ترجیحات کی تبدیلی ۔خطرے کی گھنٹی

2024 کے پارلیمانی انتخابات میں مسلمانوں کے لیے مناسب حکمت عملی ضروری

سرفراز بزمی،راجستھان

اگرچہ حالیہ اسمبلی انتخابات کے نتائج حیران کن ہیں مگر ہوش کے ناخن لینے کے لیے کافی ہیں
پچھلے دنوں بھارت کی جملہ پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات منعقد ہوئے جن کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔ تلنگانہ اور میزورم کے علاوہ شمالی ہند کی تینوں بڑی ریاستوں راجستھان ،مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ  کے انتخابی نتائج سیکولر ذہنیت کے حامل عوام کے لیے حیران کن بھی ہیں اور مایوس کن بھی۔ حیران کن اس معنی میں کہ راجستھان میں گہلوت سرکار کی جو فلاحی اسکیمیں تھیں وہ اس قدر بہترین تھیں کہ ان کے مخالفین بھی اس کی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکے تھے۔ چرنجیوی سواستھ یوجنا میں عام آدمی کو 25 لاکھ تک (جو  بعد میں  بڑھا کر پچاس لاکھ تک کردیا گیا تھا) مفت علاج کی سہولت مہیا تھی، تعلیم کے میدان‌ میں سیکڑوں کالجس اور اسکول کھولے گئے،کسانوں کے لیے فلاحی اسکیمیں، گھروں میں 100یونٹ تک بجلی مفت ،بزرگوں کو پنشن، تعلیم یافتہ بے روزگاروں کو بے روزگاری بھتہ، مزدوروں کو روزگار گارنٹی ،سرکاری ملازمین کو او پی ایس اور ایسی بیسیوں اسکیمیں عوام میں مقبول تھیں۔ حکومت پر کرپشن کے بڑے الزامات بھی نہیں لگائے جاسکے تھے، اس کے باوجود بیشتر وزراء کی شرمناک ہار سمجھ سے باہر ہے۔ کہا جارہا ہے کہ خود جیتنے والوں کو بھی ایسی جیت کا اندازہ نہیں تھا، تو کیا یہ سمجھا جائے کہ عوام کے نزدیک اب عوامی فلاح وبہبود سے زیادہ اہم کچھ دیگر امور ہیں یا عوام کی ترجیحات میں اب ترقیاتی منصوبے یا شہری سہولیات نہیں بلکہ عوامی مزاج کچھ اور چاہتا ہے جو گہلوت حکومت نہیں دے سکی؟
کیا یہ ترجیحات مذہبی امور سے متعلق ہیں جبکہ گہلوت سرکار نے ہندو مذہبی جذبات کی تسکین کے لیے بھی کوئی کم کام نہیں کیے تھے ۔گائے کے گوبر کو دو روپے کلو گائے پالکوں سے خریدنے کی اسکیم اسی کا حصہ ہے۔ گؤ شالاؤں کا بجٹ اقلیتی بہبود کے بجٹ سے کئی گنا زیادہ ہے اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ ترجیحات مذہبی امور سے متعلق تھیں، تو پھر کیا ہیں یہ ترجیحات جن کی بنیاد پر عوام نے نسبتاً ایک صاف ستھری شبیہ کی حکومت کو شرمناک ہار کا تحفہ دے کر رخصت کر دیا؟
اگر غور سے دیکھیں تو انتخابی مہم کے دوران مرکزی رہنماؤں کی زبان اور سیاسی مہنتوں کے زہریلے نعرے بالکناتھ سے لے کر بال مکند آچاریہ تک کے بول یہ سمجھنے کے لیے کافی ہیں کہ عوام کی ترجیحات اب کیا ہیں۔
