!تین نئےفوجداری قوانین: بھارت کو فاشسٹ ریاست بنانے کی سمت قدم

شہری آزادیوں پر شکنجہ۔جمہوری نظام میں جمہور پر عرصہ حیات تنگ کرنے والے قوانین ناقابل قبول

نور اللہ جاوید، کولکاتا

نوآبادیاتی دور کی یادوں کا خاتمہ کرنے کے بجائے جبر کو ایک نئی سطح پر لانے کی کوشش
سخت قوانین کو منسوخ کروانے کے لیے ہر سطح پر مضبوط آواز اٹھانے کی ضرورت
جیسے جیسے یکم جولائی کی تاریخ قریب آرہی ہے مجھے یہ خوف ستانے لگا ہے کہ کیا میں بطور صحافی آزادانہ طور پر حکومت کی پالیسیوں اور اقدامات کی تنقید کرنے کے بعدحکومتی کارروائی سے محفوظ رہ سکوں گا؟ کیا کوئی جج بے خوف اور کسی لومتہ لائم کی پرواہ کیے بغیراپنا فرض ادا کرسکے گا؟ کیا کوئی سماجی کارکن شہری حقوق کے لیے احتجاج، دھرنا اور بھوک ہڑتال کرسکے گا؟ کیا کوئی سرکاری ملازم سیاسی اسٹیبلشمنٹ کی منشا اور خواہشات کے خلاف کام کرسکے گا؟ اور اس سے بھی بڑھ کر قومی وشاہراہوں پر ملک کی معیشت میں اہم کردار ادا کرنے والے ٹرک ڈرائیورس بے خوف ہوکر گاڑی چلاسکیں گے؟ سوال یہ ہے کہ آخریکم جولائی کے بعد ایسا کیا ہونے جارہا ہے کہ صحافی سے لے کر، منصب عدالت پر بیٹھے جج صاحبان،شہری و سماجی کارکنان اور یہاں تک ٹرک ڈارئیورس خود کو غیر محفوظ تصور کررہے ہیں؟ دراصل یکم جولائی سے نوآبادیاتی دورکی یادگار فوجداری قوانین کی جگہ بزعم خویش دیسی ساخت کے تین نئے فوجداری انصاف کے قوانین ”بھارتیہ نیائے سنہتا“، ”بھارتی شہری تحفظ سنہتا“، اور”بھارتیہ ساکشیہ ایکٹ“نافذ ہونے جارہے ہیں۔یہ قوانین پرانے برطانوی دور کے مجرمانہ قوانین بشمول تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی جگہ لیں گے۔یہ قوانین گزشتہ سال ہی دسمبر 2023میں مضحکہ خیز طریقہ سے پارلیمنٹ کے دونو ں ایوان سے منظور کروائے گئے تھے۔ویسے ان قوانین پر ملک میں اگست 2023سے ہی بحث چل رہی ہے۔ملک کی تاریخ، یادگار مقامات کی ساخت اور آئین میں تبدیلی کے لیے پرعزم مودی حکومت جو اب این ڈی اے حکومت ہوچکی ہے ملک کی ہر ایک چیز پر اپنی چھاپ چھوڑنے کے لیے بے چپن ہے۔
دسمبر 2023میں پارلیمنٹ کا سرمائی اجلاس غیر معمولی نوعیت کا تھا،کیوں کہ حکومتی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کرنے والے 146ممبران پارلیمنٹ کو اسپیکر اور راجیہ سبھا کے چیرمین نے عجیب و غریب بنیادوں پر معطل کرنے کا فیصلہ کردیا۔آزاد بھارت کی پارلیمانی تاریخ کا بھی یہ پہلا مو قع تھا جس میں اتنی بڑی تعداد میں قانون سازوں کو پارلیمنٹ میں اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی سے محروم کردیا گیا۔اس صورت حال میں یہ تین کریمنل لاز پارلیمنٹ میں پیش کیے گئے اور اپوزیشن کی بحث کے بغیر ہی انہیں متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا۔ظاہر ہے کہ پالیسی سازوں اور قانون سازوں کے درمیان اتفاق رائے قائم کیے بغیر پاس ہونے والے قانون پر عدم اطمینان اور اسٹیک ہولڈرس کے درمیان عدم اتفاق پیدا ہونا لازمی ہے۔جب کہ قانونی نظام کی تشکیل ایک نازک توازن کا تقاضا کرتی ہے۔محفوظ، زیادہ منصفانہ اور ہم آہنگ معاشرے کے فروغ کے لیے ضروری ہے کہ انصاف کا پہیہ نہ صرف اختیار کے وزن سے بلکہ اجتماعی دانش اور مشترکہ ذمہ داری کی رفتار سے بھی گھومے۔