تاریخ کی مار

ایک آپ بیتی مراٹھی ادب سے ۔۔

محب قادری (احمد پور)
مترجم: ڈاکٹر ضیاءالحسن (ناندیڑ)

تیسری کلاس تک ہماری تعلیم اپنے گاؤں کے اسکول میں ہوئی جہاں صرف ایک ٹیچر تمام مضامین پڑھایا کرتے تھے۔ آگے کی تعلیم کے لیے چار کلومیٹر دور گاؤں کے ایک دوسرے اسکول میں داخلہ لینا پڑا۔ چونکہ گاؤں اور اسکول دونوں ہمارے لیے۔نئے تھے ،اس لیے انہیں دیکھنے کی بڑی خواہش تھی۔ اس اسکول کا شمار بڑے اسکولوں میں ہوتا تھا۔ مختلف مضامین جیسے مراٹھی، ریاضی،تاریخ و جغرافیہ اور علمِ شہریت وغیرہ الگ الگ ٹیچر پڑھایا کرتے۔ بہر حال یہاں کی پڑھائی کا لطف نرالا تھا۔ دن کب گزرجاتا پتہ ہی نہیں چلتا تھا۔ ہم دونوں بھائی اور گاؤں کے تین چار لڑکے ایک ہی کلاس میں پڑھتے تھے۔ دیگر ساٹھ ستر طلباء میں سے کچھ مقامی تھے اور کچھ آس پاس کے دیہاتوں میں رہنے والے تھے۔چونکہ اسکول،اساتذہ، دوست اور سارے مضامین نئے تھے اس لیے کچھ عجیب سی خوشی کا احساس ہوا کرتا تھا۔ اسکول گئے بغیر چین نہیں آتا۔ ہم لوگ پڑھنے لکھنے میں اتنے محو رہتے تھے کہ پتہ ہی نہیں چلتا تھا کہ اسکول کا وقت کب ختم ہوگیا اور کب شام ہوگئی۔ بہرحال دن ہنسی خوشی گزر رہے تھے۔
تمام مضامین ٹائم ٹیبل کے مطابق پڑھائے جاتے تھے۔ ابّا کے ایک دوست نے نصف قیمت میں خریدی ہوئی کتابوں کا ایک مکمل سیٹ لاکر دیا تو ہمیں بہت خوشی ہوئی۔ تمام کتابوں کی مضبوط جلدیں بندھوائیں اور یکے بعد دیگرے تمام کتابیں پڑھ ڈالیں۔ کلاس میں پڑھائی کے دوران بہت مزہ آتا کیوں کہ جو کچھ پڑھایا جاتا اسے ہم پہلے ہی پڑھ چکے ہوتے۔چنانچہ اساتذہ خوش ہوکر ہمیں شاباشی دیتے۔ اسکول کے سبھی ٹیچر بڑی محنت اور دلچسپی سے پڑھایا کرتے تھے۔
تاریخ کے ٹیچر کے پڑھانے کا اندازہ بڑا انوکھا تھا۔ کتاب بازو رکھ کر وہ کسی تاریخی واقعہ کو کہانی کی طرح ڈرامائی انداز میں پیش کرتے۔ ان کی آواز کا اُتار چڑھاؤ اور اندازِ بیان بے مثال تھا۔ متن کی بلند خوانی کرتے ہوئے وہ طلباء کو ساری تفصیلات بتاتے۔ استاد جی کی ان خوبیوں کی وجہ سے تاریخ کے گھنٹے میں ہماری دلچسپی زیادہ بڑھ گئی تھی۔
ایک دن روزانہ کی طرح استاد جی ہماری کلاس میں آئے۔ آج ان کا موڈ بہت اچھا تھا۔ طلباء نے کھڑے ہوکر پر جوش انداز میں انہیں آداب کہا۔ استاد جی کے اشارے پر سب طلباء اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھ گئے۔ انہوں نے حسبِ عادت کتاب ایک طرف رکھ دی اور تاریخ کا نیا سبق کسی کہانی کی طرح اپنے مخصوص انداز میں پڑھانے لگے۔ چونکہ ہم نے اسے پہلے ہی پڑھ لیا تھا ۔ اس لیے سمجھنے میں دیر نہیں لگی۔ سبق کا عنوان تھا ‘‘ تھا جیوا اس لپے بچا شیوا’’ ۱۰؍نومبر ۱۶۵۹ء کے دن قلعہ پرتاپ گڑھ کے زیریں حصہ میں چھترپتی شیواجی اور افضل خان کی ملاقات کا ذکر چل رہا تھا۔ اس ملاقات کے لیے ایک خاص شامیانہ لگایا گیا تھا۔ افضل خان کے ساتھ ان کے وفادار سرداروں کے علاوہ تقریباً بارہ ہزار گھڑسوار، دس ہزار پیادہ اور بندوقوں سے مسلح پندرہ سو سپاہی تھے۔ ساتھ میں پچاسی ہاتھی ، بارہ سو اونٹ اور ۸۰ تا ۹۰ توپیں بھی تھیں۔ یہ سب قلعہ پرتاپ گڑھ کے زیریں حصہ میں ڈیرا جمائے ہوئے تھے۔ چھترپتی شیواجی کے ساتھ کانہوجی جیدھے اور دوسرے قابلِ اعتماد سردار تھے۔ نیتاجی پالکر کی نگرانی میں گھڑ سوار فوج قلعہ کے روبرو تعینات تھی۔موروپنت پِنگڑے کی نگرانی میں سنبھاجی کاؤجی، یساجی نائک اور جیوا مہال کی نگرانی میں منتخب تین ہزار پیادہ سپاہی جنگل میں مختلف جگہوں پر تعینات تھے۔ استاد جی پوری کوشش کررہے تھے کہ اپنے زورِ بیاں سے اس منظر میں جان ڈال دیں۔ طلباء پر محویت طاری تھی۔ آگے کے واقعات جاننے کے لیے ان کا اشتیاق بڑھتا جارہا تھا۔ طے شدہ پروگرام کے مطابق شیٖواجی ، ان کے ایک مشیر ، ایک محافظ اور دوسرے فریق یعنی افضل خان اور ان کے مشیر و محافظ یہاں آنے والے تھے۔
ملاقات کی اس تقریب کے لیے شامیانہ بہت خوبصورتی سے سجایا گیا تھا۔ افضل خان ایک قوی ہیکل شخص تھا۔ لمبی داڑھی، مونچھیں صاف ، عجیب وضع کی دستار۔ استاد جی اپنے مخصوص انداز میں افضل خان کا سراپا ہو بہو بیان کررہے تھے۔ اتنی دیر سے پورے انہماک کے ساتھ استاد جی کو سننے والے طلباء میں یکایک کھلبلی مچنے لگی۔ایک طالب علم ہماری طرف دیکھ کردوسرے لڑکوں سے اشاروں ،کنایوں میں کچھ کہہ رہا تھا۔ رفتہ رفتہ ساری کلاس میں اس طرح کے اشارے شروع ہوگئے۔ ہماری کلاس میں صرف تین مسلم طلباء تھے۔ ہم دو بھائی اور دوسرا ایک لڑکا۔ تمام طلباء گردن جھکائے ہماری طرف دیکھ دیکھ کر ہنستے جا رہے تھے۔ ہماری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ آخر یہ سب کیا ہورہا ہے؟ طلباء کی ان حرکتوں کی وجہ سے استاد جی کی توجہ ہٹ گئی۔ انہوں نے طلباء کو ڈانٹا۔ ساری کلاس میں مکمل خاموشی چھاگئی۔ گرو جی آگے کا واقعہ سنانے لگے۔ چھترپتی شیواجی شامیانے میں داخل ہوئے۔ افضل خان ان کا منتظر تھا۔ چنانچہ وہ گلے ملنے کے لئے کھڑا ہوا۔ جوں ہی شیواجی قریب آئے، افضل خان نے انہیں اپنے بائیں بازو میں جکڑ کر ان پرکٹار کا وار کیا۔ چونکہ شیواجی زرہ بکتر پہنے ہوئے تھے اس لیے محفوظ رہے۔ دھوکے کا احساس ہوتے ہی شیواجی نے اپنے ہاتھ میں چھپے ہوئے ‘واگھ نکھ’ (شیر کے ناخن) افضل خان کے پیٹ میں دھنسا دیے۔ اس کی آنتیں باہر نکل آئیں اور منہ سے ایک لمبی چیخ نکلی۔
