محمد عبدالحلیم اطہر سہروردی،گلبرگہ
15اگست یوم آزادی کی مناسبت سے تحریک آزادی کے عظیم مجاہدسید الاحرارمولانا حسرت موہانی کی آزادی ہند کے لیے جدوجہد و قربانیاں اور ملک عزیزمیں قومی یکجہتی کے علم بردار کی حیثیت سے ان کی فکر اور کاوشوں کا تذکرہ بہترین خراج عقیدت ہوسکتا ہے۔
انقلاب زندہ باد جیسے ولولہ انگیز اور شہرہ آفاق نعرے کے خالق مولانافیض الحسن حسرت موہانی 14اکتوبر 1875 میں ضلع اناؤ کے قصبہ موہان میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے ملک کی آزادی کی لڑائی میں بابائے قوم گاندھی جی ،پنڈت نہرو اور مولانا ابولکلام آزاد کے شانہ بشانہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔انگریزوں کے خلاف لڑائی میں ان کا دیا ہوا انقلاب زندہ باد جیسا مقبول نعرہ آج بھی مختلف قسم کی تحریکیں چلانے والوں کے دلوں کو جوش اور ولولے سے بھر دیتا ہے۔ حسرت موہانی نے اس نعرے کا پہلی مرتبہ استعمال اس وقت کیا تھا جب جدوجہد آزادی کے دوران مہاتما گاندھی اور جواہر لال نہرو ان سے ملنے آئے تھے۔ بعد ازاں بھگت سنگھ، اشفاق اللہ خان اور چندر شیکھر آزاد جیسے مجاہدین آزادی نے اس نعرہ کا استعمال عوام میں حصولِ آزادی کے تئیں جوش بھرنے کے لیے کیا۔حسرت موہانی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں جب تعلیم حاصل کر رہے تھے تو ان کے ہم مکتب مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی تھے ان دونوں کے ساتھ مل کر بھی حسرت موہانی نے انگریزوں کے خلاف ہر تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیااورملک کی جنگ آزادی کو کامیاب بنانے کے لیے بڑی بڑی مشکلوں کا مر دانہ وار مقابلہ کیا۔ حسرت موہانی نے بیسویں صدی کی پہلی دہائی سے ہی اپنی تقریروں اورتحریروں کے ذریعے بھارت کی مکمل آزاد ی کا مطالبہ شروع کردیاتھا، اور آخر وقت تک مسلسل ومتواتر یہی نعرہ بلند کرتے رہے۔ 1857کی پہلی جنگ آزادی کے بعد بال گنگا دھرتلک کے ہمراہ حسرت موہانی دوسرے بھارتی اور پہلے مسلمان تھے جنہیں اپنی سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے انگریزوں کی قید وبند میں رہنا پڑا ۔حسرت موہانی پہلے شخص تھے جنہوں نے بھارت کی تاریخ آزادی میں پہلی مرتبہ ’’مکمل آزادی‘‘کا مطالبہ کیا۔ انگریز مخالف تحریکوں میں زور و شور سے سرگرم رہنے کے سبب انہیں بار بار گرفتار بھی کیا گیا۔ مولانا حسرت موہانیؔ ملک کی آزادی کے لیے زندگی پھر جدوجہد کرتے رہے اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے طرح طرح کی صعوبتیں بھی برداشت کیں لیکن اس سے ان کے عزم پر کوئی اثر نہیں پڑا۔
حسرت موہانی مجاہد آزادی کے علاوہ وہ ایک عظیم شاعر بھی تھے اور اپنی شاعری کے ذریعہ بھی برطانوی حکومت کے خلاف آزادی کا پرچم لہراتے رہے۔ جنگ آزادی کی تاریخ میں ان کا یہ کارنامہ سنہری حرفوں میں لکھاجائے گا کہ انہوں نے اپنے زمانے کی ممتاز سیاسی جماعتوں کے بنیادی مقاصد میں ہرمناسب ومعقول ذریعے سے مکمل آزادی حاصل کرنے کی تجویز منظور کرانے کی بھرپور کوشش کی۔ان کا شمار مجاہدین آزدی کے اہم رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ مولانا حسرت موہانی اردو کے پہلے صحافی تھے جنہوں نے آزادی کے لیے ہرطرح کے خوف وخطرے سے بے نیاز ہوکر انگریز حکومت کے خلاف ڈٹے رہے اور اپنے قلم کو تلوار کی طرح استعمال کیا۔