کسی ایک پرزیادہ بوجھ ڈالے بغیر جواب دہی کو برقرار رکھنا لازمی ہوتا ہے۔پولیٹکل سائنس داں بتاتے ہیں کہ ”جب قوانین حقیقی دنیا کے حالات پر غور کیے بغیر بنائے جاتے ہیں تو غیر ارادی طور پر اختلاف کا سبب بن جاتے ہیں اور انصاف کی راہ کو نقصان پہنچتا ہے۔ 2020میں پہلی مرتبہ مودی حکومت نے فوجداری قوانین میں تبدیلی کے عمل کا آغاز کیا اور اس کے لیے ایک پینل کی تشکیل کی گئی۔اس پینل نے کیا رپورٹ پیش کی اور رپورٹ کی تیاریوں میں اسٹیک ہولڈرس کی سفارشات اور ان کی رایوں کو کتنی اہمیت دی،اس کا علم بی جے پی کی اعلیٰ قیادت کے علاوہ کسی کو نہیں ہے۔اس کے بعد اگست 2023میں پہلی مرتبہ پارلیمنٹ کے مانسون سیشن میں پیش کیا گیا اور پھر ان بلوں کو وزارت داخلہ کے قائمہ کمیٹی کے پاس بھیج دیا گیا۔قائمہ کمیٹی میں بی جے پی اراکین کی اکثریت تھی چناں چہ اپوزیشن جماعتوں کے ممبروں کے رائے اور ان کے اختلافی نوٹس کی کوئی اہمیت نہیں دی گئی اور نومبر 2023میں یہ خبر آئی کہ قائمہ کمیٹی نے ان قوانین پر اپنی مہر لگادی ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا قوم کے تنوع کے تانے بانے کے احساسات کو باقی اور تمام اسٹیک ہولڈرس کے نقطہ کو شامل کیے بغیر جامع نقطہ نظرپر مبنی قانون کی امید کی جاسکتی ہے؟ انصاف کے حصول میں، تعزیری اقدامات اور پیچیدہ قانونی منظرنامے میں کام کرنے والوں کو درپیش عملی چیلنجوں کے درمیان ایک نازک توازن قائم کرنا ضروری ہوتا ہے۔
4جون کو طویل انتخابی عمل کے بعدجو نتائج سامنے آئے اس میں ملک کے عوام نے اگرچہ مودی کو تیسری مرتبہ حکومت سازی کامینڈیٹ تو دیا مگر اس مینڈیٹ میں ملک کے دانشور ووٹروں نے زبردست پیغام دیاکہ’ہم خودمختار اپنی شہری آزادیوں کے خاتمے کو برداشت نہیں کریں گے۔ ہم اس بنیادی جمہوری اصول کے خلاف منظور کیے گئے کسی بھی قانون کے خلاف اپنی آواز بلند کریں گے جو ہماری قوم کی بنیاد ہے۔ لوک سبھا انتخابات کے دوران اپوزیشن جماعتیں ان قوانین کو عوامی بحث کا حصہ بنانے میں ناکام رہیں۔اگر انتخابی مہم کے دوران نوآبادیاتی دور کی یادگار کو ختم کرنے کے نام پر جبر و ظلم کی راہ ہموار کرنے اور بھارت کو فسطائیت کی راہ پر گامزن کرنے والے ان قوانین پر کھل کر بات کی جاتی تو شاید عوام کامینڈیٹ اس سے بھی زیادہ واضح ہوتا ۔چناں چہ سیول سوسائٹی کی تنظیمیں، سیاسی جماعتیں اور دیگر اسٹیک ہولڈرس بالخصوص وکلابرادری نے ایک بار پھر یہ اوآز بلند کی کہ ان قوانین کے نفاذسے قبل ایک بار پھر پارلیمنٹ میں ٹیبل پر رکھا جائے اور اس پر بحث کی جائے اور اسٹیک ہولڈرس کے تحفظات ایک بار پھر ہمدردی کے ساتھ سنے جائیں۔ مودی حکومت کی اہم اتحادی جماعت چندرا بابو نائیڈو جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بی جے پی کے سیاسی اتحادی تو ہیں مگر اپنا الگ نقطہ نظر رکھتے ہیں، ان کو تین ہزار سیول سوسائٹی کی تنظیموں اور افراد نے خطوط لکھے اور مطالبہ کیا کہ وہ سیاسی اثر و رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے ان قوانین کے نفاذ پر روک لگائیں مگر ایسا لگتا ہے کہ وہ اس وقت آندھر پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ جگن موہن ریڈی سے انتقام لینے میں مصروف ہیں۔