تہذیب و ثقافت کے نام پر نصف آبادی کو شہریت سے محروم کرنے کی سازش پر قدغن
سپریم کورٹ نے شہریت قانون کی دفعہ 6A کے آئینی جواز کو برقرار رکھا
نوراللہ جاوید، کولکاتا
’’کسی دوسرے کو شہریت دینے سے مقامی آبادی کی تہذیب و ثقافت کے تحفظ کو خطرہ لاحق نہیں ہوتا‘‘
عدالت عظمیٰ کا فیصلہ شہریت ترمیمی ایکٹ کے آئینی جواز کے مقدمے پر اثرانداز ہونے کا امکان
غیر قانونی تارکین کی ملک بدری کے عمل کو عدالت کی نگرانی میں کرنے کی ہدایت
انسانی زندگی میں شہریت کا سوال زندگی اور موت کے سوال سے کم نہیں ہے۔ شہریت سے محروم افراد نہ صرف بے وطن کہلاتے ہیں بلکہ باوقار زندگی جیسے حق سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔ شہریت ریاست کے ساتھ تعلقات، حقوق اور ذمہ داریاں تین چیزیں فراہم کرتی ہے۔ شہریت معاشرے کی ترقی میں فرد کے کردار کا تعین کرتی ہے۔ سماجی تحفظ کے ساتھ معاشرے میں شمولیت، فیصلوں پر اثر انداز ہونے اور حق رائے دہی کے مواقع فراہم کرتی ہے۔ اس کے علاوہ شہریت دنیا کو سمجھنے، اقدار کو فروغ دینے اور اس پر عمل درآمد کا طریقہ سیکھنے میں مدد کرتی ہے۔ وہ لوگ جو کسی بھی ریاست کے شہری نہیں ہوتے ہیں وہ نہ صرف جیتے جی بے وطن کہلاتے ہیں بلکہ مرنے کے بعد دو گز زمین پر بھی ان کا حق نہیں ہوتا ہے۔ تعلیم، صحت اور روزگار جیسی بنیادی انسانی ضروریات تک بھی رسائی نہیں ہوتی ہے۔ شہریت کا یہی وہ سوال ہے جو گزشتہ نصف صدی سے زائد عرصے سے آسام کے لاکھوں شہریوں کے سروں پر ننگی تلوار کی طرح لٹک رہا ہے۔ اسی وجہ سے نے مفاد پرستانہ سیاست نے آسام کے بنگالی نژاد لاکھوں افراد کی زندگی کو جہنم بنا دیا ہے۔ 80 کی دہائی میں قتل و غارت گری کے بعد سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی اور آسام تحریک کی قیادت کرنے والے ’آل آسام اسٹوڈنٹ یونین‘ کے درمیان ایک معاہدہ کے ذریعہ طے پایا کہ 25 مارچ 1971 کی تاریخ حد کے طور پر اس شرط کے ساتھ مقرر کی جائے گی کہ اس کے بعد این آر سی نافذ کیا جائے۔ اس معاہدہ کے بعد آسام میں امن و امان قائم تو ہو گیا مگر شہریت کے نام پر لے جو نفرت کی دیوار کھڑی کی گئی تھی وہ نہیں گر سکی نتیجے میں چالیس سال بعد این آر سی کی حتمی رپورٹ آنے کے بعد بھی آسامی اور بنگالی کے نام پر نفرت انگیزی ختم نہیں ہوئی ہے بلکہ لسانی عصبیت پر مذہب کا تڑکا لگا کر اسے اور تیز کر دیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر اور کتنی جانیں لینے کے بعد یہ نفرت کا گھمسان ختم ہوگا؟ آسامی ثقافت اور فرقہ واریت کی کاک ٹیل کے بل پر سیاست کرنے والے آسام کے وزیر اعلیٰ ہمانت بسوا سرما نے جسٹس بلبھ مشرا کمیٹی کی سفارشات کو نافذ کرنے کا اعلان کر کے لاکھوں افراد کو شہریت سے محروم کرنے کی سازش شروع کر دی تھی لیکن 17 اکتوبر 2024 کو سپریم کورٹ کی پانچ رکنی بنچ نے 4-1 کی اکثریت سے جو فیصلہ دیا اس نے لاکھوں افراد پر شہریت ثابت کرنے کے بوجھ کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے اکثریت کے ساتھ واضح کر دیا ہے کہ شہریت ایکٹ کا سیکشن 6A آئینی روح کے خلاف نہیں ہے۔ گویا آسام میں 25 مارچ 1971 سے قبل تک آنے والا ہر شخص ہندوستانی شہری ہے۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر کسی بھی طبقے نے بے چینی کا اظہار نہیں کیا ہے۔ اس فیصلے کا خیر مقدم آسام تحریک سے وابستہ تنظیموں اور اہم شخصیات نے بھی کیا ہے جبکہ آسامی ثقافت و کلچر کی حفاظت کے نام پر مسلمانوں کو نشانہ بنانے والوں پر تو گویا بجلیاں گری ہیں۔ کیونکہ شہریت ایکٹ 6A کو چیلنج کرنے کا مقصد بھی یہی تھا کہ عدالت سے اس کو غیر قانونی قرار دے کر لاکھوں مسلمان کو بے وطن کر دیا جائے اور بنگالی ہندوؤں کو شہری ترمیمی ایکٹ کے ذریعہ شہریت سے نوازا جائے۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ کئی پہلو سے تاریخی ہے کیونکہ پہلی مرتبہ سپریم کورٹ نے آئین کے تحت شہریت کے معنی کی گہرائی سے جانچ کی۔ پہلی مرتبہ سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 29 کے تحت ثقافت کے حق کے مواد کی جانچ کی۔ پہلی مرتبہ سپریم کورٹ نے حق رائے دہی اور شہریت کے درمیان تعلق کی جانچ کی۔ 6A ایکٹ کو جائز ٹھیرانے کے ساتھ آسام معاہدہ کے تحت کٹ آف تاریخ کے بعد آسام میں داخل ہونے والے تمام افراد کو غیر ملکی قرار دیتے ہوئے قانون کے مطابق ملک بدر کرنے کی ہدایت دی ہے۔ اگرچہ یہ فیصلہ آسام کے تناظر میں ہے مگر اس کے اثرات دور رس ثابت ہوں گے کیونکہ سپریم کورٹ میں شہریت ترمیمی ایکٹ کے قانونی جواز کا معاملہ زیر سماعت ہے مگر جب شہریت ترمیمی ایکٹ کے قانونی جواز پر بحث شروع ہوگی تو اس فیصلے کا بار بار ذکر آئے گا۔ دوسرے یہ کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد خود آسام کی سیاست پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ آسامی ثقافت اور فرقہ واریت کے کاک ٹیل کے ذریعے سیاست کرنے والے آسام کے وزیر اعلیٰ ہمانت بسوا سرما کا اگلا قدم کیا ہوگا؟ کیا شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف مہم میں تیزی آئے گی؟ اس طرح کے کئی سوالات ہیں جو اس فیصلے کے بعد پیدا ہو سکتے ہیں۔ چیف جسٹس آف انڈیا، جنہوں نے اپنا فیصلہ خود لکھا اور جسٹس سوریہ کانت جنہوں نے تین ججوں کی طرف سے فیصلہ لکھا ہے، انہوں نے درخواست کو رد کرتے ہوئے شہریت اور ثقافت سے متعلق جو کہا ہے، وہ الفاظ ثقافت کے نام پر سیاست کرنے والوں کے لیے کسی تازیانے سے کم نہیں ہیں۔
شہریت ایکٹ 1955 کے سیکشن 6A پر اعتراضات
