تاریخ میں تبدیلی ۔تاریکی کی علامت
نصابی کتابوں میں بھارت کی مسخ شدہ تاریخ بدترین خیانت اور انتہا درجے کی کم ظرفی
زعیم الدین احمد، حیدرآباد
نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ (این سی ای آر ٹی) نصابی کتب میں جھوٹ، غلط بیانی اور تاریخ کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ جب سے بی جے پی نے اقتدار سنبھالا ہے تب سے ہی اس ادارے نے تاریخ کو ازسرنو لکھنے کا کام شروع کر دیا تھا، خاص طور پر ملک کی آزادی کی تاریخ میں ایسے ایسے کردار متعارف کروائے جنہوں نے آزادی کے لیے اپنے ناخن بھی نہیں کٹوائے۔ اس نے آزادی میں اپنا سب کچھ نچھاور کرنے والی شخصیات کے کردار کو نئے سرے سے لکھنا شروع کیا ہے اور ملک میں پائی جانے والی سماجی اکائیوں کی ازسرنو تشریح کا عمل بھی شروع کر دیا ہے۔ اس عمل سے ادارے کا ارادہ صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ حقیقی تاریخ کو مٹا کر دنیا کے سامنے ملک کے ماضی اور حال کی ایسی تصویر پیش کی جائے، جیسا بی جے پی دیکھنا چاہتی ہے۔ دوسرے معنوں میں حقیقت مٹا کر جھوٹ پھیلایا جا رہا ہے۔
این سی ای آر ٹی نے اپنی تازہ ترین ترمیمات اور مٹانے کے عمل سے سب کو حیرت میں ڈال دیا ہے، یہ عمل سراسر یک طرفہ ہے۔ ایسے واقعات جن کے چشم دید گواہ ابھی زندہ ہیں، اور جن کے ذہنوں میں وہ واقعات ابھی تازہ ہیں، کو نصابی کتب سے حذف کر دیا گیا ہے۔ گجرات فسادات اور بابری مسجد کی شہادت کے بعد ہونے والے پُرتشدد واقعات کے تمام تذکروں کو بارہویں جماعت کے پولیٹیکل سائنس کی نصابی کتاب سے یہ کہتے ہوئے حذف کر دیا گیا کہ "ماہرین کی کمیٹی نے یہ محسوس کیا ہے کہ ان فسادات کا چنندہ ذکر کرنے سے طلباء کے ذہنوں پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں جو کہ اچھا نہیں ہے”۔ این سی ای آر ٹی کے چیئرمین دنیش سکلانی کا خیال ہے کہ طلباء کو فسادات کے بارے میں نہیں پڑھایا جانا چاہیے کیونکہ ہم طلباء کو مثبت شہری بنانا چاہتے ہیں، متشدد اور افسردہ افراد نہیں بنانا چاہتے۔
پھر کیا ہم ملک کے پارٹیشن کے وقت پیش آنے والے تمام واقعات حذف کر دیں گے؟ ان فسادات کو بھی بھول جائیں جس میں ہزاروں لوگوں نے اپنی جانیں گنوائیں تھیں؟ اور کیا ہم طلباء کو ’مثبت‘ شہری بنانے کے نام پر تاریخ کے وہ تمام حقیقی واقعات، فسادات کو نصابی کتابوں سے حذف کر دیں؟ کیا ان تمام واقعات کو حذف کرنے سے حقیقت بدل جائے گی؟ بات دراصل یہ ہے کہ وہ تاریخ کو مٹانا چاہتے ہیں۔ بارہویں جماعت کے پولیٹیکل سائنس کی نصابی کتاب سے بابری مسجد کا نام مٹا دیا گیا ہے، اس کے بجائے اسے "تین گنبد والا ڈھانچہ” لکھا گیا ہے۔ مسجد کی شہادت کے اصل واقعات بیان نہ کرنا بدترین خیانت ہے۔ مسجد کیوں شہید کی گئی؟ کس نے شہید کی؟ اڈوانی نے رتھ یاترا کیوں نکالی؟ کیا کار سیوکوں کی طرف سے بابری مسجد کو شہید کرنے کا واقعہ کیا حقیقی نہیں ہے؟ کیا اس وقت کی پولیس کا کردار اور اس کے بعد ملک بھر میں پھوٹ پڑنے والے فرقہ وارانہ فسادات کا ذکر نہیں کرنا چاہیے؟ ہزاروں افراد کی جانیں ان فسادات میں چلی گئیں، لاکھوں افراد کے کاروبار تباہ و برباد کر دیے گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسجد کی شہادت نے ملک کے سیاسی منظر نامے کو ہی بدل دیا۔ کیا ان سارے واقعات کو حذف کرنے سے حقیقت بدل جائے گی؟ بالکل نہیں بدلے گی۔ رتھ یاترا، کار سیوکوں کی جانب سے بابری مسجد کی شہادت اور اس کے بعد ملک بھر میں فسادات جس کے نتیجے میں بی جے پی حکومتوں کی برخاستگی ایودھیا میں ہونے والے واقعات پر حکومت کا افسوس کرنا، ان سب واقعات کو نصابی کتب سے ہٹا دیا گیا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ بھاجپا جب سے اقتدار میں آئی ہے اس کا فوکس اس ملک کے نوجوانوں کے ذہنوں میں نفرت کے بیج بونا ہی رہا ہے، وہ طلباء کو غلط معلومات دے کر ملک کی حقیقی تاریخ کو توڑ مڑوڑ کر پیش کر رہی ہے، ماضی میں بھی وہ نصابی کتب میں بھی مختلف طریقوں سے نظر ثانی کے نام پر چھیڑ چھاڑ کرتی رہی ہے۔ مسلمانوں کی حکم رانی بشمول مغل دور کو ظالم و جابر بنا کر پیش کیا گیا ہے، جب کہ ان کی حکومت صدیوں پر محیط تھی۔ اسی طرح گاندھی جی کے قاتل کو ایسا پیش کیا گیا ہے جیسا کہ وہ ملک کا سپوت ہو۔ مغلیہ دور کو ظلم و جبر کے دور کی طرح پیش کیا گیا، ہر مغل بادشاہ کو ظالم و جابر بتایا گیا ہے، جب کہ اس کے بالمقابل تمام ہی غیر مسلم و ہندو بادشاہوں کو منصف و عادل اور عوام دوست بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ قدیم ہندوستان کو سنہری دور کے طور پر باور کرایا گیا اور یہ بتایا گیا ہے کہ وہ تمام ہی شعبوں میں دنیا کی قیادت کرتا تھا۔ جب کہ حقیقت اس سے بالکل مختلف ہے۔ کیا یہی ہندوستان کی حقیقی تصویر ہے؟ یقیناً یہ ہندوستان کی حقیقی تصویر نہیں ہے، یہ تو ایک مسخ شدہ اور غیر حقیقی تصویر ہے جو بچوں کے سامنے پیش کی جا رہی ہے۔ ملک کی غیر حقیقی اور جھوٹی تصویر پیش کرنے سے بچوں کے ذہنوں پر جو منفی اثر پڑے گا کیا یہ بات کسی سے مخفی ہے؟ ان کی نفسیات پر کیا اثرات پڑیں گے، کیا ماہرین نفسیات کے علاوہ کوئی نہیں جانتا؟ یقینی طور بچوں کے اندر مسلمانوں کے خلاف گہری نفرت پیدا ہو جائےگی۔
ایسا اس وقت ہوتا ہے جب تاریخ کو موجودہ سیاسی حالات کے مطابق اور ایک مخصوص سیاسی پارٹی کی خدمت کے لیے تیار کیا جاتا ہے اور تعلیم کو نوجوان نسل کے ذہنوں کو اپنے مطابق تیار کرنے، ان کے ذہنوں میں مسخ شدہ تاریخ کے ذریعے ایک مخصوص طبقے کے خلاف نفرت پیدا کرنے کے لیے بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے۔ جب کہ تعلیم کا مقصد طلباء کو حقیقت پسند بنانا ہوتا ہے، انہیں حقیقی حالات سے مقابلہ کرنے کے لیے تیار کرنا ہوتا ہے، تعلیم کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ طلباء کے ذہنوں کو غیر حقیقت پسندانہ نظریات وافکار سے پراگندہ کیا جائے۔ نئی تعلیمی پالیسی 2020 کا مقصد بھی یہی ہے کہ طلباء میں تنقیدی سوچ کو بڑھایا جائے، ان کے اندر منطقی رجحان پیدا کیا جائے، سائنٹفک ٹمپرمنٹ، لاجیکل تھنکنگ پیدا ہو، لیکن صاف معلوم ہوتا ہے کہ این سی ای آر ٹی غیر حقیقت پسند اور کسی خاص ایجنڈے پر کار فرما ہے، جب کہ این سی ای آر ٹی ایک خودمختار ادارہ ہے، اسے آزادنہ طور پر ملک کے مستقبل کو پیش نظر رکھتے ہوئے طلباء کو حقیقت پسند بنانے کی طرف اور ملک کی حقیقی تاریخ پیش کرنا چاہیے، ہم اس ادارے سے یہی توقع کرتے ہیں کہ وہ طلباء کو اپنے ملک کی حقیقی تاریخ سے واقف کرائے گا، نہ کہ بی جے پی کے نظریات کو پھیلانے والے آلے کے طور پر کام کرے گا؟ اسے بالکل بھی جانب دار نہیں ہونا چاہیے، اس کی کارکردگی سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ بی جے پی سے نظریاتی وابستگی رکھے ہوئے ہے۔ ہر قوم کی ایک تاریخ ہوتی ہے جس میں ماضی اور حال کی کیفیت درج ہوتی ہیں، اس میں اس کی تہذیب و ثقافت، معاشرت لکھی ہوتی ہے، وہ اقدار جو ماضی میں اس کی رہنمائی کرتی تھیں وہی مستقبل میں بھی اس کی رہنمائی کریں گی۔ اگر طلباء کے ذہنوں میں کسی قوم کے متعلق غلط خیالات ڈالے جاتے ہیں تو وہ اسی کے مطابق اپنی خود کی ایک تصویر بنائیں گے اور اسی کے گرد غلط اور غیر حقیقی نظریہ تیار کرلیں گے، جو نہ ان کے لیے کسی فائدے کا باعث بنے گا اور نہ ہی ملک کے روشن مستقبل کا ضامن بنے گا۔ تعلیم تو طلباء کے اندر سوال کرنے اور بحث و مباحثہ کرنے کی ترغیب دیتی ہے، تعلیم کے ذریعے طلباء کے اندر لاجیکل تھنکنگ ڈیولپ کرنی چاہیے، ان پر جوابات و نتائج کو مسلط کرنے کے لیے تعلیم نہیں جاتی ہے۔ حقیقی تاریخ کو چھپانا، اسے مسخ کرکے پیش کرنا اور جھوٹے طریقے سے بیان کرنا بدترین خیانت اور کم ظرفی کی علامت ہے۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 07 جولائی تا 13 جولائی 2024