
تحقیقی ایجنسیاں یا سیاسی ہتھیار؟ ای ڈی کی غیرجانبداری پر عدالت کا سوال
مرکزی تفتیشی ایجنسیوں کا تقدس اور وقار برقرار رکھنا ان کے سربراہان کے لئے بڑا چیلنج
فضل شہاب
سپریم کورٹ اور ہائی کورٹوں میں انفور سمنٹ ڈائرکٹریٹ کی مسلسل سرزنش سے انوکھی نظیر
اداروں کی پامالی حقیقی جمہوریت کے لئے اچھا شگون نہیں
انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ عدالتی کٹہرے میں: حدود سے تجاوز پر سپریم کورٹ کا سخت نوٹس
وکلا پر ای ڈی کے سمّن سے قانونی آزادی کو خطرہ! عدالت میں اُٹھائے گئے سوالات
مرکزی حکومت پر سرکاری ایجنسیوں کے بے جا استعمال کے الزامات کچھ نئے نہیں ہیں البتہ اگر سپریم کورٹ یا ہائی کورٹس سے مرکزی ایجنسیوں کی بار بار سرزنش کی جائے اور انہیں قانون کے بے جا استعمال یا حد سے تجاوز کرنے پر متنبہ کیا جائے تو یہ ضرور چونکا دینے والی اور ایجنسیوں کی ساکھ کو بری طرح مجروح کرنے والی بات ہے۔ مرکزی تفتیشی ایجنسی انفورسمنٹ ڈائرکٹریٹ (ای ڈی) کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے۔
ماہ جولائی کے دوسرے ہفتہ میں چیف جسٹس آف انڈیا بی آر گوائی، جسٹس کے ونود چندرن اور جسٹس این وی انجاریا کی بنچ نے ای ڈی کی جانب سے ’از حد تجاوز‘ کے عمل کا از خود نوٹس لے کر معاملے کی سماعت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ دراصل تفتیشی ایجنسیاں بعض دفعہ وکیلوں کو بھی نوٹس جاری کرنے لگتی ہیں اور انہیں پوچھ گچھ کے لیے طلب کرتی ہیں۔ پولیس بھی ایسا کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ سپریم کورٹ کا ماننا ہے کہ اگر کوئی وکیل کسی فرد یا ادارہ کو قانونی مشورہ دے رہا ہے اور عدالت میں اس کی پیروی کر رہا ہے تو ایسے وکیل کو سرکاری ایجنسیوں کو براہ راست نوٹس دے کر پوچھ گچھ کے لیے طلب نہیں کرنا چاہیے۔
معاملہ یوں ہے کہ ملک میں منی لانڈرنگ (کالے دھن کو سفید کرنا) کی روک تھام کے قانون کے تحت اس طرح کے جرائم کی تفتیش کرنے والی مرکزی ایجنسی ای ڈی نے سپریم کورٹ کے دو سینئر وکلا اروند داتر اور پرتاپ وینو گوپال کو ایک کمپنی کیئر ہیلتھ انشورنس کمپنی کو قانونی صلاح و مشورہ فراہم کرنے پر سمن جاری کرکے پوچھ تاچھ کے لیے طلب کیا تھا۔ اس سمن اور طلبی پر سپریم کورٹ بار اسوسی ایشن اور سپریم کورٹ ایڈووکیٹس آن ریکارڈ اسوسی ایشن نے سخت ناراضگی ظاہر کی اور اس طرح کے سمن کی مذمت کرتے ہوئے اسے قانونی پیشہ پر حملہ سے تعبیر کیا۔ دونوں انجمنوں کی ناراضگی کے بعد چیف جسٹس آف انڈیا نے اس معاملہ کا از خود نوٹس لیا اور اس پورے معاملہ کی تفصیلی سماعت کا فیصلہ کیا تاکہ سرکاری ایجنسیوں کے حد سے تجاوز کرنے والے عمل یا ان کے ہاتھوں قانون کی خلاف ورزی کے بڑھتے ہوئے معاملات پر روک لگ سکے۔ حالیہ برسوں میں سرکاری ایجنسیوں، مثلاً محکمہ انکم ٹیکس، ای ڈی اور سی بی آئی وغیرہ پر بے جا استعمال کے الزامات کی بوچھاڑ ہو رہی ہے۔ خاص کر اپوزیشن کے رہنماؤں کی مسلسل جانچ اور ای ڈی کے ذریعہ دو وزرائے اعلیٰ (جھارکھنڈ کے وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین اور دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال) کی سنسنی خیز گرفتاریوں نے ان الزامات کو تقویت دی ہے۔ چنانچہ مذکورہ بالا ایجنسی کو اپوزیشن کے خلاف بے دریغ استعمال کیا جانے والا ہتھیار سمجھا جانے لگا ہے۔ مرکزی الیکشن کمیشن بھی اسی طرح کے الزامات کے باعث سپریم کورٹ میں اپنا دفاع کرنے پر مجبور ہے۔ بہار میں ووٹر فہرست کی خصوصی نظر ثانی (ایس آئی آر) کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے اور اس پس منظر میں مرکزی ایجنسیوں کے استعمال کا معاملہ بھی زیر بحث ہے۔
اگر ای ڈی کی بات کی جائے تو منی لانڈرنگ روک تھام ایکٹ (پی ایم ایل اے) کے تحت اس کے ذریعہ دائر کیے گئے متعدد کیسز اوندھے منھ گرے ہیں۔ خاص طور سے اپوزیشن کے رہنماؤں کے خلاف گزشتہ دس برسوں میں 193 میں سے چند ہی کیسوں میں ای ڈی ملزموں کو سزا دلا پائی ہے، اس سے ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ای ڈی کے خلاف الزامات کتنے مضبوط ہیں۔
پچھلے ہفتہ ہی چیف جسٹس بی آر گوائی نے مبینہ میسور اربن ڈیولپمنٹ اتھاریٹی (موڈا) گھپلے میں کرناٹک کے وزیر اعلیٰ سدا رامیا اور ان کی اہلیہ پاروتی کو ای ڈی کے سمن کے معاملہ میں ایجنسی کو ڈانٹ پلائی۔ کرناٹک ہائی کورٹ نے اس معاملہ میں مذکورہ دونوں افراد کے نام ای ڈی کے سمن کو خارج کر دیا تھا۔ اس کے خلاف ای ڈی کی اپیل پر سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس نے مرکزی ایجنسی کو لتاڑا۔ چیف جسٹس نے یہاں تک کہہ دیا کہ ای ڈی کو سیاسی اوزار کے طور پر استعمال نہیں ہونا چاہیے۔ چیف جسٹس نے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’مسٹر راجو، ہمیں منھ کھولنے پر مجبور نہ کریں ورنہ ہم ای ڈی کے بارے میں کچھ بے حد تلخ تبصرہ کر دیں گے۔ بد قسمتی سے مجھے مہاراشٹرا میں اس کا کچھ تجربہ ہے۔ اس حملے کو پورے ملک تک وسیع نہ کریں۔ سیاسی لڑائی ووٹروں کے سامنے ہونے دیں۔ آپ ( ای ڈی) کیوں استعمال ہو رہے ہیں؟‘‘ ایڈیشنل سالیسٹر جنرل اس کیس میں ایبڈی کی طرف سے بڑے پیمانے پر سازش کی بات عدالت میں رکھ رہےتھے مگر اسے ججوں نے نہیں سنا اور کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلہ کی توثیق کرتے ہوئے ای ڈی کی سرزنش کی۔
