تیستا سیٹلواڈ سے ناروا سلوک : جو تھا ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا
انسانی حقوق کی جہد کار کو سپریم کورٹ سے عارضی راحت اور گجرات ہائی کورٹ کی سر زنش
ڈاکٹر سلیم خان ،ممبئی
سپریم کورٹ فی الحال تیستا سیتلواد کے معاملے میں ایک مثبت کردار ادا کرتا ہوا نظر آ رہا ہے مگر یہ پنڈورا باکس بھی اسی کا کھولا ہوا ہے۔ پچھلے سال ذکیہ جعفری کیس میں سپریم کورٹ نے ایک ایسا متنازعہ فیصلہ سنا دیا تھا جس کی توقع کسی کو نہیں تھی۔ یہ 2002 کے فسادات میں ذکیہ جعفری کے شوہر احسان جعفری کے قتل کی تحقیقات کا قضیہ تھا جس میں اس وقت کے گجرات کے چیف منسٹر نریندر مودی کو کلین چٹ دے کر معاملہ رفع دفع کر دیا گیا۔
دنیا کے تمام مہذب معاشروں میں سماجی جہد کاروں کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے والوں کا احترام کیا جاتا ہے، مظلوموں کو انصاف دلانے کی خاطر جدو جہد کرنے والوں کی پذیرائی ہوتی ہے اور جو اس کام کے لیے اپنی جان جوکھم میں ڈال دے اس کو تو بے حد سراہا جاتا ہے، ملک میں اس کی جیتی جاگتی مثال تیستا سیتلواد ہیں۔ گجرات فساد کے دوران غیر معمولی دلیرانہ انداز میں خدمات انجام دینے کے صلے میں انہیں 1993 میں حقوق انسانی کی ملک میں سب سے بڑی تنظیم پی یو سی ایل نے انسانی حقوق کے لیے صحافت کا اعزاز دیا۔ اسی سال انہیں غیر معمولی خاتون صحافی کا ایوارڈ بھی ملا۔ اس سے قبل 1999 میں ان کو اپنے خاوند جاوید آنند کے ساتھ مشترکہ طور پر مہارانا میواڑ فاونڈیشن کی جانب سے حکیم خان ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ اس کے ایک سال بعد دلت لبریشن ایجوکیشن ٹرسٹ نے ان کو حقوق انسانی کے ایوارڈ سے سرفراز کیا۔ 2002 میں انہیں کانگریس نے ہرش مندر کے ساتھ راجیو گاندھی سدبھاونا ایوارڈ سے نوازا۔ ایک سال بعد 2003 میں انہیں نیومبرگ بین الاقوامی انسانی حقوق کا اعزاز ملا۔ 2004 میں ہیلن کیلر کے اشتراک میں ان کو ارکانِ پارلیمنٹ برائے عالمی ایکشن نے جمہوریت کے محافظ کا ایوارڈ دیا۔ 2004 میں تیستا سیتلواد کو اویجیل انڈیا موومنٹ نے ای اے تھامس نیشنل ہیومن رائٹس ایوارڈ سے نوازا۔ 2006 میں ان کو ٹاٹا گروپ نے نانی پالکھی والا اعزاز دیا۔ 2007 میں ماتوشری بھیمبانی ایوارڈ اور اسی سال حکومت ہند نے معروف قومی اعزاز پدم شری سے نوازا۔ 2009 میں انہیں کویت میں فیڈریشن آف مسلم ایسوسی ایشن نے ایوارڈ دیا۔ اس کے بعد اوینجلک گروپ نے آسٹریلیائی فنکار ایڈنی بون کے ساتھ پیکس کرسٹی انٹرنیشنل پیس ایوارڈ پیش کیا۔ 2020 میں یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا نے اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگری عطا کی۔
آئندہ سال آر ایس ایس اپنے قیام کے سو سال پورے کر رہا ہے۔ اس پورے عرصے میں وہ اپنا کوئی ایک ایسا فرد بتا دے جس کو اس طرح مختلف النوع تنظیموں کی جانب سے دنیا کے اتنے سارے ممالک میں انعام و اکرام سے نوازا گیا ہو؟ بلکہ یہ دعویٰ کر دے کہ آئندہ سو سالوں میں ان میں سے کسی کی ایسی پذیرائی ہو گی تو یقینا سو سال بعد بھی یہ دعوی جھوٹا ثابت ہو گا۔