اس کے علاوہ سوسے زائد سابق بیوروکریٹس نے بھی مودی حکومت کو خط لکھ کر آگاہ کیا کہ یہ قوانین دراصل نوآبادیاتی دور کی یادوں کا خاتمہ کرنے کے بجائے حکومتی جبر و تشدد اور زیادتی کو ایک نئی سطح پر لے جانا والا قانون ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارا موجودہ فوجداری نظام درحقیقت نوآبادیاتی اور آمرانہ دور کی باقیات ہے۔ یہ قوانین طاقت کے تحفظ کے لیے بنائے گئے تھے، نہ کہ جمہوریت اور بے اختیار افراد کو حقوق فراہم کرنے کے لیے؟ المیہ یہ ہے کہ نوآبادیاتی جبر کے خلاف طویل جدو جہد، ہزاروں افراد کی قربانی کے ذریعہ آزادی حاصل ہونے کے بعد بھی ملک میں جو قوانین بنائے گئے ان میں استعماری دور کے فوجداری نظام کو برقرار رکھا گیا۔اس ملک میں سب سے زیادہ طویل مدت تک حکومت کرنے والی کانگریس بھی کم گناہ گار نہیں ہے۔اس نے 1947 سے 1977 تک مسلسل تین دہائیوں تک حکومت کی اور اس مدت میں اگرچہ اس نے کئی اصلاحات اور ترامیم کیے مگر نوآبادیاتی فوجداری انصاف کے نظام کو ختم کرنے اور آئین کی ابتدائی اقدار کے مطابق ایک نئے جمہوری فوجداری نظام انصاف کی تشکیل میں مکمل طور پر ناکام رہی، بلکہ گزشتہ 70برسوں میں فوجداری انصاف کو انگریزوں کے دور سے بھی زیادہ سخت بنا دیا گیا۔کبھی ٹاڈا تو کبھی پوٹا اور یو اے پی اے کی شکل میں عوام پر جبر کیا گیا۔آج ہمارے پاس ایک ڈسٹوپک کریمنل جسٹس سسٹم ہے جو عام لوگوں پر جبر اور جمہوریت کو دبانے کا انجن بن گیا ہے۔اس لیے فوجداری قوانین میں تبدیلی وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔اس کامطالبہ ایک مدت سے سیول سوسائٹی کی تنظیمیں کررہی تھیں۔چناں چہ اسی مطالبہ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نفرت انگیز نوآبادیاتی نظام کو اکھاڑ پھینکنے اور اس کی جگہ ایک منصفانہ اور جمہوری نظام لانے وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت والی حکومت نے مزید سخت اور جابرانہ قانون نافذ کرنے کی راہ ہموار کردی ہے۔ ماہرین قانون بتاتے ہیں کہ ان تینوں فوجداری قوانین میں کوئی خاطر خواہ قابلیت یا اصلیت کا مظاہرہ نہیں کیاگیا ہے۔ آئی پی سی کی 511 دفعات میں سے صرف 24 سیکشنز کو حذف کیا گیا ہے اور 23 میں کچھ ترامیم کی گئیں، باقی دفعات کو من و عن نئے بی این ایس قانون میں دوبارہ شامل کر دیا گیا ہے۔ نئے بی ایس بی میں ایویڈنس ایکٹ کے تمام 170 سیکشنز کو برقرار رکھا گیا ہے۔ CrPC کا تقریباً 95 فیصد نئے BNSS میں کٹ، کاپی اور پیسٹ کیا گیا ہے۔
تین اہم بنیادی سوالات ہیں جس کا ہم جائز ہ پیش کریں گے۔پہلا سوال یہ ہے کہ آخر ان تین نئے قوانین میں ایسی کیابات ہے جس کی وجہ سے یہ اندیشے ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ ان قوانین کے نفاذ کے بعد شہریوں کی آزادی ختم ہوجائے گی۔حکومت کی پالیسیوں اور اقدامات کی تنقید کرنا مشکل ہوجائے گا۔دوسری بات یہ ہے کہ اس طرح کے اشارے مل رہے ہیں کہ وزیر اعظم نریندر مودی اور بی جے پی قیادت عوامی جھٹکے کے باوجود اپنا احتساب کرنے کے بجائے اپنی پرانی جابرانہ اور ظالمانہ پالیسیوں کا تسلسل جاری رکھتے ہوئے یہ باورکروانے کی کوشش کررہی ہے کہ انتخابی نتائج کے جھٹکے کے باوجود وہ کمزور نہیں ہوئے ہیں۔