تجارت میں اخلاقی محاسن پر عمل سے ہر طرح کے استحصال سے آزادی ممکن

انسانی زندگیوں کو اجیرن بنانے کے پس پردہ سودی معیشت کا رول

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

عبدالرحمنؓ بن عوف کی تجارت اخلاقی اصولوں کی پاسداری کا بہترین نمونہ
اخلاقی محاسن پر عمل پیرا ہونے سے معاشرتی زندگی میں وہ خوبیاں پیدا ہوتی ہیں جو نہ صرف افراد کو خود غرضی اور استحصال سے محفوظ رکھتی ہیں بلکہ ایک عادلانہ اور مساویانہ معاشرے کی تشکیل میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ اسلام کی تعلیمات کے مطابق ہر فرد کی بنیادی ضروریات کی فراہمی اور مساوی مواقع کی فراہمی سے ہی ایک ایسا معاشرہ ممکن ہے جس میں ہر شخص اپنی محنت کا ثمرہ عزت کے ساتھ حاصل کر سکتا ہے۔ جب کسی فرد کو معاشرتی دوڑ میں پیچھے رہ جانے کا اندیشہ ہو تو اس کی مدد کرنا اور اس کے حقوق کا تحفظ کرنا بھی اسلام کی ایک اہم قدر ہے۔
اسلام ہر فرد کی ضروریات کی فراہمی کو اولیت دیتا ہے اور ایسے معاشرہ کی تشکیل کرتا ہے جو خود غرضی سے پاک ہو جس میں سماج کے ہر فرد کی ضرورت کی فراہمی کے لیے یکساں مواقع دستیاب ہوں اور ذاتی جدوجہد اور محنت کا ثمرہ سبھی کو حاصل ہوسکے۔ جب کبھی ایسے خیر خواہانہ ماحول میں وہ لوگ کسی وجہ سے دوڑ میں پیچھے رہ جائیں، ان کی مدد ضرور کی جائے گی تاکہ وہ عزت کے ساتھ اپنی روزی حاصل کرسکیں۔ اسلام دولت کی پیداوار کے لیے اخلاق پر مبنی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے تاکہ عادلانہ اور مساویانہ خد و خال والا معاشرہ وجود میں آئے جہاں ہر کس و ناکس کو مساوی مواقع نصیب ہوں۔ یہ معاشرہ کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسا طریق کار وجود میں لائے کہ معاشرہ کے محروم طبقات کو ضروری مدد مل سکے۔
عدل اسلامی اقدار اور اخلاق کا بنیادی جزو ہے، جسے اسلام میں خاص اہمیت دی گئی ہے۔ انبیاء کی بعثت کا مقصد بھی اسی عدل و قسط کے قیام کے لیے تھا، جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا گیا: ’’لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ‘‘ (الحدید: 25) ’’ہم نے اپنے رسولوں کو واضح نشانیاں دے کر بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان (عدل) بھیجی تاکہ لوگ انصاف پر قائم رہیں‘‘۔ اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ اسلامی معاشرتی نظام کی بنیاد عدل و انصاف پر رکھی گئی ہے جہاں ہر فرد کو اپنی صلاحیتوں کے مطابق آزادی کے ساتھ ترقی کرنے کے مواقع ملتے ہیں۔ اسلام میں دولت کے حصول کی ممانعت نہیں ہے بلکہ اسے ایک اہم مقصد سمجھا جاتا ہے، بشرطیکہ یہ شریعت کے دائرے میں ہو اور اس میں سود جیسے ممنوعہ عوامل کی آمیزش نہ ہو۔ اسلام انسان کو اپنی محنت سے کامیابی حاصل کرنے اور دولت کے ذریعے اپنی زندگی کو بہتر بنانے کی ترغیب دیتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی تاکید کرتا ہے کہ کاروبار کے اخلاقی اصولوں پر عمل پیرا ہوکر دوسروں کی مدد کی جائے اور انہیں خود کفیل بنایا جائے۔