وطن عزیز میں 2014 کے بعد تبدیلیوں کا جو سلسلہ شروع ہوا اس کے نتیجے میں سب کچھ بدلتا چلا گیا اور اب حالت یہ ہے کہ معروف سماجی جہد کار تیستا سیتلواد پر مظالم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔ جہدکاری کے میدان میں تیستا سیتلواد اتنی ہی معروف ہیں جتنے وزیر اعظم نریندر مودی۔ ان دونوں میں فرق ہے تو بس اتنا کہ ایک نیک نام ہے اور دوسرا بدنام۔ گجرات اے ٹی ایس کے ذریعہ ان کی گرفتاری جس قدر حیرت انگیز تھی عدالت عظمیٰ سے ملنے والی ضمانت بھی کم تعجب خیز نہیں تھی۔ سپریم کورٹ نے 19 جولائی 2023 کو تیستا سیتلواد کو گجرات فسادات سے متعلق معاملے میں ضمانت دے دی اور ساتھ ہی گجرات ہائی کورٹ کے فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔ سپریم کورٹ کا کسی ہائی کورٹ کے فیصلے کو بدل دینا معمول کی بات ہے۔ لوگ اسی غرض سے اعلیٰ عدالت میں جاتے ہیں لیکن اپنے فیصلے میں عدالت عظمیٰ نے ایک تو فیصلے کو متضاد کہا، ساتھ ہی اسے perverse بھی قرار دیا۔ ویسے انگریزی کے اس لفظ کا لغوی ترجمہ ٹیڑھا بنتا ہے لیکن یہ معاملہ اتنا سیدھا سادا بھی نہیں ہے۔ عدلیہ نے جس تناظر میں اس کا استعمال کیا اس کا قریب ترین ترجمہ’بدنیتی پر مبنی‘ ہوتا ہے۔
مذکورہ بالا بیان کی سنگینی کے بڑھنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس طرح کے فیصلے یکے بعد دیگرے گجرات ہی سے آتے ہیں۔ ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ نام نہاد نمونے کی ریاست بھارت میں ہی ہے یا کسی اور سیارے پر بھی ہے؟ اس لیے سیاق و سباق کا جائزہ لے کر دیکھنا چاہیے کہ سپریم کورٹ نے یہ کیوں کہا؟ سپریم کورٹ کی سہل ترین منطق یہ تھی کہ چونکہ فردِ جرم داخل کی جا چکی ہے اس لیے ملزم کو حراست میں لے کر مزید تفتیش کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ یہ دلیل کہ استغاثہ نے آئین کی دفعہ 482، 226، 32 کے تحت درج شدہ فرد جرم کو چیلنج نہیں کیا اس لیے وہ ضمانت کی مستحق نہیں ہے، نہ صرف ناقابلِ قبول ہے بلکہ بدنیتی کی غماز بھی ہے۔ اس کے بعد تیستا سیتلواد کو باقاعدہ ضمانت دیتے ہوئے عدالتِ عظمیٰ نے فوراً حاضر ہونے کے ہائی کورٹ فیصلے کو مسترد کر دیا۔ اس کا کہنا تھا کہ اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو مذکورہ درخواست کے بغیر کوئی ملزم ضمانت کا مستحق نہیں ٹھہرے گا۔ اس لیے یہ تفتیش ہی ناقص ہے۔ چند گواہوں کے بیانات کی بنیاد پر مقدمہ درج کرنا سراسر متضاد ہے۔
یہ معاملہ عدالتِ عظمیٰ میں اس لیے پہنچا کیونکہ گجرات ہائی کورٹ نے اس مہینے کے شروع میں تیستا سیتلواد کی ضمانت کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے انہیں فوری طور پر خود سپردگی کا حکم دیا تھا۔ سپریم کورٹ کی عبوری ضمانت نے انہیں پچھلے سال اگلی سماعت تک گرفتاری سے محفوظ رکھا تھا۔ تیستا سیتلواد پر 2002 کے گجرات فسادات کے متعلق من گھڑت ثبوت پیش کرنے کا الزام ہے۔ تیستا کے لیے یکم جولائی کو دیر رات کی نشست میں سپریم کورٹ کے جسٹس بی آر گوائی نے سیتلواد کو عبوری راحت دیتے ہوئے پوچھا تھا کہ ’’اگر کچھ دنوں کے لیے عبوری تحفظ دیا جائے تو کیا آسمان گر جائے گا؟