توہینِ قرآن کی نئی مہم

شیطان صفت انسان کی گھناونی حرکت کے خلاف ساری دنیا میں احتجاج

مسعود ابدالی

مغرب اگر پرامن بقائے باہمی اور مذہبی رواداری پر یقین رکھتا ہے تو اسے مسلم عقائد، متبرکات اور اقدار و روایات کے احترام کو یقینی بنانا ہوگا
سویڈن میں قرآن نذر آتش کیے جانے کے خلاف ساری دنیا میں احتجاج جاری ہے۔ ترکیہ نے سویڈن کے وزیردفاع پال جانسن Pål Jonsonکا دورہ منسوخ کردیا ہے۔ سویڈن نیٹو کا امیدوار رکنیت ہے اور کرد دہشت گردوں کی مبینہ پشت پناہی کی بنا پر انقرہ نے اب تک سویڈن کی رکنیت پر عدم اعتراض کا صداقت نامہ یا NOCجاری نہیں کیاہے۔ نیٹو دستور کی رو سےنئے گوشوارہ رکنیت کی منظوری تمام ارکان کی رضامندی سے مشروط ہے۔ جناب جانسن انہیں تحفظات کو دور کرنے ترکیہ آنے والے تھے۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ توہینِ قرآن کےساتھ اسٹاکہوم میں کرد علیحدگی پسندوں کا مظاہرہ بھی دورے کی منسوخی کا سبب بناہے۔
قرآن مجید کی بے حرمتی کا یہ تازہ واقعہ 21 جنوری کی دوپہر پیش آیا جب سویڈن کے دارالحکومت اسٹاکہوم میں ترک سفارتخانے کے سامنے دائیں بازو کے ڈنمارک نژاد سویڈش سیاستداں اور انتہا پسند Hard Line پارٹی کے سربراہ راسمس پلوڈن Rasmus Paludan) نے قرآن کریم کے ایک نسخے کو نذرِ آتش کردیا۔ اس فعلِ قبیح سے پہلے راسمس نے ایک گھنٹے تک اسلام، قرآن اور متبرک شخصیات کے خلاف مغلظات بکے۔ ہم نے جان کر مغلظات لکھا ہے کہ یہ کوئی علمی یا نظریاتی تنقید نہیں بلکہ فحش گالیاں تھیں جسے خود سویڈش میڈیا نے diatribe لکھا ہے۔اس کے بعد اس نے سگریٹ لائٹر سے قرآن کے نسخے کو آگ لگادی۔ اس دوران پولیس نے پلوڈن کو حفاظتی حصار میں لیا ہوا تھا۔ اس موقع پر مسلمانوں نے احتجاجی مظاہرہ بھی کیا۔
رقبے کے اعتبار سے شمالی یورپ (Nordic) کے اس سب سے بڑے ملک میں مسلمانوں کا تناسب آٹھ فیصدہے۔ ان اعدادو شمار کو حقیر نہ جانیں کہ دوتہائی سے زیادہ آبادی خود کو ملحد یا کسی بھی مذہب سے وابستہ نہیں سمجھتی اور 25 فیصد مسیحیوں کے مقابلے میں 8.1 فیصد آبادی بہت چھوٹی نہیں۔سویڈش معاشرہ پرامن بقائے باہمی اور برداشت کی ایک عمدہ مثال ہے۔ دو سال پہلے جب جنوبی سویڈن کے اسکولوں میں بچیوں کے اسکارف اوڑھ کر کلاس میں آنے پر پابندی لگائی گئی تو مقامی عدالت نے از خود نوٹس لے کر پابندی کو غیر آئینی قرار دیا تھا۔
