تصور آزادی اور اسلامی اخلاق

بے محابا آزادی کے پردے میں انسانی سماج کا اخلاقی زوال

محمد رضی الاسلام ندوی
سکریٹری شریعہ کونسل جماعت اسلامی ہند

اچھے اخلاق کی بدولت ہی انسان حقیقی آزادی سے بہرہ ور ہو سکتا ہے
موجودہ دور میں تین چیزوں کو بنیادی قدروں کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے: آزادی، مساوات اور انصاف۔ ان کا شمار آفاقی قدروں میں کیا جانے لگا ہے۔اسے اکیسویں صدی کی اہم ترین دریافت کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔ انسانوں کے درمیان مساوات نہیں پائی جاتی تھی، وہ عدل و انصاف سے محروم تھے اور ان کا بہت بڑا طبقہ آزادی سے محروم تھا۔ طاقت ور لوگوں نے ان کو غلام بنا رکھا تھا۔وہ ہر طرح سے ظلم و جبر کا شکار تھے۔ انہوں نے اس کے خلاف آواز بلند کی، احتجاج اور مظاہرے کیے۔ اس کے نتیجے میں دھیرے دھیرے ان کے حقوق تسلیم کیے گئے، انہیں مساوات حاصل ہوئی ،تمام انسانوں کو برابر سمجھا جانے لگااور آزادی کی دولت سے بھی وہ مالا مال ہوگئے ۔
لیکن المیہ یہ ہے کہ جلد ہی انسانی سماج افراط و تفریط کا شکار ہوگیا۔جہاں ایک طرف انسانوں کی بڑی آبادی آزادی سے محرومی تھی،وہیں دوسری انتہا یہ ہوئی کہ سماج میں آزادی کا ایک غیر محدود تصور عام ہوگیا۔بے محابا آزادی کا اعلان کیا گیا۔ یہ ظاہر کیا گیا کہ انسان ہر طرح سے آزاد ہے۔ اپنی مرضی کے مطابق وہ جو چاہے کر سکتا ہے۔ آزادی کے اس تصور نےانسانی سماج کو فساد سے بھر دیا ہے۔ دوسرے انسانوں کے حقوق پامال ہونے لگے۔ایک دوسرے کے حقوق کی کوئی پروا نہیں رہی۔ ہر انسان صرف اپنی آزادی حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جب اس کو آزادی حاصل ہو جاتی ہے تو وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے، کسی طرح کی کوئی پابندی وہ گوارا نہیں کرتا۔ اس کے نتیجے میں دوسرے انسانوں کے جتنے چاہے حقوق پامال ہوں، اسے اس کی کوئی پروا نہیں ہوتی۔
اس تصور سے سماجی زندگی میں کتنا فساد پیدا ہوا، اس کا اندازہ ہم چند مثالوں سے کر سکتے ہیں۔ مرد کو آزادی دے دی گئی ہے کہ وہ اپنی جنسی خواہش جیسے چاہے پوری کرے۔عورت کو آزادی مل گئی ہے کہ وہ اپنی جنسی خواہش جیسی چاہے پوری کر ے۔اسی سےlive in Relationship کا تصور پیدا ہوا،یعنی مرد اور عورت کو یہ آزادی ہے کہ وہ جس کے ساتھ چاہیں اور جب تک چاہیں شادی کے بغیر ایک ساتھ رہ سکتے ہیں۔ایک دوسرے سے اپنے جنسی خواہش پوری کر سکتے ہیں اور جب چاہیں علیحدگی حاصل کر سکتے ہیں۔ اسی تصور نے عورت کو یہ آزادی دی کہ وہ شادی سے پہلے جس کے ساتھ چاہے تعلق قائم کرے اور شادی کے بعد بھی اسے یہ آزادی حاصل ہے کہ شوہر کے علاوہ جس سےچاہے جنسی تعلق بنائے۔شوہر کو بھی یہ آزادی دے دی گئی کہ وہ بیوی کے علاوہ جس سے چاہے دوستی رکھے اور تعلقات قائم کرے۔اس سے متاثر ہوکرعورت یہ نعرہ بلند کرنے لگی کہ اسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ چاہے تو بچے پیدا کرے، چاہے تو نہ کرے یا چاہے تو حمل کو اسقاط کروا دے ۔ آزادی کا یہ تصور اور آگے بڑھا تو کہا جانے لگا کہ جنسی خواہش کی تکمیل میں ہر شخص آزاد ہے، وہ جس طرح چاہے اس کی تکمیل اور تسکین کرے۔ مرد کو حق ہے کہ وہ کسی دوسرے مرد سے جنسی خواہش پوری کرلے اور عورت کو حق ہے کہ کسی دوسری عورت سے اپنی خواہش پوری کرسکتی ہے۔ کسی مرد کو یہ احساس ہو کہ اس کے اندر نسوانی جذبات پائے جاتے ہیں تو اس کو یہ آزادی حاصل ہے کہ وہ آپریشن کے ذریعے اپنا جسم عورت جیسا کروالے۔ کوئی عورت یہ محسوس کرے کہ اس کے اندر مردانہ جذبات پائے جاتے ہیں تو اسے بھی یہ آزادی ہے کہ وہ آپریشن ذریعے اپنی جنس تبدیل کروالے۔