مدھیہ پردیش کی صورتحال بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔ غیر اخلاقی جوڑ توڑ سے بنی شیوراج سرکار کے پاس دکھانے کے لیے کچھ بھی نہیں تھا۔ لاڈلی بہنا اسکیم بھی انتخابی عمل کے درمیان لائی گئی تھی۔اینٹی انکمبینسی کی رپورٹ مسلسل میڈیا میں زیر بحث تھی، خود شیوراج سنگھ چوہان کو مرکزی قیادت نے عملاً نظر انداز کردیا تھا  مگر نتائج امیدوں کے برخلاف بی جے پی کے حق میں آنا بجا طور پر حیران کن ہے۔ تیسرے صوبے کی کہانی بھی اس سے مختلف نہیں ہے ایسا ماننے کے لیے کوئی وجہ نہیں تھی کہ چھتیس گڑھ میں حکومت کے خلاف عوامی ناراضگی ہے بلکہ اکثر ایکزٹ پولس چھتیس گڑھ میں کانگریس کی سرکار بننے کا عندیہ دے رہے تھے تو پھر ایسا کیا ہوا کہ متوقع فتح بد ترین شکست میں تبدیل ہوگئی؟ کیا اسے ای وی ایم کی کرشمہ سازی سمجھا جائے یا کچھ اور؟
  ذرائع کی مانیں تو اس بار الیکشن میں لگائے گئے ملازمین کو تربیت کے دوران جو احکامات دیے گئے تھے وہ اس سے قبل دیے جانے والے احکامات سے مختلف تھے۔ اس بار ملازمین کو احکامات دیے گئے تھے کہ مشینوں کی کسی قسم کی جانچ نہ کریں سیدھے پولنگ بوتھ پر نمائشی انتخاب (موک پول) کرائیں جبکہ ماضی کے انتخابات میں روانگی سے قبل مشینوں کو اچھی طرح چیک کرلینے اور اس کی صحت کا اطمینان کرلینے کے لیے کہا جاتا تھا۔ شاید اسی وجہ سے عوام میں ای وی ایم کے تعلق سے بے اعتمادی کی باتیں بھی عام ہیں مگر کسی کے پاس اس کے ٹھوس شواہد موجود نہیں ہیں۔ 
یہ نتائج حیران کن ہونے کے ساتھ ساتھ مایوس کن بھی ہیں۔ ان نتائج نے نہ صرف ہندی بیلٹ پر بلکہ پورے ملک پر جارحانہ قوم پرستی کی پکڑ کو مزید مضبوط کردیا ہے ۔ان نتائج کا اثر پارلیمنٹ کے انتخابات پر نہیں پڑے گا، ایسا ماننے کے لیے کوئی مضبوط بنیاد میرے پاس نہیں ہے۔
ان نتائج کا ایک منطقی نتیجہ یہ بھی ہوگا کہ کانگریس بحیثیت ایک سیکولر طاقت مزید کمزور ہوگئی۔یہ خیال عام ہوگا کہ بی جے پی کو روک پانے کی اہلیت اب کانگریس میں نہیں ہے۔ سیکولر جماعتوں کی قیادت اب کانگریس کے بجائے کسی اور جماعت کو دیے جانے کا دباؤ بھی بڑھے گا۔یہ نتائج عام شہری کے لیے تو مایوس کن ہو سکتے ہیں مگر ایک مسلمان کے لیے آنکھیں کھول دینے والے ہیں۔ وہ شخص جس نے نرم ہندو واد کے سہارے حکومت میں رہنا چاہا اسے عوام نے مسترد کرکے سخت گیر موقف رکھنے والوں کو ترجیح دی۔راجستھان جیسے نسبتاً پرامن خطے میں مزاجوں کی یہ تبدیلی مستقبل میں ہوا کے رخ کا پتہ دے رہی ہے، لیکن اس کا ایک خوش آئند پہلو بھی ہے۔
مسلمان اب تک کانگریس کو اپنا مسیحا مانتے رہے ہیں اس کے ہوتے ہوئے کسی متبادل پر غور کرنا بھی گوارا نہیں کیا جاتا تھا۔ 70 فیصد مسلم آبادی والے حلقہ انتخاب میں بھی اگر کوئی مسلم سیاسی جماعت اپنا امید وار کھڑا کرتی ہے تو اسے کانگریس کو ہرانے کی کوشش کی طرح دیکھا جاتا ہے ۔کانگریس مسلمانوں میں سیاسی قیادت کو کھڑا ہوتا دیکھنا پسند نہیں کرتی وہ غیر معروف اور زمینی طور پر غیر مؤثر سیاسی جماعتوں سے تو انتخابی سمجھوتہ کرلیتی ہے مگر مسلم بیس کسی سیاسی جماعت سے اس طرح کے سمجھوتوں سے عملاً سختی سے پرہیز کرتی ہے۔ مسلمانوں میں رہنماؤں کے بجائے پیراشوٹ قسم کی قیادت کو پروان چڑھایا جاتا ہے جو مسلم قوم سے زیادہ اپنے سرپرستوں کی وفادار ہوتی ہے۔