مسلمانوں کو صدمہ پہنچانے کے لیے قرآن پاک کی بے حرمتی انتہاپسندوں کا خاص ہتھیار ہے۔ امریکی قید سے رہا ہونے والے بعض قیدیوں نے انکشاف کیا ہے کہ عراق کی ابوغریب جیل اور گوانتانامو بے کے عقوبت کدوں میں جب مضبوط اعصاب والا کوئی قیدی بد ترین تشدد سے بھی قابو میں نہ آتا تو لب کشائی کے لیے ’ملزم‘ کو دھمکی دی جاتی کہ اگر اس نے صحیح بات نہ بتائی تو قرآن کے نسخے اس کے پیروں پر ڈال دیے جائیں گے یا اس کے سامنے قرآن کو سور کی چربی میں لپیٹ دیا جائے گا۔ قرآن کو فلش میں ڈالنے کی دھمکی بھی دی گئی جسے سن کر وہی قیدی جو واٹر بورڈنگ، ناخن کھینچنے، کرنٹ لگانے اور تشدد کی دوسری اذیتیں خندہ پیشانی کے ساتھ سہہ رہا تھا فوراً ہی اپنے تمام کردہ و ناکردہ گناہوں کا اعتراف کرلیتا تھا۔ کہتے ہیں کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو ایسے ہی ذہنی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
مغرب میں توہینِ قرآن مہم کا آغاز 2010 میں ہوا جب امریکی ریاست فلوریڈا کے شہر گینزول (Gainesville) کے ایک متعصب پادری ٹیری جونز نے سانحہ نیویارک کے متاثرین کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے اُس سال گیارہ ستمبر کو قران کو جلانے کا دن قرار دیا ۔فیس بک پر اس نے تمام "اہل ایمان” کو قرآن پاک کے نسخوں کے ساتھ اپنے چرچ آنے کی دعوت دی جس کے پارکنگ لاٹ میں قرآن جلانے کی تقریب منعقد ہونی تھی۔
یہ وہ دور تھا جب افغانستان میں امریکی افواج کو شدید مزاحمت کا سامنا تھا اور ملک آنے والے تابوتوں سے صدر اوباما شدید دباو میں تھے۔ امریکی وزیر دفاع ڈاکٹر رابرٹ گیٹس نے خدشہ ظاہر کیا کہ توہین قرآن سے دنیا بھر میں امریکی مفادات کو نقصان پہنچے گا، چنانچہ انہوں نے ایک طرف پادری سے ملاقات کرکے اسے قرآن سوزی سے باز رکھنے کی تلقین کی تو دوسری طرف شہری دفاع کے مقامی محکمے نے پادری صاحب کو متنبہ کیا کہ عوامی مقامات پر آگ جلانے پر پابندی ہے اور اگر قرآن کو آگ لگائی گئی تو تقریب کے تمام شرکا پر آتش زنی کے مقدمات قائم کیے جائیں گے۔ چنانچہ ٹیری جونز نے قران کریم کو جلانے کی تقریب منسوخ کردی۔
امریکہ کی مسلم تنظیموں نے انتہائی تدبر کا مظاہرہ کیا اور اس پر مشتعل ہونے کے بجائے اس دن کو حضرت عیسیٰؑ سے اظہار محبت کے دن کے طور پر منانے کا اعلان کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ قران پاک کی بے حرمتی صرف مسلمانوں کی دل آزاری کا سبب نہیں بنے گی بلکہ اس کتاب میں حضرت عیسیٰؑ، ان کی پاک دامن والدہ، حضرت زکریاؑ، ان کی عفت ماب اہلیہ اور حضرت یحییٰ ؑسمیت تمام انبیاء اکرام کا ذکر اور ان کے مقدس واقعات درج ہیں۔ ان متبرک شخصیات اور ان سے وابستہ واقعات مسلمانوں، مسیحیوں اور یہودیوں کے لیے بنیادی عقائد کی حیثیت رکھتے ہیں لہذا قرآن کی توہین دراصل تمام الہامی مذاہب کی توہین ہے ۔ مسلم طلبہ نے ’’جلاومت ! پڑھو ‘‘ (Learn, not burn) کے عنوان سے ایک تحریک کا آغاز کیا اور قرآن کریم کے ہزاروں نسخے طلبہ اور اساتذہ میں تقسیم کیے گئے۔امریکی مسلمانوں کے شائستہ صبر، برداشت اور بردباری نے امریکی رائے عامہ کو بے حد متاثر کیا اور شدید عوامی دباو کے تحت ٹیری جونز نے قران کریم جلانے کی تقریب منسوخ کردی۔
