سہیل بشیر کار، کشمیر
جماعت افراد کے مجموعے کا نام ہے۔ لیکن ایسا مجموعہ نہیں کہ جسے ہم بھیڑ کہتے ہیں۔ اگر یوں ہی کسی جگہ لوگ اکٹھے ہوجائیں تو انہیں جماعت نہیں کہتے۔ جماعت لوگوں کے ایک ایسے مجموعے کو کہتے ہیں جس کے اندر کسی ایک مقصد پر اتحاد ہوگیا ہو۔اگران کی زندگی کے کاموں میں انتشار ہے اور وہ کسی ایک مقصد پر متحد نہیں ہیں تو انہیں جماعت نہیں کہہ سکتے۔
زیر تبصرہ کتاب "تحریک سے محبت” ڈاکٹر محی الدین غازی کی 224 صفحات پر مشتمل؛ تحریک اسلامی سے وابستہ نفوس کے لیے ایک اہم کتاب ہے۔ اس کتاب میں اجتماعیت کے حوالے سے اہم باتوں کو بیان کیا گیا ہے۔
پہلا باب بنام "اسلامی تحریک میں محرک کی اہمیت” میں مصنف لکھتے ہیں: "دینی کاموں کا دینی محرک دل کی گہرائیوں میں پوشیدہ ہوتا ہے۔ دل پر شیطان کی مسلسل یلغار رہتی ہے۔ ہر آن ایک کشمکش کا سماں رہتا ہے۔ مختلف محرکات اپنی جگہ بنانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ ہمیشہ دھڑکا لگا رہتا ہے، کہیں ایسا نہ ہو جائے کہ باہر تو سب کچھ ٹھیک چلتا رہے لیکن خانہ دل کسی شیطانی حملے کا نشانہ بن جائے اور دینی محرک کو بے دخل کر کے دوسرے محرکات دل کی سلطنت پر قابض ہو جائیں۔ اس لیے محرک کے بارے میں چوکسی بہت ضروری ہے۔” (صفحہ 7)
اس باب میں مصنف تحریک سے وابستہ افراد کو سمجھاتے ہیں کہ تحریک اسلامی کے لیے صحیح محرک کا ہونا لازمی ہے۔ یہ تحریک کی حیات ہے کہ وابستگان کا محرک صرف اور صرف رضائے الٰہی ہو یہ محرک ہے جو تحریک کی حیات ہے۔ یہ محرک جوش و جذبہ کو ہمیشہ تازہ دم رکھتا ہے، جہاں ہر طرف مایوسی ہو وہاں یہ وابستگان کو مایوس نہیں ہونے دیتا، یہ رضائے الٰہی ہی مقصود ہونے سے بندہ کے اندر بددلی نہیں ہوتی، بندہ کو عہدہ و منصب سے لالچ پیدا نہیں ہونے دیتا اللہ کی رضا کے لیے کوشش کرنے والے ستائش کے مسئلے سے آزاد ہوتے ہیں، چونکہ اسلام اپنے وابستگان سے آزمائشوں میں ثابت قدمی کا تقاضا کرتا ہے اور صحیح محرک ہی ان آزمائشوں کو آسان کر دیتا ہے، یہ محرک ہی ہے جس کی وجہ سے انسان کے اندر کریڈٹ کی فکر نہیں رہتی، بندہ کو تنظیم میں جو بھی کام ملے وہ اس پر راضی رہتا ہے، یہ محرک ہر چیز میں پائیداری عطا کرتا ہے۔
عام طور پر لوگوں کو شکایت رہتی ہے کہ جو لوگ تحریک میں ہوتے ہیں ان کے ہاں عبادات میں کمی پائی جاتی ہے لیکن اسلام جس اجتماعیت کا تقاضا کرتا ہے اس میں عبادت کا شوق ہونا لازمی ہے، مصنف نے کتاب کے دوسرے باب "للّٰہیت کا رنگ اور عبادت کا شوق” میں وابستگان تحریک سے بتایا ہے کہ کس طرح عبادت کا جذبہ سرد نہیں پڑھ جانا چاہیے۔ مصنف لکھتے ہیں :”اللہ کی محبت انسان کو اس کی عافیت گاہ سے نکال کر میدانِ کارزار میں لاتی ہے جہاں وہ اللہ کے دین کو قائم کرنے کے لیے کوشش و محنت کرتا ہے۔ اللہ کی محبت ہی انسان کو اس کی آرام گاہ سے اٹھا کر عبادت گاہ میں لاتی ہے جہاں وہ قیام و سجود کرتا ہے۔ اسلامی تحریک محبت کے ان دونوں مظاہر سے عبارت ہوتی ہے۔ اسلامی تحریک کے ہر کارکن سے توقع کی جاتی ہے کہ اس کی شخصیت ان دونوں ہی خوبیوں سے آراستہ ہوگی۔ ” (صفحہ 23)
