
تلنگانہ میں ‘ رام راجیم’ گروپ کا انکشاف
بالاجی مندر کے پجاری پر حملہ ۔ انتہاپسندی کا سائیڈ ایفکٹ یا گہری سازش کا شاخسانہ!
ابومنیب، حیدرآباد
جمعہ 7؍ فبروری کا دن تھا اور سورج ابھی پوری طرح طلوع نہیں ہوا تھا کہ حیدرآباد کے قریب چلکور بالاجی مندر کے صدر پجاری رنگا راجن کے دروازے پر زوردار دستک ہوئی۔ جیسے ہی انہوں نے دروازہ کھولا تو سامنے چند افراد کو موجود پایا، جو مخصوص لباس پہنے ہوئے تھے۔ ان کے چہروں پر برہمی اور آنکھوں میں غضب تھا۔
’’ہمیں دھرم کی حفاظت کے لیے چندہ چاہیے اور ہمیں اپنی فوج میں نئے لوگوں کو بھرتی کرنا ہے ‘‘ان میں سے ایک نے کہا۔ رنگا راجن کو اس لہجے میں کچھ خطرہ محسوس ہوا۔
’’یہ مندر بھگوان کی پوجا کے لیے ہے، کوئی ذاتی لشکر بنانے کے لیے نہیں!‘‘ پجاری نے سختی سے انکار کیا تو ماحول میں تناؤ بڑھنے لگا۔
’’ہم ’رام راجیم‘ کے سپاہی ہیں، جو دھرم کے لیے لڑتے ہیں!‘‘ ایک اور شخص بولا۔
بات زیادہ طویل نہ ہو سکی۔ انکار کا جواب تشدد سے دیا گیا۔ پجاری پر حملہ کیا گیا، انہیں دھکے دیے گئے نتیجے میں وہ نیچے گر پڑے۔ اس کے بعد حملہ آور جلدی سے وہاں سے نکل بھاگے، مگر یہ خبر تیزی سے پھیل گئی۔ پولیس نے فوری کارروائی کرتے ہوئے چھ افراد کو گرفتار کر لیا، جن میں دو خواتین بھی شامل ہیں۔
ابتدائی تفتیش کے بعد پولیس نے انکشاف کیا کہ گروہ کا سرغنہ ویرا راگھوا ریڈی نوجوانوں کو دھرم کے نام پر گمراہ کر کے ایک مسلح جتھا بنانے کی کوشش کر رہا تھا۔ یہ گروہ سوشل میڈیا پر سرگرم تھا اور بھگود گیتا کے مخصوص اشلوک پوسٹ کر کے لوگوں کو نام نہاد ہندو احیاء کے نام پر رام راجیم آرمی میں شمولیت کی ترغیب دے رہا تھا۔ یہ انکشاف بھی ہوا کہ بھرتی ہونے والوں کو 20,000 روپے ماہانہ تنخواہ دینے کا اعلان کیا گیا تھا۔ گروہ نے یکم ستمبر 2024 سے 31 دسمبر 2024 کے درمیان بھرتیوں کا منصوبہ بنایا تھا۔
تحقیقات سے مزید پتہ چلا کہ 24 جنوری 2025 کو 25 افراد نے ویرا راگھوا ریڈی سے ملاقات کی اور کچھ دنوں بعد کوٹاپاکونڈہ پہنچے، جہاں فی کس دو ہزار روپے ادا کر کے ایک درزی سے مخصوص وردیاں تیار کروائی گئیں۔
6 فروری کو یہ گروہ حیدرآباد کے یاپرال علاقے میں جمع ہوا جہاں تنظیم کا بینر تھامے ویڈیوز اور تصاویر بنائی گئیں۔ یہ لوگ اگلے ہی دن 7 فروری کو تین گاڑیوں میں سوار ہو کر چلکور پہنچے اور پجاری رنگا راجن پر حملہ کر دیا۔
یہ واقعہ محض ایک فرد پر حملہ نہیں بلکہ ایک گہرے سماجی مسئلے کی نشاندہی کرتا ہے۔ہندوتوا کی سخت گیری کے وہ سائیڈ ایفیکٹس جو اب خود ہندو مذہبی شخصیات کو بھی نشانہ بنانے لگے ہیں۔ رنگا راجن، جو ایک پجاری ہیں اور مندر کے روایتی مذہبی فرائض انجام دیتے ہیں، انہیں اسی انتہا پسندی کا سامنا کرنا پڑا جو عام طور پر اقلیتوں کے خلاف دیکھی جاتی ہے۔جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جب شدت پسندی بے قابو ہو جاتی ہے تو وہ کسی ایک مذہب یا طبقے تک محدود نہیں رہتی بلکہ خود اپنے ہی ماننے والوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔
یہ معاملہ مذہبی شخصیات کے احترام پر بھی ایک بڑا سوالیہ نشان چھوڑتا ہے۔ رنگا راجن نے جب رام راجیہ کے نام پر ذاتی لشکر بنانے اور تشدد کی سیاست کو مسترد کیا تو ان پر حملہ کر دیا گیا۔ یہ رویہ نہ صرف مذہبی آزادی کی خلاف ورزی ہے بلکہ آئینی حق کے بھی منافی ہے جس کی رُو سے ہر فرد کو اپنے عقیدے کے مطابق زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے۔