چند ماہ بعد شیطان صفت انسان پر یہ خبط پھر سوار ہوا ۔اور بیس مارچ 2011کو اس نے اپنے چرچ میں عدالت لگائی، قرآن کے نسخےکو ملزم کے کٹہرے میں کھڑا کیا اور خود منصف کی کرسی پر براجمان ہوگیا۔ آٹھ منٹ کی عدالتی کارروائی کے بعد اس نے قرآن کو انسانیت دشمن، خواتین کے حقوق کا مخالف اور دہشت گردی کی کتاب قرار دیتے ہوئے سزائے موت سنائی اور ایک جلاد پادری نے قرآن کے نسخے پر مٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگادی۔ تاہم مسلمانوں کی دعوتی مہم کے نتیجے میں قرآن سوزی کی مزید کوئی واردات نہ ہوئی۔
چند ماہ بعد توہین قرآن کے واقعات افغانستان میں امریکی فوجی اڈے بگرام پر پیش آئے جب بیس فروری 2012 کو جیل میں صفائی کا کام کرنے والے افغان مزدوروں نے کچرے کے ڈھیر پر قرآنِ کریم کے جلے ہوئے اوراق دیکھے۔اس جسارت پر یہ مزدور مشتعل ہوگئے اور جیل کے اندر ہی نعرے بازی شروع کردی۔ مزدوروں کے نعرے سن کر قرب و جوار سے ہزاروں نوجوان دوڑ پڑے اور اللہ اکبر کے نعرے لگاتے افغانوں نے اڈے کی صدر دروازے پر شدید پتھراو کیا۔ جلد ہی یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیلی اور پورا اڈا افغان نوجوانوں کے محاصرے میں آگیا۔مظاہرین کومنتشر کرنے کے لیے امریکی فوج نے ربڑ کی گولیاں استعمال کیں اور ہوائی فائر کیے۔ مدد کے لیے ہیلی کاپٹر بھی طلب کیے گئے جن سے آگ کے شعلے مظاہرین کی طرف پھینکے گئے۔ اس پر افغان مزید مشتعل ہوگئے۔ نوجوانوں نےغلیلوں سے ہیلی کاپٹر گرانے کی کوشش کی۔ پانچ دن جاری رہنے والے فسادات میں 45 شہری جاں بحق اور سیکڑوں شدید زخمی ہوئے۔
نیٹو فوج کے سربراہ جنرل جان ایلن نے اپنے تحریری بیان میں قرآنِ پاک کے اوراق جلائے جانے کا اعتراف کیا تاہم انہوں نے کہا کہ یہ ایک صریح غلطی تھی، نیٹو فوج نے جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا اور جیسے ہی اس غلطی کا پتہ چلا قران پاک کے اوراق کو احترام کے ساتھ اٹھا کر افغان علما کی نگرانی میں پاک مقام پر رکھدیا گیا۔ صدر اوباما کے ترجمان نے اس واقعہ کو افسوسناک قرار دیا اور افغان عوام سے غیر مشروط معافی مانگی۔
پانچ سال بعد شمالی یورپ کے ممالک ناروے، ڈنمارک اور سویڈن پر مشتمل علاقے Scandinavia میں راسمس پالڈن نے توہین قران کی منظم مہم کا آغاز کیا۔ اسکینڈینیویا کو مسلمانوں سے پاک کرنے کے ایک نکاتی منشور کی بنیاد پر 2017میں Stram Kurs کے نام سے ایک سیاسی جماعت قائم کی گئی جس کاانگریزی نام Hard Lineپارٹی ہے۔ ۔نیوزی لینڈ میں جنم لینے والا 41 سالہ راسمس ایک شعلہ بیان مقرر ہے اور نفرت انگیر و توہین آمیز تقاریر کی بنا پر عدالت اسے پانچ سال زباں بندی کی سزا سنا چکی ہے۔ پابندی کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے اس نے تیبور (Vyborg) شہر میں ایک جلسے کے دوران نبی محترم محمد ﷺ کے خلاف انتہائی گندی زبان استعمال کی جس پر مسلمانوں کے ساتھ عام ڈینش شہری بھی مشتعل ہوگئے۔ ہاتھا پائی کے دوران راسمس نے پولیس کو ‘مسلمانوں کا کتا’ کہا اور حملے کی کوشش کی۔ اس بات پر راسمس کو تو محض جرمانہ کیا گیا لیکن ہاتھا پائی اور دھکم پیل کے الزام پر ایک کرد نوجوان کو پہلے دو ماہ کے لیے جیل بھیجا گیا اور سزا کاٹنے کے بعد اسے ملک بدر کردیا گیا۔
راسمس، ناروے کے اسلام مخالفین کا مربّی بھی ہے۔ اس کی کوششوں سے یہاں ایک تنظیم STOP ISLAMIZATION IN NORWAYیا SIAN قائم کی گی جس کے ارکان کی تعداد 13000 سے زیادہ ہے۔ اب Stop Islamization in Europeکے نام سے اس تنظیم کا دائرہ سارے یورپ تک پھیلا دیا گیا ہے۔ ناروے میں قرآن سوزی مہم کا آغاز کے ایک قدیم شہر کرسچین سینڈ (Kristiansand) سے ہوا جہاں راسمس کے شاگرد اور سیان کے قائد آن تومر (Arne Tumyr) نے شہر کے مصروف چوک میں قرآن کے ایک نسخے کو نذر آتش کیا، موقع پر موجود ایک شامی پناہ گزین الیاس عمر ذہبی نے قرآن کا وہ جلتا ہوا نسخہ چھین کر اپنے ہاتھوں سے آگ کوٹھنڈا کیا جس کے نتیجے میں اس نوجوان کے ہاتھ زخمی ہوگئے۔ حملے کے الزام میں اس نوجوان کو گرفتار کرلیا گیا
راسمس پلوڈن نے اپریل 2019 میں ڈنمارک کے شہر تیبور Viborg میں قرآن کے خلاف ایک مظاہرے کا اعلان کیا لیکن صرف سو افراد وہاں آئے جبکہ سورہ اخلاص پڑھتے کئی ہزار مسلمانوں نے اسے ناکام بنادیا۔
ایک سال بعد اگست 2020میں سویڈن کے جنوبی مغربی شہر مالما (Malmö)میں شیطنت کا منصوبہ بنا لیکن حکام نے راسمس کو گرفتار کرکے اسے اس کے آبائی ملک ڈنمارک جلاوطن کردیا۔ اپنے رہنما کی گرفتاری پر انتہا پسند برہم ہوئے اور انہوں نے قران کا ایک نسخہ نذرِ اتش کردیا۔ جس پر وہاں فسادات پھوٹ پڑے جو کئی دن جاری رہے۔ کچھ ہی عرصے بعد راسمس پلاڈن سویڈن واپس آگیا۔ اس کے والد سویڈن کے شہری تھے اور اس بنیاد پر اسے بھی شہریت مل گئی۔
گزشتہ سال 15 اپریل کو راسمس نے اوریبروُ Orebro شہر کی جامع مسجد کے سامنے قرآن سوزی کی۔ مسلمانوں نے اس پر شدید احتجاج کیا اور پُرتشدد مظاہروں میں پولیس افسران سمیت درجنوں افراد زخمی ہوگئے۔اسی دن دارالحکومت اسٹاکہوم کے مضافاتی علاقے میں بھی قرآن کریم کا ایک نسخہ نذرِ آتش کیا گیا۔ یہ مذموم کاروائیاں کئی دن جاری رہیں۔سویڈن پولیس کے سربراہ آندرے تھورن برگ کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنی پوری پیشہ ورانہ زندگی میں اس نوعیت کے مظاہرے اور کشیدگی نہیں دیکھی۔
