ٹکنالوجی کے اثرات
نئے زمانے میں مطالعہ کتب کا انداز بدل گیا ۔لوگ اب عکسی کتابوں کا مطالعہ زیادہ کررہے ہیں
زعیم الدین احمد، حیدرآباد
زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جسے ٹیکنالوجی نے متاثر نہ کیا ہو، ہر شعبے حیات میں ٹیکنالوجی کا بڑا عمل دخل ہو گیا ہے بلکہ یہ کہنا بجا ہوگا کہ زندگی کا ہر شعبہ آج ٹیکنالوجی کے قبضے میں چلا گیا ہے۔ ٹیکنالوجی کا نام سنتے ہی عام طور پر ہمارے ذہنوں میں آتا ہے کہ اس کا تعلق تو صرف انجینئرنگ شعبے سے یا صنعتی شعبے سے ہوتا ہے، لیکن ایسی بات نہیں ہے، حقیقت یہ ہے کہ یہ شعبہ تعلیم پر بھی اثر انداز ہوتا ہے چنانچہ کوویڈ کے دوران ہم نے دیکھا ہے کہ کس طرح اس نے تعلیم کو متاثر کیا ہے اور اسی طرح شعبہ طب بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ ٹیکنالوجی کے بغیر کسی کام کا تصور بھی محال ہے پھر چاہے وہ ہمارے گھریلو کام ہی کیوں نہ ہوں۔ گھروں کا جائزہ لے کر دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ ٹیکنالوجی نے اپنے گھروں میں کہاں تک رسائی حاصل کر لی ہے۔ کپڑے دھونے کے لیے کیا چیز استعمال ہو رہی ہے، مسالے پیسنے کے لیے کیا استعمال کر رہے ہیں، روٹی چاول پکانے کے لیے، یہاں تک کہ برتنوں کو دھونے کے لیے بھی آج مشینوں کا استعمال ہونے لگا ہے۔ غرض ہم آج ہر طرف سے مشینوں میں گھرے ہوئے ہیں اور یہ ساری مشینیں ٹیکنالوجی کی ہی دین ہیں۔
یہ بات ہم اکثر سنتے رہتے ہیں کہ دور حاضر کی نسل میں کتابیں پڑھنے کا شوق باقی نہیں رہا ہے، وہ اپنے دن کا زیادہ تر حصہ موبائل فون پر صرف کر دیتے ہیں۔ کتابیں جیسے ان کی دشمن ہوں، یہ دعویٰ پوری طرح سے صحیح نہیں ہے، لوگ آج بھی کتب مطالعہ کرتے ہیں، آج بھی کتب خانوں سے کتابیں چھپ رہی ہیں رسالے بھی چھپ رہے ہیں، اخبارات چھپ رہے ہیں۔ لوگوں کا کتب پڑھنے کا صرف انداز بدلا ہے، وہ پہلے ورق والے، مجلد کتابیں اپنے ہاتھوں میں لیے پڑھتے تھے، لیکن ٹیکنالوجی نے لوگوں کے کتب پڑھنے کے انداز کو بدل دیا ہے، اب وہ عکسی کتابوں کا مطالعہ زیادہ کر رہے ہیں، یہ عکسی کتابیں ان کے اپنے موبائل میں پی ڈی ایف، ورڈ کی شکل میں موجود ہوتی ہیں جس کا وہ مطالعہ کرتے ہیں۔ اس ضمن میں حیدرآباد کے ایک ادارے انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی نے ایک تحقیقاتی مطالعہ کیا کہ کیا لوگوں نے واقعی کتابیں پڑھنی چھوڑ دی ہیں یا اگر کمی واقع ہوئی ہو تو کس حد تک ہوئی؟ اس تحقیق سے یہ بات واضح ہوئی ہے کہ لوگوں میں طبعی طور پر کتاب پڑھنے کا رجحان تو کم ہوا ہے لیکن ڈیجیٹل کتابوں کے پڑھنے کا رجحان بڑھ گیا ہے۔ عوام موبائل یا کسی بھی دوسرے ڈیجیٹل آلات کے ذریعے کتابیں پڑھنے میں زیادہ آسانی محسوس کر رہے ہیں۔ ٹیکنالوجی نے کتابیں پڑھنے والے شوقین افراد کے لیے مختلف ڈیجیٹل آلات کے ذریعے مطالعہ کا شوق پورا کرنے کی سہولت فراہم کی ہے، جیسے ای-بک وغیرہ۔ اسی طرح ایک اور طریقہ بھی اس وقت عوام میں مقبول ہے، وہ ہے کتابیں سننے کا طریقہ یعنی سمعی کتابیں۔ اس انداز نے تو قاری کے لیے غیر معمولی آسانیاں پیدا کر دی ہیں، اس کے ذریعے سے کتاب کا ایک ایک حرف سنا جاسکتا ہے۔
