
!تاریخ کا تحفظ اب بقا کی جنگ بن چکی
بھارتی تاریخ کا زعفرانی کرن اور مسلم ورثے کی بقا کی جدوجہد
شبیع الزماں،پونے
نئی نسل کو مسلم تاریخ سے جوڑنے کے بہترین عملی ذرائع، جن کا اختیار کرنا بےحد لازمی
فقط ماضی پرستی نہیں بلکہ نسلِ نو میں زندہ تاریخ کا شعور پیدا کرنا وقت کی اہم ضرورت
مودی حکومت 3.0 میں تاریخ کے زعفرانی کَرن کی مہم اپنے عروج پر ہے۔ ہندوتوا کی بنیاد ہندو قومیت پر رکھی گئی اور کسی بھی قوم میں قومیت کے جذبے کو ابھارنے کے لیے ماضی کی شاندار تاریخ ضروری ہوتی ہے۔ لیکن سنگھ کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے پاس ایسی کوئی عظیم تاریخ ہے ہی نہیں جس پر وہ اپنے کیڈر کو فخر کرنا سکھا سکے۔ یہ درد سنگھ کو رہ رہ کر ستاتا رہا ہے۔’ اکھل بھارتیہ اتہاس شکشن یوجنا‘، سنگھ کے ذریعے قائم کردہ ایک تنظیم ہے جو تاریخ کا مطالعہ کرتی ہے اس کے سابق جنرل سکریٹری بال مکند پانڈے کہتے ہیں:
’’ہمارے بچے وہ تاریخ پڑھ رہے ہیں جو انہیں اپنے ماضی پہ شرمسار کرتی ہے۔ ہم ایسی تاریخ چاہتے ہیں جس پر وہ فخر محسوس کرسکیں‘‘۔
اس لیے سنگھ خود ساختہ تاریخ سازی پر اتر گیا۔ گولوالکر بنچ آف تھاٹ میں اسی درد کو بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے:
’’نوجوانوں میں صحیح جذبہ اور طریقہ کار کا شعور پیدا کرنا ہوگا اس کے لیے ہمیں لا محدود پیمانے پر قدیم اور جدید لٹریچر شائع کرنا ہوگا جو ہمارے قومی ہیروز اور ان کے واقعات کو بیان کرے تاکہ ہمارے جدید ذہن کو رشیوں اور جوگیوں کے ورثہ پر فخر محسوس ہو۔ ہمیں ہندو کی طرح ہی رہنا ہے اور ہندو ہی کی طرح جینا چاہیے اور دنیا کو ہمیں ہندو ہی سمجھنا چاہیے‘‘۔ اسی لیے مرلی منوہر جوشی نے تعلیم کے بھگوا کَرن کو واضح کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کا مطلب مقدس ہندوستانی روایات کی واپسی ہے۔ تاریخ کے اس بھگوا کرن کے دو بڑے پہلو ہیں۔
اول: قدیم ہندوستانی تہذیب کو ملک کا سنہرا دور ثابت کرنا
دوم: مسلم دورِ حکومت کو ظلم، جبر اور تباہی کا زمانہ قرار دینا
حال ہی میں این سی ای آر ٹی کے نصاب سے مغلوں کی تاریخ کو حذف کیے جانے کی خبریں آئیں اور اب کرناٹک کے نصابی کتب سے حیدر علی اور ٹیپو سلطان کی موجودگی بھی مٹا دی جا رہی ہے۔ یہ کوئی وقتی رجحان نہیں ہے بلکہ ایک تدریجی منصوبہ ہے جو مختلف ریاستوں میں جلد یا بدیر نافذ العمل ہونے کو ہے۔ تاریخ کسی بھی قوم کی اجتماعی یادداشت کا نام ہے اور تہذیب کے اجزاء میں تاریخ کو بنیادی مقام حاصل ہے۔ ہندوستان جیسے ملک میں جہاں مسلمانوں کی تہذیبی شناخت مسلسل خطرے میں ہے وہاں اپنی تاریخ کی حفاظت صرف علمی فریضہ نہیں بلکہ تہذیبی بقا کی جنگ بھی ہے۔ فی الوقت مسلمان اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ وہ حکومت کی ان کوششوں کو روک سکیں، لیکن وہ اب بھی اس قابل ضرور ہیں کہ اپنی آنے والی نسلوں تک تاریخ کا درست فہم اور صحیح بیانیہ پہنچا سکیں۔