‘‘ بعد ازاں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے ان کی عبوری ضمانت میں انیس جولائی تک توسیع کر دی تھی۔ یہ مرکزی حکومت کے لیے حیرت کا جھٹکا تھا اس لیے کہ اسے گجرات ہائی کورٹ کی طرح سپریم کورٹ سے بھی یہی امید تھی کہ وہ اس کی ہاں میں ہاں ملائے گا۔ ان دونوں عدالتوں کے متضاد فیصلوں نے ثابت کر دیا کہ احمد آباد میں عدلیہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے والی مودی سرکار دلی میں اپنے مقصد میں ناکام ہوگئی۔
سپریم کورٹ فی الحال تو تیستا سیتلواد کے معاملے میں ایک مثبت کردار ادا کرتا ہوا نظر آ رہا ہے مگر یہ پنڈورا باکس بھی اسی کا کھولا ہوا ہے۔ پچھلے سال ذکیہ جعفری کیس میں سپریم کورٹ نے ایسا متنازعہ فیصلہ سنا دیا جس کی توقع کسی کو نہیں تھی۔ یہ 2002 کے فسادات میں ذکیہ جعفری کے شوہر احسان جعفری کے قتل کی تحقیقات کا قضیہ تھا جس میں مودی کو کلین چٹ دے کر معاملہ رفع دفع کر دیا گیا۔ خصوصی تحقیقاتی ٹیم کے ’کلوزر رپورٹ‘ کے خلاف ذکیہ جعفری اور سیتلواد نے اپیل دائر کی۔ سپریم کورٹ کو اختیار تھا کہ وہ اس کو مسترد کر دیتا مگر اس نے اپیل کا تصفیہ کرتے ہوئے تیستا سیتلواد پر پچھلے سولہ سالوں سے غلط مقصد کے ساتھ آگ میں گھی ڈالنے کا الزام لگا دیا۔ یہ ایک ایسا جھوٹ تھا جسے عدالت میں بولتے ہوئے پیشہ ور گواہ کو بھی شرم محسوس ہوئی ہو گی۔ سپریم کورٹ نے سرکار کو انہیں کٹہرے میں لانے کی ترغیب دی اور تیستا سیتلواد کے خلاف قانونی کارروائی کرنے پر اکسایا۔
عدلیہ سے یہ فیصلہ ایک نہایت گھناونے مقصد کے تحت لکھوایا گیا تھا اور اس کے حصول کی خاطر اول تو وزیر داخلہ نے ٹی وی پر انٹرویو دے کر اگلے اقدام کے لیے ماحول سازی کی اور فوراً بعد گجرات کے انسداد دہشت گردی دستے نے تیستا سیتلواد کو نہایت ڈرامائی انداز میں بغل والے مکان کی دیوار پھاند کر دہشت گرد کی مانند ممبئی میں انہیں گھر سے گرفتار کرلیا۔ پچیس جون 2022 کو تیستا سیتلواد کے ساتھ سابق ڈی جی پی سری کمار کو بھی گرفتار کیا گیا تھا۔ ان کے علاوہ تیسرے ملزم سنجیو بھٹ پہلے ہی پالن پور جیل میں بند تھے۔ وہ 1990 کے ایک فرضی حراستی موت کے مقدمے میں سزا کاٹ رہے تھے۔ ان گرفتاریوں کے تین ماہ بعد اکیس ستمبر کو گجرات کی خصوصی تحقیقاتی ٹیم ایس آئی ٹی نے 2002 کے گجرات فسادات کے سلسلے میں مبینہ طور پر ثبوت گھڑنے کے الزام میں تیستا سیتلواد سمیت گجرات کے سبکدوش ڈی جی پی آر بی سری کمار اور سابق آئی پی ایس افسر سنجیو بھٹ کے خلاف چارج شیٹ داخل کی۔ ان تینوں کے خلاف سیکشن 120 بی (مجرمانہ سازش) 468 (جعل سازی) 471 (جعلی دستاویز یا الیکٹرانک ریکارڈ کو حقیقی طور پر استعمال کرتے ہوئے) 194 کے تحت چارج شیٹ دائر کی گئی تھی۔ ان کے خلاف سزائے موت دلانے کے لیے بے قصور لوگوں کے خلاف 211 (زخمی کرنے کے ارادے سے کیے گئے جرم کا جھوٹا الزام) اور تعزیرات ہند کی 218 (سرکاری ملازم کا غلط ریکارڈ تیار کرنا یا کسی شخص کو سزا یا جائیداد کو ضبطی سے بچانے کے ارادے سے لکھنا) کے تحت مقدمہ دائر کیا گیا تھا۔