مبینہ موڈا گھپلہ دراصل 3.1 ایکڑ زمین کا معاملہ ہے۔ یہ زمین سدا رامیا کی اہلیہ پاروتی کو ان کے بھائی نے سال 2010 میں تحفہ میں دی تھی۔ موڈا نے اس زمین کو بعد میں اپنی تحویل میں لے لیا، چنانچہ اس کے عوض پاروتی نے دوسری زمین دینے کی درخواست کی، جس پر موڈا نے بدلے میں 14 پلاٹ الاٹ کیے۔ ان پلاٹوں کے بارے میں ای ڈی کا یہ کہنا ہے کہ یہ 14 پلاٹس اصل 3.1 ایکڑ زمین سے زیادہ مالیت اور قیمت کے ہیں۔ اس معاملہ میں ای ڈی نے کرناٹک کے وزیر اعلیٰ سدا رامیا کے خلاف کیس درج کرلیا۔ ان کی اہلیہ پاروتی کو بھی طلب کیا گیا۔ کرناٹک ہائی کورٹ نے متاثرین کی اپیل پر سماعت کرتے ہوئے ای ڈی کے کیس کو خارج کر دیا۔ جس پر ای ڈی نے سپریم کورٹ میں اپیل کی۔ یہاں بھی سپریم کورٹ کے سخت تبصروں پر ای ڈی یہ کیس واپس لینے پر مجبور ہوئی۔
کریمنل کیسوں میں مؤکلوں کو قانونی مشورہ دینے اور عدالت میں ان کا کیس لڑنے یا ان کی پیروی کرنے پر سینئر وکلا کو ای ڈی کے ذریعہ سمن جاری کرنے کا معاملہ بھی انوکھا ہے۔ اروند داتر اور پرتاپ وینو گوپال کو طلبی کا نوٹس ملنے کے بعد جب معاملہ گرم ہوا اور سینئر وکلا اور مختلف بار اسوسی ایشنوں نے اس پر برہمی ظاہر کی تو ای ڈی کمزور پڑگئی اور اس نے سمن واپس لے لیے۔ ساتھ ہی یہ سرکولر بھی جاری کیا کہ آئندہ سے منی لانڈرنگ کے کسی معاملہ میں کسی وکیل کو سمن نہ جاری کیا جائے۔ ایجنسی نے نوٹس جاری کرنے میں دراصل بھارتیہ ساکشیہ ادھینیم 2023 کے سیکشن 132 کا غلط استعمال کیا تھا۔ وکلا کی انجمنوں نے جب اس کی مخالفت کی تو ای ڈی نے اپنے ہاتھ روک لیے اور یہ سرکولر جاری کیا کہ ای ڈی کے ڈائرکٹر کی منظوری کے بغیر تفتیشی افسران وکلا سمن نہ جاری کریں۔
تاہم سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بی آر گوائی نے اس معاملہ کا از خود نوٹس لیا اور جسٹس کے ونود چندرن کے ساتھ اس کی سماعت کرتے ہوئے ای ڈی کو یاد دلایا کہ ’’ایک وکیل اور اس کے مؤکل کے درمیان بات چیت اور صلاح و مشورہ ایک خصوصی مراعات یافتہ تبادلہ خیال ہوتا ہے اور ان کے خلاف نوٹس کیسے جاری کی جا سکتی ہے؟ وہ (ای ڈی) ساری حدیں پار کر رہے ہیں‘‘۔ چیف جسٹس آف انڈیا نے کہا کہ اس طرح کی نوٹس قانونی عمل کی تنفیذ کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ثابت ہوسکتی ہے اور انصاف کے حصول کا راستہ ہی بند ہوسکتا ہے۔ چیف جسٹس نے اس سلسلہ میں معقول رہنما ہدایات تیار کرنے پر زور دیا۔
ای ڈی نے عدالت میں یہ مان لیا کہ اس سے غلطی ہوئی ہے اور وکلاء کو نوٹس نہیں جاری کرنا چاہیے تھا لیکن موڈا کیس کی طرح ہی ای ڈی کی طرف سے سرکاری وکیل نے دفاع کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ سالیسیٹر جنرل تشار مہتا نے کہا کہ ای ڈی کے خلاف ایک بیانیہ کھڑا کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جہاں تک اس معاملے کا تعلق ہے وکلاء کو قانونی صلاح و مشورہ کے لیے نوٹس جاری نہیں کی جاسکتی۔تاہم ای ڈی کے خلاف ایک بیانیہ تیار کیا جا رہا ہے۔ انٹرویو اور یوٹیوب شو دیکھ کر یہ تاثر نہ قائم کریں۔ سالیسٹر جنرل یہ کہنا چاہتے تھے کہ ایک دو مثالوں سے ای ڈی کو غلط نہ سمجھا جائے۔ اگر کہیں غلط ہوتا ہے تو اسے روکنے کے لیے عدالت موجود ہے۔ اس پر چیف جسٹس آف انڈیا نے انہیں ٹوکتے ہوئے کہا کہ ’’ہم ایسا بہت سے سے کیسوں میں دیکھ رہے ہیں۔ اور ہم نیوز نہیں دیکھتے اور میں نے تو یو ٹیوب انٹرویوز بھی نہیں دیکھے ہیں۔ گزشتہ ہفتہ میں نے بس ایک دو فلمیں دیکھی ہیں‘‘۔ چیف جسٹس اور دیگر ججوں کے رخ پر سالیسٹر جنرل آگے کچھ نہ کہہ سکے ۔
یکے بعد دیگرے دو کیسوں میں ای ڈی کو ملنے والی پھٹکار سے اس مرکزی ایجنسی کی کارروائیوں پر ایک بار پھر سوالیہ نشان لگائے جا رہے ہیں۔ کرناٹک کے نائب وزیر اعلیٰ ڈی کے شیو کمار نے حال ہی میں ان الزامات کو دہرایا کہ ای ڈی کو سیاسی کارروائی کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے اور اس کے ذریعہ اپوزیشن کے رہنماؤں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس سے قبل گزشتہ مئی میں ترنمول کانگریس کے رکن پارلیمنٹ ساکیت گوکھلے نے کہا تھا کہ ای ڈی کے 98 فیصد کیسز اپوزیشن پارٹیوں کے رہنماؤں کے خلاف دائر کیے گئے ہیں۔ انہوں نے ای ڈی ڈے (یکم مئی) کو ای ڈی کے ڈائرکٹر راہل نوین کے اس دعوے کا حوالہ دیا جس میں انہوں نے تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ 2014 سے قبل اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ غیر مؤثر تھا اور اس کے بعد سے کارروائیوں میں تیزی آئی ہے۔ ایکس پر ایک پوسٹ میں ساکیت گوکھلے نے کہا ’’پچھلے گیارہ برسوں میں ای ڈی نے 5297 کیس درج کیے۔ اس میں سے 47 کیس ٹرائل کورٹ میں ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ای ڈی کے کیسوں میں سزا کی شرح محض 0.7 فیصد ہے، چنانچہ کیس درج کرنے کا بنیادی مقصد ملزم کو جیل میں ڈالنا ہے کیونکہ منی لانڈرنگ روک تھام ایکٹ (پی ایم ایل اے) کے تحت ضمانت ملنا تقریباً نا ممکن ہے۔ حالانکہ ای ڈی ڈائرکٹر کے بقول مذکورہ ایکٹ کے تحت 173کیسز فی الحال ٹرائل میں ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ نیم عدالتی ایجنسی ای ڈی دو فوجداری قوانین پریوینشن آف منی لانڈرنگ ایکٹ (پی ایم ایل اے) اور فیوجیٹیو اکنامک آفینڈرس ایکٹ (ایف ای او اے) اور اس کے علاوہ فارین ایکسچینج مینجمنٹ ایکٹ (فیما) کے دیوانی التزامات کا نفاذ کرتی ہے اور انہیں کے تحت قانونی کارروائی انجام دیتی ہے۔
گزشتہ مئی میں بھی سپریم کورٹ نے تمل ناڈو کے ایک معاملہ میں ای ڈی پر سخت نکتہ چینی کی تھی۔ عدالت عالیہ نے تمل ناڈو اسٹیٹ مارکیٹنگ کارپوریشن (تسمیک) میں مبینہ مالی بے ضابطگیوں کی ای ڈی کی جانچ روکتے ہوئے مرکزی ایجنسی کی کارروائیوں پر ناراضگی ظاہر کی۔ چیف جسٹس بی آر گوائی اور جسٹس اگسٹائن جارج مسیح کی بنچ نے کہا تھا کہ ’’ای ڈی تمام حدیں پارکر رہی ہے‘‘۔ ای ڈی کے وکیل نے کہا کہ یہ ایک کروڑ روپے کی بدعنوانی کا معاملہ ہے اور ہم حد نہیں پار کر رہے ہیں۔ عدالت نے بہرحال چنئی میں چھ سے آٹھ مارچ کے درمیان تسمیک کے ہیڈ کوارٹر پر چھاپہ اور ضبطی کی کارروائیوں کو غلط بتایا۔