مصنف نے قرآن کریم سے دلائل پیش کیے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وابستگان تحریک میں کس طرح یہ دونوں پہلو ہونے چاہیے۔ اس باب میں بدر کی رات کی بہترین تصویر کشی کی گئی ہے، مصنف لکھتے ہیں کہ قرآن کریم میں اللہ کا ذکر کثرت سے کرنے کی تلقین کی گئی ہے اور یہ اللہ کا ذکر ہی ہے جو اسلامی تحریک کا محافظ ہے، مصنف نماز کو مومن کی ہیلپ لائن قرار دیتے ہیں۔ نماز کا تقاضا ہے کہ یہ اپنے وقت پر ہو، اس میں خشوع و خضوع ہو۔ مصنف لکھتے ہیں کہ ہمیں چاہیے کہ عبادت و للّٰہیت کا ماحول بنائیں۔
تیسرے باب "دلوں کو مضبوط کرنے والی کتاب” میں مصنف نے اس مقدس کتاب کا تعارف کروایا ہے جو مشکل حالات میں اہل ایمان کو مضبوط بناتی ہے مصنف لکھتے ہیں: "یہ راستہ دل کی مضبوطی مانگتا ہے۔ یہ مضبوطی قرآن مجید سے حاصل ہوتی ہے۔ قرآن دلوں کو قوت و ثبات عطا کرنے والی کتاب ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید کو بڑے اہتمام سے تھوڑا تھوڑا کر کے نازل فرمایا، مقصد یہ تھا اللہ کے رسول ﷺ اور آپ کے ساتھ ایمان والوں کے دلوں کو مضبوطی عطا ہو ۔ كَذلِكَ لِنُثَبِّتَ بِهِ فُؤَادَكَ ( ہم نے ایسا ہی کیا تا کہ اس کے ذریعے سے ہم تمہارے دل کو مضبوط کریں ) ﴿الفرقان: 32﴾ ۔ یہ قرآن کی بہت اہم خوبی ہے۔ قرآن مایوسی کے دلدل اور اندیشوں کے چنگل سے نکال کر ایمان والوں کو طاقتور امید اور تازہ دم حوصلہ عطا کرتا ہے۔ مسلم امت اگر قرآن مجید سے غور و فکر اور ایمان ویقین کا گہرا تعلق قائم کرلے تو اس کے اندر کبھی کمزوری نہ آئے۔” (صفحہ 45) اہل ایمان کے لیے جو چیز سب سے اہم ہے وہ یہ کہ ان کے اندر کوئی خوف نہ ہو قرآن مجید جگہ جگہ اہل ایمان کے ذہنوں میں یہ بات بٹھاتا ہے کہ اللہ کے سامنے کسی کا مکر و فریب اور کسی کی سازش چلنے والی نہیں ہے، مصنف نے اس باب میں تاریخ سے گواہی پیش کرتے ہوئےلکھتے ہیں کہ: "قرآن مجید گزری ہوئی قوموں کا تذکرہ کرتے ہوئے اس پہلو کو خاص طور سے ابھارتا ہے کہ وہ بڑی چالیں چلنے اور خطرناک سازشیں کرنے والے زور آور لوگ تھے لیکن ان کی طاقت دھری کی دھری رہ گئی اور ان کے مکر و فریب کے سارے قلعے دیکھتے ہی دیکھتے ہوا ہو گئے۔” (صفحہ 50) اس کے بعد مصنف قرآن مجید میں درج مختلف واقعات کو بیان کرتے ہیں۔
چوتھے باب "تحریک میں زندگی کا سرمایہ لگائیں” میں مصنف ہمیں بتاتے ہیں کہ تحریک ہم سے ہماری بہترین صلاحیتیں چاہتی ہے، یہ تحریک صرف نسبت جوڑنے کا نام نہیں ہے بلکہ یہ تحریک قربانی اور عمل چاہتی ہے، جن لوگوں کا عظیم مقصد ہو انہیں انتہائی محنت کرنی ہوگی، قرآن کریم ہم سے یہ چاہتا ہے کہ ہم اہل باطل سے زیادہ محنت کرنے والے بن جائیں ۔ مصنف لکھتے ہیں: "اسلامی تحریک کے مشن کو اگر آپ نے زندگی کے نصب العین کی حیثیت سے قبول کیا ہے، تو تحریک کو آپ کی زندگی کا محور بن جانا چاہیے۔ زندگی تحریک کی شاہراہ پر چلنے والی گاڑی بن جائے ، اس شاہراہ سے آپ صرف راستے کی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے اتریں اور پھر اسی شاہراہ پر گامزن ہو جائیں۔ تحریک کو آپ کی زندگی کا قیمتی حصہ ملنا چاہیے، نہ کہ بچا ہوا حصہ۔ زندگی کے تمام کاموں سے جو بچ رہے، وہ کسی اور کے کام کا تو ہو سکتا ہے اسلامی تحریک کے کام کا نہیں ہو سکتا۔ اس بات کو امام حسن البنا نے دوٹوک لفظوں میں بیان کر دیا ہے:یہ وہ دین ہے کہ اس کے ساتھ بچا کھچا مال، بچی کھچی توانائی اور بچا کھچا ہوا وقت کام نہیں آئے گا۔” (صفحہ 68)
تحریک اسلامی سے وابستہ افراد کو آرام پسندی اور غفلت سے بچنا چاہیے مصنف لکھتے ہیں: "غفلت کا یہ روگ کسی کو بچپن میں لگا کسی کو نوجوانی میں اور کسی کو جوانی کے بعد کسی کے لیے شادی بہانہ بنی کسی کے لیے اعلیٰ تعلیم اور کسی کے لیے ملازمت اور کاروبار کوئی ملک سے باہر جا کر کسی بازار میں گم ہوا اور کوئی ملک میں رہتے ہوئے خواب غفلت میں ڈوب گیا۔ غفلت کی کیفیت بڑی خطرناک ہوتی ہے، آدمی زبان سے کہتا ہے کہ میرے پاس جو بھی ہے وہ خدا کا ہے، لیکن وہ کچھ بھی خدا کے سامنے پیش نہیں کرتا ہے اور اس طرح دنیا سے خالی ہاتھ چلا جاتا ہے۔”(صفحہ 82)
پانچواں باب” جلد بازی منع ہے، تیز رفتاری مطلوب ہے” میں مصنف پہلے دکھاتے ہیں کہ رسول رحمت ﷺ کے اسلامی تحریک کی رفتار تیز تھی، عام طور پر نوح علیہ السلام کی ایک ہزار سالہ دعوت سے غلط فہمی پیدا ہو جاتی ہے حالانکہ قرآن نوح علیہ السلام کی جو تصویر پیش کرتا ہے اس کے مطابق آپ کی دعوت میں تیز رفتاری تھی البتہ اس میں یہ سبق ہے کہ ہمیں جتنی بھی کوشش کرنی پڑے ہمت نہیں ہارنی چاہیے البتہ نتائج میں تاخیر ہم سے احتساب کا تقاضا کرتی ہے، مصنف نے سیرت النبیؐ کے دعوتی گوشوں کو اس باب میں خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔
تیز رفتاری کا جذبہ تیر رفتار وسائل کا تقاضا کرتا ہے یعنی تیز رفتاری مطلوب ہے نہ کہ جلد بازی ۔یہاں پر دونوں کا فرق واضح کرتے ہوئے مصنف لکھتے ہیں: ” جلد بازی اور تیز رفتاری کے درمیان بہت بڑا فرق ہے۔ جلد بازی میں انسان مرحلوں کو نظر انداز کر کے کسی شارٹ کٹ سے منزل تک پہنچنا چاہتا ہے جب کہ تیز رفتاری میں انسان سفر کے تمام مرحلوں سے گزرتا ہے مگر برق رفتاری کے ساتھ۔ "(صفحہ 98)
چھٹواں باب "تحریک کے ارکان تحریک کے پاسبان” میں مصنف لکھتے ہیں کہ اسلامی تحریک کے کارکن عام اجتماعیت کے ارکان کی طرح نہیں ہوتے۔ یہ لوگ قائدانہ اوصاف کے حامل ہوتے ہیں وہ خود تحریک کا سب سے قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں اور تحریک کے محافظ و پاسبان بھی ہوتے ہیں۔ انہیں حفاظت کی ذمہ داری تفویض نہیں کی جاتی بلکہ وہ از خود محافظ ہوتے ہیں۔ وابستگان تحریک کو ہمیشہ اپنے نصب العین کو یاد رکھنا چاہیے ۔