نتائج آئے ہوئے کچھ ہی دن گزرے ہیں مگر بی جے پی اپنی تینوں ریاستوں میں وزیر اعلی کا تعین نہیں کر سکی ہے۔
بی جے پی کی حکمت عملی سے واقف سیاسی تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ مرکزی قیادت ایسے شخص کی تاج پوشی پسند کرے گی جو نسبتاً کم معروف ہو اور جو مرکزی حکومت کی کٹھ پُتلی کے طور پر آسانی سے کام کر سکے اسی لیے اے این آئی کے ذریعے خبر چلائی گئی کہ پارٹی نئے چہرے کو وزیر اعلی بنائےگی۔
قیاسات لگائے جا رہے ہیں کہ مہنت بالکناتھ دیا کماری گجیندر سنگھ اوم ماتھر سی پی جوشی اشونی ویشنو یا کوئی اور غالب گمان یہ ہے کہ جو بھی ہوگا وہ راجپوت یا برہمن چہرہ ہوگا۔ مگر راجستھان میں وسندھرا کو نظر انداز کرنا اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ خبریں آرہی ہیں کہ مہارانی اپنے وفاداروں سے مسلسل رابطے میں ہے جن کی ایک قابل لحاظ تعداد ہے ان میں وہ لوگ بھی ہیں جو پارٹی سے ٹکٹ نہ ملنے پر مہارانی کے اشارے پر باغی ہوکر لڑے اور جیتے۔ اگرچہ وسندھرا مرکز کی پسند ہرگز نہیں ہے مگر انہیں نظر انداز کیاجانا کھیل کو بگاڑ بھی سکتا ہے۔ اسمبلی ممبران کی خیمہ بندی کی خبریں اخبارات کی سرخیوں میں ہیں۔ وسندھرا اور گہلوت کے آپسی تعلقات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ جو بھی ہو ان نتائج کو شر میں خیر کے پہلو کی طرح دیکھتے ہوئے آنے والے پارلیمانی انتخابات کی حکمت عملی تیار کرنے میں اپنی صلاحیتیں صرف کرنی چاہیے۔
چند ماہ بعد ہونے والے پارلیمانی انتخابات  ملک  کے مستقبل کے لیے ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتے ہیں۔ اگر مسلمان مناسب حکمت عملی کے ساتھ اپنا سیاسی وزن محسوس کرادیں تو مستقبل میں ایک مؤثر کردار کی امید کی جا سکتی ہے۔
***

 

***

 راجستھان میں گہلوت سرکار کی جو فلاحی اسکیمیں تھیں وہ اس قدر بہترین تھیں کہ ان کے مخالفین بھی اس کی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکے تھے۔نیز حکومت پر کرپشن کے کوئی بڑے الزامات بھی نہیں لگائے جاسکے تھے، اس کے باوجود بیشتر وزراء کی شرمناک ہار سمجھ سے باہر ہے۔ کہا جارہا ہے کہ خود جیتنے والوں کو بھی ایسی جیت کا اندازہ نہیں تھا، تو کیا یہ سمجھا جائے کہ عوام کے نزدیک اب عوامی فلاح وبہبود سے زیادہ اہم کچھ دیگر امور ہیں یا عوام کی ترجیحات میں اب ترقیاتی منصوبے یا شہری سہولیات نہیں بلکہ عوامی مزاج کچھ اور چاہتا ہے جو گہلوت حکومت نہیں دے سکی؟


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 17 دسمبر تا 23 دسمبر 2023