ایسے میں سوال یہ ہے کہ یکم جولائی کو قوانین نافذ ہونے کے بعد اگلی راہ کیا ہے؟ حکومتی جبر اور پولیس کو غیر متوازی طور پراختیارات حاصل ہونے کے بعد حقوق انسانی کی ممکنہ حق تلفی کے تدارک کے لیے اجتماعی راہ کیاہونی چاہیے؟ تیسرے سوال کا تعلق مسلمانوں کے ارباب حل وعقد سے ہے کیوں کہ ملک میں جب بھی فسطائی ذہنیت کی عکاسی کرنے والے قوانین نافذ ہوتے ہیں تو اس کے بدترین اثرات کے شکار سب سے زیادہ پسماندہ طبقات اور اقلیتیں بالخصوص مسلمان ہوتے ہیں۔ٹاڈا سے لے کر پوٹا اور اب یوپی اے ایکٹ تک ہم نے دیکھا ہے کہ کس طرح ان قوانین کا سہارا لے کر سیکڑوں مسلم نوجوان کو بغیر کسی جرم کے پس زنداں کردیا گیا ہے۔عمر خالد اور شرجیل امام جیسے سیکڑوں ملت کے ہونہار نوجوان جیلوں میں ہیں۔اعلیٰ عدالتیں جو فرد کی آزادی کا پاس و خیال رکھنے کا دعویٰ کرتی ہیں وہ بھی ان نوجوانوں کو انصاف فراہم کرنا تو دور ان کی عرضیوں پر سماعت کے لیے بھی وقت نہیں نکال رہی ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ان تینوں نئے فوجداری قوانین کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے اور اس کے خلاف لڑائی میں ملت کے یہ ارباب و حل عقدکہیں نظر نہیں آرہے ہیں۔ آخر اس بے توجہی کی کیا وجہ ہے۔یہ سوال ہم اس لیے بھی اٹھارہے ہیں کہ ہفت روزہ دعوت کے گزشتہ شمارے ہی میں ہم نے ملت کے ارباب و حل عقد کے سامنے یہ سوال رکھا تھا کہ ملک کے نئے حالات میں کیا ان کی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ اپنے لیے امکانات تلاش کریں؟ کیااس کے لیے نتیش کمار، چندرابابو نائیڈو اور بی جے پی کی دیگر حلیف جماعتوں کے لیڈروں کے توسط کا استعمال نہیں جا سکتا ہے؟
نئے فوجداری قوانین شخصی آزادی کے خلاف کیوں ہیں؟
نوآبادیاتی دورکی فوجداری دفعات کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اس میں پولیس کوبے شمار اختیارات حاصل ہیں۔ پولیس افسر کو شک کی بنیاد پر کسی کو بھی گرفتار کرنے کی اجازت ہے۔دراصل انگریزی استعمار نے تحریک آزادی اور عوامی جدو جہد کو کچلنے کے لیے پولیس کو بے شمار اختیارات دیے تھے۔ ثبوت کے بغیر محض شک کی بنیاد پرکسی کو بھی گرفتار کرنے کے اختیارات حاصل تھے۔یہ قانون آزادی کے بعد بھی باقی رہے۔جب کہ دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ممالک میں شہری کوآزادی سے صرف اس وقت محروم رکھا جاتا ہے جب پولیس افسر کے پاس ابتدائی ثبوت موجود ہو۔ جب کسی فرد کو گرفتار کیا جاتا ہے تو پولیس افسر کو مطلوبہ ٹرانزٹ ٹائم کو چھوڑ کر 24 گھنٹوں کے اندر زیر حراست شخص کو عدالتی مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنا ہوتا ہے۔ اس عمل کے دوران مجسٹریٹ کو پولیس حراست کی ضرورت سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ میکانکی طور پر مجسٹریٹ پولیس افسر کو مخصوص دنوں کے لیے حراست میں رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔پولس کا جبر نوآبادیاتی نظام کی یادگار تھی۔ماہر قانون اور سابق مرکزی وزیر کپل سبل کہتے ہیں کہ اگر حکومت اس قانون میں ترمیم میں مخلص ہوتو نقطہ آغاز یہ ہونا چاہیے تھا کہ وہ اصلاح شدہ قانون میں اس شق کو شامل کرتی جس میں پولیس افسر کو صرف شک کی بنیاد پر نہیں بلکہ جرم کے ابتدائی ثبوت کی بنیاد پر گرفتار کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔مگر صورت حال یہ ہے کہ نہ صرف پولیس افسر بلکہ انفورسمنٹ افسران بھی بغیر ثبوت اور شک کے بغیر گرفتاری کا اختیار استعمال کر رہے ہیں۔