اسلامی تحریک جب برپا ہوتی ہے تو اس کے سامنے بہت واضح طور پر ایک ہی ہدف یعنی اپنے نصب العین کا حصول ہوتا ہے۔ جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا ہے، نصب العین پر گفتگوکم ہونے لگتی ہے۔ میسر وسائل اور در پیش مسائل کی طرف توجہ بڑھ جاتی ہے۔ نصب العین کے لیے درکار جن وسائل کا حصول آسانی سے ممکن ہوتا ہے، ان کے حصول ہی کو کامیابی خیال کیا جانے لگتا ہے۔ کامیابی کا یہ مسرت انگیز احساس نصب العین کی طرف سے غافل کر دیتا ہے ۔” (صفحہ 103)
ایک عظیم نصب العین سے وابستگان میں کشادگی ہونی چاہیے۔ وہ فقہی و فکری مسائل میں اختلاف رائے کو خوشی سے قبول کرنے چاہئیں، کارکن کو چاہیے کہ وہ ہر گروپ بندی سے اپنے آپ کو الگ رکھیں، مصنف کارکنوں اور قیادت کو سمجھاتے ہیں کہ انہیں تحریک کے مزاج کی حفاظت کرنے والا بننا چاہیے تحریکی مزاج کیسا ہو لکھتے ہیں: "اسلامی تحریک کا بہت قیمتی سرمایہ اس کا اپنا خاص مزاج بھی ہے۔ تحریک میں سنجیدہ مزاجی ہوتی ہے۔ منصوبہ بند کام اور نتیجہ خیز کوششوں پر توجہ مرکوز ہوتی ہے۔ ہلڑ بازی اور محض بھیڑ اکٹھا کرنے کو نا پسند کیا جاتا ہے۔ مناظرہ بازی تحریک کے مزاج سے میل نہیں کھاتی۔ امت میں ہونے والی ہر اچھی اور تعمیری کوشش کو سراہا جاتا ہے۔ امت کی خیر خواہی کا جذبہ غالب رہتا ہے۔ امت کی دیگر جماعتوں کے ساتھ کشمکش سے احتراز کیا جاتا ہے۔ اشتعال انگیز تقریروں اور نعروں سے سختی سے پر ہیز کیا جاتا ہے۔” (صفحہ 118)
آج کا دور سوشل میڈیا کا دور ہے کون سی بات کہاں کرنی ہے اس بات کا ہمیشہ دھیان رکھنا ہے، تنقید کب اور کہاں کرنی ہے، اس کا ادراک ہونا چاہیے۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں کارکنان کو ساتوں باب "اسلامی تحریک کے وقار کی حفاظت” پر مصنف نے بہترین رہنمائی کی ہے۔ اس باب میں مصنف مشورہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں "کسی اسلام پسند شخصیت، ادارے یا تنظیم پر سوشل میڈیا میں کوئی تنقید آپ کی نظرسے گزرتی ہے تو اسے مزید آگے شیئر کرنے سے سختی سے پر ہیز کریں۔ اسلامی تحریک کے کسی فرد کی کوئی کمزوری علم میں آئے تو کسی دوسرے فرد یا گروپ کو اس کی خبر دینے کے بجائے راست متعلق فرد سے رابطہ کریں اور اسے اس کی کم زوری کی طرف توجہ دلائیں۔
اسلامی شخصیات، اداروں اور تنظیموں کو مشورے اور تجاویز ضرور دیں، ان کی پالیسیوں اور فیصلوں پر بھی تنقید کریں لیکن اس کے لیے مناسب پلیٹ فارم کا انتخاب کریں تاکہ مشورے زیادہ سے زیادہ مفید ہوسکیں اور کسی طرح کے نقصان کا باعث نہ بنیں ۔ سوشل میڈیا میں جب کسی اسلامی شخصیت یا تنظیم پر کوئی تنقید شائع ہو تو سب سے پہلے حقیقت واقعہ سے آگاہی ہونی چاہیے۔ اگر وہ بات درست نہ ہو تب تو ہرگز کہیں شیئر نہیں کرنا چاہیے، اور اگر وہ بات درست ہو تو بھی یہ دیکھیں کہ اسے شیئر کرنے سے کس کا فائدہ ہوگا اور کس کا نقصان ہوگا۔” (صفحہ 135)