مولانا موہانی ملک کی جنگ آزادی کے ایسے منفرد اور بے باک مجاہد آزادی ہیں جنہوں نے ہر جگہ ملک کی آزادی کے لیے بے خوف و خطر اور انجام سے بے پرواہ ہوکر اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔ انہوں نے ایک ایسے وقت میں بھارت کی کامل آزادی اور انگریزوں کو ملک چھوڑنے کے مطالبے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا جبکہ اس کا تصور بھی محال تھا۔وہ 1904ء سے ہی ملک کی سیاست میں سرگرم حصہ لینے لگے جس کی پاداش میں حکومت نے انہیں باغی قرار دے کر کئی بار قید با مشقت کی سزا بھی دی۔ 1905ء میں آل انڈیا انڈسٹریل کانفرنس بمبئی میں شریک ہونے کے بعد سودیشی تحریر کے مبلغ بن گئے۔ حسرت موہانی کانظریہ سودیشی تحریک میں دیگرکانگریسی لیڈروں کے بالمقابل حقیقت پسندانہ تھا۔ان کے خیال میں صرف چرخے کی مدد سے پورے ملک کی ضرورتیں پوری نہیں کی جاسکتی تھیں۔ اسکے لیے بھارتی ملوں میں تیار ہونے والے کپڑوں کو بھی سودیشی سمجھنا چاہیے۔ غیر ملکی مال کے بائیکاٹ کے متعلق ان کامضمون’’سودیشی تحریک اوربائیکاٹ‘‘رسالہ’اردومعلی‘ میں شائع ہوا۔ انہوں نے 1905 میں سودیشی تحریک یعنی غیر ملکی سامان کے بائیکاٹ کے ساتھ آزادی کی قومی جدوجہد میں حصہ لیا اور علی گڑھ میں بھارتی سامان کے لیے ایک اسٹور کھولا۔ اس قومی خدمت پر انگریزوں نے انہیں قید کر دیا۔ 1921 میں حسرت موہانی نے کانگریس کے اجلاس میں ایک قرارداد پیش کی جس میں پارٹی پر زور دیا گیا کہ وہ ’’مکمل آزادی‘‘کو اپنا ہدف بنائے۔اس وقت زیادہ سے زیادہ کانگریس ڈومینین اسٹیٹس کی ضمانت دے رہی تھی۔ یہ قرارداد ناکام ہو گئی کیونکہ خود مہاتما گاندھی نے اس کی مخالفت کی تھی۔ حالانکہ ایک دہائی بعد کانگریس نے ’’مکمل آزادی‘‘ کو اپنا ہدف قرار دیا۔حسرت موہانی کی شخصیت شاعری، صحافت اور سیاست و حریت سے عبارت تھی۔ حسرت موہانی جمعیۃ العلماء ہند، انجمن کعبہ، انجمن خدام الحرمین، خلافت کانفرنس اور آزادپارٹی جیسی متعدد سیاسی اورمذہبی جماعتوں کے بانی ممبر بھی تھے۔ اور ساتھ ہی مسلم لیگ، انڈین نیشنل کانگریس اورکمیونسٹ پارٹی وغیرہ کے نہایت سرگرم ممبر رہے۔ ۔ حسرت موہانی کے قومی رہنماؤں سے گہرے مراسم تھے۔ ان کے دوست احباب اور شاگردوں کا حلقہ بہت وسیع تھا۔ ان میں دولت مند اور متوسط طبقے کے لوگ بھی شامل تھے اور سبھی لوگ ان کا دل سے احترام کرتے تھے اور ان کی شخصیت اور شاعری کے مداح بھی تھے۔ مولانا ابوالکلام آزادؔ کی طرح حسرتؔ موہانی کو بھی ملک کی آزادی کے علاوہ ’’ہندو مسلم‘‘ اتحاد بہت عزیز تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ عملی طور پر ’’ہندو اور مسلمان‘‘ اپنے باہمی اختلافات کو فراموش کر کے اتحاد و یگانگت کے ساتھ رہیں اور ملک کی ترقی میں اہم رول ادا کریں اور ملک کی سالمیت کو مضبوط کریں اور ملک کی جنگ آزادی میں اہم رول ادا کریں۔ حسرت موہانی ہمیشہ ہرجگہ ہندومسلم اتحاد اور بھارت کی مکمل آزادی کانعرہ بلند کرتے رہے۔15 اگست 1947ء کے بعد مولانا حسرت یوپی اسمبلی اور مرکزی دستور ساز اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے اور کامیاب نمائندگی کی تھی ۔مولانا اسمبلی کے باہر بھی مسلمانوں کے حقوق اور ان کی فکری آزادی اور تہذیبی انفرادیت کی حفاظت کا حق ادا کرتے رہے۔حسرتؔ موہانی نے اپنی شخصیت اور شاعری سے اپنے عہد کو بڑا متاثر کیا ۔