ای-کتاب کا انداز و شکل بالکل کتاب نما ہوتا ہے، بلکہ ورقی کتابوں سے زیادہ پر کشش اور خوبصورت ہوتا ہے اور اس میں قاری کو بہت آسانی بھی ہوتی ہے، جیسے وہ کسی بھی صفحہ پر جا سکتا ہے، نوٹس بھی تحریر کر سکتا ہے، اس کی جست بھی لکھی جاسکتی ہے۔ اہم معلومات پر نشانات بھی لگائے جا سکتے ہیں، حوالہ جات کے لیے آسانی ہوتی ہے۔ یہ تو ایک کتاب پڑھتے وقت کے فوائد ہیں، اسی طرح کسی خاص موضوع پر کئی کتابوں کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ مقررین کے لیے تو اس انداز نے آب حیات کا کام کیا ہے۔ ہم نے کئی ایسے افراد کو بھی دیکھا ہے جو پڑھتے وقت کچھ اور سنتے بھی رہتے، اپنے کانوں میں آلات سمعی لگائے رہتے ہیں اور کتاب بھی پڑھتے ہیں۔ کچھ کو پڑھتے وقت موسیقی سننے کی عادت ہوتی ہے، خاص طور پر اپنی نصابی کتب پڑھتے وقت یا کوئی ناول پڑھتے وقت۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح ان کو کوئی مشکل پیش نہیں آتی ہو گی؟ جو کتاب وہ پڑھ رہے ہیں اس میں فطرت سے متعلق کوئی بات ہو اور جو گانا سن رہے ہیں وہ کوئی غمگین شاعری ہو، ایسے موقع پر کتاب کا اور سننے والی موسیقی کا آپس میں کوئی ربط ہی نہیں ہوتا تو پھر کیسے وہ دونوں چیزوں کو اپنے اندر جذب کر پاتے ہیں؟ اس پر حیدرآباد کے ادارے نے تحقیق کی تو پایا کہ جس موضوع پر کتاب ہو گی اسی مناسبت سے موسیقی بھی ہو گی۔ جس طرح پہلے وقتوں میں فلموں کی کتابیں ہوتی تھیں اسی طرح اب ٹکنالوجی کے ذریعے کتاب کے موضوع کے اعتبار سے اس میں موسیقی رکھی جائے، تو اس سے قاری کو کتاب پڑھنے میں بوریت محسوس نہیں ہو گی اور الفاظ یاد رکھنے میں آسانی ہو گی۔ ادارے نے تجرباتی طور پر کچھ ناولوں کا انتخاب کیا، ان کو ڈیجیٹل کتاب کی شکل دی اور اس کے پس منظر میں اسی مناسبت سے موسیقی رکھ دی۔ انہوں نے اپنے پہلے تجربے کے طور پر مقبول عام ناول "ہیری پوٹر” کا انتخاب کیا، اس ناول کو ای-کتاب کی شکل دی اور اس کے پس منظر میں فلم میں استعمال کی گئی موسیقی کو اس سے مربوط کر دیا۔ جہاں جہاں فلم میں جس مناسبت سے آواز یا موسیقی استعمال ہوئی ہے اسی مناسبت سے اس کتاب میں بھی اس کو شامل کیا گیا ہے، ان کا یہ تجربہ بڑا کامیاب رہا۔ اگلے تجربہ کے طور پر انہوں نے ایک ایسا الگورتھم بنایا جو کتاب میں موجود کسی پیراگراف کی مناسبت سے آواز یا موسیقی اس کے پس منظر میں بجتی رہے۔ مثال کے طور اگر کتاب کے کسی پیراگراف میں دو افراد کے درمیان تلخ گفتگو ہو رہی ہو تو اسی مناسبت سے پس منظر میں جذباتی آواز یا موسیقی بجے گی، تاکہ قاری کو محسوس ہو گویا وہ سارا منظر اس کی آنکھوں کے سامنے ہے، یا کوئی پیراگراف قدرتی مناظر کے بارے ہو تو اسی مناسبت سے جمالیاتی جذبات کا اظہار کرنے والی آوازیں یا موسیقی بجے گی جیسے پرندوں و جاندار کی آوازیں، آبشاروں کی آوازیں وغیرہ، یعنی جذبات کے مناسبت سے موسیقی بجے گی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان مختلف مواقع پر مختلف جذبات کا اظہار کرتا ہے، خوشی کے عالم میں ہو تو اس کا انداز الگ ہوتا ہے غم میں ہو تو الگ، اور اسی مناسبت سے وہ آوازیں سننا چاہتا ہے، ٹھیک اسی طرح کتاب میں موجود مواد کے مطابق آوازیں یا موسیقی رکھی جائے تو اثر پزیری میں اضافہ ہو گا اور دلچسپی بھی باقی رہے گی۔
اسی طریقہ کار کو اپنا کر تاریخی کتابوں، اچھے افسانوں اور اخلاقی کہانیوں کا انتخاب کرکے ان کی ای-کتابیں بنا کر اس میں آوازیں رکھی جائیں تو ان کے پڑھنے والے پر کسی قسم کی بوریت طاری نہیں ہو گی اور وہ یوں محسوس کرے گا کہ گویا سارا منظر اس کی آنکھوں کے سامنے گھوم رہا ہو۔ یہ طریقہ کار صرف ای-کتابوں کے لیے ہی نہیں بلکہ ای-اخبار کے لیے بھی اپنایا جا سکتا ہے۔ فرض کیجیے کہ آپ کسی اخبار کا مطالعہ کر رہے ہیں جس میں یہ خبر ہو کہ آج کسی مقام پر پھولوں کی نمائش منعقد کی جارہی ہے جس میں ہمہ اقسام کے پھول ہوں گے، لیکن اسی خبر کو آپ اگر ای-اخبار میں پڑھیں گے تو اس میں اس مواد سے متعلق آواز ہو یا موسیقی بھی ہو گی جس سے آپ کو پڑھنے میں لطف آئے گا۔ اسی طرح کوئی بری خبر ہو گی اور اس میں اسی مناسبت سے آواز یا موسیقی ہو گی تو اس خبر کو پڑھنے میں دلچسپی برقرار رہے گی۔ دور حاضر میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ تقریباً ماں باپ اپنے بچوں کو حرف تہجی سکھانے کے لیے یوٹیوب کا سہارا لیتے ہیں جس میں موسیقی کے ذریعے ہی حروف سکھائے جاتے ہیں۔ نظمیں سکھانے میں بھی اسی انداز کو اپنایا جاتا ہے۔ ای۔ بک اور تعلیم و تعلم کے میدان میں آئی ٹی نیز جدید تکنیک پر مبنی تجربات ملک میں بلکہ اردو میں بھی کئے جا رہے ہیں۔تاہم ان کو وسعت دینے اور مقبول عام کرنے پر خاطر خواہ توجہ کی ضرورت ہے۔
***
***
تاریخی کتابوں، اچھے افسانوں اور اخلاقی کہانیوں کا انتخاب کرکے ان کی ای-کتابیں بنا کر اس میں آوازیں رکھی جائیں تو ان کے پڑھنے والے پر کسی قسم کی بوریت طاری نہیں ہو گی اور وہ یوں محسوس کرے گا کہ گویا سارا منظر اس کی آنکھوں کے سامنے گھوم رہا ہو۔ یہ طریقہ کار صرف ای-کتابوں کے لیے ہی نہیں بلکہ ای-اخبار کے لیے بھی اپنایا جا سکتا ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 15 جنوری تا 21 جنوری 2023