فردِ جرم داخل ہونے سے قبل دو ستمبر کو تیستا سیتلواد تو عبوری ضمانت پر رہا ہو گئیں مگر بیچارے سری کمار اٹھائیس ستمبر کو گجرات ہائی کورٹ میں درخواستِ ضمانت کی سماعت کے منتظر رہے۔ ان کے خلاف ایف آئی آر احمد آباد ڈی ٹیکشن آف کرائم برانچ نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی بنیاد پر وہی الزامات درج کیے تھے جس میں 2002 کے فسادات میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی سمیت ان کے وزراء کی کونسل اور بیوروکریٹس کو کلین چٹ دی گئی تھی۔ گجرات ایس آئی ٹی نے سماجی کارکن تیستا سیتلواد کے خلاف اپنے حلف نامہ میں احمد پٹیل سے متعلق ایک نہایت بھونڈا اور سنسنی خیز انکشاف کیا تھا۔ یہ الزام لگایا گیا تھا کہ کانگریس کی صدر سونیا گاندھی کے مشیر احمد پٹیل کے کہنے پر یہ سازش رچی گئی تھی۔ حلف نامہ کے مطابق احمد پٹیل سے اس کے لیے دو مرتبہ رقم لی گئی۔ تیستا سیتلواد کی ضمانت کی مخالفت کرتے ہوئے ایس آئی ٹی نے حلف نامہ میں دعویٰ کیا تھا کہ تیستا سیتلواد کو گجرات میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کو سیاسی بیان بازی کرنے والے کے طور پر بدنام کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔
سرکاری حلف نامہ میں کہا گیا کہ تیستا سیتلواد نے مبینہ طور پر شروع سے ہی اس سازش کے حصے کے طور پر کام کرنا شروع کر دیا تھا۔ گودھرا ٹرین واقعہ کے کچھ ہی دن بعد انہوں نے احمد پٹیل کے ساتھ میٹنگ کی اور پانچ لاکھ روپیوں کی پہلی قسط لی۔ یہ دعویٰ بھی کیا گیا تھا کہ احمد پٹیل اور تیستا سیتلواد کی شاہ باغ کے سرکاری سرکٹ ہاؤس میں دوسری ملاقات کے دوران کسی گواہ نے احمد پٹیل کی ہدایت پر انہیں مزید پچیس لاکھ روپے دیے جو ریلیف فنڈ کا حصہ نہیں تھے۔ یہ بات اگر درست بھی ہو تو مظلوموں کو قانونی مدد فراہم کرنے کا شمار ریلیف ہی میں شمار ہو گا، اس لیے تیستا سیتلواد پر ایک سیاسی پارٹی سے مالی اور دیگر فوائد حاصل کر کے وزیر اعلیٰ سمیت کئی عہدیداروں اور دیگر بے قصور افراد کو پھنسانے اور ثبوت گھڑ کر قانون کے عمل کا غلط استعمال کرنے اور بے گناہ لوگوں کو موت کی سزا میں پھنسانے کی سازش کرنے کا الزام لگانا درست نہیں ہے۔
ایس آئی ٹی نے تیستا سیتلواد کے حوالے سے کہا کہ وہ گواہ کو ڈرا دھمکا کر ثبوت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر سکتی ہیں۔ مودی اور شاہ کے گجرات میں تیستا سیتلواد کا کسی کو خوف زدہ کرنا مضحکہ خیز اندیشہ تھا۔ مرکزی سرکار کے ایما پر کی جانے والی ایس آئی ٹی کی اس حرکت پر حسبِ توقع کانگریس آگ بگولا ہو گئی۔ اس نے احمد پٹیل کے خلاف عائد کیے گئے ان الزامات کی تردید کی کہ انہوں نے 2002 فسادات کے بعد اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کی قیادت میں گجرات حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی سازش رچی تھی۔