سہیل بشیر کار، بارہمولہ
خیراتی کاموں کے ساتھ ساتھ تعلیمی، تعمیری اور رفاہی امور کی انجام دہی بھی لازمی ہے
اس امت کو خیر امت کا لقب ملا ہے۔ خیر امت کا تقاضا یہ تھا کہ امت مسلمہ ہر معاملے میں دینے والی امت ہو لیکن معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ ہمارے تعلیمی اداروں کا حال انتہائی خستہ ہے۔ ہمارے ہاں معیاری ریسرچ نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ میڈیا کے نام پر وہ کچھ ہے جو ہم خود ہی لکھتے ہیں اور خود ہی پڑھتے ہیں۔ مقامی و عالمی سطح پر کوئی موثر آواز ہی نہیں۔ سوشل سروس کے نام پر معمولی مدد ہم بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں احساس زیاں بھی نہیں ہے۔ ہمیں یہ خیال ہی نہیں کہ دین ہمیں ‘احسان’ (Excellence) کی روش اپنانا سکھاتا ہے۔ دین یہ چاہتا ہے کہ ہم ہر اچھے کام میں آگے ہوں، ہم دنیا کے لوگوں کے لیے باعثِ خیر ہوں، لوگ ہمیں اس وجہ سے جانیں کہ یہ لوگ ہمارے نجات دہندہ ہیں، لیکن بدقسمتی سے گزشتہ کئی دہائیوں سے ہم لینے والے بن گئے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ ترجیحات کا ادراک نہ ہونا اور اس کا تعین نہ کرنا ہے۔ ہم جانتے ہی نہیں کہ ہمیں کرنا کیا ہے، اہم و غیرمعمولی امور کون سے ہیں۔ ترجیحی بنیادوں پر ضرورت کس چیز کی ہے اور غیر ضروری عمل کون کون سے ہیں۔
پاکستان کے مشہور کرکٹر ماجد خان سے جب پوچھا گیا کہ پاکستانی کرکٹ کی کیا ٹریجڈی ہے؟ تو ان کا جواب تھا کہ ہم نے محمد یوسف کے ہوتے ہوئے شاہد آفریدی کو اپنا ہیرو بتایا جس سے وقتی طور پر ہمیں مزہ تو آیا لیکن ہم نے لانگ ٹرم کھو دیا اور شاٹ ٹرم پیدا کیے۔ ظاہر ہے کہ شاٹ ٹرم کی عمر کم ہوتی ہے۔ یہ صرف کرکٹ کا مسئلہ نہیں ہر کام میں امت مسلمہ نے وہ کام کیے جو شاٹ ٹرم ہیں اور جن کے نتائج جلدی نظر آتے ہوں۔ امت مسلمہ کے پاس لانگ ٹرم، اور مڈ ٹرم پروگرام ہی نہیں ہے۔ ہم صرف وہ کام کرتے ہیں جو جذباتی ہوتے ہیں۔ راقم کئی سالوں سے ایک ادارہ کے ساتھ وابستہ ہے، جہاں اس بات کا ہر روز مشاہدہ ہوتا ہے۔ ایک روز ایک شناسا کے پاس میں اس غرض سے گیا کہ اس کا غریب ہمسایہ گُردے کے مرض میں مبتلا تھا۔ کئی چکر کاٹنے کے بعد موصوف نے اس غریب کے لیے صرف دس ہزار روپے دیے۔ جاتے جاتے مجھ سے کہا کہ کیا آپ کا کوئی جان پہچان والا ہے جو مساجد میں اوقات صلواۃ کے لیے ڈیجٹل بورڈ بناتا ہو، میں اپنی مسجد کے لیے ایک بنوانا چاہتا ہوں۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ میں آپ کو اس کے لیے 60 ہزار روپے دوں گا۔ ایک فرد جس کے گردے خراب تھے، جو ڈایلاسس کروا رہا تھا، اس کے لیے موصوف کے پاس زیادہ پیسے نہیں تھے لیکن مسجد کی آرائش کے لیے وہ اچھی خاصی رقم دینے کے لیے تیار تھے۔ ہمارے یہاں مضافات میں ایک جامع مسجد بن رہی ہے جس کا بجٹ 10 کروڑ روپے سے زائد ہے۔ مسجد کے قریب ہی دو سال قبل ایک خاتون کو گولی لگی، علاج کے لیے اس کے پاس کچھ نہیں تھا، جس کی وجہ سے وہ اپنا علاج نہیں کروا پائی۔ ہمارے قصبہ میں گزشتہ دو سالوں سے تعمیر نو کے نام پر قریب ایک سو مساجد میں کام چل رہا ہے، ہر محلہ کے الیکشن کے موقع پر کمیٹی کا ایجنڈا مسجد کا تعمیر نو ہوتا ہے۔ حالانکہ ان ہی مساجد کے آس پاس کئی یتیم لڑکیاں اخراجات پورے نہ ہونے کے باعث شادی کی منتظر ہوتی ہیں اور ایسا ممکن ہے کہ ہماری عدم توجہی اور لاپروائی کی وجہ سے ان میں سے کوئی غلط کاموں میں مبتلا ہو جائے۔ یہ میرے قصبہ ہی کی بات نہیں، پوری ملت کا یہی حال ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ میں خود ایک ادارہ سے وابستہ ہوں، کمزور طبقات کی مالی مدد کے دوران ہم وسائل کی کمی کی وجہ سے جس فرد کو ایک لاکھ روپیہ علاج معالجہ کے لیے درکار ہوتا ہے ہم صرف 15 سے 20 ہزار ہی دیتے ہیں۔ کسی بھی گھر کی ضرورت پوری نہیں کرتے، نتیجتاً محتاجی کا مسئلہ وہیں کا وہیں رہ جاتا ہے۔ گزشتہ سال شمالی کشمیر کے ایک private نرسنگ ہوم میں تین ہزار dialysis کی گئیں۔ صحت کے شعبہ میں ہم انتہائی کمزور ہیں۔ راقم الحروف نے کئی لوگوں سے جو بیرون ملک اچھا پیسہ کماتے ہیں، کہا کہ کچھ لوگ مل کر ایک بڑا ہسپتال بنائیں جو عالمی پیمانے کا ہو جہاں ہر طرح کی سہولت ہو، ہسپتال میں فیس بھی اچھی رکھیں، لیکن ان کاموں کے لیے ہم تیار نہیں ہیں۔ ہم بالکل چھوٹے چھوٹے کام کرنا چاہتے ہیں جن میں ہمیں بس ‘ثواب’ ملے البتہ محنت نہ کرنی پڑے۔ ہم اکثر یہ کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں تحقیقی ادارے نہیں ہیں۔ ہم جانتے تھے کہ سائنس کا ایک تحقیقی ادارہ فی الحال ممکن نہیں لہذا سوشل سائنس کا تحقیقی ادارہ قائم کیا جائے تاکہ ہمارے پاس ایک اچھا ڈاٹا جمع ہو سکے۔ چونکہ ہمارے کشمیر بلکہ پورے عالم اسلام کے پاس صرف secondary ڈاٹا ہے۔ ہم کوشش کریں گے کہ اچھا ڈاٹا جمع کریں اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے لیے بھی ہم کئی لوگوں سے ملے تاکہ وہ ایک ریسرچ سنٹر کی اہمیت کو سمجھ کر پہل کریں۔ میں ایک شخص کے پاس گیا جو ہر سال دین کے روایتی کاموں پر لاکھوں روپے خرچ کرتا ہے، کئی بار جانے کے بعد اس نے مشکل سے ایک اینٹ کی گاڑی دینے کا وعدہ کیا۔ اس ‘وعدے’ پر بھی کئی سال گزرے لیکن ہنوز وہ وعدہ تشنہ تکمیل ہے۔ وجہ یہی ہے کہ ان کے نزدیک اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
ترجیحات کے تعین کا فقدان