تمل ناڈو کی حکومت اور تسمیک کی جانب سے ای ڈی کے چھاپوں اور ضبطی کے خلاف دائر کیے گئے کیس میں سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے اس بات کو نوٹ کیا کہ ریاستی حکومت کی جانب سے پہلے سے ہی مختلف بے ضابطگیوں اور بد عنوانیوں کی جانچ کے لیے ایف آئی آر درج کرائی گئی ہے۔ دو رکنی بنچ نے ای ڈی سے سوال کیا کہ اس نے ریاستی حکومت کے دائرۂ کار میں کیوں مداخلت کی۔ بنچ نے یہ بھی سوال کیا کہ ایک فوجداری معاملے میں ایک کارپوریشن کے خلاف کوئی کیس کیسے درج کیا جا سکتا ہے۔
اسی طرح چھتیس گڑھ میں سابقہ کانگریس حکومت کے دور میں شراب کی فروخت سے جڑے منی لانڈرنگ کے ایک معاملہ میں ضمانت عرضی کی سماعت کرتے ہوئے بھی عدالت نے ای ڈی کی سرزنش کی تھی۔ عدالت نے پی ایم ایل ایکٹ کے غلط استعمال اور ملزمین کو جیل میں ہراساں کرنے کی بات کہتے ہوئے ای ڈی کی سرزنش کی تھی۔ عدالت نے یہاں تک کہا تھا کہ ای ڈی کو شواہد کے بغیر الزامات عائد کرنے اور گرفتاریاں کرنے کی عادت سی پڑ گئی ہے اور اس میں ایک تسلسل نظر آتا ہے۔
ان تمام عدالتی تبصروں کے پس منظر اور بوگس کیسوں میں حد سے زیادہ بڑھ کر کارروائیاں ہونے پر یہ سوال اٹھنا لازمی ہے کہ آخر اپوزیشن جماعتوں کی حکومت والی ریاستوں میں ای ڈی اس قدر شد و مد کے ساتھ کارروائیاں کیوں کرتی ہے۔ ای ڈی اور سی بی آئی پر یہ الزامات یوں ہی نہیں ہیں کہ یہ دونوں ایجنسیاں مرکزی حکومت کے اشارے پر غیر بی جے پی حکومت والی ریاستوں میں اپوزیشن لیڈروں کو ہراساں کرتی ہیں اور ان کے خلاف قانونی کارروائیاں کر رہی ہیں۔ مرکزی ایجنسیوں کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ شہریوں کو ہراساں کرنے کے لیے سرکاری ایجنسیوں کا استعمال نہایت غیر جمہوری اور غیر آئینی امر ہے، اس سے جمہوریت کی جڑیں کھوکھلی ہو رہی ہیں۔
سپریم کورٹ کا نرم گرم رویہ
اس معاملے میں ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ سپریم کورٹ کی تین رکنی بنچ نے 27 جولائی 2022 میں اپنے ایک فیصلے کے ذریعہ ای ڈی کو پی ایم ایل ایکٹ کے تحت چھاپے، گرفتاری، ضبطی اور املاک مہر بند کرنے کا اختیار دے دیا تھا۔ حالانکہ عدالت نے اسی سال اگست میں ہی دو سو زائد پٹیشنوں کی سماعت کرتے ہوئے اس فیصلے پر نظرثانی کا عندیہ دیا مگر ابھی تک اس پر کوئی حتمی فیصلہ نہیں آیا ہے۔ البتہ ہوا یہ ہے کہ مختلف ہائی کورٹوں اور سپریم کورٹ میں ای ڈی کو کئی معاملات میں منہ کی کھانی پڑی ہے اور اب یہ غالب رجحان بنتا نظر آرہا ہے چنانچہ سینئر وکیلوں تک ای ڈی کی جانچ کی آنچ پہنچنے پر بار اور بنچ دونوں کو یہ احساس ہوا ہے کہ ای ڈی شتر بے مہار ثابت ہو رہا ہے اور اس کی جواب دہی طے کرنی ضروری ہے۔
