دس سال میں آبادی میں کوئی اضافے کا نہ ہونا، بی سی طبقات اور مسلم آبادی کا کم ہونا، اسی طرح او سی طبقات کی آبادی میں اضافہ وغیرہ ، اسی لیے مذکورہ طبقاتی سروے پر شکوک وشبہات پیدا ہو رہے ہیں۔
لیکن جب حکومت کے مختلف اداروں اور محکموں سے لیے گئے اعداد و شمار اور اس طبقاتی سروے کا موازنہ کیا جاتاہے تو اس میں بھی تضادات پائے جاتے ہیں، جیسا کہ الیکشن کمیشن کے مطابق تلنگانہ میں جملہ رائے دہندگان کی تعداد 3 کروڑ 32 لاکھ 32 ہزار 318 ہے۔ اسی طرح تلنگانہ کے محکمہ اعدادوشمار کے مطابق ریاست میں 0 سے 6 سال کی عمر کے بچوں کی تعداد 38 لاکھ 99 ہزار ہے، خانگی اور سرکاری اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کی کل تعداد 62 لاکھ 30 ہزار 504 ہے۔ اس طرح ریاست کی کل آبادی 4 کروڑ 33 لاکھ 61 ہزار 822 ہوتی ہے۔ لیکن سروے کے مطابق ریاست کی کل آبادی 3 کروڑ 70 لاکھ 77 ہزار 554 بتائی گئی ہے۔ یہ سارے اعداد و شمار حکومتی اداروں کے ویب سائٹ سے لیے گئے ہیں، ان کے مطابق تقریباً 62 لاکھ 82 ہزار لوگ آبادی سے کم ہوگئے ہیں۔اب عوام اس مخمصے میں ہیں کہ کن اعداد و شمار کو صحیح تسلیم کیا جائے؟ وہ اعداد و شمار جو حکومتی ویب سائٹس پر ہیں ان کو صحیح مانا جائے یا اس سروے کو جسے حکومت نے ابھی پیش کیا ہے؟
سروے کی اہمیت اس لیے زیادہ بڑھ گئی ہے کیوں کہ ریاست میں اور ملک میں بی سی طبقات کے لیے کوئی سیاسی ریزرویشن نہیں ہے، جس طرح ایس سی اورایس ٹی طبقات کے لیے پایا جاتا ہے، اتنی آبادی ہونے کے باوجود ان کو سیاسی ریزرویشن حاصل نہیں ہے۔ اگر ان طبقات کی قانون ساز اسمبلی اور پارلیمنٹ میں ان کی آبادی کے اعتبار سے نشستیں مخصوص کی جاتیں تو 50 فیصد سیٹیں انہی طبقات کی ہوتیں۔ لیکن انہیں کوئی ریزرویشن حاصل نہیں ہے۔ سیاسی پارٹیوں کے لیے یہ طبقات محض ووٹ بینک بنے ہوئے ہیں، ہر سیاسی پارٹی ان کی آبادی کی وجہ سے انہیں صرف اپنی طرف کھینچنا چاہتی ہے۔ ان کی آبادی کو دیکھ کر کانگریس نے انہیں 42 فیصد ریزرویشن دینے کا وعدہ کیا تھا، جسے کاماریڈی ڈکلیئریشن کہا جاتا ہے۔
بہر حال سروے سے ایک بات تو نکل کر سامنے آئی ہے کہ ریاست میں بی سی طبقات کا تناسب 56 فیصد سے زیادہ ہے، لیکن اسمبلی میں ان کی نمائندگی محض پندرہ فیصد ہے، یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ خود ساختہ اعلیٰ ذاتوں نے ان طبقات کے ساتھ ہمیشہ ناانصافی کی ہے، انہیں سیاسی، تعلیمی، معاشی اور سماجی طور پر دبانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے، ان کے حقوق کو مارا گیا ہے، ہر سیاسی پارٹی نے انہیں ووٹ بینک کے طور پر استعمال کیا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ان کے ساتھ ناانصافیوں کو ختم کیا جائے، ان کی آبادی کے تناسب سے انہیں سیاسی، تعلیمی، معاشی اور سماجی ریزرویشن دیا جائے۔
***
طبقاتی سروے اور 2014 میں کیے گئے سروے کے درمیان بہت سے تضادات پائے جاتے ہیں، جیسا کہ گزشتہ دس سال میں آبادی میں کوئی اضافے کا نہ ہونا، بی سی طبقات اور مسلم آبادی کا کم ہونا، اسی طرح او سی طبقات کی آبادی میں اضافہ وغیرہ ، اسی لیے مذکورہ طبقاتی سروے پر شکوک وشبہات پیدا ہو رہے ہیں۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 16 فروری تا 22 فروری 2025