تصوّر اقامتِ دین تفہیم اور توضیح

اکابرِ تحریک اسلامی کے قیمتی مضامین کا مجموعہ

مرتبین: مولانا محمد رضی الاسلام ندوی اور محمد اسعد فلاحی
قیمت:310 روپے، صفحات :368
ناشر:مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی
مبصر: محمد انس فلاحی مدنی
(رفیق ادارۂ تحقیق وتصنیفِ اسلامی، علی گڑھ)

اس میں شک نہیں کہ اسلام عصر حاضر میں سب سے زیادہ موضوعِ بحث بننے والا دین ہے۔ پوری دنیا میں اسلام پسند اور اسلام دشمن طاقتیں اسلام کے مجموعی نظام اور اثرات پر ریسرچ کر رہی ہیں۔دشمن طاقتیں اسلام کو ایک خوں خوار مذہب کی حیثیت سے پیش کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی ہیں۔ اسلاموفوبیا کی لہر دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہے۔ اس کا مقصد یہی ہے کہ قبولیت ِ اسلام کی رفتار رک جائے اور لوگ اسلام سے باز آجائیں۔
یہ سوال بہت معقول ہے کہ اگر اسلام دنیائے انسانیت کے لیے رحمت ہے تو اس کے نتائج سامنے کیوں نہیں آرہے ہیں؟اس کا سادہ اور آسان جواب یہی ہے کہ اس کی تعلیمات،احکام اور مجموعی نظام کے اثرات اور ثمرات اسی وقت سامنے آئیں گے جب اسلام فرد، معاشرہ اور ریاست کا جزو لاینفک بنے۔ اسلام مجموعی نظام کے تنفیذ کے بغیر شجر بے ثمر ہے۔ قرآن مجید میں انبیاء کی بعثت کا مقصد، امت مسلمہ کا مقصدِ وجود، شہادتِ حق، عدل و قسط کا قیام اور مختلف پیرایوں میں اقامتِ دین کی جدوجہد کا حاصل یہی ہے کہ اسلام نافذ ہو اور یہی امتِ مسلمہ کا مشن اور مقصد قرار دیا گیا ہے۔
اسلام کا مقصود، سیاسی جدوجہد بھی ہے یا صرف وہ اصلاح اور دعوت و تربیت کا مطالبہ کرتا ہے؟ معروف لفظوں میں کیا اسلام دین کی دعوت کے ساتھ غلبہ اسلام کی جدوجہد کا بھی حکم دیتا ہے؟ غلبہ اسلام، سیاسی جدوجہد کی فکر کوئی نہیں ہے۔ قدیم مفسرین و محدثین، فقہاء اور مفکرین نے اس تعلق سے نہایت واضح موقف کے ساتھ اظہارِ دین اور غلبہ دین کو موضوعِ بحث بنایا ہے۔ برصغیر ہندو پاک میں اسلام کے نفاذ کی جدوجہد کو ”اقامت دین“ کی قرآنی اصطلاح سے جماعت اسلامی کے اکابرین نے متعارف کرایا ہے۔ بانی تحریک مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ (وفات ۱۹۷۹ء) نے اسی فکر اور مشن کو تحریک کا نصب العین بنایا ہے۔
اقامتِ دین کی اصطلاح و فکر اور طریقہ کار پر خاصی بحثیں ہوئی ہیں۔اکابرین تحریک اسلامی نے اس پر وقیع تحریریں اور تصانیف تیار کیں اور اس فکر کو مدلل و مستند بنایا۔ تحریکی لٹریچر میں آغازِ تحریک سے ہی اس بحث کو خصوصی جگہ دی گئی ہے۔ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ، مولانا صدرالدین اصلاحیؒ، مولانا سید حامد علیؒ، مولانا سید احمد عروج قادریؒ، مولانا ابو سلیم عبد الحئؒ اور متاخرین میں ڈاکٹر فضل الرحمٰن فریدیؒ، مولانا سید جلال الدین عمریؒ، مولانا نظام الدین اصلاحیؒ اور ڈاکٹر محمد رفعتؒ نے اقامتِ دین کی جہات، چیلنجز اور مطلوبہ تقاضوں کے عنوان پرگراں قدر لٹریچر تیار کیا ہے۔
اقامت دین کی اصطلاح و فکر پر تنقید بھی ہوئی۔ میں بعض تنقیدیں معروضی اور علمی نوعیت کی تھیں، ان پر سیر حاصل بحث کی گئی اور علمی جواب دیا گیا۔ اس اصطلاح و فکر پر تنقید کرنے والوں میں مولانا وحید الدین خاں (و۲۰۲۲ء) اور جاوید احمد غامدی قابلِ ذکر ہیں۔ اس فکر اور نظریے پر بعض نئے اعتراضات بھی سامنے آئے۔ ان اعتراضات کا جواب مولانا گوہر رحمٰن، پروفیسر خورشید احمد، پروفیسر انیس احمد، ڈاکٹر محمد رفعتؒ ،انجینئر سید سعادت اللہ حسینی اور ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی نے اپنی تحریروں میں علمی اسلوب اور عام فہم انداز میں دیا ہے۔