یہ سنتے ہی بڑے انہماک سے سارا واقعہ سن رہے طلباء کی ہنسی کا فوّارہ اچانک پھوٹ پڑا ۔ کلاس کے سبھی طلباء ہم تینوں مسلم طلباء کی طرف دیکھ دیکھ کر ہنسنے لگے۔ ہم لوگ حیران تھے۔ استاد جی نے فوراً تاڑ لیا کہ لڑکے کیوں ہنس رہے ہیں۔ اتنی دیر سے تو وہ ہاتھ میں کتاب لیے بغیر ہی پوری سنجیدگی کے ساتھ سبق پڑھا رہے تھے۔ مگر اب انہوں نے پیچھے کی طرف رکھی ہوئی کتاب جھٹ سے اٹھائی اور اسے کھول کر اپنا چہرہ چھپا لیا۔ بظاہر وہ چپ تھے لیکن کتاب اوپر سے نیچے کی طرف برابر حرکت کررہی تھی۔ دراصل استاد جی کتاب سے اپنا چہرہ چھپائے مسلسل ہنسے جا رہے تھے۔
ہم تینوں طلباء گردن جھکائے خاموش بیٹھے رہے۔ کلاس کا ماحول نارمل ہونے تک ہمارے ذہنوں میں بار بار یہ بات آرہی تھی کہ شاید ساری کلاس میں ہم تینوں مسلم طلباء افضل خان ہیں اور استادجی سمیت باقی سارے چھترپتی شیواجی ہیں۔
اتنے میں گھنٹہ بجا اور پیریڈ ختم ہوگیا۔ استادجی باہر چلے گئے مگر کچھ طلباء ہمارے قریب آ آ کر ہمیں چھیڑنے لگے۔ بعض نے کمپاس باکس میں سے ڈِوائڈر نکالا اور اسے ہاتھ میں لیے ہمارا پیچھا کرنے لگے۔ ڈِوائڈر کی نوک ہمارے پیٹ کے قریب لاکر وہ ہمیں بار بار ڈراتے۔ دن بھر طبیعت اچاٹ رہی ۔ اپنے اسکول سے ہمیں بہت محبت تھی۔ مگر آج جی چاہ رہا تھا کہ جلد سے جلد چھٹی مل جائے تو اچھا ہے ۔ پیریڈ جاری تھے لیکن جو پڑھایا گیا اسے سمجھنا تو درکنار ہمیں اس وقت یہ تک یاد نہیں تھا کہ ابھی ابھی کس مضمون کا پیریڈ ہے۔ بہر حال سارا دن مایوسی میں گزرا۔ آخر چھٹی ہوئی ، گھر لوٹتے ہوئے ہم نے راستے میں کسی سے بات نہیں کی۔ گھر پہنچے تو امّی نے فوراً تاڑ لیا کہ اسکول میں ضرور کچھ ہوا ہے۔ پہلے تو ہم نے ٹالنے کی کوشش کی لیکن جب وہ کرید کرید کر پوچھنے لگیں تو صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا ۔ ہم دونوں بھائی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ دل کا بوجھ کچھ ہلکا محسوس ہوا۔امّی سے صرف اتنا کہا کہ اسکول میں لڑکوں کے ساتھ بحث تکرار ہوگئی ۔ انہوں نے ہمارے سر پر ہاتھ پھیرا اور سمجھایا کہ ‘‘بچے آج لڑتے ہیں ،کل بھول جاتے ہیں، چلو! پڑھائی کرو اور اطمینان سے سوجاؤ’’۔ ہم بستر پر جا کر لیٹ گئے مگر نیند آنکھوں سے کوسوں دو ر تھی۔ دل بے چین تھا۔
دوسرے دن اسکول گئے مگر تاریخ کے گھنٹے کو غنّہ مارا۔ کیونکہ کل کا باقی رہ گیا آدھا سبق پڑھایا جانے والا تھا۔ اسکول سے کچھ دور جاکر بیٹھ گئے۔ جوں ہی پیریڈ ختم ہوا اسکول کی طرف لپکے۔ استاد جی ہاتھ میں چھڑی لیے ہمارے منتظر تھے۔ چھڑی ٹوٹنے تک مار پڑتی رہی۔ غلطی ہماری تھی اس لیے چپ رہنا پڑا۔ آئندہ ایسی حرکت نہیں کرنے کا وعدہ کرنے کے بعد ہی وہاں سے چھوٹ سکے۔