ریسرچ کسی بھی ملک یا ملت کے لیے بنیاد کا کام کرتی ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں مسلمانوں کے پاس کوئی اچھا ڈاٹا نہیں، کوئی ریسرچ میگزین نہیں اور مسلمان ابھی تک اس کی اہمیت سمجھنے سے قاصر ہیں۔ میرے ایک شناسا نے امریکہ کے ریسرچ سنٹر میں ‘کشمیر میں اہل حدیث’ کے موضوع پر کام کیا۔ امریکہ کشمیر کے بارے میں معلومات رکھتا ہے اور ہم ڈاٹا کے نام پر ہوا میں تکے لگاتے رہتے ہیں۔ امت مسلمہ کے پاس ایک بھی قابل ذکر تحقیقی یا پالیسی ساز ادارہ نہیں ہے۔ ہم سب کو اس کا ادراک ہے کہ کسی بھی ملت یا ملک کی ترقی کے لیے سب سے اہم چیز تعلیم ہوتی ہے۔ ہمارے تعلیمی اداروں کا حال یہ ہے کہ کورونا وبا کے دوران علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے فخر سے خبر دی کہ مذکورہ یونیورسٹی کی lab نے sanitizer بنایا ہے۔ دنیا میں 100 top best universities میں ہماری ایک بھی یونیورسٹی نہیں ہے۔ یونیورسٹی تو دور کی بات ہے ہم اچھے اور معیاری اسکول دینے میں بھی ناکام ہوچکے ہیں۔ اکثر ہم یہ گلہ کرتے رہتے ہیں کہ مسلمانوں کے پاس تعلیمی اداروں کی کیا کمی ہے؟ مشنری ادارے ہم سے ہمارے بچوں کو چھینتے ہیں لیکن جب کسی جگہ ایسا معیاری ادارہ قائم کرنے کی کوشش ہوتی ہے تو اس کو تعاون نہیں ملتا۔ ابھی چند سال قبل ہم نے یہ سوچا کہ ہم بچوں کے لیے ایک اعلی معیاری اسکول کا قیام عمل میں لائیں گے لیکن جب ہم نے لوگوں سے رابطہ قائم کیا اور ان سے مالی امداد طلب کی اور کہا کہ ہم شرائط کے ساتھ واپس کریں گے، لیکن بدقسمتی سے ہمیں تعاون نہیں ملا۔ ایک صاحب سے جب کئی بار ہم نے ملاقات کی تو انہوں نے کہا کہ میں غریبوں کے لیے لاکھوں روپے دے سکتا ہوں لیکن اس پروجیکٹ سے مجھے دور ہی رکھیں۔ ایک صاحب نے جو ہر سال مجھے دو سے تین لاکھ روپے صدقہ کی رقم دیتے ہیں، مسلسل ملاقات و اصرار کے باوجود اس مقصد کے لیے کچھ بھی نہیں دیا۔ ایک صاحب سے جو ہر سال عمرہ کرتے ہیں، اس پروجیکٹ کے بارے میں بات ہوئی لیکن نا امیدی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا۔ ایک طرف ہم یہ دہائی دیتے رہتے ہیں کہ امت کی ترقی کا راز تعلیم میں مضمر ہے مگر دوسری طرف ہم اپنا حصہ ادا نہیں کرتے کیونکہ ہمیں یہ کام ضروری نہیں لگتے۔ امت کی زبوں حالی پر رات رات بھر رونے والے بھی اس سلسلے میں غافل ہیں۔
ضرورت ہے کہ امت مسلمہ ان گمبھیر مسائل کا ادراک کرکے ترجیحی بنیادوں پر اپنا حصہ ان پروجیکٹس کی تکمیل میں لگائے اور دنیا کے لیے واقعتاً خیر امت بنے یاد رہے! لوگ ان ہی کے دین پر ہوتے ہیں جو صاحب اثر ہوں۔
***
ایک طرف ہم یہ دہائی دیتے رہتے ہیں کہ امت کی ترقی کا راز تعلیم میں مضمر ہے مگر دوسری طرف ہم اپنا حصہ ادا نہیں کرتے کیونکہ ہمیں یہ کام ضروری نہیں لگتے۔ امت کی زبوں حالی پر رات رات بھر رونے والے بھی اس سلسلے میں غافل ہیں۔ ضرورت ہے کہ امت مسلمہ ان گمبھیر مسائل کا ادراک کرکے ترجیحی بنیادوں پر اپنا حصہ ان پروجیکٹس کی تکمیل میں لگائے اور دنیا کے لیے واقعتاً خیر امت بنے یاد رہے! لوگ ان ہی کے دین پر ہوتے ہیں جو صاحب اثر ہوں۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 17 ستمبر تا 23 ستمبر 2023