حسرتؔ موہانی بڑے خوددار اور خدا ترس انسان تھے۔ ملنساری، ہمدردی، اعلیٰ اخلاق اور خدمت خلق ان کے جوہر تھے۔ وہ شاعر بھی تھے ناقد بھی تھے تذکرہ نگار بھی تھے مصنف بھی تھے اور صحافی بھی تھے۔ انہوں نے 1903 میں علی گڑھ سے گریجویشن کیا۔ ایک دور میں وہ وکیل بننا چاہتے تھے لیکن وکالت کی پڑھائی میں دل نہیں لگا تو درمیان میں تعلیم ترک کردی۔ فطری طور پر حسرت موہانی شاعر، انقلابی اور اصلاحی ذہن کے حامل تھے۔ ملک کی آزادی کے لیے جاری تحریک میں شامل ہونے سے خود کو روک نہ سکے۔ لیکن ایسا نہیں کہ جد و جہد آزادی کی سرگرمی نے ان کے شاعرانہ احساسات و جذبات کو سرد کر دیا ہو بلکہ حصول آزادی کی تگ و دو کے ساتھ ساتھ مشق سخن بھی جاری رہی۔ انہوں نے حق گوئی اور بیباکی کا دامن کبھی نہ چھوڑا۔ اپنے رسالہ ’’اردو معلی‘‘ میں انہوں نے مصر میں برطانوی استعمار کی ہلاکت خیزیوں پر قلمی نام سے ایک طویل مضمون شائع کیا تو برطانوی ہند کی حکومت نے انہیں مجبور کیا کہ وہ مضمون نگار کا اصل نام اور پتہ بتا دیں۔ یہ مضمون مولانا کے رسالہ کے ایک قلمی معاون نے لکھا تھا۔ جبرواستبداد کی کڑی آزمائش میں بھی مولانا نے صحافتی اخلاق کو مدنظر رکھتے ہوئے مضمون نگار کا نام بتانا گوارا نہیں کیا اور خود قید بامشقت قبول کر لی۔’’اردوادب کی تاریخ میں جن رسالوں کے نام خصوصیت سے قابل ذکر ہیں ان میں اردو معلی ممتاز ہے۔’’اردومعلی‘‘ کئی حیثیتوں سے سرفہرست ہے۔ یہ رسالہ مولاناحسرت موہانی نے اس وقت نکالا جب وہ بی اے کے امتحان سے فارغ ہوئے تھے اورنتیجہ تک نہ نکلا تھا۔ اس رسالے کا سب سے بڑا مقصد’’درستی مذاق‘‘قرار دیاگیا۔یہ محض ادبی رسالہ نہ تھاشروع سے اس میں ملکی اورغیرملکی سیاسات اور حالات حاضرہ پر تبصرے ہوتے تھے۔اگرچہ اس میں اچھے اچھے ادیبوں اور شاعروں نے مضامین،نظمیں اور غزلیں بھیجیں مگر اس کی بہار بیشتر حضرت کے خونِ جگر کی مرہونِ منت ہے۔‘ ‘اردوئے معلی میں شعر و سخن کے پھول اور سیاسیات کے کانٹے ایک ساتھ ناظرین کے سامنے پیش ہوتے رہے اور لوگ حسب ذوق اس ہمہ رنگی سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ اس زمانہ کے اردوئے معلی میں ان کے اور دوسرے اصحاب ذوق کے خوب خوب ادبی مضامین منظر عام پر آئے۔ ’’اردوئے معلیٰ‘‘ نے ملک کے تعلیم یافتہ نوجوان طبقے کے ذہنوں کو بیدار کیا اور ان میں سیاسی اور ادبی شعور بیدارکیا۔ یہ رسالہ تین مرتبہ جاری ہوا اور بندہوا۔ 40 سال تک اس ادبی رسالے کو جاری رکھنا بجائے خود ایک عظیم کارنامہ ہے جسے فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ ’’اردوئے معلیٰ‘‘ حیلے اور حوالوں سے کئی بار برطانوی حکومت کے جبر و استبداد کا نشانہ بھی بنا کیونکہ حسرتؔ موہانی کی تحریروں کا اثر یہ ہوا کہ انگریز حکومت اپنے مستقبل کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہوگئی تھی۔ ان کا سب سے اہم کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے ’’اردوئے معلیٰ‘‘ کے ذریعہ قدیم اساتذہ کے دیوان فراہم کر کے ان کا انتخاب شائع کیا۔ ان کی اس سعی کی بدولت حاتمؔ، سوزؔ مصحفیؔ، جرأ تؔ، قائمؔ، میر حسنؔ وغیرہ کے کلام محفوظ ہوگئے اور فنی حیثیت سے بھی نکات سخن، محاسن سخن اور مائبِ سخن پر ان کے رسالے خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ حسرتؔ موہانی نے ’’دیوانِ غالبؔ‘‘ معہ شرح بھی شائع کی ہے۔انہوں نے شعری اور نثری تخلیقات کا ایک ذخیرہ چھوڑا ہے جو اردو ادب کا قیمتی سرمایہ ہے۔ تحریک آزادی کے دوران قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، تو جیل کے تجربات قلم بند کردیے جو’ مشاہدات زنداں‘ کے نام سے منظر عام پر آئے۔ مشاہدات زنداں بھی ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ حسرت موہانی نے اپنے دور کے جدید شعرا ءکے کلاسیکی کلام کو یکجا کرکے سات جلدوں میں شائع کیا۔ جو اپنے آپ میں ایک بڑا ادبی کارنامہ ہے،وہ خود بھی عظیم اور بلند پایہ شاعر تھے۔
حسرت موہانی نے سادہ زندگی گزاتے ہوئے دنیا میں جو نام پیدا کیا وہ بہت کم لوگوں کو نصیب ہو سکا ہے۔ان کی اسی خصوصیت نے انہیں سید الاحرار اور تحریک آزادی کے عظیم رہنما ہونے کا اعزاز بخشا۔ اردو ادب کا کوئی ایسا بڑا ادیب اور دانشور نہیں جس نے حسرت موہانی پر قلم نہیں اٹھا یا۔ حسرت موہانی کی شخصیت سے ان کی سیاسی جدوجہد، شعر و ادب کے مختلف پہلوؤں پر بیشمار مضامین اور کتابیں لکھی گئیں اور حسرت موہانی پر مختلف زاویوں سے تحقیق کا کام ابھی بھی جاری ہے اور آئندہ بھی جاری رہے گا۔ اس مضمون میں اختصاص کے ساتھ حسرت موہانی کی آزادی کے لیے جدوجہد اور ملک عزیزمیں قومی یکجہتی کے علم بردار کی حیثیت سے ان کی فکر و کاوشوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ حسرت موہانی بلند پایہ کے شاعر تھے شاعری پر اگر گفتگو کی جائے تو مضمون بہت طویل ہوجائے گااورمختصر انداز میں ان کی شاعرانہ عظمت بیان کرنا مشکل ہے اس لیے اس مضمون میں مولانا حسرت موہانی کی شاعری پر اظہار خیال نہیں کیا گیا۔ ویسے بھی مولانا کی شاعری بے حد مقبول و مشہور ہے اور اس پر کئی ایک مضامین بہت سارے ماہرین علم و فن نے لکھے ہیں۔تحریک آزادی کے عظیم مجاہدمولانا حسرت موہانی پرحکومت ہند کے محکمہ ڈاک نے 25 فروری 2014 کو ایک یادگاری ٹکٹ جاری کیا تھا۔ اردو زبان و ادب، شاعری، صحافت، سیاست اور ملک کی جنگِ آزادی میں گراں قدر خدمات کے سبب حسرت موہانی کا نام تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا اور جب کبھی بھی تاریخ و ادب کا مؤرخ بھارت کی جنگ آزادی کا تذکرہ لکھے گا تو حسرت موہانی کا نام توقیر سے لیا جائے گا اور کوئی اس عظیم مجاہد آزادی ،بے باک صحافی ،استاد شاعر، محسن علم و ادب کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔ اردو کے اس عظیم مجاہد نے 13مئی 1951 میں لکھنؤ میں داعی اجل کو لبیک کہا۔آپ کے جسدِ خاکی کولکھنو کے انوار باغ کے فرنگی محل احاطے کے قبرستان میں ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں سپرد لحد کیا گیا۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 18 اگست تا 24 اگست 2024