اس متعصب شخص کے کردار کا یہ عالم کہ اگست 2021 میں ڈنمارک کے ایک موقر جریدے Ekstra Bladetنے انکشاف کیا کہ یہ سوشل میڈیا پر کمر عمر لڑکوں سے نازیبا گفتگو کرتا ہے۔ پلوڈن نے خبر کی وضاحت کرتے ہوئے بے شرمی سے کہا کہ ہاں میں لڑکوں سے ’لذیذ فحش‘ باتیں تو کرتا ہوں مگر میرا خیال تھا کہ ان میں سے کوئی بھی بچہ نہیں سب بالغ ہیں۔پلوڈن پر پولیس سے بدتمیزی پر جرمانہ بھی ہوچکا ہے۔
مسلمانوں کی ایک اچھی خاصی تعداد تارکین وطن اور پناہ گزینوں پر مشتمل ہے اور مقامی قوانین کےمطابق مظاہروں میں گرفتار ہونے والے ہر غیر ملکی کو فوری طور پر ملک بدر کردیاگیا۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ مجرمانہ پس منظر رکھنے والے سزا یافتہ شخص کو تو نفرت بھیلانے کی کھلی چھٹی ہے لیکن پرامن مسلمان مظاہرین کو گرفتارکرکے ملک سے بے دخل کیا جارہا ہے۔
سویڈن کے وزیر خارجہ Tobias Billstrom نے اسلاموفوبیا کے اس مظاہرے کو افسوسناک قراردیا ہے۔ اپنے ٹویٹ پیغام میں انہوں نے کہا سویڈن میں اظہارِ رائے کی مکمل آزادی ہے لیکن اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ راسمس بلوڈن کی اس حرکت کو حکومت یا وزارت خارجہ کی حمایت حاصل ہے۔فاضل وزیرخارجہ کا یہ بیان قابل تعریف تو ہے لیکن ’غیرجانبداری‘ کے اس مظاہرے سے متعصب عناصر کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے۔
مغرب اگر پرامن بقائے باہمی اور مذہبی رواداری پر یقین رکھتا ہے تو اسے مسلم عقائد، متبرکات اور اقدار و روایات کے احترام کو یقینی بنانا ہوگا۔ پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ میں اپنے خطاب کے دوران بہت ہی مدلل انداز میں یہ بات سمجھانے کی کوشش کی تھی کی مسیحی دنیا کے مقابلے میں مسلمانوں کے مذہبی اقدار مختلف ہیں۔ محمد ﷺ مسلمانوں کو اپنی جان سے زیادہ عزیز ہیں جن کی ہلکی سی توہین بھی ناقابل برداشت ہے۔ عیسائی بائیبل کومحض ایک مقدس کتاب سمجھتے ہیں جبکہ مسلمان کے لیے قرآن اللہ کا کلام بلکہ وہ رسی ہے کہ جس کا دوسرا سرا اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
یہاں اس غلط فہمی کا ازالہ بھی ضروری ہے کہ تحفظ اظہار رائے کا یورپی فلسفہ، انسدادِ توہین مذہب کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ یورپ وامریکہ میں کسی بھی جگہ جرمن یہودیوں کے مبینہ قتل عام یا ہولوکاسٹ کے بارے میں منفی بات کرنا خلاف قانون ہے۔ جامعات میں ہولوکاسٹ کی صحت پر تحقیق بھی قابل سزا جرم ہے۔ خود سویڈن ایک آئینی بادشاہت ہے اور وہاں سلطانِ معظم کارل سولہ گستاف (Carl XVI Gustaf) پر تنقید کی اجازت نہیں۔ اسی نوعیت کی سرخ لکیر کھینچ کر انبیا اکرام، الہامی کتب اور شخصیات کی حرمت و توقیر کو یقینی کیوں نہیں بنایا جا سکتا؟
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 29 جنوری تا 04 فروری 2023