یہ واقعہ ہمیں تحمل، برداشت اور بقائے باہمی کی ناگزیریت کی یاددہانی بھی کراتا ہے۔ بھارت جیسے متنوع سماج میں جہاں مختلف مذاہب، زبانیں اور ثقافتیں ایک ساتھ پروان چڑھتی ہیں، رواداری و برداشت کی ضرورت صرف اقلیتوں کے تحفظ کے لیے نہیں بلکہ پورے معاشرے کے استحکام کے لیے بھی ہے۔ جب سخت گیر نظریات اختلاف رائے کو دبانے لگیں تو نتیجہ ہمیشہ انتشار اور عدم استحکام کی صورت میں نکلتا ہے۔
بالاجی مندر کے پجاری رنگا راجن نے اپنی شکایت میں بتایا کہ سوشل میڈیا پر ایسی متعدد ویڈیوز موجود ہیں جن میں ویرا راگھوا ریڈی کھلے عام یہ دعویٰ کرتا دکھائی دیتا ہے کہ وہ اپنے مقصد کی تکمیل کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے، حتیٰ کہ جان لینے سے بھی گریز نہیں کرے گا۔ صدر پجاری نے اپنی درخواست میں واضح کیا کہ اگر ایسے افراد کو نکسلیوں کی طرز پر اپنی متوازی فوج کھڑی کرنے دی گئی تو یہ ریاست کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ بن سکتا ہے۔
رنگا راجن کے والد ایم وی سوندرا راجن نے، جو’’ٹیمپلز پروٹیکشن موومنٹ‘‘ کے کنوینر بھی ہیں، ایک بیان جاری کرتے ہوئے بتایا کہ چند لوگ جو خود کو ’ایکشواکو‘ قبیلے کے وارث سمجھتے ہیں، رام راجیہ کے قیام کے نام پر ایک ذاتی فوج بنا چکے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ جو بھی ان کے نظریے کو قبول نہیں کرے گا اسے سزا دی جائے گی۔ سوندرا راجن نے کہا کہ یہ لوگ آئینی رام راجیہ کے اصل تصور کو سمجھنے سے قاصر ہیں اور جب ان کے بیٹے نے ان کے ساتھ کسی بھی قسم کا تعلق رکھنے سے انکار کر دیا تو انہوں نے اس پر وحشیانہ تشدد کیا، اسے دھکے دیے اور اس پر مکے برسائے۔
اس معاملہ پر سیاسی قائدین کے تیزو تند بیانات بھی سامنے آئے۔ سابق وزیر آئی ٹی کے ٹی راما راؤنے جو بی آر ایس کے کارگزار صدر ہیں، اس حملے کی سخت مذمت کی اور واقعہ کے تیسرے دن رنگا راجن کے گھر جا کر ان سے ملاقات کی۔ بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ بنڈی سنجے نے بھی صدر پجاری کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا، جبکہ آندھرا پردیش کے نائب وزیر اعلیٰ پون کلیان نے اس واقعے کو بد قسمتی قرار دیا۔
اس واقعے کے بعد تلنگانہ کے وزیر اعلیٰ ریونت ریڈی نے رنگا راجن سے فون پر بات کی اور انہیں مکمل تحفظ کا یقین دلایا۔ انہوں نے پولیس کو ہدایت دی کہ تمام حملہ آوروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے اور کہا کہ ریاست میں کسی بھی شدت پسند گروہ کو پنپنے نہیں دیا جائے گا۔ قانون ہاتھ میں لینے والوں کو بخشا نہیں جائے گا۔ لیکن اس واقعہ سے کچھ مزید سوالات بھی ابھرتے ہیں:
کیا تلنگانہ جیسی جنوبی ہند کے ریاستوں میں ہندو شدت پسندی کو بڑھاوا دیا جا رہا ہے؟
کہیں سیاسی محرکات کے تحت کسی ’پراکسی‘ کے ذریعے ریاستی حکومت کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوشش تو نہیں ہورہی ہے؟
نوجوانوں کو شدت پسندی کی طرف دھکیلنے والی طاقتیں کون سی ہیں؟ اور
ریاستی حکومت اور مرکزی ایجنسیاں ان کے تدارک کے لیے کیا کر رہی ہیں؟
ان سوالات کے مد نظر اس واقعہ کے سیاسی پہلو کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔ لہٰذا جہاں حکومت کو اس طرح کے عناصر اور ان کے منصوبوں سے بروقت نمٹنے کی ضرورت ہے وہیں عوام کو بھی چوکس و باخبر رہنا ہوگا۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 23 فروری تا 01 مارچ 2025