زیر نظر کتاب ”تصوّرِ اقامتِ دین تفہیم اور توضیح [اکابرِ تحریک اسلامی کے قیمتی مضامین کا مجموعہ]“ چار ابواب پر محیط ہے۔ یہ کتاب اقامتِ دین کی فرضیت، تقاضے، طریقہ کار اور اعتراضات کے جواب پر مشتمل ہے۔ باب اول ’اقامتِ دین کی فرضیت‘ اس میں چار مضامین؛ اقیموا الدین کی تشریح، اقامت دین اور قرآن مجید، اقامتِ دین کیا ہے؟ اور اقامتِ دین: دینی فريضہ، منصوص حکم شامل ہیں۔ ان مضامین میں اقامتِ دین کی فرضیت اور مطالبے پر مفصل اور مدلل گفتگو کی گئی ہے۔ ”اقامتِ دین کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنی پوری زندگی میں چاہے وہ شخصی اور انفرادی ہو یا سماجی و سیاسی، اللہ کی عبادت اور اطاعت کی راہ اختیار کرے اور غیر اللہ کی عبادت سے کنارہ کش ہو جائے۔“(ص:۴۱)
باب دوم ’اقامتِ دین: تقاضے، طریقہ کار اور حکمت عملی‘ میں دس مضامین شامل ہیں۔ان مضامین میں اقامتِ دین کے طریقۂ کار، مطالبات، علمی و عملی تقاضے، پیش رفت کا جائزہ، موانع اور امکانات پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔
اقامتِ دین کی راہ میں سعی کے لیے بنیادی اصول؛ تقویٰ کا التزام، منظم و مضبوط اجتماعیت اور امر بالمعروف نہی عن المنکر‘ کا ذکر کیا گیا ہے۔ اقامتِ دین کے مراحل کے ضمن میں درج ذیل اصولی بات بیان کی گئی ہے:
”اقامتِ دین ایسے جامع طرزِ عمل کا نام ہے جس میں زندگی کے تمام شعبوں میں انقلاب برپا کرنے کی کوشش اصل ہدف ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کا آغاز فکری انقلاب سے ہوگا۔ اقامتِ دین کا آغاز تطہیرِ افکار اور تعمیرِ سیرت سے ہی ہوگا۔ جب یہ بنیادی مرحلہ شروع ہو جائے گا تو فطری طور پر اصلاحِ معاشرہ کے ساتھ ساتھ اصلاح اقتدار کا مرحلہ بھی آئے گا۔ چوتھا مرحلہ اولین تین مراحل کے ساتھ فطری طور پر جڑا ہوا ہے، ان سے الگ اور آزاد نہیں ہے۔“ (ص:۱۳۲)
اس باب کے مضامین میں ہندوستان میں اقامتِ دین کی راہ کے موانع ومشکلات اور امکانا ت پر گفتگو کے ساتھ غور وفکر کے نئے زاویہ نظر بھی پیش کیے گئے ہیں۔ باب سوم ”اقامتِ دین پر کتابوں کی تلخیص“ میں اقامتِ دین کی فکر پر اساسی نوعیت کی دس اہم کتابوں کی جامع تلخیص پیش کی گئی ہے۔ یہ کتابیں مولانا صدرالدین اصلاحیؒ،مولانا سید حامد علیؒ ، مولانا سید احمد عروج قادریؒ، مولانا ابو سلیم عبد الحئیؒ، مولانا شبیر منظر قدوسی، مولانا نظام الدین اصلاحیؒ، ڈاکٹر فضل الرحمٰن فریدیؒ، ڈاکٹر محمد رفعتؒ اور انجینئر سید سعادت اللہ حسینی کی ہیں۔ یہ کتابیں اقامتِ دین کی فرضیت، حکمت عملی،طریقۂ کار اور چیلنجز کا علمی محاکمہ کرتی ہیں اور ان میں درپیش فکری چیلنج کے اسباب اور حل کا ذکر کیا گیا ہے۔
باب چہارم ”اقامتِ دین پر اعتراضات کا جائزہ“ اس میں وہ مضامین شامل ہیں جن میں اقامتِ دین کے فریضے پر ہونے والے اشکالات و اعتراضات کا علمی محاکمہ کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں مولانا وحید الدین خاں اور جناب جاوید احمد غامدی کے اعتراضات کا بہ طور خاص جائزہ لیا گیا ہے۔