کانگریس ترجمان جے رام رمیش نے ان الزامات کو شرارتی قرار دیتے ہوئے انہیں وزیر اعظم کی ایک منظم حکمت عملی کا حصہ بتایا جس کے تحت وہ خود کو 2002 میں ہونے والے فرقہ وارانہ قتل عام کے الزامات سے بری الذمہ قرار دینے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ جے رام رمیش کے مطابق اس قتل عام پر قابو پانے کے لیے ان کی عدم دلچسپی اور نا اہلیت کی وجہ سے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے وزیر اعلیٰ مودی کو ’راج دھرم‘ کی یاد دہانی کرائی تھی اور بعد میں یہ اصطلاح متنازعہ بن گئی۔ جے رام رمیش نے عدالتی مقدمات میں کٹھ پتلی تفتیشی ایجنسیوں کی جانب سے قیاس آرائیوں پر مبنی الزامات کی بنا پر پریس کے ذریعے فیصلہ سنانے کو مودی-شاہ جوڑی کے ہتھکنڈوں کا خاصہ بتایا اور ایک آنجہانی شخص پر لگائے جانے والے اناپ شناپ الزامات کی پر زور مذمت کی۔ وزیر اعظم مودی کے ذریعہ گجرات کے داغ کو چھپانے کی ہر کوشش اسے مزید عیاں کر دیتی ہے۔ بی بی سی فلم کی عالمی مقبولیت اس کا بین ثبوت ہے۔
اس معاملے کا خلاصہ یہ ہے کہ پچیس جون 2022 کو حراست میں لیے جانے کے بعد تیستا سیتلواد کو دو جولائی کو عدالتی تحویل میں بھیجا گیا۔ گجرات ہائی کورٹ میں انہوں نے ضمانت کے لیے رجوع کیا تو عرضی کو خارج کر دیا گیا۔ اس کے بعد ان کو سپریم کورٹ سے عارضی راحت ملی۔ اس راحت کے ختم ہونے پر ہائی کورٹ نے انہیں فوری طور پر خود سپردگی کا حکم صادر کر دیا۔ جسٹس نیرج دیسائی کی بنچ نے تیستا سیتلواد کے بارے میں کہا، چونکہ درخواست گزار سپریم کورٹ کی جانب سے دی گئی عبوری ضمانت پر باہر ہیں اس لیے انہیں فوری طور پر خود سپردگی کی ہدایت دی جاتی ہے۔ اس کے بعد تیستا سیتلواد نے دوبارہ عدالت عظمیٰ کے دروازے پر دستک دی جہاں یکم جولائی کو سپریم کورٹ نے رات دیر گئے خصوصی سماعت کرتے ہوئے گرفتاری سے تحفظ فراہم کر دیا نیز، ہائی کورٹ کے حکم پر ایک ہفتہ کے لیے روک بھی لگا دی۔ سپریم کورٹ کی تین ججوں کی بنچ نے اپیل کے وقت کہا کہ ایک عام مجرم بھی کچھ عبوری راحت کا حق دار ہوتا ہے تاکہ اسے سنگل جج کے حکم کو چیلنج کرنے کے لیے وقت مل سکے۔ تیستا سیتلواد کا آزمائشوں سے گزرنا یہ دکھاتا ہے وزیر اعظم جس جمہوریت کی ماں کو ساری دنیا میں خوش نما بنا کر پیش کرتے ہیں اس کے تحت ظلم کے خلاف جد و جہد کرنے والے کس حالت میں ہیں۔ اس کے ساتھ یہ پیغام بھی ہے کہ حق کی راہ میں اپنا سب کچھ داو پر لگانے والے ان ہتھکنڈوں سے نہیں ڈرتے اور تاریخ بھی گواہ ہے کہ کامیابی انہیں کے قدم چومتی ہے۔ تیستا سیتلواد جیسے لوگوں کا عزم و حوصلہ مجروح سلطان پوری کے اس شعر کے مصداق ہے؎
سنتے ہیں کہ کانٹے سے گل تک ہیں راہ میں لاکھوں ویرانے
کہتا ہے مگر یہ عزم جنوں صحرا سے گلستاں دور نہیں
***
***
تیستا سیتلواد کا آزمائشوں سے گزرنا یہ دکھاتا ہے وزیر اعظم جس جمہوریت کی ماں کو ساری دنیا میں خوشنما بناکر پیش کرتے ہیں اس کے تحت ظلم کے خلاف جدوجہد کرنے والے کس حالت میں ہیں ۔ اس کے ساتھ یہ پیغام بھی ہے کہ حق کی راہ میں اپنا سب کچھ داو پر لگانے والے ان ہتھکنڈوں سے نہیں ڈرتے اور تاریخ گواہ ہے کہ کامیابی انہیں کے قدم چومتی ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 30 جولائی تا 05 اگست 2023