ظاہر ہے کہ یہ نوآبادیاتی ذہنیت سے بہت آگے ہے۔نئے کریمنل لاز کا ایک تاریک پہلو یہ ہے کہ موجودہ قوانین (آئی پی سی اور سی آر پی سی) میں زیادہ سے زیادہ 15 دنوں کی پولیس حراست کی اجازت تھی۔ فوجداری قوانین کے نئے سیٹ میں 90 دن تک توسیع کی گنجائش کی گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس سے سیاسی مخالفین کو معمولی بنیادوں پر ایذا رسانی کی کافی گنجائش ملے گی۔اس کے علاوہ ان نئے قوانین کی وجہ سے شہریوں کی شہری آزادی کے متاثر ہونے کا خطر ہ پیدا ہوگیا ہے۔خاص طور پر آزادی اظہار، اجتماع کے حق، رفاقت کے حق، مظاہرے کے حق اور ان کے دیگر شہری حقوق کے معاملے میں۔نئے قوانین میں اس کو جرم کے طور پر شامل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کو حکومت کے تابعدار بنانے کی بھی کوشش کی گئی ہے۔ بی این ایس کے سیکشن 254 کے تحت،اگر کوئی سرکاری ملازم کوئی ایسا ریکارڈ تیار کرتا ہے جس کے بارے میں وہ جانتا ہے کہ غلط ہے اور اس وجہ سے وہ عوام کو نقصان پہنچاتا ہے یا کسی قسم کی چوٹ پہنچاتا ہے یا ایسے ریکارڈ کے ذریعے کسی جائیداد کو ضبط کرنے یا دوسرے الزام سے بچانے کا ارادہ رکھتا ہے جس کا وہ ذمہ دار ہے تو قانون کے مطابق سرکاری ملازم کو تین سال کی سزا ہو سکتی ہے۔اس سے بھی زیادہ سنگین بات سیکشن 255 میں کہی گئی ہے اس کا اطلاق ججوں پر ہوتا ہے۔ اگر کوئی جج، عدالتی کارروائی کے کسی بھی مرحلے پر، کوئی رپورٹ، حکم یا فیصلہ سناتا ہے جسے وہ جانتا ہے کہ قانون کے خلاف ہے، تو اسے سات سال تک قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔ کپل سبل کہتے ہیں ”جج کی طرف سے دیا جانے والا ہر فیصلہ اس مفروضے پر ہوتا ہے کہ یہ قانون کے مطابق ہے۔ میرا اندازہ ہے کہ اب ایگزیکیٹیو فیصلہ کرے گا کہ آیا ایسا حکم یا فیصلہ قانون کے خلاف ہے اور جج کو بدعنوان یا بدنیتی پر مبنی مقصد قرار دے سکتا ہے۔ ان حالات میں خاص طور پر نچلی عدلیہ میں کون سا جج حکومت کے خلاف فیصلہ سنائے گا؟ اعلیٰ عدلیہ کے لوگ بھی تذبذب کا شکار ہوں گے کیونکہ اس طرح کے مقاصد کسی بھی جج سے منسوب کیے جا سکتے ہیں۔اس کا واضح مطلب ہے کہ عدلیہ یہاں تک کہ پولیس افسران جو لوگوں کو قید کرتے ہیں ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جا سکتی ہے۔ یہ اس بات کو یقینی بنائے گا کہ پولیس افسران اقتدار میں رہنے والوں کی ہدایت پر ہی کام کریں۔ بقول سبل ہمارے فوجداری انصاف کا نظام سیاسی طبقے کے تابع ہوجائے گا۔
سماجی کارکن تیستا سیتلواڈ کہتی ہیں کہ یہ نئے فوجداری قوانین حکومت کو ہماری جمہوریت کو کھوکھلا کرنے اور بھارت کو ایک فاشسٹ ریاست میں تبدیل کرنے کے لیے کافی طاقت سے لیس کریں گی۔”نئے قوانین کے ذریعہ حکومت مخالفین،سیول سوسائٹی سے وابستہ تنظیموں اور ان کے ذمہ داروں کی گرفتاری، بے جاحراست اور قانونی کارروائی کی راہ ہموارہوتی ہے۔ یہ قوانین آئین کے بنیاد اصول کے خلاف ہیں کیوں کہ آئین سازی کے وقت اس میں تمام طبقات کی آراء اور خواہشات کا احترام اور مساوات کو انتہائی اہمیت دی گئی تھی۔