اقامتِ دین کی فکر پر تنقید کرنے والوں نے سورہ الشوریٰ کی آیت: شَرَعَ لَكُم مِّنَ الدِّينِ مَا وَصَّىٰ بِهِ نُوحًا وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَىٰ وَعِيسَىٰ ۖ أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ ۚ كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ ۚ اللَّهُ يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَن يُنِيبُ میں درج الفاظ ’ان اقیموا‘ اور ’الدین‘ کو موضوعِ بحث بنایا ہے۔ ان کی دانست میں آیت کے صرف یہی الفاظ مستدل ہیں۔ حالاں کہ قرآن مجید کی پوری اسکیم اسی پر مبنی ہے۔ اس نقطے کو ایک مضمون میں اس طرح بیان کیا گیا ہے :
”واقعہ یہ ہے کہ اقامتِ دین کا حکم کسی ایک آیت تک محدود نہیں ہے۔ قرآن کی پوری اسکیم میں اسے مرکزی ذمہ داری کی حیثیت حاصل ہے۔ قرآن نے اس کام کو کئی اصطلاحوں میں بیان کیا ہے۔
اظہارِ دین، قیامِ قسط،قیام عدل، شہادت علی الناس، امر بالمعروف ونہی عن المنکر، دعوتِ دین، ان سب میں اقامتِ دین کا مفہوم پوشیدہ ہے۔ ان سب احکام کا تقاضا یہی ہے کہ دین پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ باقی انسانیت کو دین کی طرف بلانے،دین پر انہیں مطمئن کرنے اور معاشرہ میں اللہ کے احکام کی ترویج وتنفیذ کی ممکنہ کوشش کی جائے۔“ (ص:۲۹۳)
جناب جاوید احمد غامدی کے اعتراض و نقد کا علمی جواب مولانا گوہر رحمٰنؒ، ڈاکٹر محمد رفعتؒ اور انجینئر سید سعادت اللہ حسینی نے علمی و عقلی اسلوب میں دیا ہے۔ ان کے مضامین میں لفظ اقامت اور الدین کے مفہوم کی وضاحت کے ساتھ کلمہ طیبہ کے اقرار اور قرآن مجید کی اصطلاحات کی تکرار کے ذیل میں اس پہلو پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ اقامتِ دین کی جدوجہد کوئی اختیاری چیز نہیں ہے بلکہ یہ ہر مسلمان کا دینی فريضہ ہے۔ کوئی شخص اس سے بے نیاز اور دستبردار نہیں ہو سکتا۔اس کتاب میں مولانا صدر الدین اصلاحیؒ کا مکتوب بہ نام مولانا عامر عثمانیؒ بھی شامل کیا گیا ہے جس سے مولانا وحید الدین خاں کے فکری مغالطے کا انداز ہ ہوتا ہے۔
مجموعی طور پر یہ کتاب تصور اقامت دین کی بہترین تفہیم وتوضیح پر مبنی ہے۔ اس میں شامل مضامین اقامتِ دین کے مفہوم، طریقۂ کار، تقاضے اور چیلنجوں کی جانب بہترین رہ نمائی کرتے ہیں۔ اقامتِ دین کی تفہیم کے ساتھ اس کے لیے جدوجہد کا داعیہ بھی پیدا کرتے ہیں، نیز تصورِ اقامت دین پر اشکالات و اعتراضات کا علمی جواب بھی فراہم کرتے ہیں ۔
یہ کتاب تحریکِ اسلامی سے وابستہ افراد اور اس مشن و فکر کو سمجھنے والوں کے لیے گراں قدر تحفہ ہے۔ اس میں علمی اسلوب، عام فہم انداز، منطقی ترتیب کے ساتھ موضوع کی تمام جہات کا احاطہ کرتے ہوئے مضامین کو ترتیب دیا گیا ہے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ یہ کتاب اقامتِ دین کی فکر پر مبنی اساسی لٹریچر کا جامع خلاصا ہے۔ امید ہے کہ اسے تحریکی حلقوں میں اپنی فکر میں تازگی اور تیز رفتاری کے لیے مطالعہ کا حصہ بنایا جائے گا۔ مرتبین اس گراں قدر کتاب کے عمدہ انتخاب و ترتیب کے لیے مبارک باد کے مستحق ہیں۔
***

 

***

 یہ کتاب تحریکِ اسلامی سے وابستہ افراد اور اس مشن و فکر کو سمجھنے والوں کے لیے گراں قدر تحفہ ہے۔ اس میں علمی اسلوب، عام فہم انداز، منطقی ترتیب کے ساتھ موضوع کی تمام جہات کا احاطہ کرتے ہوئے مضامین کو ترتیب دیا گیا ہے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ یہ کتاب اقامتِ دین کی فکر پر مبنی اساسی لٹریچر کا جامع خلاصا ہے۔ امید ہے کہ اسے تحریکی حلقوں میں اپنی فکر میں تازگی اور تیز رفتاری کے لیے مطالعہ کا حصہ بنایا جائے گا۔ مرتبین اس گراں قدر کتاب کے عمدہ انتخاب و ترتیب کے لیے مبارک باد کے مستحق ہیں۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 26 جنوری تا 01 فروری 2025