تجارت میں اخلاقی محاسن کے عمل دخل سے ہر طرح کے استحصال (exploitation) سے آزادی ملتی ہے۔ کم سے کم وقت میں تجارت کرکے کوئی کھرب پتی بن سکتا ہے۔ ایک ایسے ہی دولتمند صحابی حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف تھے جن کی تجارت اخلاقی اصولوں پر مبنی تھی۔ اللہ تعالٰی نے تجارت کے ذریعے انہیں اتنی دولت دی تھی کہ برطانیہ جیسے ملک کو بھی خرید سکتے تھے۔ جنہوں نے اخلاقی اصولوں کو اپناتے ہوئے تجارت کی۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عبدالرحمن بن عوف کو رحمٰن کا تاجر بتایا تھا۔ ان کی تجارت کے چار اصول تھے۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے زندگی میں کبھی ادھار نہیں خریدا اور نہ کبھی ادھار بیچا۔جب کاروبار ادھار کی طرف چلا جاتا ہے تو ہر شخص اپنی حیثیت سے بڑھ کر کام کرنے کی کوشش کرتا ہے اور وہ اس دھوکے میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ اس کا کاروبار ترقی کر رہا ہے، لیکن اس سے پورا بازار مصنوعی بن جاتا ہے اور حقیقی نہیں رہتا۔ رسول اللہ ﷺ خود بازار جاتے اور لوگوں کو تجارت میں اخلاق کی تعلیم دیتے۔ آپ نے فرمایا: ’’من غش فلیس منا‘‘ یعنی’’جس نے دھوکہ دیا وہ ہم میں سے نہیں‘‘۔ حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف نے فرمایا کہ انہوں نے کبھی ذخیرہ اندوزی نہیں کی۔ جب بھی انہیں نفع ملا، فوراً فروخت کردیا۔ نفع کے بڑھنے کی امید پر کبھی مال کو نہیں روکا۔ اپنے سودے کی خامی کو کبھی نہیں چھپایا۔ یہی رسول اللہ ﷺ کی تجارت کے اصول اور حسن ہیں جنہیں حضرت عبدالرحمن نے اپنایا۔ وہ مزید فرماتے ہیں کہ رزق اللہ کی ذمہ داری ہے۔ یہ اللہ کا عطیہ ہے اور اگر اسے سنت سمجھ کر کیا جائے تو یہ نبوت کا چالیسواں حصہ ہے۔ اس طرح مٹی کا سودا کیا جاتا ہے اور سونے کا بھاؤ ملتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ بزنس کرتے ہوئے نماز باجماعت کبھی نہیں چھوڑی۔ تجارت میں قدم رکھنے کے بعد کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ مال کا نشہ اپنے اوپر غالب نہیں ہونے دیا۔ ایک بار ہزار اونٹ خرید لیے۔ تین دن گزر گئے مگر کوئی خریدار نہیں آیا تو جتنے میں خریدے تھے اتنے ہی میں بیچ دیے، البتہ رسیاں رکھ لیں اور ہزار اونٹ کی رسیوں سے ہزار درہم مل گئے۔ایماندارانہ تجارت کے چند اصول اپنا کر کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔ تجارت میں اچھی نیت بہت اہم ہے، سوچ ہمیشہ مثبت رہے اور یہ خیال رہے کہ اس تجارت کے ذریعے ہمیں دنیا اور آخرت دونوں میں کامیابی ملے گی۔ تجارت کرتے وقت فرض کفایہ کی نیت ہو، سود سے بچا جائے اور ذخیرہ اندوزی سے کنارہ کشی اختیار کی جائے۔ لوگوں کو دھوکہ دینے اور ٹھگنے سے بچا جائے، کیونکہ دھوکہ دہی سے تاجر کی ساکھ ختم ہوجاتی ہے۔ اپنے اثاثوں کو قائم رکھتے ہوئے دولت کی گردش کو برقرار رکھا جائے۔ کاروبار کی شروعات اگرچہ کم پونجی سے ہو مگر اسے مسلسل بڑھانے پر زور دیا جائے۔یمن کے مسلمان تاجروں نے اپنے حسن اخلاق کے ذریعے اسلام کو پھیلایا۔ انہوں نے ملائشیا اور انڈونیشیا کے مقامی لوگوں کے دلوں کو جیت لیا۔ انہوں نے لوگوں کو واضح کردیا کہ ہم پیسے کے غلام نہیں ہیں بلکہ احکام الٰہی کے پابند رہ کر تجارت کرتے ہیں۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ سچائی کے ساتھ تجارت میں اپنی شناخت پختہ کریں۔
آج لوگوں کا کاروبار مکمل طور پر سود کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے، جس نے انسانیت کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ ہمارا کاروباری طبقہ خود غرضی کا مجسمہ بنا ہوا ہے کیونکہ ان کی نظر میں صرف نفع ہوتا ہے، چاہے وہ جھوٹ بول کر یا دھوکہ دے کر ہی کیوں نہ حاصل کیا گیا ہو۔ سودی لین دین نے کاروباریوں کے ذہنی فریم میں خود غرضی، بخل، سنگدلی، تنگدلی اور زبردستی کو بھر دیا ہے۔ اس سودی نظام کی وجہ سے چند لوگ بذریعہ استحصال امیر سے امیر تر ہوتے جا رہے ہیں اور ان کی کمائی اور دولت تیزی سے بڑھتی ہے، جبکہ غریبوں کی فی کس آمدنی روز بروز کم ہوتی جا رہی ہے۔ حکومت امیروں پر کم ٹیکس لگاتی ہے کیونکہ وہ انہیں الیکٹورل بانڈز کے ذریعے خفیہ چندہ دیتے ہیں، جبکہ متوسط طبقے پر زیادہ ٹیکس کا بوجھ ڈالا جاتا ہے۔ اس طرح غریب اور متوسط طبقے کی حالت ابتر ہو جاتی ہے اور کم آمدنی والے لوگ اپنی آمدنی کا بڑا حصہ سود کی ادائیگی میں صرف کر دیتے ہیں جس سے ان کے پاس بچت کم رہ جاتی ہے اور گھر چلانا مشکل ہو جاتا ہے۔ یہ غیر عادلانہ سود پر مبنی معاشی نظام ہے جو ان کے اخلاق کو تباہ کرتا ہے اور انہیں جرائم کی طرف دھکیل دیتا ہے۔چوری اور ڈکیتی جیسے جرائم عام ہو جاتے ہیں۔ آج کا پڑھا لکھا نوجوان سائبر کرائم کے ذریعے لوگوں کی جمع پونجی کا بڑا حصہ لاکھوں کروڑوں میں ان کے اکاؤنٹ سے چرا لیتا ہے۔ مال کی حرص میں مبتلا یہ خبطی لوگ اپنے بھائیوں اور رشتہ داروں کو قتل کرنے سے بھی نہیں چوکتے، کیونکہ شیطان نے ان کو چھو کر باولا کر دیا ہے۔ دولت کی حرص میں لوگ غذائی اشیاء میں خطرناک کیمیکلز کی ملاوٹ سے بھی نہیں چوکتے، مثلاً چاول میں باریک پتھر، ہلدی میں اینٹ کا پاؤڈر، دھنیے کے پاؤڈر میں گھوڑے کی لید، اور چائے کی پتی میں کیمیکلز ملا کر اس کا رنگ شوخ بنایا جاتا ہے۔دودھ میں ملاوٹ کی وجہ سے بچے، بوڑھے، جوان، مرد و خواتین بیمار ہو رہے ہیں اور سرکاری حکام کے لیے ان مسائل کا پتہ لگانا مشکل ہو گیا ہے۔ ملک میں تیار کردہ بعض غذائی اشیاء پر سنگاپور اور امریکہ میں ہر چند ماہ بعد پابندی عائد کر دی جاتی ہے۔ زیادہ کمانے کی حرص میں دوا ساز کمپنیاں کف سیرپ اور دیگر دواؤں پر غلط لیبل لگا کر انہیں ایکسپورٹ کر دیتی ہیں۔ ہریانہ اور گجرات کی دوا ساز کمپنیاں کف سیرپ کے لیبل لگا کر کینیا اور نائیجیریا میں ایکسپورٹ کرتی ہیں جس کے نتیجے میں درجنوں بچے علاج کے دوران موت کی نیند سو گئے، اور اس سے ملک کو کافی خفت اٹھانی پڑی۔ بعض کمپنیاں اپنے پروڈکٹ کی زبردست تشہیر کرکے ان کے محاسن بیان کرتی ہیں، مگر بعد میں پتہ چلتا ہے کہ وہ دعوے جھوٹے تھے۔ مثلاً، پتانجلی نے اپنی دوا کو کورونا وبا میں استعمال ہونے والی انگریزی دوا سے بہتر بتایا اور یہاں تک کہ بعض بیماریوں کا علاج بھی صرف پتانجلی کی دواؤں میں ہونے کا دعویٰ کیا بعد میں تجربہ گاہ کے تجزیے سے یہ دعوے غلط ثابت ہوئے۔ اس طرح کمپنیاں دھوکہ دے کر اور اخلاقی ضابطوں کا خیال نہ رکھ کر بڑے منافع کما رہی ہیں۔
سائنس و ٹکنالوجی کی بڑھتی ترقی نے جہاں آرام و آسائش اور سہولیات میں بے پناہ اضافہ کیا ہے، وہیں انسان کو بے حد خودغرض بنا دیا ہے۔ آج اگر کوئی انسان سڑک کے کنارے زخمی حالت میں پڑا ہو اور اسے ہماری مدد کی ضرورت ہو، تو ہم بے حس ہو کر اسے لاوارث چھوڑ دیتے ہیں۔ بے حسی اس وقت انتہا کو پہنچ جاتی ہے جب لوگ بے یار و مددگار شخص کی ویڈیو بنانے میں مصروف ہوتے ہیں۔ گھر کے سامنے کوڑا دان موجود ہونے کے باوجود لوگ وہاں تک جانے کی زحمت نہیں کرتے بلکہ اپنی عمارت کی دوسری یا تیسری منزل سے ہی کوڑا پھینک کر خود کو گندگی سے نجات دلا لیتے ہیں۔گاڑی کا شیشہ نیچے کرکے چپس کے پیکٹ سڑک پر پھینک دینا بھی ایک عام عمل بن چکا ہے، جس کا مقصد صرف اپنی سہولت ہے۔ ایک مطالعہ کے مطابق، جب یہ جانچ کی گئی کہ لوگ اپنے غرض کے بغیر کتنے لوگوں کی مدد کرتے ہیں، تو ہمارا ملک سب سےنچلے پائیدان پر رہا۔ جاپان میں اجنبی لوگوں کی بلا غرض مدد کرنے والوں کی تعداد سب سے زیادہ رہی، جہاں بہتر فیصد لوگ اپنے ذاتی فائدے کے بغیر دوسروں کی پروا کرتے ہیں۔اس تحقیق میں ہمارے ملک کے 8354 رضاکار شامل تھے جن میں سے صرف پچاس فیصد لوگوں نے اجنبیوں کا بلا غرض خیال رکھنے کا مظاہرہ کیا۔ معاشرتی طرز زندگی پر ہونے والی اس تحقیق سے پتہ چلا کہ ہمیں مزید بااخلاق اور حلیم الطبع ہونا چاہیے تاکہ حقیقی آزادی حاصل ہو سکے۔ بے غرض اور بے لوث ہوکر دوسروں کا خیال کرنا ہی بہتر سماج کی تشکیل میں معاون ثابت ہوتا ہے اور یہی اخلاقی محاسن ہمیں روحانی سکون اور حقیقی آزادی سے ہمکنار کرتے ہیں۔

 

***

 آج لوگوں کا کاروبار مکمل طور پر سود کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے، جس نے انسانیت کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ ہمارا کاروباری طبقہ خود غرضی کا مجسمہ بنا ہوا ہے کیونکہ ان کی نظر میں صرف نفع ہوتا ہے، چاہے وہ جھوٹ بول کر یا دھوکہ دے کر ہی کیوں نہ حاصل کیا گیا ہو۔ سودی لین دین نے کاروباریوں کے ذہنی فریم میں خود غرضی، بخل، سنگدلی، تنگدلی اور زبردستی کو بھر دیا ہے۔ اس سودی نظام کی وجہ سے چند لوگ بذریعہ استحصال امیر سے امیر تر ہوتے جا رہے ہیں اور ان کی کمائی اور دولت تیزی سے بڑھتی ہے، جبکہ غریبوں کی فی کس آمدنی روز بروز کم ہوتی جا رہی ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 01 ستمبر تا 07 ستمبر 2024