داتر اور وینو گوپال کو ای ڈی کے نوٹس پر چیف جسٹس آف انڈیا کی سربراہی والی بنچ کا اظہار ناراضگی اس پہلو سے کافی اہم ہے۔ اب سپریم کورٹ یہ طے کرے گی کہ اگر کوئی وکیل کسی کیس میں متاثرہ پارٹی کو قانونی مدد فراہم کرتا ہے، صلاح و مشورہ دیتا ہے اور صرف قانونی مشورے تک ہی محدود رہتا ہے تو کیا تفتیشی ایجنسی یا پولیس براہ راست وکیل کو نوٹس دے کر طلب کرسکتی ہے؟ اگر ایجنسی کے دعوے کے مطابق یہ مان بھی لیا جائے کہ اس کا کردار وکیل کے کردار سے بڑھ کر ہے تب بھی کیا اسے وکیل کو براہ راست طلب کرنے کا اختیار دینا چاہیے یا پھر اس طرح کے معاملات میں عدالتی نگرانی رہنی چاہیے؟ سپریم کورٹ کی بنچ نے اب یہ بات کہی ہے کہ چونکہ یہ مسئلہ انصاف کی تنفیذ سے تعلق رکھتا ہے اس لیے ایک پیشہ ور کو اس طریقہ سے مرکزی ایجنسی کے زیر اثر رکھنا معقول نظر نہیں آتا۔
سپریم کورٹ نے یہ واضح کردیا ہے کہ قانون کی پریکٹس کرنے والے وکلا آئین کے آرٹیکل (جی) (1) 19 کے تحت اپنے بنیادی حق کا استعمال کرنے کے علاوہ بھی مخصوص مراعات رکھتے ہیں۔ یہ آرٹیکل کسی پیشہ کی پریکٹس کے تحت حاصل حقوق سے تعلق رکھتا ہے۔ انفورسمنٹ ڈائرکٹریٹ کے تعلق سے عدالت عالیہ میں چونکہ قانونی باریکیاں زیر بحث ہیں اور مرکزی ایجنسیوں کی کارروائیاں سیاسی طور سے بھی حساس ہیں اس لیے سپریم کورٹ کے رخ پر پورے ملک کی نظریں ہیں۔
مرکزی ایجنسیوں اور اداروں کی فہرست میں مرکزی الیکشن کمیشن بھی شامل ہے جو مختلف ریاستوں میں ووٹر لسٹوں کی تیاری اور بہار میں خصوصی نظر ثانی مہم کے حوالے سے سپریم کورٹ کے اندر اور باہر دونوں جگہ بحث کا موضوع بنا ہوا ہے۔ اس پورے معاملے کو مرکزی ایجنسیوں کی حقیقی آزادی، اختیارات کے معقول اور منصفانہ استعمال اور شہریوں کے مفادات اور بنیادی حقوق کے تحفظ کے حوالے سے دیکھنا ہوگا۔ عدالت عالیہ میں قانونی بحثوں کے درمیان مرکزی ایجنسیوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنا تقدس برقرار رکھیں۔ عدالتوں میں سیاسی انداز کی رسہ کشی سے ان کا ہی وقار مجروح ہوگا۔ ان کے سربراہان پر یہ بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی اور اپنے ادارے کی ساکھ اور اس کے وقار کو بلند رکھیں اور اس کی مٹی پلید ہونے سے بچائیں۔
***
اگر ای ڈی کی بات کی جائے تو منی لانڈرنگ روک تھام ایکٹ (پی ایم ایل اے) کے تحت اس کے ذریعہ دائر کیے گئے متعدد کیسز اوندھے منھ گرے ہیں۔ خاص طور سے اپوزیشن کے رہنماؤں کے خلاف گزشتہ دس برسوں میں 193 میں سے چند ہی کیسوں میں ای ڈی ملزموں کو سزا دلا پائی ہے، اس سے ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ای ڈی کے خلاف الزامات کتنے مضبوط ہیں۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 03 جولائی تا 09 اگست 2025