تاریخ کی سب سے بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ اقوام کو مٹانے کے لیے ہمیشہ بیرونی دشمن کی ضرورت نہیں ہوتی، اکثر اوقات زوال اندر سے جنم لیتا ہے۔ مسلمان اگرچہ جبر و استبداد کے ہاتھوں اپنی تاریخ کھونے نہیں دیں گے مگر غفلت، بےحسی اور فکری کمزوری نے جڑیں پکڑ لیں تو وہ اپنی تاریخ کو خود اپنے ہی ہاتھوں دفن کر دیں گے۔ جیسا کہ ٹائن بی نے کہا تھا: ’’قومیں قتل سے نہیں، خود کشی سے مرتی ہیں‘‘ اور خود کشی ہمیشہ اندرونی سستی، فکری بے راہ روی اور تہذیبی لا شعور سے جنم لیتی ہے۔ اس تہذیبی خود کشی سے بچنے کے لیے مسلمانوں کو اپنی تاریخ کو زندہ رکھنا ضروری ہے۔ مسلمانوں کو اپنی تاریخ کو آئندہ نسلوں تک منتقل کرنے کے لیے خالص علمی، تربیتی اور تخلیقی ذرائع اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ذیل میں انہیں طریقوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔
سب سے پہلا اور بنیادی ذریعہ خاندانی اور گھریلو تربیت ہے۔ والدین بچوں کو رسول اللہ ﷺ، صحابہ کرام، مسلم سائنس دانوں، مفکرین اور تاریخِ اسلام کی عظیم شخصیات کے واقعات قصے اور کہانیوں کے انداز میں سنائیں۔ گھروں میں چھوٹی لائبریریاں قائم کی جائیں جن میں تاریخی، سوانحی اور فکری کتابیں موجود ہوں اور مطالعے کا ذوق بچپن سے پروان چڑھے۔ خاندان کے بزرگوں سے تحریک آزادی، دینی شخصیات، صوفیا اور مقامی ہیروز کی کہانیاں سنیں اور نئی نسل کو سنائیں یعنی خاندان کے اندر تاریخ سنانے کی روایت کو زندہ رکھیں۔
دوسرا اہم ذریعہ نصاب تعلیم میں اسلامی اور مسلم تاریخ کی متوازن شمولیت ہے۔ اسکول، مدارس اور دینی ادارے ایسی نصابی کتب متعارف کروائیں جن میں محض فتوحات یا جنگوں کے بجائے مسلم تہذیب، علم، فن، اصلاحی تحریکات اور فکری ارتقاء کو بھی شامل کیا جائے تاکہ طالب علم تاریخ کو محض ماضی کا غرور نہیں بلکہ حال کا سبق بھی سمجھیں۔
تیسرا ذریعہ یہ ہے کہ ادب اور تخلیقی ذرائع کو بھی بروئے کار لایا جائے۔ ناول، افسانے، ڈرامے، فلمیں اور کارٹون وغیرہ ایسے ذرائع ہیں جو بچوں اور نوجوانوں کو غیر محسوس انداز میں اپنی تاریخ سے جوڑ سکتے ہیں۔ ترک ڈراما ’’ارطغرل غازی‘‘ اس کی بہترین مثال ہے، جس نے لاکھوں نوجوانوں میں تاریخی شعور اور ملی جذبات کو بیدار کیا ہے۔
چوتھا ذریعہ: آج کے دور میں ڈیجیٹل میڈیا کا استعمال بھی ناگزیر ہو چکا ہے۔ یوٹیوب، انسٹاگرام، پوڈکاسٹ اور دیگر پلیٹ فارموں پر مختصر، بصری اور مؤثر مواد تیار کیا جائے۔ نوجوان نسل کی دلچسپی کو مدِنظر رکھتے ہوئے اینیمیشنز، شارٹ ویڈیوز اور انفوگرافکس کے ذریعے تاریخی پیغامات عام کیے جائیں۔