شہریت ایکٹ 1955 کے سیکشن 6A کے خلاف قانونی چیلنجز کی جڑیں 1985 کے آسام معاہدے سے ملتی ہیں۔ راجیو گاندھی کی حکومت اور آسام کے طلبا لیڈروں کے درمیان طے پانے والے معاہدے میں غیر قانونی امیگریشن کے الزامات، خاص طور پر بنگلہ دیش سے آنے والے غیر قانونی شہریوں کی وجہ سے آسام کی آبادیاتی اور ثقافتی شناخت پر اس کے اثرات کو حل کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اس معاہدے کے پیراگراف 5 میں سیکشن 6A کے ذریعے شہریت ایکٹ کی توضیح کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ یکم جنوری 1966 سے 25 مارچ 1971 کے درمیان آسام میں داخل ہونے والے تارکین وطن کو ہندوستانی شہریت دینے کا خاکہ پیش کرتے ہوئے کہا گیا کہ مذکورہ بالا عرصے کے دوران ہجرت کرنے والے یا تو فوری طور پر یا دس سال کے انتظار کے بعد شہری بن سکتے ہیں۔
آسام معاہدہ کے تیس برس بعد آسام سنملیتا مہا سنگھ نے نومبر 2012 میں سیکشن 6A کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے دلیل دی کہ اس ایکٹ میں ملک کے دیگر حصوں اور آسام میں شہریت دینے کے معاملے میں امتیازی سلوک برتا گیا ہے۔ دوسرا اعتراض یہ تھا کہ سیکشن 6A کے ذریعہ مہاجرین کے مخصوص گروہ کو ترجیح دے کر آئین کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ دسمبر 2015 میں سپریم کورٹ نے سیکشن 6A کو چیلنج کرنے والی عرضی پر سماعت کے لیے پانچ ججوں کی آئینی بنچ کو بھیج دیا۔ یکم نومبر 2022 کو آئینی بنچ نے سیکشن 6A کی آئینی جواز کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت کرنے کا فیصلہ کیا جس کے لیے 13 دسمبر 2022 کی تاریخ مقرر کی گئی اور فریقین کو ہدایت کی گئی کہ وہ اپنی تحریری گزارشات، نظیریں اور دستاویزی ثبوت پیش کریں۔ اس معاملے کی سماعت بالآخر 5 دسمبر 2023 کو آئینی بنچ کے سامنے شروع ہوئی۔ آسام کے متعدد مقامی تنظیموں نے سیکشن 6A جو یکم جنوری 1966 سے 25 مارچ 1971 سے قبل تک بنگلہ دیش سے آنے والے تارکین وطن کو بھارت کی شہریت حاصل کرنے کا اہل بناتی ہے، اس کو چیلنج کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ یہ بنگلہ دیش سے غیر قانونی امیگریشن کو جائز قرار دیتا ہے، اس طرح آسام کی ثقافتی، سماجی اور آبادیاتی سالمیت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ یہ استدلال کیا گیا کہ یہ شق آئین کے بنیادی تانے بانے کی خلاف ورزی کرتی ہے جیسا کہ تمہید میں بیان کیا گیا ہے، خاص طور پر بھائی چارے، شہریت، اتحاد اور ہندوستان کی سالمیت کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔ عرضی گزاروں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ دفعہ 6A آئین کے آرٹیکل 14 (مساوات) 21 (زندگی اور آزادی) اور 29 (ثقافتی حقوق کا تحفظ) کے تحت ضمانت یافتہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتی ہے۔ مزید برآں یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ یہ شق شہریوں کے سیاسی حقوق کو مجروح کرتی ہے جیسا کہ آرٹیکل 325 اور 326 کے تحت فراہم کیا گیا ہے جو انتخابی حقوق کو کنٹرول کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے سیکشن 6A کے پیچھے قانون سازی کی اہلیت کو بھی چیلنج کیا کہ بھارت کی شہریت کے حصول کے لیے ملک میں جو کٹ آف تاریخ متعین کی گئی ہے، یہ اس کے خلاف ہے۔ درخواست گزاروں نے یہ بھی دلیل دی کہ یہ شق جمہوری اقدار، وفاقیت اور قانون کی حکم رانی کو ختم کرتی ہے، جب کہ یہ سب آئین کے بنیادی ڈھانچے کے بنیادی اجزاء ہیں۔ ان دلائل کی بنیاد پر درخواست گزاروں نے کئی حل پیش کرتے ہوئے استدعا کی کہ عدالت آرٹیکل 14، 21 اور 29 کی خلاف ورزی کرنے پر سیکشن 6A کو غیر آئینی قرار دے۔ اس کے ساتھ ہی یہ مشورہ بھی دیا گیا کہ 1951 کے بعد آسام میں آنے والے بنگلہ دیشی تارکین وطن کو آباد کرنے کے لیے ریاستوں سے مشورہ کرکے ایک پالیسی مرتب کی جائے۔ عرضی گزاروں نے یہ بھی درخواست کی کہ مرکزی حکومت سرحد پر باڑ لگانے کا کام مکمل کرے اور آسام سے غیر قانونی تارکین وطن کی شناخت کر کے انہیں ملک بدر کرنے کے لیے اقدامات کرے اور آسام لینڈز اینڈ ریونیو ریگولیشنز کے تحت محفوظ قبائلی زمینوں سے تجاوزات کو ہٹایا جائے۔ خیال رہے کہ قبائلیوں کے لیے مخصوص زمینوں پر ناجائز قبضہ کے نام پر حالیہ برسوں میں آسام کی حکومت نے بڑے پیمانے پر انہدامی کارروائی کی ہے جس میں نشانے پر مسلمان رہے ہیں۔ آئینی بنچ میں جمعیۃ علمائے ہند سمیت کئی تنظیموں نے عرضی گزاروں کے خلاف فریق بن کر دلائل دیے۔
سپریم کورٹ کے ججوں کے فیصلوں کے اہم نکات
چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کی قیادت والی آئینی بنچ نے 17 اکتوبر 2024 کو شہریت ایکٹ 1955 کی دفعہ 6A کی آئینی جواز کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر 4-1 کی اکثریت سے فیصلہ سناتے ہوئے اعتراضات کو خارج کیا اور دفعہ 6A کے آئینی جواز کو برقرار رکھا۔ جسٹس پاردی والا نے الگ رائے اختیار کی اور انہوں نے اعتراضات کو تسلیم کیا۔ تاہم چیف جسٹس آف انڈیا چندر چوڑ، جسٹس سوریہ کانت، جسٹس ایم ایم سندریش اور جسٹس منوج مشرا نے دفعہ 6A کے آئینی جواز کو برقرار رکھا ہے۔ مذکورہ کیس میں کل تین فیصلے لکھے گئے جن میں چیف جسٹس آف انڈیا چندر چوڑ نے اپنا فیصلہ خود تحریر کیا جب کہ جسٹس سوریہ کانت نے جسٹس مشرا اور ایم ایم سندریش کی جانب سے دوسرے متفقہ فیصلے کو تحریر کیا۔
چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندر چوڑ نے اپنا فیصلہ لکھتے ہوئے کہا کہ 1985 میں مرکزی حکومت اور آسام تحریک میں شامل افراد کے درمیان معاہدہ کے ذریعہ غیر قانونی نقل مکانی کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل کا سیاسی حل نکالا گیا تھا۔ شہریت قانون کی دفعہ 6A اس سیاسی حل کا قانونی حل پیش کرتا ہے۔ جسٹس چندر چوڑ نے لکھا کہ پارلیمنٹ کے پاس اس شق کو نافذ کرنے کا قانون سازی کا اختیار ہے۔ علاوہ ازیں، سیکشن 6A آسام کی مقامی آبادی کو غیر قانونی امیگریشن کے اثرات سے بچانے کی ضرورت کے ساتھ انسانی خدشات کو متوازن کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ چیف جسٹس نے استدلال کیا کہ آسام میں مقامی آبادی میں تارکین وطن کا تناسب دوسری سرحدی ریاستوں کے مقابلے میں نمایاں طور پر زیادہ ہے۔ مغربی بنگال میں 57 لاکھ تارکین وطن آئے۔ آسام میں 40 لاکھ، لیکن آسام میں اس کے چھوٹے جغرافیائی رقبے کی وجہ سے اس کا اثر زیادہ گہرا تھا۔ چیف جسٹس چندر چوڑ نے 25 مارچ 1971 کی کٹ آف تاریخ کو معقول قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ کے خاتمے کے ساتھ موافق ہے۔ اس ایکٹ کو جنگ کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ چیف جسٹس چندر چوڑ نے کہا کہ 6A کے مقصد کو بنگلہ دیش کے بعد کی جنگ کے پس منظر میں سمجھنا ضروری ہے۔ عرضی گزاروں کے ذریعہ آئین کے آرٹیکل 29 (1) سے متعلق جو خدشات ظاہر کیے گئے تھے کہ اس ایکٹ کی وجہ سے لسانی اور ثقافتی ورثے کو محفوظ رکھنے کے جو حقوق فراہم کیے گئے تھے، اس کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے واضح کیا کہ آسام میں متنوع نسلی گروہوں کی موجودگی سے مقامی آبادی کے حقوق کی خود بخود خلاف ورزی نہیں ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ درخواست گزاروں کو یہ ثابت کرنا چاہیے کہ دیگر نسلی گروہوں کی موجودگی سے مقامی آبادی کی اپنی زبان اور ثقافت کی حفاظت کرنے کی صلاحیت کیسے متاثر ہوتی ہے۔
جسٹس سوریہ کانت نے اپنے دیگر دو ججوں جسٹس مشرا اور ایم ایم سندریش کی جانب سے جو فیصلہ لکھا ہے اس میں شہریت ایکٹ کی دفعہ 6A سے متعلق الگ نظریہ پیش کیا ہے۔ بالخصوص عرضی گزاروں کے دلیل کہ یہ شق آئین کی تمہید میں درج بھائی چارے کے اصول کی خلاف ورزی کرتی ہے، اس پر کافی اہم نکتے اٹھائے ہیں۔ جسٹس سوریہ کانت نے عرضی گزاروں کے دلائل کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے واضح کیا کہ بھائی چارے کے تصور کو تنگ نظری اور خارجی معنوں کے ذریعہ محدود نہیں کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے لکھا کہ بھائی چارے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ افراد یا برادریوں کو اس بات کا تعین کرنے کا حق ہونا چاہیے کہ ان کے پڑوسی یا ساتھی شہری کون ہوں گے۔ جسٹس سوریہ کانت نے کہا کہ دفعہ 6A واضح من مانی تشریح کرتے ہوئے دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس دفعہ کی وجہ سے بھائی چارے کے اصول کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ بیرونی جارحیت یا اندرونی خلفشار کا سبب بنتی ہے وغیرہ۔ جسٹس سوریہ کانت نے فیصلہ تحریر کرتے ہوئے لکھا کہ کٹ آف تاریخ کی بنیاد پر واضح من مانی کی دلیل ہمیں قبول نہیں ہے۔ انہوں نے اس دلیل کو بھی خارج کر دیا کہ دفعہ 6A شہریت قانون کے سیکشن 9 سے متصادم ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ شہریت ایکٹ، 1955 کی دفعہ 9 ایسے معاملات میں شہریت کے خاتمے سے متعلق ہے جہاں بھارتی شہری دوسرے ملک کی شہریت حاصل کرتا ہے۔ اپنے فیصلے کے ذریعے جسٹس سوریہ کانت نے واضح کیا کہ دونوں دفعات ایک ساتھ رہ سکتے ہیں اور انہیں ہم آہنگی کے طور پر دیکھنا چاہیے۔ انہوں نے یہ بھی نوٹ کیا کہ سیکشن 6A مستقل طور پر شہریت نہیں دیتا اور اسے مخصوص شرائط کے تحت نافذ کیا جانا چاہیے، جب کہ 25 مارچ 1971 کے بعد داخل ہونے والے تارکین وطن کو شہریت نہیں دی جا سکتی۔ اس سوال پر کہ آیا سیکشن 6A آئین کے دیباچے میں درج بھائی چارے کے اصول کی خلاف ورزی کرتا ہے، جسٹس سوریہ کانت نے اس دلیل کو خارج کرتے ہوئے تبصرہ کیا کہ بھائی چارے کو تنگ معنوں میں نہیں سمجھا جا سکتا ہے۔ کسی بھی شہری کو اپنے پڑوسی کے انتخاب کا حق حاصل نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ دفعہ 6A آرٹیکل 21 اور 29 (جو زندگی کے حق اور زبان اور ثقافت کے تحفظ کے حق کا تحفظ کرتے ہیں) سے متصادم نہیں ہے۔ تاہم جسٹس سوریہ کانت نے آسام میں مشتبہ غیر قانونی تارکین وطن کی حیثیت کا تعین کرنے کے لیے فارنرز ٹربیونلز کے قیام پر زور دیتے ہوئے کہا کہ 25 مارچ 1971 کے بعد داخل ہونے والے تارکین وطن کو شہریت نہیں دی جا سکتی۔ جسٹس سوریہ کانت نے اس حقیقت کو بھی تسلیم کیا کہ سیکشن 6A آسام میں غیر قانونی امیگریشن کو روکنے میں اہم کردار ادا نہیں کرتی، اس لیے انہوں نے غیر قانونی نقل و حرکت کو روکنے اور سرحدی ضابطے کو متعین کرنے کے لیے چند ہدایات بھی جاری کی ہیں۔ انہوں نے چیف جسٹس آف انڈیا سے یہ بھی گزارش کی کہ وہ عدالت کا ایک بنچ تشکیل دیں تاکہ آسام میں غیر قانونی تارکین وطن یا غیر ملکیوں کی شناخت کرنے اور ملک بدری کی نگرانی مقررہ وقت میں کی جائے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
یہ بہت اہم سوال ہے۔ یہ فیصلہ یقینی طور پر آسام میں اپوزیشن اور سی اے اے مخالف گروپوں کے لیے ایک اہم موقع فراہم کرتا ہے۔ یہ وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا سرما کے لیے ایک دھچکا ہے۔ شہریت ترمیمی ایکٹ کے نفاذ کے بعد آسام کی مقامی آبادیوں میں بے چینی پائی جاتی تھی۔ اس دوران آسام میں شہریت کے لیے 1951 کے کٹ آف کی طرف پیچھے لوٹنے کے مطالبے کو بی جے پی اور سرما دونوں نے اس مطالبے کی پس پردہ حمایت کی تاکہ ناراضگی ختم کی جا سکے۔ اب جب کہ سپریم کورٹ نے کٹ آف کی تاریخ واضح کر دی ہے اور غیر قانونی تارکین وطن کی شناخت اور ملک بدری کے عمل کو عدالت کی نگرانی میں کرنے کی ہدایت دی ہے تو ایسے میں سوال یہ ہے کہ شہری ترمیمی ایکٹ کا نفاذ کیسے ہوگا؟ اس فیصلے نے متنازعہ شہریت ترمیمی ایکٹ 2019 کو ختم کرنے کے لیے آسام کی تنظیموں کے دیرینہ مطالبے کو بھی تقویت دی ہے۔ کیوں کہ 2019 کا شہری ترمیمی ایکٹ 1971 کے بعد بنگلہ دیش سے آسام میں داخل ہونے والے بنگالی ہندوؤں کو سیکشن 6A کے اطلاق سے باہر نکلنے کا راستہ فراہم کرتا ہے۔ اسی سال 5 جولائی کو سرما حکومت نے ریاست کی سرحدی پولیس کو ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ غیر مسلم تارکین وطن کے مقدمات کو فارن ٹربیونلز کے پاس نہ بھیجا جائے۔ اس کا مطلب صاف تھا کہ صرف مبینہ مسلم تارکین وطن کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ آسام حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے کے ساتھ آسام کے لوگوں کی "ثقافتی اور لسانی وراثت” کو محفوظ رکھنے کے لیے اپنی پالیسیوں کو کس طرح ہموار کرتی ہے۔ آل آسام اسٹوڈنٹس یونین، جس نے 1970 اور 80 کی دہائیوں میں غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف تحریک کی قیادت کی تھی، اس فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ آسام معاہدے کے مکمل نفاذ کی راہیں صاف کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے آنے والے غیر مسلم تارکین وطن کے لیے دسمبر 2014 کی شہریت کی کٹ آف تاریخ، جیسا کہ CAA کے ذریعے فراہم کیا گیا ہے، اب جب کہ سپریم کورٹ نے 25 مارچ 1971 کو واضح کٹ آف تاریخ کے طور پر مقرر کیا ہے، وہ بے اثر ہو جائے گا۔ اگرچہ کہ سپریم کورٹ نے اس فیصلے میں سی اے اے پر تبصرہ نہیں کیا ہے لیکن اس نے واضح طور پر اس دلیل کو بھی مسترد کر دیا کہ آسام میں مختلف ثقافت کے حامل لوگوں کو رہنے کی اجازت دینے سے آسام کی ثقافت کمزور ہو جائے گی۔ سی اے اے کے خلاف سپریم کورٹ کے سامنے زیر التوا قانونی چیلنج پر کس طرح اثرات ہوں گے، یہ دیکھنا ہوگا۔ مگر ایک خدشہ یہ ہے کہ جسٹس سوریہ کانت کے اکثریتی فیصلے میں وہ ہدایات بھی شامل ہیں جن کی آڑ میں غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف کریک ڈاؤن کی کارروائی میں تیزی آسکتی ہے۔ کیوں کہ جسٹس سوریہ کانت نے واضح طور پر کہا ہے کہ 1950 کا ایکٹ ریاست کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ ہندوستان کے عام لوگوں یا اس کے کسی بھی طبقے یا آسام میں کسی درج فہرست قبائل کے مفادات میں آسام سے کسی تارک وطن کو بے دخل کرنے کا حکم دے۔ اس لیے اب یہ دیکھنا ہوگا کہ غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف کارروائی کے پورے عمل میں شفافیت برتی جاتی ہے یا نہیں، کیوں کہ سرما حکومت نے ماضی میں کارروائی کے نام پر صرف مسلمانوں کو نشانہ بنایا ہے۔ بلکہ وہ مسلمان بھی نشانے پر آئے ہیں جو آزادی سے قبل سے آسام میں آباد ہیں۔
بلاشبہ یہ فیصلہ آسام کے تناظر میں آیا ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ اس فیصلے کا مغربی بنگال سمیت ملک کے دیگر حصوں اور شہریت ترمیمی ایکٹ پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ شہریت ایکٹ 1955 کے سیکشن 6A کی آئینی حیثیت کی حمایت میں آئینی بنچ کے سامنے پیش ہونے والے شاداں فراست سپریم کورٹ کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عدالت نے آئین کے تحت شہریت کے سوال کو لبرل اور وسیع تناظر میں دیکھا ہے۔ اس کو ثقافت اور بھائی چارے کے نام پر محدود کرنے کی ہر کوشش کو مسترد کیا ہے۔ تاہم غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف کارروائی کی ہدایت دے کر توازن قائم کرنے کی بھی کوشش کی گئی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ سپریم کورٹ کے سامنے 6A کو چیلنج کرنے کی ایک بنیادی وجہ یہ بیان کی گئی تھی کہ دفعہ 6A کی موجودگی آسام کے مقامی لوگوں کے ثقافت کے تحفظ کے حق کی خلاف ورزی کرتی ہے اور اس لیے یہ غیر آئینی ہے۔ مگر عدالت نے اکثریت کے ساتھ اس دلیل کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 29 کا مقصد شہریوں کے کسی بھی گروپ کی ثقافت کو محفوظ کرنا ہے، لیکن کسی دوسری ثقافت کے بیک وقت وجود کو نہیں روکتا ہے۔ اس فیصلے کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ آرٹیکل 29(1) بنیادی طور پر شہریوں کے کسی بھی طبقے کے ثقافتی طریقوں کے حوالے سے ریاست کی مداخلت کو مطلق طور پر نہیں روکتا ہے۔ کسی کو بھی شہریت دینے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ مقامی لوگوں کو اپنی تہذیب و ثقافت کے تحفظ کو روکتا ہے۔ مستقبل میں آئینی فیصلے کے بہت سے مختلف حالات میں ممکنہ طور پر اس کا اطلاق کیا جا سکتا ہے۔ مجموعی طور پر سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ اکثریت، اقلیت اور متفق، ہندوستان میں شہریت کے مختلف پہلوؤں پر ایک اہم پہلا تبصرہ ہے اور ان اہم مباحثوں اور نقطہ نظر کی روشنی میں امکان ہے کہ مستقبل میں سماعت کیے جانے والے مقدمات کو حل کیا جائے، تقابل کیا جائے یا پھر توسیع کی جائے، بشمول شہریت ترمیمی ایکٹ 2019 کی آئینی حیثیت جو سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔
***
سپریم کورٹ کی اہم ہدایات
شہریت ایکٹ 1955 کا سیکشن 6A آئین کی حدود میں آتا ہے اور یہ قانون سازی کا ایک درست حصہ ہے۔
(1) تارکین وطن جو 1966 سے پہلے آسام میں داخل ہوئے تھے وہ بھارت کے شہری سمجھے جائیں گے
(2) تارکین وطن جو یکم جنوری 1966 سے 25 مارچ 1971 کی کٹ آف تاریخوں کے درمیان آسام میں داخل ہوئے ہیں وہ سیکشن 6A میں بیان کردہ اہلیت کی شرائط کے ساتھ شہریت حاصل کرسکتے ہیں۔
(3) تارکین وطن جو 25 مارچ 1971 کی کٹ آف تاریخ کو یا اس کے بعد ریاست آسام میں داخل ہوئے وہ سیکشن 6A کے تحت دیے گئے تحفظ کے حق دار نہیں ہیں اور نتیجتاً، انہیں غیر قانونی تارکین وطن قرار دیا جائے گا۔
(4) آسام میں غیر قانونی تارکین وطن یا غیر ملکیوں کی شناخت کے لیے جو قانونی مشینری اور ٹربیونلز کو کام سونپا گیا ہے وہ تارکین وطن (آسام سے اخراج) ایکٹ کے ساتھ پڑھے گئے سیکشن 6A کے قانون سازی کے مقصد کو وقتی اثر دینے کی ضرورت کے مطابق ناکافی اور مناسب نہیں ہیں۔ 1950، فارنرز ایکٹ، 1946، فارنرز (ٹربیونلز) آرڈر، 1964، پاسپورٹ (انٹری ان انڈیا) ایکٹ، 1920 اور پاسپورٹ ایکٹ، 1967اور امیگریشن اور شہریت سے متعلق قانون سازی کو محض انتظامیہ کی مرضی اور صوابدید پر نہیں چھوڑا جا سکتا ہے، عدالت کی طرف سے اس کی مسلسل نگرانی کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لیے، اس معاملے کو عزت مآب چیف جسٹس آف انڈیا کے سامنے رکھا جائے تاکہ اوپر دی گئی ہدایات کے نفاذ کی نگرانی کے لیے ایک بنچ تشکیل دیا جا سکے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 27 اکتوبر تا 2 نومبر 2024