استعماری دور کے یادگار قوانین میں سب سے مشہور بغاوت کاقانون ہے۔جب یہ قانون پارلیمنٹ میں پیش کیا گیاتھا تو اس وقت یہ دعویٰ کیا گیا کہ بغاوت کو بطور جرم پینل کوڈ (1860) سے ہٹا دیا گیا ہے۔تاہم ان نئے قوانین کا تجزیہ کرنے والے وکلاکہتے ہیں کہ اگرچہ بغاوت کا پرانا قانون ختم کردیا گیا مگر نئے اوتار میں اس قانون کو شامل کیا گیا ہے جو گزشتہ قانون سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ نئی دفعات حکومت ہند کے خلاف جنگ چھیڑنے کی تعریف کو وسعت دینے کی کوشش کرتی ہیں۔دفعہ 150 میں کہا گیا ہے کہ جو کوئی بھی تقریر کرے، بیان دے یا لکھے گئے الفاظ یا اشاروں سے یا کسی دوسرے انداز سے جیسا کہ مذکورہ دفعہ میں بیان کیا گیا ہے، کسی تخریبی سرگرمی میں ملوث یا ہندوستان کی خود مختاری، اتحاد اور سالمیت کو خطرے میں ڈالتا ہے، اسے عمر قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔ ایسی دفعات بھی ہیں جو عوامی مقامات پر مظاہروں کو روکیں گی اور مظاہرین کو پناہ دینے والوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائے گی۔ بی این ایس کی دفعہ 152 کے ذریعے یہ چار قسم کی سرگرمیوں کوجرم کے دفعہ میں شامل کیا گیا ہے۔تخریبی سرگرمیاں، علیحدگی، ملک کی خودمختاری، اتحاد اور سالمیت کو خطرے میں ڈالنے والی علیحدگی پسند سرگرمی، اور مسلح بغاوت۔مگر اس کی کوئی جامع تعریف نہیں کی گئی ہے۔بی این ایس کی دفعہ 113کے تحت دہشت گردی کے روک تھام کے لیے قانون سازی کی گئی ہے۔جب کہ یو اے پی اے کے تحت پہلے ہی قانون موجود ہے ایک ہی جرم سے نمٹنے کے لیے دو قوانین ہیں۔UAPA ایک ’غیر معمولی قانون ہےجو دہشت گردی یا غداری جیسے غیر معمولی حالات سے نمٹنے کے لیے بنایا گیا ہے ۔ یہ ایک خصوصی قانون ہے جو قانونی دفعات کے تحت ملزم کے لیے دستیاب تحفظات کو نظرانداز کرتا ہے۔ مثال کے طور پر، یہ چارج شیٹ کے بغیر 180 دن کی حراست کی اجازت دیتا ہے۔ 30 دن تک کی پولیس حراست کی پابندی اور پیشگی ضمانت کو روکتا ہے۔ این سی آر بی کے اعداد و شمار کے مطابق، غداری کے تحت 241 سے زیادہ اور یو اے پی اے کے تحت 5,610 مقدمات زیر التوا ہیں۔ایسے میں اگر نئے قانون میں بھی دہشت گردی کے شبہ میں گرفتار کرنے کی پولیس کو جو آزادی دی گئی ہے اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسے کتنے بڑے پیمانے پر مخالفین کی آواز کو دبانے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔مختصر یہ کہ تینوں قوانین سے نہ صرف ابہام پیدا ہوگا بلکہ زیر تصفیہ مقدمات کے بوجھ میں بھی اضافہ ہوگا۔ نیشنل جوڈیشل ڈیٹا گرڈ کے مطابق، ہندوستان کے فوجداری نظام انصاف میں تقریباً 3.4 کروڑ مقدمات زیر التوا ہیں، جو پہلے سے موجود بنیادی ڈھانچے پر زیادہ بوجھ ہیں۔ نئے بلوں کے نفاذ سے ملک کے پہلے سے ہی کریب زدہ عدالتی نظام پر مزید تناؤ آئے گا جو انتہائی سست جسمانی انفراسٹرکچر کی وجہ سے ہے۔
مگر اس کا حل کیا ہے؟