یہ مثالیں اس بات کو واضح کرنے کے لیے کافی ہیں کہ سماج میں آزادی کا جو تصور عام کیا گیا ہے، وہ اتنا بھیانک اور خوف ناک ہے کہ اس سے انسانی سماج کی چولیں بُری طرح ہل جاتی ہیں۔اگر اس تصور پر عمل کیا جائے توسماج اخلاقیات سے بالکل عاری ہو جائے گا اور انسانی سماج جانوروں کے باڑے کے مثل بن جائے گا۔اس تصور کے تحت آزادی کا مطلب اخلاقیات سے آزادی سمجھ لیا گیا ہے ۔ ہماری کسی حرکت اور عمل سے دوسرے انسانوں کو چاہے جتنا ضرر پہنچے، اس کی کوئی پروا نہیں کی جاتی۔گویا انسان ہر طریقے سے آزاد ہے، اس پر کوئی قدغن نہیں لگائی جا سکتی۔ اس تصور میں دوسروں کو نقصان پہنچانا،اذیت دینا ہوشیاری سمجھی جاتی ہے۔ جو سماج اخلاقیات سے عاری ہو جائے اوراس میں ہر انسان کو یہ چھوٹ مل جائے کہ وہ جو چاہے کرے،وہ انسانی سماج کہلانے کامستحق نہیں ہے۔
دنیا کے تمام مذاہب میں اخلاقیات کو اہمیت دی گئی ہے۔ جو سیکولر ، بے دین اورنفس کے پیچھے بھاگنے والا سماج ہے، جس کو دین اور مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے، وہ جو چاہے اپنے لیے قانون بنائے اوراس پر عمل کرے، لیکن جو سماج مذاہب کے تابع ہیں، جن میں مذاہب کی حکم رانی ہے، ان میں اخلاقیات کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔ بالخصوص اسلام میں اخلاق کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ اس میں انسانی زندگی کو اخلاق کا پابند بنانے پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔ اسلام میں آزادی کا بے محابا تصور نہیں ہے۔ وہ انسانوں کو دین، شریعت اور اخلاق کا پابند بناتا ہے اور ان کے اندر اخلاق کی پرورش کرتا ہے۔ ایک حدیث میں اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
بُعِثْتُ لِاُتَمِّمَ مَکَارِمَ الْاَخْلَاق (مسند احمد)
’’مجھ کو بھیجا گیا ہے تاکہ میں اچھے اخلاق کو پائے تکمیل تک پہنچاؤں۔‘‘
حدیث کی بہت سی کتابوںمیں الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ یہ حدیث مروی ہے۔ اس حدیث میں پیغمبر کی بعثت کا مقصد ہی یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ اچھے اخلاق کی تکمیل کرے ،اس کی زندگی میں اخلاق کی حکم رانی قائم کرے، انسانوں کو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کا طریقہ بتائے،ان احکام اور تعلیمات کو بیان کرے جن پر عمل کرنے سے وہ اس دنیا میں مختلف نعمتوں سے نوازے جائیں گے اور مرنے کے بعد جنت کی شکل میں انعام حاصل کریں گے اور انسانوں کو ان کاموں سے روکیں جن سے اللہ تعالیٰ کا غضب ناک ہوتاہے۔ مذکورہ حدیث میں رسول کی بعثت کو اخلاقیات کی تکمیل سے تعبیر کیا گیا ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ دین عقائد عبادات، معاشرتی تعلقات، حقوقا اور معاملات اخلاق کا مجموعہ ہے۔ ان سب کی اہمیت مسلّم ہے۔ سب سے زیادہ اہمیت عقائد و ایمانیات کی ہے، اس کے بعد عبادات، معاشرتی حقوق، معاملات اور پھر اخلاق کا نمبر آتا ہے۔ لیکن بعض احادیث میں عقائد اور عبادات سے زیادہ اخلاق پر زور دیا گیا ہے۔ اخلاق کی اتنی تاکید کی گئی ہے کہ ایسا محسوس ہوتاہے کہ دین میں اخلاق کو عقائد اور عبادات سے بھی زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔
اللہ کے رسول ﷺ کا معمول تھا کہ آپ دین کے جس پہلو میں کم زوری دیکھتے تھے، اس پر بہت زور دیتے تھے۔ آپؐ کے سامنے ایک ایسی عورت کا تذکرہ کیا گیا، جس کا سماج میں عبادات، نماز، صدقہ و خیرات اور روزوں کے معاملے میں بہت چرچا تھا لیکن اس کی زبان سے اس کی پڑوسنیں محفوظ نہیں تھیں۔وہ ان کو اپنی زبان سے اذیت دیتی تھی۔آپؐ نے فرمایا : وہ جہنمی ہے۔ آپؐ نے اس کی عبادتوں نماز اور روزوں کی کوئی پروا نہیں کی۔ اس کی بد زبانی اور بد اخلاقی کی وجہ سے کہا کہ وہ جہنمی ہے۔ اسی طرح آپؐ کے سامنے ایک ایسی عورت کا تذکرہ کیا گیا جو صرف فرائض کی ادائیگی کرتی تھی، فرض نماز پڑھتی تھی، زکوٰۃ ادا کرتی تھی، فرض روزے رکھتی تھی لیکن وہ کسی کو تکلیف نہیں پہنچاتی تھی۔ آپ نے فرمایا کہ وہ جنتی ہے۔(مسند احمد) اس حدیث سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ دین اسلام میں اخلاق کو کتنی زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔
المیہ یہ ہے کہ اسلام میں ایک طرف جہاں اخلاق کی اتنی زیادہ اہمیت بتائی گئی ہے، وہیں دوسری طرف مسلم معاشرے کی عملی صورتِ حال اس حوالے سے بہت تشویش ناک ہے۔ہم دیکھتے ہیں کہ مسلم معاشرے میں اخلاق کے معاملے میں بہت زیادہ فساد پیدا ہو گیا ہے۔ جو برائیاں دوسرے معاشروں میں عام ہیں، ان کے اثرات مسلم معاشرے پر بھی پڑ رہے ہیں۔ مشاہدہ ہےکہ جو برائیاں دوسرے مذاہب کے ماننے والوں میں پائی جاتی ہیں وہ مسلمانوں میں بھی پائی جاتی ہیں۔ خاص طور مسلم نوجوان کی بڑی تعداد شراب نوشی، زنا اوربدکاری جیسی برائیوں میں مبتلا ہے۔ مسلم سماج میں جن برائیوں کو شدت کے ساتھ غلط سمجھا جاتا تھا ،اس میں کمی آرہی ہے۔امانت داری،وعدہ پورا کرنا،سچ بولنا، حیا کرنا،بڑوں کا ادب و احترام،چھوٹوں پر شفقت وغیرہ ان اچھے اخلاق پر عمل میں کمی آرہی ہے اور خیانت، بد عہدی، جھوٹ، بے حیائی اور دیگر برے اخلاق عام ہو رہے ہیں۔یہ بہت افسوس کا مقام ہے ۔
ملت اسلامیہ کے دانش ور اور سنجیدہ لوگوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ سماجی فساد کی اصلاح کے لیے فکر مند ہوں۔ وہ ان کی اصلاح اور تربیت کے لیے منصوبہ بنائیں۔ اچھے اخلاق کا علم بردار بننے پر ان کو آمادہ کریں اور برے اخلاق سے انہیں روکنے کی کوشش کریں۔
اسی ضرورت کے پیشِ نظر جماعت اسلامی ہند نے ایک مہم بہ عنوان ’’اخلاقی محاسن، آزادی کے ضامن‘‘ منانے کا فیصلہ کیا ہے۔اس کے ذریعے یہ تصور عام کرنا مقصود ہے کہ اس دنیا میں انسان کو بے محابا آزادی حاصل نہیں ہے بلکہ اسے دین و شریعت اور اخلاقیات پر عمل کرنے کا پابند کیا گیا ہے۔ اخلاقِ حسنہ اور اخلاق فاضلہ کو اختیار کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اچھے اخلاق اختیار کر کے ہی انسان حقیقی آزادی سے بہرہ ور ہو سکتا ہے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 01 ستمبر تا 07 ستمبر 2024