روز مرّہ کی مصروفیات حسبِ معمول جاری تھیں۔ اسکول کا نصاب رفتہ رفتہ آگے بڑھ رہا تھا۔ کل کیا پڑھایا جانے والا ہے اس کا اندازہ ہمیں پہلے سے ہوجاتا تھا۔ چنانچہ ایک دن پہلے ہم اچھی تیاری کرلیتے ۔ سبق کے تمام باریک نکات پر ہماری نظر رہتی۔ ایک دن معلوم ہوا کہ تاریخ کے پیریڈ میں چھترپتی شیواجی اور شائستہ خان کے بیچ پونا میں ہونے والی جھڑپ کا واقعہ پڑھایا جانے والا ہے۔ دوسرے دن صبح صبح اسکول کے لیے روانہ ہوئے۔ راستے میں ایک ندی تھی۔ یہاں آکر ہمارے قدم رک گئے۔ دن بھر ندی کے کنارے بیٹھے رہے ۔ شام میں اسکول چھوٹنے کے وقت گھر پہنچے تاکہ کسی کو شک نہ ہو۔ دو دن تو بخیر و خوبی گزر گئے۔ دل نے کہا ‘‘چلو! یہ آئیڈیا کام آگیا۔’’ تین چار دنوں کے بعد ایک دن شام کو اسکول سے لوٹے ہی تھے کہ ابّا نے اچانک ہمیں طلب کیا۔ ‘‘پابندی سے اسکول جارہے ہونا تم لوگ؟’’ ہمارا ماتھا ٹھنکا۔ ڈرتے ڈرتے بولے ‘‘ہاں’’ دراصل اسکول سے انہیں اطلاع مل چکی تھی کہ ہم ایک دن غیر حاضر رہے تھے۔ بیلوں کے سامنے چارا ڈالنے کے بعد وہ چابک کی رسّی کو بل دے کر مضبوط بنا رہے تھے۔ ہمیں اپنی شامت اعمال کا اندازہ ہوگیا اس لیے فوراََ آنکھیں موند لیں۔ دوسرے ہی لمحہ پیٹھ پر چابک کی مار پڑی اور ہمارے منہ سے ایک چیخ نکل گئی۔ ابّا گرجے۔ ‘‘آواز بند’’ چنانچہ چابک کا سرا ٹوٹنے تک چپ چاپ مار کھاتے رہے۔ دل ہی دل میں دعا مانگ رہے تھے کہ ‘‘خدایا! چابک کا سرا جلدی سے ٹوٹ جائے تاکہ مار سے ہمیں جلد چھٹکارا ملے’’ بالآخر ہمیشہ کی طرح امی نے آ کر بیچ بچاؤ کیا اور پھر شام ہوگئی۔
***

 

***

 معرکہ پرتاپ گڑھ 10 نومبر سنہ 1659ء کو مہاراشٹر کے شہر ستارا کے قریب واقع پرتاپ گڑھ کے قلعہ کے پاس پیش آیا تھا۔ اس معرکہ میں ایک طرف مرہٹہ چھترپتی شیواجی تھے تو دوسری جانب عادل شاہی سالار افضل خان۔ مرہٹوں نے عادل شاہی افواج کوشکست دی تھی اور یوں مرہٹہ سلطنت کے قیام کی راہ ہموار ہوئی تھی۔ تاریخ میں جن واقعات کا ذکر ہے ان میں ایک واقعہ شیواجی کے ہاتھوں جرنیل افضل خاں کے قتل کا بھی ہے۔ اس کے سچ ہونے یا نہ ہونے سے قطع نظر جب اس طرح کے واقعات کو ایک تکثیری سماج کے اسکولی نصاب میں ترجیحاً جگہ دی جاتی ہے اور حاشیے چڑھا کر جب طلبہ کویہ پڑھائے جاتے ہیں تو ان کے ذہنوں پر اس کے جو اثرات مرتب ہوتے ہیں، اسے آپ زیر نظرآب بیتی میں ملاحظہ کرسکتے ہیں۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 02 جون تا 08 جون 2024