پانچواں ذریعہ: تاریخ کو صرف کتابوں تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ تاریخی مقامات کے عملی مشاہدے سے اسے ’’زندہ تجربہ‘‘ بنایا جائے۔ نوجوانوں کو تاریخی مساجد، مدارس، قلعوں، کتب خانوں اور آثارِ قدیمہ کی سیر کروائی جائے تاکہ وہ ماضی کو صرف پڑھیں نہیں بلکہ محسوس بھی کر سکیں۔ یہاں میں ہندوتوادی نوے سال کے سمبھاجی بھیڈے کی مثال دینا چاہوں گا۔ سمبھاجی ونایک بھیڈے ایک ہندوتوا کارکن ہے جو مہاراشٹر سے تعلق رکھتا ہے۔ بھیڈے آر ایس ایس کا کل وقتی کارکن رہا ہے، لیکن بعد میں اس نے 1980 کی دہائی کے آخر میں اپنی تنظیم ’’شیو پرتیشٹھان ہندوستان‘‘ قائم کی۔ یہ تنظیم دعویٰ کرتی ہے کہ وہ چھترپتی شیواجی مہاراج اور ان کے بیٹے چھترپتی سمبھاجی مہاراج کی تعلیمات کو عام کرتی ہے۔ بھیڈے کی تنظیم نے یہ ذمہ داری لی ہے کہ وہ شیواجی مہاراج کے تمام قلعوں کی حفاظت، دیکھ بھال اور مرمت کرے گی۔ پچھلے چند سالوں میں اس تنظیم سے ہزاروں پڑھے لکھے ہندو نوجوان وابستہ ہوئے ہیں جو ان قلعوں کی دیکھ بھال میں اپنا پیسہ، وقت اور توانائی صرف کرتے ہیں۔ سنہ گڑھ قلعے پر جائیے تو بھیڈے گروجی کی تنظیم کے افراد وہاں لوگوں کی رہنمائی کرتے اور شیواجی مہاراج کی تاریخ کا اپنا مخصوص بیانیہ سناتے نظر آئیں گے۔ اپنی تاریخ کی حفاظت کے لیے اسی طرز کی کوشش مسلمان بھی کر سکتے ہیں۔
چھٹا ذریعہ: تحقیقی اور تخلیقی سرگرمیوں کو بھی فروغ دینا چاہیے۔ اسکولوں اور کمیونٹی اداروں میں مضمون نویسی، مباحثے، پریزنٹیشنز اور ریسرچ پراجیکٹس جیسے علمی مشاغل کا اہتمام ہو۔ مثلاً ’’کسی مسلم مفکر پر تحقیق کرو‘‘ جیسے سادہ مگر پُر اثر مشقیں نوجوانوں کو تاریخ سے جوڑنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔
ساتواں ذریعہ: اسی طرح مساجد اور کمیونٹی سنٹروں کو بھی تاریخ کی ترویج میں فعال کردار ادا کرنا چاہیے۔ خطبہ جمعہ، دروس اور علمی نشستوں میں تاریخ اسلام کے ابواب کو شامل کیا جائے۔ نوجوانوں کے لیے خصوصی لیکچرز یا ورکشاپس منعقد کی جائیں جہاں وہ سوالات کر سکیں، سیکھ سکیں اور تاریخی شعور سے بہرہ مند ہو سکیں۔
آٹھواں ذریعہ: تاریخی موضوعات پر سیمنار، تصویری نمائش اور عوامی لیکچر کا انعقاد کیا جائے۔تاریخی شخصیات کے یومِ ولادت و وفات پر تقریبات منعقد کی جائیں یا خصوصی پروگرام کروائے جائیں۔
آخر میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم اپنی تاریخ کو محض فخر یا ماضی پرستی کا ذریعہ نہ بنائیں، بلکہ اسے ’’زندہ تاریخ‘‘ کے طور پر پیش کریں، ایسی تاریخ جو ہمیں حال کے تقاضوں سے آگاہ کرے اور مستقبل کی راہیں دکھائے۔ نئی نسل کو یہ سکھایا جائے کہ ہمارا ماضی صرف گزرے ہوئے دنوں کی کہانی نہیں ہے بلکہ ایک زندہ روایت ہے جو ہماری شناخت کی بنیاد ہے اور جس سے سبق لے کر ہم آج کے چیلنجوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔
***
ہم اپنی تاریخ کو محض فخر یا ماضی پرستی کا ذریعہ نہ بنائیں، بلکہ اسے ’’زندہ تاریخ‘‘ کے طور پر پیش کریں، ایسی تاریخ جو ہمیں حال کے تقاضوں سے آگاہ کرے اور مستقبل کی راہیں دکھائے۔ نئی نسل کو یہ سکھایا جائے کہ ہمارا ماضی صرف گزرے ہوئے دنوں کی کہانی نہیں ہے بلکہ ایک زندہ روایت ہے جو ہماری شناخت کی بنیاد ہے اور جس سے سبق لے کر ہم آج کے چیلنجوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 17 جولائی تا 23 اگست 2025