اب جب کہ ان تین نئے قوانین کے نفاذ میں محض چند دن باقی ہیں، سیول سوسائٹی کے احتجاج اور مظاہرے کے باوجود سیاسی قیادت اس پر توجہ دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔تو ایسے میں یہ سوال کافی اہم ہے کہ کیا ہم جمہوریت کے خاتمے کا منظر خاموش تماشائی بن کر دیکھتے رہے یا پھر آگے راستہ نکالنا بھی ہے؟ سپریم کورٹ آف انڈیا کے سینئر وکیل اور معروف قانونی ماہر تعلیم جی موہن گوپال کہتے ہیں کہ سب سے پہلے ہمیں دہشت گردی اور بغاوت جیسے مبہم اور غیر متعین جرائم کے نام پر اختلاف رائے کو جرم بنانے، نئے قوانین کو جمہوریت کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کیے جانے کے بارے میں عوام میں شعور بیدار کرنا چاہیے۔ کیوں کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے حکم رانوں نے جمہوری اختلاف کو نشانہ بنانے اور جمہوری طاقت کو دبانے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے اب ان نئے قوانین میں جمہوریت کو دبانے کے لیے ریاست کو مزید اختیارات حاصل ہوگئے ہیں اور پولیس کے صوابدید پر بہت کچھ چھوڑ دیا گیا ہے، اس لیے اندیشہ ہے کہ اس طرح کے واقعات میں اضافہ ہی ہوگا۔ اس لیے ہمیں ایسے تمام مجرمانہ قوانین کی اصلاح کا مطالبہ جاری رکھنا چاہیے۔ہمیں پوری شدت کے ساتھ یہ مطالبہ کرنا چاہیے کہ نئے قوانین کو انسانی حقوق کے عالمی اصولوں سے ہم آہنگ کیا جائے۔ملک کے فوجداری قوانین کی ایک بڑی خامی یہ تھی کہ ان میں شہریوں کے خلاف زیادتی یا پھر کارروائی کو جرم کے زمرے میں شامل کرنے کے بجائے ریاست کے خلاف اور جائیداد کے حقوق کے خلاف کارروائیوں کو جرم کے زمرے میں شامل کرنے کا رجحان پایا جاتا ہے۔ہمارے فوجداری قوانین کے صرف 15ہی ایسے دفعات ہیں جن میں شہریوں کے حقوق کی حفاظت کی گئی ہے۔ اس کے برعکس دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں شہریوں کے حقوق اور ان پر حملے کے خلاف زیادہ قوانین ہیں۔ ناروے میں فوجداری قوانین کا 40فیصد حصہ شہریوں کے حقوق اور ان پر حملے کو جرم گرداننے پر مشتمل ہے۔ایک طرف ہمارا دعویٰ ہے کہ بھارت عالمی قیادت کا اہل ہے دوسری طرف شہریوں کی آزادی، حقوق کی حفاظت کی طرف کوئی توجہ نہیں ہے۔بلکہ اس کے برعکس شہریوں بالخصوص کمزور طبقات اور اقلیتوں کے ذریعہ اپنے حقوق کے حصول کے لیے کھڑے ہونے کو جرم کے زمرے میں شامل کیا گیا ہے۔علاوہ ازیں ضابطہ فوجداری میں نسل کشی، انسانیت کے خلاف جرائم، مسلح تصادم کے دوران جرائم، تشدد، شہری حقوق کے خلاف جرائم، آئینی اقدار کی خلاف ورزی، نفرت انگیز تقریر اور ذات پات یا مذہبی امتیاز کے خلاف کوئی ٹھوس اور مضبوط قانون نہیں ہے۔
پارلیمانی تاریخ میں ہم نے کئی ایسے دور دیکھے ہیں جب حکومتوں نے فوجداری قوانین میں ترمیم کرکے جمہوریت کا گلا گھونٹے اور دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر مخالفین کو کنارے لگانے کی کوشش کی ہے۔بابری مسجد کی شہادت کے بعد اختلاف میں اٹھنے والی آوازوں کو خاموش کرنے کے لیے ٹاڈا جیسے قوانین بنائے گئے۔اسی طرح واجپائی کے دور میں پوٹا جیسے قوانین نافذ کیے گئے۔کانگریس نے یو اے پی اے جیسے قانون کو پاس کیا اور مودی نے یو اے پی اے قانون میں ترمیم کرکے مزید سخت کردیا۔مگر عوامی طاقت کا نتیجہ تھا کہ عوامی تحریک کے نتیجے میں ٹاڈا اور پوٹا جیسے قوانین منسوخ کردیے گئے۔اس لیے اس قانون کے نفاذ کے بعد بھی ہمیں اپنی جدو جہد کو جاری رکھنا چاہیے۔یہ صرف اسی وقت ہوسکتا ہے کہ جواب عوام شعوری طور پر بالغ ہوں۔