آٹھویں باب”تحریکی دوستی کی نرالی شان” میں مصنف نے تحریک کے کارکنوں کا آپسی محبت پر خوبصورت کلام کیا ہے۔ حدیث رسول کو دل نشین پیرائے میں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں”تصور کی نگاہ سے کلام نبوت میں مذکور یہ دل کش منظر دیکھیں کہ ایک شخص اللہ کی خاطر دوسری بستی میں اپنے ایک دوست سے ملنے کے لیے نکلا، اللہ نے اس کے راستے میں ایک فرشتے کو ٹھیرادیا، جب وہ وہاں سے گزرا تو فرشتے نے پوچھا کدھر کا ارادہ ہے؟ کہا: ایک شخص سے ملنے جارہا ہوں، پوچھا: کوئی رشتے داری ہے؟ کہا: نہیں، پوچھا: اس کے کسی احسان کا تقاضا پورا کرنے جارہے ہو؟ کہا: نہیں، پوچھا پھر کیوں اس کے پاس جارہے ہو، کہا: میں اللہ کی خاطر اس سے محبت کرتا ہوں، اور اسی لیے اس سے ملنے جارہا ہوں۔ تب فرشتے نے کہا: میں تمہارے پاس اللہ کی طرف سے پیغام لے کر آیا ہوں کہ تم اللہ کے لیے اس شخص سے محبت کرتے ہو، اس کے صلے میں اللہ تم سے محبت کرتا ہے۔ (مسند احمد )”(صفحہ 139) حدیث پاک کو بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں: "حرکت سے بھر پور محبت کا یہ کیسا خوب صورت منظر ہے۔ اللہ کی خاطر محبت انسان کو اس قدر متحرک کر دیتی ہے کہ وہ صرف اس محبت سے بے قرار ہو کر اپنے دوستوں سے ملنے کے لیے دوسری بستیوں تک جاتا ہے، اور بار بار جاتا ہے۔” (صفحہ 139) مصنف کے بقول ادب کے حدود میں رہتے ہوئے آپس کی دوستی میں بے تکلفی ہونی چاہیے، کارکنوں کے درمیان محبت میں کبھی کبھی بد احتیاطی ہوتی ہے؛ اس سلسلے میں احتیاط کی ضرورت ہے ۔
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ تحریک میں شامل افراد میں دوستی تو ہوتی ہے، لیکن وہ دوستی تحریک کے اندر ایک گروپ کی شکل اختیار کر لیتی ہے، پھر اس چھوٹے گروپ کے لوگ آپس میں ملتے جلتے اور ساتھ کھاتے پیتے ہیں۔ دوستی کی یہ شکل فائدے مند نہیں ہوتی بلکہ بسا اوقات نقصان دہ ہو جاتی ہے۔ ہونا یہ چاہیے کہ آپ کے مقام پر تحریک کے تمام افراد سے آپ کی دوستی ہو۔ اور آخر ایسا کیوں نہ ہواگر تحریکی ساتھیوں سے آپ کی محبت محض اپنے جذبات کے لیے نہیں بلکہ صرف اللہ کے لیے ہے۔” (صفحہ 147)
عام طور پر لفظ تزکیہ جب ہمارے ذہنوں میں آتا ہے تو اس کے ساتھ دوسرا لفظ فوراً نفس آتا ہے لیکن بحیثیت فرد امت مسلمہ کے ہر چیز کا تزکیہ ہونا چاہیے اور جب بات ہو اجتماعیت کی تو اس میں جن چیزوں کا تزکیہ مطلوب ہے اس میں اہم مزاج کا تزکیہ ہے، مزاج کے تزکیہ پر عمومی طور پر لکھا نہیں جاتا حالانکہ قرآن کریم، احادیث مبارکہ میں تزکیہ اخلاق کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، نویں مقالہ”مزاج کا تزکیہ :تحریک کی اہم ضرورت” میں ڈاکٹر محی الدین غازی صاحب نے تزکیہ مزاج پر روشنی ڈالی ہے۔ اجتماعیت سے وابستہ ہر فرد اس مضمون کو ذہن نشین کرے تو اجتماعیت بہت ہی پرسکون بن جائے گی۔ وہ لکھتے ہیں: "کروڑوں انسانوں کے مقابلے میں، انسانوں کی فلاح کے لیے اٹھنے والی مٹھی بھر انسانوں کی یہ جماعت انسانیت کے لیے امید کی کرن ہوتی ہے۔ جو لوگ اس اجتماعیت سے وابستہ ہوتے ہیں، اللہ کے فضل خاص سے ہوتے ہیں۔ اگر یہ ان کی زندگی کی سب سے بڑی خوش نصیبی ہے کہ انہیں دین کی نصرت کے لیے قائم جماعت میں شامل ہونے کا موقع ملا، تو کیا یہ ان کی زندگی کی بڑی بدنصیبی نہیں ہوگی کہ مقصد میں، فکر میں اور طریقہ کار میں اتفاق کے باوجود صرف رفقائے جماعت کے ساتھ مزاج ہم آہنگ نہیں ہونے کی وجہ سے وہ اس جماعت میں نہیں رہ سکے۔ یا رہے بھی تو جماعت کے لیے قوت کا ذریعہ اور قیمتی اثاثہ بنے کے بجائے بھاری بوجھ اور مشکل مسئلہ بنے رہے۔” (صفحہ 158)
دسویں باب "جوان اسلامی تحریک کے خدوخال” میں مصنف اپنی تحریر کا مخاطب اس نوجوان کو کرتے ہیں جو اسلامی تحریک میں شامل ہونے کے لیے عمر ڈھلنے کا انتظار نہیں کرتے، ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں جوانی دنیا کی نذر کر دینے کے بعد بڑھاپا دین کو وقف کرنا نہ دین کے شایان شان ہے اور نہ جوانی کے۔ آپؐ کی سیرت پاک سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نوجوانوں کی رائے کو وزن بھی دیتے اور نوجوانوں کو قیادت بھی دیتے، نوجوان اور بزرگوں میں کیسا تعلق ہو اس پر بھی خوبصورت بحث کی گئی ہے مصنف لکھتے ہیں: "مثالی صورت میں بزرگوں کے پاس تجربات اور آگہی کا بڑا ذخیرہ ہوتا ہے، جب کہ نوجوانوں کے پاس جدید ترین معلومات زیادہ ہوتی ہیں اور تجربات کرنے کا موقع اور شوق ہوتا ہے۔ ان امور کے درمیان توازن رکھنا تحریک کے استحکام و ترقی کے لیے ضروری ہوتا ہے۔” (صفحہ 178)
گیارہویں باب "اسلامی تحریک میں بزرگوں کا کردار” میں روشن اور تاب ناک بڑھاپے کی کچھ جھلکیاں دکھانے کی کوشش کی گئی ہے ان مخلص بزرگوں کو جن کی جوانی قابل رشک تھی اور ان حوصلہ مند جوانوں کو جو اپنے بڑھاپے کو بھی مثالی بنانے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ اس باب میں مصنف نے بزرگوں کے اہم واقعات کو مختصر مگر جامع طور پر بیان کیا ہے۔
کتاب کے آخری مضمون "سرگرم افراد سے سرگرم خاندانوں تک” میں مصنف ہماری توجہ اس جانب دلاتے ہیں کہ ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ ہمارے مقصد میں ہمارے اہل خانہ بھی شامل ہوں اس سلسلے میں انہوں نے اسلاف کی کئی مثالیں دی ہیں۔
ڈاکٹر محی الدین غازی صاحب کی یہ کتاب ایک اہم ضرورت کو پورا کرتی ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کو تحریک اسلامی کے سبھی کارکنان کو پڑھایا جائے۔ عمدہ گیٹ اپ میں اس کتاب کو مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی نے چھاپا ہے۔ کتاب کی قیمت 240 روپے بھی مناسب ہے۔
یہ کتاب وہاٹس ایپ نمبر 7290092403 پر حاصل کی جاسکتی ہے۔
مبصر سے رابطہ :
[email protected]
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 17 نومبر تا 23 نومبر 2024