ملت کے ارباب حل وعقد کی خاموشی حیران کن
گزشتہ برسوں کے دوران ان تین نئے فوجداری قوانین کے خلاف سیول سائٹی کی تحریک سے ملک کے ارباب و حل عقد کی غیر حاضری اس بات کا بین ثبوت ہے کہ ملت اسلامیہ قومی دھارے کی تحریکوں کا حصہ بننے کے لیے خود اب تک تیار نہیں کرسکی ہے۔ملی تنظیموں سے وابستہ ایک اہم شخصیت کے سامنے ہم نے یہ سوال رکھا تو انہوں نے کہا کہ یہ سوال کافی اہم ہے کہ آخر ان نئے قوانین کے خلاف ملت متحرک کیوں نہیں ہے؟ وہ کہتے ہیں اصل بات یہ ہے کہ ملت اسلامیہ کے ذمہ داروں کو ان تینوں قوانین کے بارے میں علم ہی نہیں ہے۔وہ جانتے ہی نہیں کہ ان قوانین میں کیا ہے اور اس کا خمیازہ مسلمانوں کو کس طرح برداشت کرنا پڑے گا۔یہ پورا معاملہ عدم معلومات کا ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ بے حسی نہیں ہے۔جماعت اسلامی ہند اور جمعیۃ علمائے ہند جیسی تنظیموں نے جیلوں میں بند مسلم نوجوانوں کی رہائی کے لیے جو قانونی لڑائیاں لڑی ہیں جس کی وجہ سے درجنوں مسلم نوجوان کو انصاف ملا ہے مگر یہ کافی نہیں ہے بلکہ شہریوں کی آزادی کو سلب کرنے والے تمام قوانین کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے اور جدوجہد کو متحرک اور منظم کرنے قائدانہ کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔اس حقیقت کو فراموش نہیں کیا جانا چاہیے کہ اس ملک کی جیلوں میں بند مسلم قیدیوں کی تعداد ملک میں مسلمانوں کی آبادی کی شرح سے کہیں زیادہ ہے۔بنگال میں مسلمانوں کی آبادی کی شرح 30فیصد ہے مگر جیلوں میں مسلمانوں کی تعداد 40سے 45فیصد ہے۔ملک میں ایک دو ریاستیں ہی ایسی ہیں جہاں کی جیلوں میں مسلم قیدیوں کی تعداد مسلمانوں کی آبادی سے کہیں زیادہ ہے۔اگر یہ تین نئے قوانین نافذ ہوجاتے ہیں تو پھر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جیلوں میں مسلم قیدیوں کی تعداد میں کس قدر اضافہ ہوگا۔
***

 

***

 نئے قوانین میں کیا ہے؟
(1) جائز، واجبی و غیر متشدد جمہوری تقریر یا عمل کو ’دہشت گردی‘ کے زمرے میں شامل کرنے کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔
(2) بغاوت کے جرم کو ایک نئے اور زیادہ شیطانی روپ میں وسعت دی گئی ہے، بلکہ یہ ’سڈیشن پلس‘ قانون ہوگیا ہے۔
(3) نظریاتی اور سیاسی مخالفین کے خلاف سیاسی کارروائی کا امکان بڑھ گیا ہے
(4) بھوک ہڑتال کے ذریعے حکومت کے خلاف سیاسی احتجاج کو جرم کے زمرے میں شامل کیا گیا ہے۔
(5) افراد کے کسی بھی اجتماع کے خلاف طاقت کے استعمال کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔
(6 )پولیس افسر کی طرف سے دی گئی کسی بھی ہدایت کی مزاحمت کرنے، انکار کرنے یا نظر انداز کرنے کو جرم بنا کر ’پولیس راج‘ کو تیزی سے بڑھایا گیا ہے۔
(7) ہتھکڑی کو بڑھاوا ملے گا۔
(8) پولیس کی حراست میں تفتیش میں زیادہ سے زیادہ اضافہ ہوسکتا ہے
(9) ایف آئی آر کی ریکارڈنگ کو پولیس کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا ہے۔
(10) تمام افراد کو (چاہے جرم کا الزام ہو یا نہ ہو) حکومت کو بائیو میٹرک فراہم کرنے کا پابند کیا گیا ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 30 جون تا 06 جولائی 2024